پیر شیر محمد عاجز کے اشعار
کسی کی زلف کے سودے میں رات کی ہے بسر
کسی کے رخ کے تصور میں دن تمام کیا
نہ تو میں حور کا مفتوں نہ پری کا عاشق
خاک کے پتلے کا ہے خاک کا پتلا عاشق
جب اس نے مرا خط نہ چھوا ہاتھ سے اپنے
قاصد نے بھی چپکا دیا دیوار سے کاغذ
شب وصل آج وہ تاکید کرتے ہیں محبت سے
ابھی سو رہنے دو کچھ رات گزرے تو جگا لینا
پھٹ جاتے ہیں زخم دل بے تاب کے انگور
ساقی ترے ہاتھوں سے جو ساغر نہیں ملتا
سنا ہے عرش الٰہی اسی کو کہتے ہیں
طواف کعبۂ دل ہم نے صبح و شام کیا
زیست نے مردہ بنا رکھا تھا مجھ کو ہجر میں
موت نے دکھلا دیا آ کر مسیحائی کا رنگ
ناخن کا رنگ سینہ خراشی سے یہ ہوا
سرخی شفق سے آتی ہے جیسے ہلال پر
کندنی رنگ کا میں کشتہ ہوں
کیوں نہ ہو میری زعفرانی خاک