ناصر زیدی کے اشعار
میں بے ہنر تھا مگر صحبت ہنر میں رہا
شعور بخشا ہمہ رنگ محفلوں نے مجھے
ہاں یہ خطا ہوئی تھی کہ ہم اٹھ کے چل دیے
تم نے بھی تو پلٹ کے پکارا نہیں ہمیں
دیکھا اسے تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
دریا اگرچہ خشک تھا پانی تہوں میں تھا
وہ بھی کیا دن تھے کہ جب عشق کیا کرتے تھے
ہم جسے چاہتے تھے چوم لیا کرتے تھے
کوئی سناٹا سا سناٹا ہے
کاش طوفان اٹھا دے کوئی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ یوں ملا ہے کہ جیسے کبھی ملا ہی نہ تھا
ہماری ذات پہ جس کی عنایتیں تھیں بہت
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ