Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Nisar Itavi's Photo'

نثار اٹاوی

1914 - 1974 | اٹاوہ, انڈیا

نثار اٹاوی کے اشعار

655
Favorite

باعتبار

یقیناً رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا

وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے

آ دوست ساتھ آ در ماضی سے مانگ لائیں

وہ اپنی زندگی کہ جواں بھی حسیں بھی تھی

کتنے پر ہول اندھیروں سے گزر کر اے دوست

ہم ترے حسن کی رخشندہ سحر تک پہنچے

صبح بچھڑ کر شام کا وعدہ شام کا ہونا سہل نہیں

ان کی تمنا پھر کر لینا صبح کو پہلے شام کرو

یہ بھی ہوا کہ در نہ ترا کر سکے تلاش

یہ بھی ہوا کہ ہم ترے در سے گزر گئے

دل میں کیا کیا گماں گزرتے ہیں

مسکراؤ نہ بات سے پہلے

برسوں سے ترا ذکر ترا نام نہیں ہے

لیکن یہ حقیقت ہے کہ آرام نہیں ہے

موسم گل ہے بادل چھائے کھنک رہے ہیں پیمانے

کیسی توبہ، توبہ توبہ، توبہ نذر جام کرو

افسوس کسی سے مٹ نہ سکی انسان کے دل کی تشنہ لبی

شبنم ہے کہ رویا کرتی ہے بادل ہیں کہ برسا کرتے ہیں

شوق کتنے فریب دیتا ہے

مسکرا کر ہمارا نام نہ لے

یہ دل والوں سے پوچھو اس کو دل والے سمجھتے ہیں

بگاڑ آئی ہوا زلفیں کسی کی یا سنوار آئی

کچھ حسن کے فسانے ترتیب دے رہا ہوں

دفتر الٹ رہا ہوں ہر پھول ہر کلی کا

وہ دن گزرے کہ جب یہ زندگانی اک کہانی تھی

مجھے اب ہر کہانی زندگی معلوم ہوتی ہے

ناہید و قمر نے راتوں کے احوال کو روشن کر تو دیا

وہ دیپ کسی سے جل نہ سکے جو دل میں اجالا کرتے ہیں

قفس بھی ہے یہاں صیاد بھی گلچیں بھی کانٹے بھی

چمن کو ہم سمجھتے ہیں مگر اپنا چمن اب تک

اب بھی جو لوگ سر دار نظر آتے ہیں

کچھ وہی محرم اسرار نظر آتے ہیں

تو نے وہ سوز دیا ہے کہ الٰہی توبہ

زندگی آگ کے شعلوں میں بسر ہوتی ہے

چھپے تو کیسے چھپے چمن میں مرا ترا ربط والہانہ

کلی کلی حسن کی کہانی نظر نظر عشق کا فسانہ

سن اے کوہ و دمن کو سبز خلعت بخشنے والے

نہیں ملتا ترے در سے غریبوں کو کفن اب تک

اے عقل ساتھ رہ کہ پڑے گا تجھی سے کام

راہ طلب کی منزل آخر جنوں نہیں

کلی کی خو ہے بہرحال مسکرانے کی

وگرنہ راس کسے ہے ہوا زمانے کی

کل جو ذکر جام و مینا آ گیا

میری توبہ کو پسینا آ گیا

موج تخیل گل کا تبسم پرتو شبنم بجلی کا سایہ

دھوکا ہے دھوکا نام جوانی اس کو جوانی کوئی نہ سمجھے

بسر کرے جو مجاہدانہ حیات اسے دائمی ملے گی

نہ بھیک میں زندگی ملی ہے نہ بھیک میں زندگی ملے گی

نگاہوں سے نا آشنا چند جلوے

پس لالہ و یاسمن اور بھی ہیں

بہار ہو کہ موج مے کہ طبع کی روانیاں

جدھر سے وہ گزر گئے ابل پڑیں جوانیاں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے