ویشیاؤں کی زندگی کے بارے میں منٹو کے فکر انگیز اقوال
منٹو نہایت حقیقت پسندانہ
انداز میں لکھنے والا قلم کار تھا۔ اس کا جہاں جس حقیقت سے سامنا پڑا اس کو بغیر کسی نام نہاد اخلاقی و تہذیبی دباؤ کے لکھ دیا۔ ویشیاؤں کی زندگی اور ان کے ساتھ مہذب سماج کے رویے کا تفصیلی بیان بھی منٹو کے اسی انداز نظر کا نتیجہ ہے۔ یہاں پیش کیے جارہے اقوال منٹو کے مضامین سے منتخب کیے گیے ہیں جن میں منٹو ویشیاؤں اور طوائفوں کی زندگی کے حیرت انگیز پہلوؤں سے رو شناس کراتے ہیں اور بتاتے ہیں ویشیائیں کس طرح سے سماج کا حصہ ہیں اور غلط راستے پر وہ ہیں یا مہذب سماج؟
آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔
ویشیا اور باعصمت عورت کا مقابلہ ہرگز ہرگز نہیں کرنا چاہیئے۔ ان دونوں کا مقابلہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ویشیا خود کماتی ہے اور با عصمت عورت کے پاس کما کر لانے والے کئی موجود ہوتے ہیں۔
ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔
اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریو ں اور بدروؤں کا ذکر کیو ں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکو ں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟
جس عورت کے دروازے شہر کے ہر اس شخص کے لئے کھلے ہیں جو اپنی جیبوں میں چاندی کے چند سکے رکھتا ہو۔ خواہ وہ موچی ہو یا بھنگی، لنگڑا ہو یا لولا، خوبصورت ہو یا کریہة المنظر، اس کی زندگی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔
ویشیا کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج خود اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔
گداگری قانوناً بند کر دی جاتی ہے مگر وہ اسباب و علل دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی جو انسان کو اس فعل پر مجبور کرتے ہیں۔ عورتوں کو سر بازار جسم فروشی کے کاروبار سے روکا جاتا ہے مگر اس کے محرکات کے استیصال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔
-
موضوعات : جنسی ضرورتاور 2 مزید
چکی پیسنے والی عورت جو دن بھر کام کرتی ہے اور رات کو اطمینان سے سو جاتی ہے، میرے افسانوں کی ہیروئن نہیں ہو سکتی۔ میری ہیروئن چکلے کی ایک ٹکھیائی رنڈی ہو سکتی ہے جو رات کو جاگتی ہے اور دن کو سوتے میں کبھی کبھی ڈراؤنا خواب دیکھ کر اٹھ بیٹھتی ہے کہ بڑھاپا اس کے دروازے پر دستک دینے آ رہا ہے۔۔۔ اس کے بھاری بھاری پپوٹے جن پر برسوں کی اچٹی ہوئی نیندیں منجمد ہو گئی ہیں، میرے افسانوں کا موضوع بن سکتے ہیں۔ اس کی غلاظت، اس کی بیماریاں، اس کا چڑچڑاپن، اس کی گالیاں یہ سب مجھے بھاتی ہیں۔۔۔ میں ان کے متعلق لکھتا ہوں اور گھریلو عورتوں کی شستہ کلامیوں، ان کی صحت اور ان کی نفاست پسندی کو نظر انداز کر جاتا ہوں۔
بغاوت فرانس میں پہلی گولی پیرس کی ایک ویشیا نے اپنے سینے پر کھائی تھی۔ امرت سر میں جلیانوالہ باغ کے خونیں حادثے کی ابتدا اس نوجوان کے خون سے ہوئی تھی جو ایک ویشیا کے بطن سے تھا۔
-
موضوعات : جلیانوالہ باغاور 2 مزید
ویشیا صرف اسی مرد پر اپنے دل کے تمام دروازے کھولے گی، جس سے اسے محبت ہو۔ ہر آنے جانے والے مرد کے لئے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔
عصمت فروش عورت ایک زمانے سے دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھی جاتی رہی ہے۔ مگر کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ہم میں سے اکثر ایسی ذلیل و خوار ہستیوں کے در پر ٹھوکریں کھاتے ہیں! کیا ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی ذلیل ہیں۔
ویشیا کو صرف باہر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے رنگ روپ، اس کی بھڑکیلی پوشاک، آرائش و زیبائش دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ وہ خوش حال ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔
جس طرح باعصمت عورتیں ویشیاؤں کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ان کی طرف اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔
ایک با عصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔
جس طرح گھر کے نوکر جھٹ پٹ اپنے آقاؤں کے بستر لگا کر اپنے آرام کا خیال کرتے ہیں۔ ٹھیک اسی طرح ویشیا بھی اپنے گاہکوں کو نمٹا کر اپنی خوشی اور راحت کی طرف پلٹ آتی ہے۔
بازاری عورتیں سماج کی پیداوار ہیں اور سماج کے وضع کردہ قوانین کی کھاد ان کی پرورش کرتی ہے۔ اگر ان کو اچھا بنانا درکار ہے تو سارے جسم کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک سماج اپنے قوانین پر از سر نو غور نہ کرے گا، وہ ’’نجاست‘‘ دور نہ ہوگی جو تہذیب و تمدن کے اس زمانے میں ہر شہر اور ہر بستی کے اندر موجود ہے۔
تعجب تو اس بات کا ہے کہ جب صدیوں سے ہم یہ سن رہے ہیں کہ ویشیا کا ڈسا ہوا پانی نہیں مانگتا تو ہم کیوں اپنے آپ کو اس سے ڈسواتے ہیں اور پھر کیوں خود ہی رونا پیٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ ویشیا ارادتاً یا کسی انتقامی جذبے کے زیر اثر مردوں کے مال و زر پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ وہ سودا کرتی ہے اور کماتی ہے۔
ویشیا ارادتاً یا کسی انتقامی جذبے کے زیر اثر مردوں کے مال و زر پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔ وہ سودا کرتی ہے اور کماتی ہے۔
ویشیا یا طوائف اپنے تجارتی اصولوں کے ماتحت ہر مرد سے جو اس کے پاس گاہک کے طور پر آتا ہے، زیادہ سے زیادہ نفع حاصل کرنے کی کوشش کرے گی۔ اگر وہ مناسب داموں پر یا حیرت انگیز قیمت پر اپنا مال بیچتی ہے تو یہ اس کا پیشہ ہے۔ بنیا بھی تو سودا تولتے وقت ڈنڈی مار جاتا ہے۔ بعض دکانیں زیادہ قیمت پر اپنا مال بیچتی ہیں بعض کم قیمت پر۔
بیسوائیں اب سے نہیں ہزارہا سال سے ہمارے درمیان موجود ہیں۔ ان کا تذکرہ الہامی کتابوں میں بھی موجود ہے۔ اب چونکہ کسی الہامی کتاب یا کسی پیغمبر کی گنجائش نہیں رہی، اس لئے موجودہ زمانے میں ان کا ذکر آپ آیات میں نہیں بلکہ ان اخباروں، کتابوں یا رسالوں میں دیکھتے ہیں جنہیں آپ عود اور لوبان جلائے بغیر پڑھ سکتے ہیں اور پڑھنے کے بعد ردی میں بھی اٹھوا سکتے ہیں۔