شاہد صدیقی کے اشعار
ایک پل کے رکنے سے دور ہو گئی منزل
صرف ہم نہیں چلتے راستے بھی چلتے ہیں
نہ ساتھ دیں گی یہ دم توڑتی ہوئی شمعیں
نئے چراغ جلاؤ کہ روشنی کم ہے
عروج ماہ کو انساں سمجھ گیا لیکن
ہنوز عظمت انساں سے آگہی کم ہے
قریب و دور سے آتی ہے آپ کی آواز
کبھی بہت ہے غم جستجو کبھی کم ہے
اب حیات انساں کا حشر دیکھیے کیا ہو
مل گیا ہے قاتل کو منصب مسیحائی
یہ کیسی موج کرم تھی نگاہ ساقی میں
کہ اس کے بعد سے طوفان تشنگی کم ہے
ہم ہیں خالق نغمہ لاؤ ساز ہم کو دو
گیت چھیڑ بیٹھے ہو اور گا نہیں سکتے