سید ریاض رحیم کے اشعار
ایک تم ہو کہ تمہیں سوچنا آتا ہی نہیں
ایک ہم ہیں کہ بہت سوچ کے نقصان میں ہیں
ہونٹ اپنے ہیں دانت بھی اپنے
کیا شکایت کریں کسی سے ہم
بہت گھاٹے میں ہے اردو زباں کیوں
محبت کی زباں ہوتے ہوئے بھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کتنا دشوار لگ رہا تھا سفر
دیکھو ہم آ گئے وہاں سے یہاں
تیرے کہنے سے چپ نہیں ہوں میں
جانتا ہوں کہ بولنا کب ہے
نظر رکھتے ہیں اس کی ہر ادا پر
بظاہر بے خبر ہوتے ہوئے بھی
اب ترے شہر میں رہنا کوئی آسان کہاں
سب مجھے تیرے حوالے ہی سے پہچانتے ہیں
شور میں نفرت کے میری بات ضائع ہو گئی
میرا کہنا اور تھا ان کا سمجھنا اور تھا
عجیب خوف کا عالم ہے اپنے چاروں طرف
سفر میں لگتا ہے یہ آخری سفر تو نہیں
حادثے سے حادثے تک زندگی کا ہے سفر
بیچ میں خوشیاں ہیں کچھ وہ بھی غموں کے ساتھ ہیں
اب اور کیا کہوں میں محبت کے باب میں
میں ان کے ساتھ ہوں جو محبت کے ساتھ ہیں
اب تو سناٹے بھی اچھے نہیں لگتے ہم کو
شور سنتے تھے کبھی شور مچاتے تھے کبھی
مرے ہی گھر میں رہنا چاہتی ہے
محبت در بدر ہوتے ہوئے بھی
بہت کچھ کام ہم سب کر چکے ہیں
دلوں میں گھر بنانا رہ گیا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کمی جو آنے لگی ہے ہماری وحشت میں
ہمارے ہاتھ سے صحرا نکل بھی سکتا ہے
شاید جڑوں کے زہر نے شاخوں کو چھو لیا
اڑتا ہوا شجر سے پرندہ دکھائی دے
مسجد مندر کے جھگڑے تو ہوتے مٹتے رہتے ہیں
دفن ہیں جس میں دل کے رشتے اس ملبے کی بات کریں
سچ کی راہ پہ چلتے چلتے ہار گئے ہر بازی ہم
جن لوگوں نے دنیا جیتی وہ کب اپنے جیسے تھے
ادھر سے میں بھی جانا چاہتا ہوں
ادھر سے بھی اشارہ ہو گیا ہے
جو مرے دوست ہیں دشمن بھی وہی ہیں میرے
کس سلیقے سے نبھاتے ہیں وہ دونوں رشتے
سنا تو یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوتا
ہوا تو یہ ہے کہ یہ بار بار ہوتا ہے
وقت کیسا یہ آ گیا ہے اب
وہ بھی مشکوک ہیں جو اچھے ہیں
بہت گھاٹے میں ہے اردو زباں کیوں
محبت کی زباں ہوتے ہوئے بھی
ہر صبح نکلتے ہیں یہی سوچ کے گھر سے
بکھری ہوئی دنیا کو سمیٹیں گے کسی دن
ہمارے عہد میں کیوں جہل کا ہے رتبہ بلند
شکست کھائی ہوئی آگہی سوال اٹھا
بھنور کی سمت بڑھتی جا رہی ہے
یہ کشتی بادباں ہوتے ہوئے بھی
سب دوستوں سے مجھ کو زیادہ عزیز ہے
ایسا بھی ایک شخص مرے دشمنوں میں ہے