aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ ",sLf"
میر حیات الدین صاف
مصنف
کہا میں نے بات وہ کوٹھے کی مرے دل سے صاف اتر گئیتو کہا کہ جانے مری بلا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایازنہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
جا کے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا تو غریبزحمت روزہ جو کرتے ہیں گوارا تو غریب
رات مجرم تھی دامن بچا لے گئیدن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا
دل سے تو ہر معاملہ کر کے چلے تھے صاف ہمکہنے میں ان کے سامنے بات بدل بدل گئی
بے خودی شعور کی حالت سے نکل جانے کی ایک کیفیت ہے ۔ ایک عاشق بے خودی کو کس طرح جیتا ہے اور اس کے ذریعے وہ عشق کے کن کن مقامات کی سیر کرتا ہے اس کا دلچسپ بیان ان اشعار میں ہے ۔ اس طرح کے شعروں کی ایک خاص جہت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کلاسیکی عاشق کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں ۔
یوں تو بظاہر اپنے آپ کو تکلیف پہنچانا اور اذیت میں مبتلا کرنا ایک نہ سمجھ میں آنے والا غیر فطری عمل ہے ، لیکن ایسا ہوتا ہے اور ایسے لمحے آتے ہیں جب خود اذیتی ہی سکون کا باعث بنتی ہے ۔ لیکن ایسا کیوں ؟ اس سوال کا جواب آپ کو شاعری میں ہی مل سکتا ہے ۔ خود اذیتی کو موضوع بنانے والے اشعار کا ایک انتخاب ہم پیش کر رہے ہیں ۔
غرور زندگی جینے کا ایک منفی رویہ ہے ۔ آدمی جب خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ شاعری میں جس غرور کو کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے وہ محبوب کا اختیار کردہ غرور ہے ۔ محبوب اپنے حسن ،اپنی چمک دمک ، اپنے چاہے جانے اور اپنے چاہنے والوں کی کثرت پر غرور کرتا ہے اور اپنے عاشقوں کو اپنے اس رویے سے دکھ پہنچاتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا شعری انتخاب آپ کے لئے حاضر ہے
دی سیکریٹس آف دی سیلف
علامہ اقبال
شاعری
مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں
ابوالحسن علی ندوی
اخلاقیات
اسرار خودی
قرآنی اصطلاحات
سید حامد علی
اسلامیات
آثار سلف
مولوی محمد اسمٰعیل
علمائ سلف
محمد حبیب الرحمٰن
صاف صاف باتیں
مولانا ابوالحسن ندوی
صف مژگاں
حسرت قریشی
غزل
دی کنسپٹ آف سیلف
ابصار احمد
دیگر
تیلگو-اردو
این۔ وینکٹیشورا راو
مسلمانان ہند سےصاف صاف باتیں
مقبول الٰہی
علماء سلف و نابینا علماء
حبیب الرحمن خاں شروانی
تحریک
صموئيل سمايلز
ترجمہ
سلف گورنمنٹ
مسٹر سری نواس شاستری
ہندوستان
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیںصاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوںندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہو جاتاصبا نے خاک پریشاں مرا غبار کیا
اپنی تلاش اپنی نظر اپنا تجربہرستہ ہو چاہے صاف بھٹک جانا چاہئے
جان لینی تھی صاف کہہ دیتےکیا ضرورت تھی مسکرانے کی
مرے چارہ گر کو نوید ہو صف دشمناں کو خبر کروجو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
جو تو ہو صاف تو کچھ میں بھی صاف تجھ سے کہوںترے ہے دل میں کدورت کہوں تو کس سے کہوں
مسکراتے ہوئے ملتا ہوں کسی سے جو ظفرؔصاف پہچان لیا جاتا ہوں رویا ہوا میں
جانے جو کرے قول نہ پورا کرے ہر کام ادھورا یہی دن رات تصور ہے کہ ناحقاسے چاہا جو نہ آئے نہ بلائے نہ کبھی پاس بٹھائے نہ رخ صاف دکھائے نہ کوئی
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books