سیدہ عرشیہ حق کے اشعار
تم بھی آخر ہو مرد کیا جانو
ایک عورت کا درد کیا جانو
عورت ہو تم تو تم پہ مناسب ہے چپ رہو
یہ بول خاندان کی عزت پہ حرف ہے
خبر کر دے کوئی اس بے خبر کو
مری حالت بگڑتی جا رہی ہے
یہی دعا ہے وہ میری دعا نہیں سنتا
خدا جو ہوتا اگر کیا خدا نہیں سنتا
جسم کو پڑھتے رہے وہ روح تک آئے نہیں
جونؔ کو پڑھتے رہے مجروحؔ تک آئے نہیں
تمہیں لگتا ہے جو ویسی نہیں ہوں
میں اچھی ہوں مگر اتنی نہیں ہوں
تمہارے خط جلا کر کے تمہیں یکسر بھلا دوں گی
تمہارے جرم کی تم کو میں اس درجہ سزا دوں گی
بلا کی حسن ور ہے عرشیہ حقؔ
حسد رکھتی ہیں سب جنت کی حوریں
تو کیا ہوا جو جنمی تھی پردیس میں کبھی
بیٹی ہے عرشیہؔ بھی تو ہندوستان کی
حجاب کرنے کی بندش مجھے گوارا نہیں
کہ میرا جسم کوئی مال زر تمہارا نہیں
چمن میں نہ بلبل کا گونجے ترانہ
یہی باغبان چمن چاہتا ہے
تمہارا روز جو میں صرف کرتی رہتی ہوں
تمہیں گمان نہ ہو تم مری محبت ہو
عرشیہ حقؔ کے پرستاروں میں ہو
تم بھی کافر ہو گنہ گاروں میں ہو
اپنی صورت زرد چھپاتی پھرتی ہوں
سب سے اپنا درد چھپاتی پھرتی ہوں
میں خود پہ ضبط کھوتی جا رہی ہوں
جدائی کیا ستم آلود شے ہے