Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

قلق میرٹھی

1832/3 - 1880

قلق میرٹھی کے اشعار

3K
Favorite

باعتبار

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

تجھ سے اے زندگی گھبرا ہی چلے تھے ہم تو

پر تشفی ہے کہ اک دشمن جاں رکھتے ہیں

ہو محبت کی خبر کچھ تو خبر پھر کیوں ہو

یہ بھی اک بے خبری ہے کہ خبر رکھتے ہیں

زلیخا بے خرد آوارہ لیلیٰ بد مزا شیریں

سبھی مجبور ہیں دل سے محبت آ ہی جاتی ہے

موسیٰ کے سر پہ پاؤں ہے اہل نگاہ کا

اس کی گلی میں خاک اڑی کوہ طور کی

خود کو کبھی نہ دیکھا آئینے ہی کو دیکھا

ہم سے تو کیا کہ خود سے نا آشنا رہا ہے

کدھر قفس تھا کہاں ہم تھے کس طرف یہ قید

کچھ اتفاق ہے صیاد آب و دانے کا

نہ یہ ہے نہ وہ ہے نہ میں ہوں نہ تو ہے

ہزاروں تصور اور اک آرزو ہے

خدا سے ڈرتے تو خوف خدا نہ کرتے ہم

کہ یاد بت سے حرم میں بکا نہ کرتے ہم

بوسہ دینے کی چیز ہے آخر

نہ سہی ہر گھڑی کبھی ہی سہی

کفر اور اسلام میں دیکھا تو نازک فرق تھا

دیر میں جو پاک تھا کعبے میں وہ ناپاک تھا

پہلے رکھ لے تو اپنے دل پر ہاتھ

پھر مرے خط کو پڑھ لکھا کیا ہے

ہر سنگ میں کعبہ کے نہاں عشوۂ بت ہے

کیا بانیٔ اسلام بھی غارت گر دیں تھا

واعظ یہ مے کدہ ہے نہ مسجد کہ اس جگہ

ذکر حلال پر بھی ہے فتویٰ حرام کا

رحم کر مستوں پہ کب تک طاق پر رکھے گا تو

ساغر مے ساقیا زاہد کا ایماں ہو گیا

نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے

فقط میں ہی میں ہوں تو پھر تو ہی تو ہے

ہے اگر کچھ وفا تو کیا کہنے

کچھ نہیں ہے تو دل لگی ہی سہی

کون جانے تھا اس کا نام و نمود

میری بربادی سے بنا ہے عشق

وہ ذکر تھا تمہارا جو انتہا سے گزرا

یہ قصہ ہے ہمارا جو ناتمام نکلا

زہے قسمت کہ اس کے قیدیوں میں آ گئے ہم بھی

ولے شور سلاسل میں ہے اک کھٹکا رہائی کا

جبین پارسا کو دیکھ کر ایماں لرزتا ہے

معاذ اللہ کہ کیا انجام ہے اس پارسائی کا

جھگڑا تھا جو دل پہ اس کو چھوڑا

کچھ سوچ کے صلح کر گئے ہم

وہ سنگ دل انگشت بدنداں نظر آوے

ایسا کوئی صدمہ مری جاں پر نہیں ہوتا

دل کے ہر جزو میں جدائی ہے

درد اٹھے آبلہ اگر بیٹھے

کیوں کر نہ آستیں میں چھپا کر پڑھیں نماز

حق تو ہے یہ عزیز ہیں بت ہی خدا کے بعد

نہ لگتی آنکھ تو سونے میں کیا برائی تھی

خبر کچھ آپ کی ہوتی تو بے خبر ہوتا

امن اور تیرے عہد میں ظالم

کس طرح خاک رہ گزر بیٹھے

بے تکلف مقام الفت ہے

داغ اٹھے کہ آبلہ بیٹھے

شہر ان کے واسطے ہے جو رہتے ہیں تجھ سے دور

گھر ان کا پھر کہاں جو ترے دل میں گھر کریں

آسماں اہل زمیں سے کیا کدورت ناک تھا

مدعی بھی خاک تھی اور مدعا بھی خاک تھا

محبت وہ ہے جس میں کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

جو ہو سکتا ہے وہ بھی آدمی سے ہو نہیں سکتا

کیا خانہ خرابوں کا لگے تیرے ٹھکانا

اس شہر میں رہتے ہیں جہاں گھر نہیں ہوتا

تری نوید میں ہر داستاں کو سنتے ہیں

تری امید میں ہر رہ گزر کو دیکھتے ہیں

کثرت سجدہ سے پشیماں ہیں

کہ ترا نقش پا مٹا بیٹھے

جی ہے یہ بن لگے نہیں رہتا

کچھ تو ہو شغل عاشقی ہی سہی

تیرا دیوانہ تو وحشت کی بھی حد سے نکلا

کہ بیاباں کو بھی چاہے ہے بیاباں ہونا

دیار یار کا شاید سراغ لگ جاتا

جدا جو جادۂ مقصود سے سفر ہوتا

تو دیکھ تو ادھر کہ جو دیکھا نہ جائے پھر

تو گفتگو کرے تو کبھی گفتگو نہ ہو

اس سے نہ ملیے جس سے ملے دل تمام عمر

سوجھی ہمیں بھی ہجر میں آخر کو دور کی

میں راز داں ہوں یہ کہ جہاں تھا وہاں نہ تھا

تو بد گماں ہے وہ کہ جہاں ہے وہاں نہیں

گلی سے اپنی ارادہ نہ کر اٹھانے کا

ترا قدم ہوں نہ فتنہ ہوں میں زمانے کا

فکر ستم میں آپ بھی پابند ہو گئے

تم مجھ کو چھوڑ دو تو میں تم کو رہا کروں

اندازہ آدمی کا کہاں گر نہ ہو شراب

پیمانہ زندگی کا نہیں گر سبو نہ ہو

اشک کے گرتے ہی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا

کون سی حسرت کا یا رب یہ چراغ خانہ تھا

واعظ نے میکدے کو جو دیکھا تو جل گیا

پھیلا گیا چراند شراب طہور کی

نالہ کرتا ہوں لوگ سنتے ہیں

آپ سے میرا کچھ کلام نہیں

جو کہتا ہے وہ کرتا ہے برعکس اس کے کام

ہم کو یقیں ہے وعدۂ نا استوار کا

ہم اس کوچے میں اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں مدت سے

مگر کچھ کچھ سہارا ہے ابھی بے دست و پائی کا

کس لیے دعویٔ زلیخائی

غیر یوسف نہیں غلام نہیں

پڑا ہے دیر و کعبہ میں یہ کیسا غل خدا جانے

کہ وہ پردہ نشیں باہر نہ آ جانے نہ جا جانے

Recitation

بولیے