Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Mirza Hadi Ruswa's Photo'

مرزا ہادی رسوا

1858 - 1931 | لکھنؤ, انڈیا

مرزا ہادی رسوا کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

دلی چھٹی تھی پہلے اب لکھنؤ بھی چھوڑیں

دو شہر تھے یہ اپنے دونوں تباہ نکلے

ٹلنا تھا میرے پاس سے اے کاہلی تجھے

کمبخت تو تو آ کے یہیں ڈھیر ہو گئی

مرنے کے دن قریب ہیں شاید کہ اے حیات

تجھ سے طبیعت اپنی بہت سیر ہو گئی

ہنس کے کہتا ہے مصور سے وہ غارت گر ہوش

جیسی صورت ہے مری ویسی ہی تصویر بھی ہو

ہم کو بھی کیا کیا مزے کی داستانیں یاد تھیں

لیکن اب تمہید ذکر درد و ماتم ہو گئیں

کیا کہوں تجھ سے محبت وہ بلا ہے ہمدم

مجھ کو عبرت نہ ہوئی غیر کے مر جانے سے

دیکھا ہے مجھے اپنی خوشامد میں جو مصروف

اس بت کو یہ دھوکا ہے کہ اسلام یہی ہے

بعد توبہ کے بھی ہے دل میں یہ حسرت باقی

دے کے قسمیں کوئی اک جام پلا دے ہم کو

لب پہ کچھ بات آئی جاتی ہے

خامشی مسکرائی جاتی ہے

ضرب المثل ہے ہوتے ہیں معشوق بے وفا

یہ کچھ تمہارا ذکر نہیں ہے خفا نہ ہو

بت پرستی میں نہ ہوگا کوئی مجھ سا بدنام

جھینپتا ہوں جو کہیں ذکر خدا ہوتا ہے

ہم نشیں دیکھی نحوست داستان ہجر کی

صحبتیں جمنے نہ پائی تھیں کہ برہم ہو گئیں

دل لگانے کو نہ سمجھو دل لگی

دشمنوں کی جان پر بن جائے گی

انہیں کا نام لے لے کر کوئی فرقت میں مرتا ہے

کبھی وہ بھی تو سن لیں گے جو بدنامی سے ڈرتے ہیں

ہے یقیں وہ نہ آئیں گے پھر بھی

کب نگہ سوئے در نہیں ہوتی

کس قدر معتقد حسن مکافات ہوں میں

دل میں خوش ہوتا ہوں جب رنج سوا ہوتا ہے

چند باتیں وہ جو ہم رندوں میں تھیں ضرب المثل

اب سنا مرزا کہ درد اہل عرفاں ہو گئیں

دبکی ہوئی تھی گربہ صفت خواہش گناہ

چمکارنے سے پھول گئی شعر ہو گئی

برباد کر کے مجھ کو نہ ہوں منفعل حضور

میں آپ معترف ہوں کہ میرا قصور تھا

رکھ لی مرے خدا نے گناہوں کی میرے شرم

زاہد کو اپنے زہد پہ کتنا غرور تھا

لذت معصیت عشق نہ پوچھ

خلد میں بھی یہ بلا یاد آئی

کھول تو آنکھ ذرا دیکھ تماشا کیا ہے

وہم ہے یا کہ حقیقت ہے یہ دنیا کیا ہے

اپنے صورت گر سے پوچھوں میں اگر مقدور ہو

کیا بنایا تھا مجھے تو نے مٹانے کے لیے

مری بیتابیوں کا حال غیروں سے نہ کہنا تھا

تم ایسے ہو تو پھر کوئی کسی کا راز داں کیوں ہو

اسی پر منحصر تھی زندگی کیا

گھٹا جاتا ہے دم ضبط فغاں سے

جس کو برسوں ہنسی نہ آئی ہو

اس کو ناصح کی بات پر آئے

الحذر یہ کام دنیا میں تمہیں سے ہو سکا

چاہنے والے پہ اپنے کھینچنا شمشیر کا

شکوؤں میں بھی انداز نہ ہو حسن طلب کا

ہاں اے دل بیتاب رہے پاس ادب کا

کہئے کیا آسمان سے ٹھہری

آپ کوٹھے سے کیوں اتر آئے

تنگیٔ عیش میں ممکن نہیں ترک لذت

سوکھے ٹکڑے بھی تو فاقوں میں مزا دیتے ہیں

رکھتے ہیں حسن ظن یہ بتوں کی وفا سے ہم

جیسے کہ مانگتے ہیں دعائیں خدا سے ہم

Recitation

بولیے