Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Bismil Saeedi's Photo'

بسمل سعیدی

1901 - 1976 | ٹونک, انڈیا

کلاسیکی طرز معروف شاعر/ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد

کلاسیکی طرز معروف شاعر/ سیماب اکبرآبادی کے شاگرد

بسمل سعیدی کے اشعار

باعتبار

کعبے میں مسلمان کو کہہ دیتے ہیں کافر

بت خانے میں کافر کو بھی کافر نہیں کہتے

خوشبو کو پھیلنے کا بہت شوق ہے مگر

ممکن نہیں ہواؤں سے رشتہ کئے بغیر

ہم نے کانٹوں کو بھی نرمی سے چھوا ہے اکثر

لوگ بے درد ہیں پھولوں کو مسل دیتے ہیں

کیا تباہ تو دلی نے بھی بہت بسملؔ

مگر خدا کی قسم لکھنؤ نے لوٹ لیا

سر جس پہ نہ جھک جائے اسے در نہیں کہتے

ہر در پہ جو جھک جائے اسے سر نہیں کہتے

ٹھوکر کسی پتھر سے اگر کھائی ہے میں نے

منزل کا نشاں بھی اسی پتھر سے ملا ہے

دہرائی جا سکے گی نہ اب داستان عشق

کچھ وہ کہیں سے بھول گئے ہیں کہیں سے ہم

تم جب آتے ہو تو جانے کے لیے آتے ہو

اب جو آ کر تمہیں جانا ہو تو آنا بھی نہیں

ادھر ادھر مری آنکھیں تجھے پکارتی ہیں

مری نگاہ نہیں ہے زبان ہے گویا

نا امیدی ہے بری چیز مگر

ایک تسکین سی ہو جاتی ہے

میرے دل کو بھی پڑا رہنے دو

چیز رکھی ہوئی کام آتی ہے

رو رہا ہوں آج میں سارے جہاں کے سامنے

روئے گا کل دیکھنا سارا جہاں میرے لیے

حسن بھی کمبخت کب خالی ہے سوز عشق سے

شمع بھی تو رات بھر جلتی ہے پروانے کے ساتھ

کسی کے ستم اس قدر یاد آئے

زباں تھک گئی مہرباں کہتے کہتے

زمانہ سازیوں سے میں ہمیشہ دور رہتا ہیں

مجھے ہر شخص کے دل میں اتر جانا نہیں آتا

محبت میں خدا جانے ہوئیں رسوائیاں کس سے

میں ان کا نام لیتا ہوں وہ میرا نام لیتے ہیں

سکوں نصیب ہوا ہو کبھی جو تیرے بغیر

خدا کرے کہ مجھے تو کبھی نصیب نہ ہو

دو دن میں ہو گیا ہے یہ عالم کہ جس طرح

تیرے ہی اختیار میں ہیں عمر بھر سے ہم

عشق بھی ہے کس قدر بر خود غلط

ان کی بزم ناز اور خودداریاں

گل تو گل خار پہ دیکھی جو کبھی گرم شعاع

چھا گئے باغ پہ ہم ابر بہاراں ہو کر

Recitation

بولیے