وسیم حیدر کے اشعار
سنتا رہتا ہوں تو وہ کچھ بھی کہے جاتا ہے
اس کو لگتا ہے کہ معیار یہی ہے اپنا
مرے خمیر پہ ساری ہی صرف ہو گئی تھی
پھر اس کے بعد اداسی نئی بنائی گئی
تجھ کو ہو میرے لمس کی خواہش شدید تر
تجھ سے تمام عمر مرا سامنا نہ ہو
ہوس نہ پوری ہوئی جب کہیں تو علم ہوا
ترے بدن کا رہا مجھ کو آسرا بڑی دیر
پھر تری مختاریٔ عالم کا کیا
میں نے تجھ سے کچھ نہیں مانگا اگر
میں وہ پتھر ہوں کہ وحشت میں اٹھا کر جس کو
بے سبب یوںہی کہیں پھینک دیا جاتا ہے
ہم دعا کو ہاتھ اٹھائے گڑگڑاتے رہ گئے
تم نے طنزاً بھی اگر کچھ بات کی پوری ہوئی