میر انیس کے اشعار
تمام عمر اسی احتیاط میں گزری
کہ آشیاں کسی شاخ چمن پہ بار نہ ہو
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانا زمین پر
چھائے پھولوں سے بھی صیاد تو آباد نہ ہو
وہ قفس کیا جو تہہ دامن صیاد نہ ہو
خاک سے ہے خاک کو الفت تڑپتا ہوں انیسؔ
کربلا کے واسطے میں کربلا میرے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کریم جو تجھے دینا ہے بے طلب دے دے
فقیر ہوں پہ نہیں عادت سوال مجھے
گل دستۂ معنی کو نئے ڈھنگ سے باندھوں
اک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں
مثال ماہیٔ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو تم نہا کے چلے
لگا رہا ہوں مضامین نو کے پھر انبار
خبر کرو مرے خرمن کے خوشہ چینوں کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو سراپا اجر اے زاہد میں سر تا پا گناہ
باغ جنت تیری خاطر کربلا میرے لیے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
عاشق کو دیکھتے ہیں دوپٹے کو تان کر
دیتے ہیں ہم کو شربت دیدار چھان کر
سوائے خاک کے باقی اثر نشاں سے نہ تھے
زمیں سے دب گئے دبتے جو آسماں سے نہ تھے
اشک غم دیدۂ پر نم سے سنبھالے نہ گئے
یہ وہ بچے ہیں جو ماں باپ سے پالے نہ گئے
انیسؔ آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں