صفی لکھنوی کے اشعار
جنازہ روک کر میرا وہ اس انداز سے بولے
گلی ہم نے کہی تھی تم تو دنیا چھوڑے جاتے ہو
دیکھے بغیر حال یہ ہے اضطراب کا
کیا جانے کیا ہو پردہ جو اٹھے نقاب کا
مری نعش کے سرہانے وہ کھڑے یہ کہہ رہے ہیں
اسے نیند یوں نہ آتی اگر انتظار ہوتا
پیغام زندگی نے دیا موت کا مجھے
مرنے کے انتظار میں جینا پڑا مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بناوٹ ہو تو ایسی ہو کہ جس سے سادگی ٹپکے
زیادہ ہو تو اصلی حسن چھپ جاتا ہے زیور سے
ختم ہو جاتے جو حسن و عشق کے ناز و ادا
شاعری بھی ختم ہو جاتی نبوت کی طرح
کل ہم آئینے میں رخ کی جھریاں دیکھا کیے
کاروان عمر رفتہ کا نشاں دیکھا کیے
دیں بھی جواب خط کہ نہ دیں کیا خبر مجھے
کیوں اپنے ساتھ لے نہ گیا نامہ بر مجھے