Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Zaheer Dehlvi's Photo'

ظہیرؔ دہلوی

1825 - 1911 | دلی, انڈیا

ظہیرؔ دہلوی کے اشعار

3.7K
Favorite

باعتبار

شرکت گناہ میں بھی رہے کچھ ثواب کی

توبہ کے ساتھ توڑیئے بوتل شراب کی

سمجھیں گے نہ اغیار کو اغیار کہاں تک

کب تک وہ محبت کو محبت نہ کہیں گے

چاہت کا جب مزا ہے کہ وہ بھی ہوں بے قرار

دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

عشق ہے عشق تو اک روز تماشا ہوگا

آپ جس منہ کو چھپاتے ہیں دکھانا ہوگا

خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک

حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ

سر پہ احسان رہا بے سر و سامانی کا

خار صحرا سے نہ الجھا کبھی دامن اپنا

کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار

اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں

کبھی بولنا وہ خفا خفا کبھی بیٹھنا وہ جدا جدا

وہ زمانہ ناز و نیاز کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

درد اور درد بھی جدائی کا

ایسے بیمار کی دعا کب تک

کس کا ہے جگر جس پہ یہ بیداد کرو گے

لو دل تمہیں ہم دیتے ہیں کیا یاد کرو گے

چونک پڑتا ہوں خوشی سے جو وہ آ جاتے ہیں

خواب میں خواب کی تعبیر بگڑ جاتی ہے

کوئی پوچھے تو سہی ہم سے ہماری روداد

ہم تو خود شوق میں افسانہ بنے بیٹھے ہیں

ہم اور چاہ غیر کی اللہ سے ڈرو

ملتے ہیں تم سے بھی تو تمہاری خوشی سے ہم

تلخ شکوے لب شیریں سے مزہ دیتے ہیں

گھول کر شہد میں وہ زہر پلا دیتے ہیں

انسان وہ کیا جس کو نہ ہو پاس زباں کا

یہ کوئی طریقہ ہے کہا اور کیا اور

گدگدایا جو انہیں نام کسی کا لے کر

مسکرانے لگے وہ منہ پہ دوپٹہ لے کر

حسن کی گرمئ بازار الٰہی توبہ

آگ سی آگ برستی ہے خریداروں پر

تم نے پہلو میں مرے بیٹھ کے آفت ڈھائی

اور اٹھے بھی تو اک حشر اٹھا کر اٹھے

بعد مرنے کے بھی مٹی مری برباد رہی

مری تقدیر کے نقصان کہاں جاتے ہیں

بزم دشمن میں جا کے دیکھ لیا

لے تجھے آزما کے دیکھ لیا

سب کچھ ملا ہمیں جو ترے نقش پا ملے

ہادی ملے دلیل ملے رہنما ملے

یہاں دیکھوں وہاں دیکھوں اسے دیکھوں اسے دیکھوں

تمہاری خود نمائی نے مجھے ڈالا ہے حیرت میں

پان بن بن کے مری جان کہاں جاتے ہیں

یہ مرے قتل کے سامان کہاں جاتے ہیں

ہے دل میں اگر اس سے محبت کا ارادہ

لے لیجئے دشمن کے لئے ہم سے وفا قرض

اے شیخ اپنے اپنے عقیدے کا فرق ہے

حرمت جو دیر کی ہے وہی خانقاہ کی

منہ چھپانا پڑے نہ دشمن سے

اے شب غم سحر نہ ہو جائے

عشق کیا شے ہے حسن ہے کیا چیز

کچھ ادھر کی ہے کچھ ادھر کی آگ

آخر ملے ہیں ہاتھ کسی کام کے لئے

پھاڑے اگر نہ جیب تو پھر کیا کرے کوئی

ہے لطف تغافل میں یا جی کے جلانے میں

وعدہ تو کیا ہوتا گو وہ نہ وفا ہوتا

قہر ہے زہر ہے اغیار کو لانا شب وصل

ایسے آنے سے تو بہتر ہے نہ آنا شب وصل

آج تک کوئی نہ ارمان ہمارا نکلا

کیا کرے کوئی تمہارا رخ زیبا لے کر

کس کی آشفتہ مزاجی کا خیال آیا ہے

آپ حیران پریشان کہاں جاتے ہیں

آج آئے تھے گھڑی بھر کو ظہیرؔ ناکام

آپ بھی روئے ہمیں ساتھ رلا کر اٹھے

بجھاؤں کیا چراغ صبح گاہی

مرے گھر شام ہونی ہے سحر سے

وہ جتنے دور کھنچتے ہیں تعلق اور بڑھتا ہے

نظر سے وہ جو پنہاں ہیں تو دل میں ہیں عیاں کیا کیا

ہے سیر نگاہوں میں شبستان عدو کی

کیا مجھ سے چھپاتے ہو تماشا مرے دل کا

ظہیرؔ خستہ جاں سچ ہے محبت کچھ بری شے ہے

مجازی میں حقیقی کے ہوئے ہیں امتحاں کیا کیا

دل کو دارالسرور کہتے ہیں

جلوہ گاہ حضور کہتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے