نثار اٹاوی کے اشعار
یقیناً رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا
وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے
آ دوست ساتھ آ در ماضی سے مانگ لائیں
وہ اپنی زندگی کہ جواں بھی حسیں بھی تھی
کتنے پر ہول اندھیروں سے گزر کر اے دوست
ہم ترے حسن کی رخشندہ سحر تک پہنچے
صبح بچھڑ کر شام کا وعدہ شام کا ہونا سہل نہیں
ان کی تمنا پھر کر لینا صبح کو پہلے شام کرو
یہ بھی ہوا کہ در نہ ترا کر سکے تلاش
یہ بھی ہوا کہ ہم ترے در سے گزر گئے
برسوں سے ترا ذکر ترا نام نہیں ہے
لیکن یہ حقیقت ہے کہ آرام نہیں ہے
موسم گل ہے بادل چھائے کھنک رہے ہیں پیمانے
کیسی توبہ، توبہ توبہ، توبہ نذر جام کرو
افسوس کسی سے مٹ نہ سکی انسان کے دل کی تشنہ لبی
شبنم ہے کہ رویا کرتی ہے بادل ہیں کہ برسا کرتے ہیں
یہ دل والوں سے پوچھو اس کو دل والے سمجھتے ہیں
بگاڑ آئی ہوا زلفیں کسی کی یا سنوار آئی
کچھ حسن کے فسانے ترتیب دے رہا ہوں
دفتر الٹ رہا ہوں ہر پھول ہر کلی کا
وہ دن گزرے کہ جب یہ زندگانی اک کہانی تھی
مجھے اب ہر کہانی زندگی معلوم ہوتی ہے
ناہید و قمر نے راتوں کے احوال کو روشن کر تو دیا
وہ دیپ کسی سے جل نہ سکے جو دل میں اجالا کرتے ہیں
قفس بھی ہے یہاں صیاد بھی گلچیں بھی کانٹے بھی
چمن کو ہم سمجھتے ہیں مگر اپنا چمن اب تک
اب بھی جو لوگ سر دار نظر آتے ہیں
کچھ وہی محرم اسرار نظر آتے ہیں
تو نے وہ سوز دیا ہے کہ الٰہی توبہ
زندگی آگ کے شعلوں میں بسر ہوتی ہے
چھپے تو کیسے چھپے چمن میں مرا ترا ربط والہانہ
کلی کلی حسن کی کہانی نظر نظر عشق کا فسانہ
سن اے کوہ و دمن کو سبز خلعت بخشنے والے
نہیں ملتا ترے در سے غریبوں کو کفن اب تک
اے عقل ساتھ رہ کہ پڑے گا تجھی سے کام
راہ طلب کی منزل آخر جنوں نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کلی کی خو ہے بہرحال مسکرانے کی
وگرنہ راس کسے ہے ہوا زمانے کی
موج تخیل گل کا تبسم پرتو شبنم بجلی کا سایہ
دھوکا ہے دھوکا نام جوانی اس کو جوانی کوئی نہ سمجھے
بسر کرے جو مجاہدانہ حیات اسے دائمی ملے گی
نہ بھیک میں زندگی ملی ہے نہ بھیک میں زندگی ملے گی
بہار ہو کہ موج مے کہ طبع کی روانیاں
جدھر سے وہ گزر گئے ابل پڑیں جوانیاں