Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

قلق میرٹھی

1832/3 - 1880

قلق میرٹھی کے اشعار

2.9K
Favorite

باعتبار

زلیخا بے خرد آوارہ لیلیٰ بد مزا شیریں

سبھی مجبور ہیں دل سے محبت آ ہی جاتی ہے

تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی

تو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی

تجھ سے اے زندگی گھبرا ہی چلے تھے ہم تو

پر تشفی ہے کہ اک دشمن جاں رکھتے ہیں

ہو محبت کی خبر کچھ تو خبر پھر کیوں ہو

یہ بھی اک بے خبری ہے کہ خبر رکھتے ہیں

موسیٰ کے سر پہ پاؤں ہے اہل نگاہ کا

اس کی گلی میں خاک اڑی کوہ طور کی

کدھر قفس تھا کہاں ہم تھے کس طرف یہ قید

کچھ اتفاق ہے صیاد آب و دانے کا

بوسہ دینے کی چیز ہے آخر

نہ سہی ہر گھڑی کبھی ہی سہی

نہ یہ ہے نہ وہ ہے نہ میں ہوں نہ تو ہے

ہزاروں تصور اور اک آرزو ہے

کفر اور اسلام میں دیکھا تو نازک فرق تھا

دیر میں جو پاک تھا کعبے میں وہ ناپاک تھا

ہر سنگ میں کعبہ کے نہاں عشوۂ بت ہے

کیا بانیٔ اسلام بھی غارت گر دیں تھا

نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے

فقط میں ہی میں ہوں تو پھر تو ہی تو ہے

رحم کر مستوں پہ کب تک طاق پر رکھے گا تو

ساغر مے ساقیا زاہد کا ایماں ہو گیا

ہے اگر کچھ وفا تو کیا کہنے

کچھ نہیں ہے تو دل لگی ہی سہی

واعظ یہ مے کدہ ہے نہ مسجد کہ اس جگہ

ذکر حلال پر بھی ہے فتویٰ حرام کا

پہلے رکھ لے تو اپنے دل پر ہاتھ

پھر مرے خط کو پڑھ لکھا کیا ہے

خدا سے ڈرتے تو خوف خدا نہ کرتے ہم

کہ یاد بت سے حرم میں بکا نہ کرتے ہم

دل کے ہر جزو میں جدائی ہے

درد اٹھے آبلہ اگر بیٹھے

کیوں کر نہ آستیں میں چھپا کر پڑھیں نماز

حق تو ہے یہ عزیز ہیں بت ہی خدا کے بعد

نہ لگتی آنکھ تو سونے میں کیا برائی تھی

خبر کچھ آپ کی ہوتی تو بے خبر ہوتا

امن اور تیرے عہد میں ظالم

کس طرح خاک رہ گزر بیٹھے

جبین پارسا کو دیکھ کر ایماں لرزتا ہے

معاذ اللہ کہ کیا انجام ہے اس پارسائی کا

خود کو کبھی نہ دیکھا آئینے ہی کو دیکھا

ہم سے تو کیا کہ خود سے نا آشنا رہا ہے

جھگڑا تھا جو دل پہ اس کو چھوڑا

کچھ سوچ کے صلح کر گئے ہم

بے تکلف مقام الفت ہے

داغ اٹھے کہ آبلہ بیٹھے

وہ ذکر تھا تمہارا جو انتہا سے گزرا

یہ قصہ ہے ہمارا جو ناتمام نکلا

کثرت سجدہ سے پشیماں ہیں

کہ ترا نقش پا مٹا بیٹھے

جی ہے یہ بن لگے نہیں رہتا

کچھ تو ہو شغل عاشقی ہی سہی

شہر ان کے واسطے ہے جو رہتے ہیں تجھ سے دور

گھر ان کا پھر کہاں جو ترے دل میں گھر کریں

محبت وہ ہے جس میں کچھ کسی سے ہو نہیں سکتا

جو ہو سکتا ہے وہ بھی آدمی سے ہو نہیں سکتا

زہے قسمت کہ اس کے قیدیوں میں آ گئے ہم بھی

ولے شور سلاسل میں ہے اک کھٹکا رہائی کا

تیرا دیوانہ تو وحشت کی بھی حد سے نکلا

کہ بیاباں کو بھی چاہے ہے بیاباں ہونا

گلی سے اپنی ارادہ نہ کر اٹھانے کا

ترا قدم ہوں نہ فتنہ ہوں میں زمانے کا

فکر ستم میں آپ بھی پابند ہو گئے

تم مجھ کو چھوڑ دو تو میں تم کو رہا کروں

آسماں اہل زمیں سے کیا کدورت ناک تھا

مدعی بھی خاک تھی اور مدعا بھی خاک تھا

تو دیکھ تو ادھر کہ جو دیکھا نہ جائے پھر

تو گفتگو کرے تو کبھی گفتگو نہ ہو

تری نوید میں ہر داستاں کو سنتے ہیں

تری امید میں ہر رہ گزر کو دیکھتے ہیں

اندازہ آدمی کا کہاں گر نہ ہو شراب

پیمانہ زندگی کا نہیں گر سبو نہ ہو

اس سے نہ ملیے جس سے ملے دل تمام عمر

سوجھی ہمیں بھی ہجر میں آخر کو دور کی

کیا خانہ خرابوں کا لگے تیرے ٹھکانا

اس شہر میں رہتے ہیں جہاں گھر نہیں ہوتا

کون جانے تھا اس کا نام و نمود

میری بربادی سے بنا ہے عشق

میں راز داں ہوں یہ کہ جہاں تھا وہاں نہ تھا

تو بد گماں ہے وہ کہ جہاں ہے وہاں نہیں

وہ سنگ دل انگشت بدنداں نظر آوے

ایسا کوئی صدمہ مری جاں پر نہیں ہوتا

اشک کے گرتے ہی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا

کون سی حسرت کا یا رب یہ چراغ خانہ تھا

نالہ کرتا ہوں لوگ سنتے ہیں

آپ سے میرا کچھ کلام نہیں

جو کہتا ہے وہ کرتا ہے برعکس اس کے کام

ہم کو یقیں ہے وعدۂ نا استوار کا

واعظ نے میکدے کو جو دیکھا تو جل گیا

پھیلا گیا چراند شراب طہور کی

ہم اس کوچے میں اٹھنے کے لیے بیٹھے ہیں مدت سے

مگر کچھ کچھ سہارا ہے ابھی بے دست و پائی کا

کس لیے دعویٔ زلیخائی

غیر یوسف نہیں غلام نہیں

بت خانے کی الفت ہے نہ کعبے کی محبت

جویائی نیرنگ ہے جب تک کہ نظر ہے

پڑا ہے دیر و کعبہ میں یہ کیسا غل خدا جانے

کہ وہ پردہ نشیں باہر نہ آ جانے نہ جا جانے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے