یاسر تحسین کے اشعار
آ ہی جاتا تھا خیال غیر میرے ذہن میں
عین موقع پر تمہاری یاد نے کھٹکا کیا
اس نے دن جلدی ڈھلنے کی خواہش کی
دھرتی نے رفتار بڑھا دی گردش کی
جو تم نہ ہوگی تو دل حویلی سرائے ہوگی
سرائے جس میں حسین چہرے رکا کریں گے
پہلے تو اک جھوٹے غم میں مٹ جانے کا ناٹک رچ
پھر دنیا کو جا جا کر بتلا تو کتنے دکھ میں ہے
ہم دونوں کا عشق مکمل ہونا مشکل لگتا ہے
تو جنس جنات کی پیدا اور میں بیٹا آدم كا
اک دن ہر منظر کالا ہو جائے گا
سورج اس کی زلفوں میں کھو جائے گا
چل دئے ہیں بول کر واپس نہ لوٹیں گے کبھی
چل دئے ہیں اک دفعہ پھر لوٹ آنے کے لیے
خدا کی آنکھ ہیں آنکھیں ہماری
خدا ان سے ہی دنیا دیکھتا ہے
رات ہوئی تو سب دیووں نے مندر میں
اس جوگن کو شیش نوائے رقص کیا
یہ ابر نو ہمارے کسی کام کا نہیں
ان کو پسند ہی نہیں بارش میں بھیگنا
کیوں دے رہے ہو دستکیں چوکھٹ پہ بارہا
کتنی دفعہ بتاؤں کہ گھر پر نہیں ہوں میں
آمد ہوئی تھی میں نے ہی دھتکار دی غزل
یہ کہہ کے دوسرا کوئی شاعر تلاش کر
آنسو کریں گے ایک بھی ضائع نہ آنکھ سے
دریا کو پاٹ کر یہاں صحرا بنائیں گے
جب کسی صورت نہیں ہے مجھ کو احساس وجود
پھر مرے کس کام کا ہے یہ جہان ہست و بود
ایسی تنہا راتوں میں ہی آتی ہے
ایک غزل جو شاعر کو کھا جاتی ہے