Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ذکی کاکوروی کے اشعار

1.3K
Favorite

باعتبار

یاد آئے ہیں اف گنہ کیا کیا

ہاتھ اٹھائے ہیں جب دعا کے لئے

اہل دل نے کئے تعمیر حقیقت کے ستوں

اہل دنیا کو روایات پہ رونا آیا

تو ہی بتا دے کیسے کاٹوں

رات اور ایسی کالی رات

حسن جس حال میں نظر آیا

ہم نے اس حال میں پرستش کی

عقل نے ترک تعلق کو غنیمت جانا

دل کو بدلے ہوئے حالات پہ رونا آیا

کتنے ہی پھول چن لئے میں نے

کتنے ہی پھول رہ گئے باقی

صاف کہئے کہ پیار کرتے ہیں

یہ نگاہوں کا قول مبہم کیا

جنوں کے کیف و کم سے آگہی تجھ کو نہیں ناصح

گزرتی ہے جو دیوانوں پہ دیوانے سمجھتے ہیں

لوگ کہتے رہے قریب ہے وہ

ہم نے ڈھونڈا تو دور دور نہ تھا

منزل جسے سمجھتے تھے یاران قافلہ

پہنچے جو اس جگہ تو فقط سنگ میل تھا

یاد اتنا ہے کہ میں ہوش گنوا بیٹھا تھا

چھٹ گیا ہاتھ سے کب جام مجھے یاد نہیں

وہ تری زلف کا سایہ ہو کہ آغوش ترا

مل گیا ہو کبھی آرام مجھے یاد نہیں

تری جوان امنگوں کو ہو گیا ہے کیا

ڈری ڈری سی محبت مجھے پسند نہیں

یہ رات یونہی بسر ہو گئی تو کیا ہوگا

ترے بغیر سحر ہو گئی تو کیا ہوگا

میں نے تنہائیوں کے لمحوں میں

تم کو اکثر قریب پایا ہے

کارواں تو نکل گیا کوسوں

راہ بھٹکے ہوئے کہاں جائیں

شکوہ نہیں دنیا کے صنم ہائے گراں کا

افسوس کہ کچھ پھول تمہارے بھی ملے ہیں

دوسروں کو فریب دے دے کر

ہم نے خود بھی فریب کھایا ہے

مجھ کو سکوں کی چین کی پژمردگی سے کیا

ہر روز ایک تازہ قیامت کی آرزو

رموز عشق کی گہرائیاں سلامت ہیں

ہمارے خواب پریشاں کسی کو کیا معلوم

مرنے کے بعد کوئی پشیماں ہوا تو کیا

ماتم کدہ جو گور غریباں ہوا تو کیا

بری تقدیر کے رونے سے حاصل

طلب ہو گر تو ویرانے بہت ہیں

درد دل نے لی نہ تھی کروٹ ابھی

ان کے ماتھے پہ پسینا آ گیا

وائے ناکامئ قسمت کہ بھنور سے بچ کر

لب ساحل پہ جو آئے تو کگارا ٹوٹا

الجھی تھیں جن نسیم سے کلیاں خبر نہ تھی

پہنچے گی بوئے ناز مرے پیرہن سے دور

Recitation

بولیے