aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ ",RRa"
پریم چند
1880 - 1936
مصنف
لالہ مادھو رام جوہر
1810 - 1889
شاعر
عدم گونڈوی
1947 - 2011
اسماعیل راز
born.1993
ساحر ہوشیار پوری
1913 - 1972
وکاس شرما راز
born.1973
عزیز نبیل
born.1976
جوشؔ ملسیانی
1884 - 1976
رازؔ الٰہ آبادی
1929 - 1996
رام ریاض
1933 - 1990
میلہ رام وفاؔ
1895 - 1980
نقش لائل پوری
1928 - 2017
رام پرشاد بسمل
1897 - 1927
فکر تونسوی
1918 - 1987
سرور عالم راز
born.1935
سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہےستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں
پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تورسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ
وہ ہنستی ہو تو شاید تم نہ رہ پاتے ہو حالوں میںگڑھا ننھا سا پڑ جاتا ہو شاید اس کے گالوں میں
عروق مردۂ مشرق میں خون زندگی دوڑاسمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
تو مجھ کو خدا را غلط مت سمجھناکہ میری ضرورت ہو تم بہت خوبصورت ہو تم
کئی ضرب المثل شعروں کے خالق، مرزا غالب کے ہم عصر
مجاہد آزادی اور آئین ساز اسمبلی کے رکن ، ’انقلاب زندہ باد‘ کا نعرہ دیا ، شری کرشن کے معتقد ، اپنی غزل ’ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے‘ کے لئے مشہور۔
مقبول اردو شاعر اور فلم نغمہ نگار۔ پریم روگ اور رام تیری گنگا میلی کے گیتوں کے لئے مشہور
حضرت عبد الرحمٰن بن عوف
مولوی فضل اللہ
تذکرہ
آر۔ پروگرامنگ ایک تعارف
ثنا رشید
سائنس
سب رس
ملا وجہی
افسانوی ادب
مثنوی کدم راؤ پدم راؤ
فخر دین نظامی
مثنوی
تاریخ ادب اردو
رام بابو سکسینہ
تاریخ
گرد راہ
اختر حسین رائے پوری
خود نوشت
راز حیات
مولانا وحیدالدین خاں
اسلامیات
لندن کی ایک رات
سجاد ظہیر
امراض نسواں
ڈاکٹر کاشی رام
طب
سئیکلو پیڈیا آف ہومیو پیتھک ڈرگز
ہومیوپیتھی
تاریخ ادب
جو میں نے دیکھا
راؤ عبدالرشید
انٹرویو
داستان
رس رنگ
طفیل چترویدی
غزل
حق را بسجودے صنماں را بطوافےبہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو
شاعرساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر
خون دل و جگر سے ہے میری نوا کی پرورشہے رگ ساز میں رواں صاحب ساز کا لہو!
یا رب یہ جہان گزراں خوب ہے لیکنکیوں خوار ہیں مردان صفا کیش و ہنر مند
نگہ پیدا کر اے غافل تجلی عین فطرت ہےکہ اپنی موج سے بیگانہ رہ سکتا نہیں دریا
پھر مری آس بڑھا کر مجھے مایوس نہ کرحاصل غم کو خدا را غم حاصل نہ بنا
نزع میں ہچکی نہیں آئی مجھےبھولنے والے خدارا یاد کر
اب کہاں وہ شوق رہ پیمائی صحرائے علمتیرے دم سے تھا ہمارے سر میں بھی سودائے علم
پئے سیر فردوس کو جا رہا تھاقضا سے ملا راہ میں وہ قضا را
ان معاملات کی تفصیل کے لیے وسودھا ڈالمیا کی کتاب ملاحظہ ہو جو ۱۹۹۷ میں دہلی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی ہے۔ The Nationalization of Hindu Tradition Bharatendu Hirishchandra and Nineteenth Century Banaras اس کے علاوہ ساگری سین گپتا کی پی ایچ ڈی تھیسس بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے اجزا Annual of Urdu Studies No.91 میں شائع ہوئے ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اردو پر ’’لکھیں کچھ، پڑھیں کچھ‘‘ کا الزام دھرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ خود دیوناگری اس عیب سے خالی نہیں۔ (اگر یہ عیب ہے) انگریزی وغیرہ کا تو پوچھنا کیا ہے، کہ جہاں معمولی آوازوں، مثلاب چ، ش، ف، وغیرہ کو بیان کرنے کے آٹھ آٹھ نو نو طریقے ہو سکتے ہیں۔ دیوناگری کا حال یہ ہے کہ یہاں کھ (Kha) اور رَوَ (ra va) میں کوئی فرق نہیں۔ ’’روانا‘‘ لکھئے اور ’’کھانا‘‘ پڑھئے۔ دَھ (dha) اور گھ (gha) میں اتنا کم فرق ہے کہ ذرا سی لرزش قلم سے گھر کی جگہ ’’دھر‘‘، ’’دھان‘‘ کی جگہ ’’گھان‘‘ ہو جاتا ہے۔ تھ (tha) اور یَ (ya) میں بھی اسی قدر کم فرق ہے کہ ’’تھان‘‘ کو ’’یان‘‘ پڑھ لینے کا پورا پورا مکان ہے۔ نون غنہ لکھنے کے لیے طرح طرح کے پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔ اس ایک ہی آواز کو تین چار طرح لکھا جاتا ہے۔ ’’چندربندو‘‘ کچھ ہے، ’’ڑاں‘‘ اور طرح سے ہے، صرف ’’بندی‘‘ او رطرح کی ہے، اور کہیں آدھا ma (مَ) لگا دیتے ہیں۔ اس رنگ کے الجھاوے اور بھی ہیں، لیکن مثال کے لیے اتنے کافی ہوں گے۔ پھر اس دعوے کے کیا معنی کہ دیوناگری میں غلط پڑھنے کی گنجائش نہیں؟
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books