بے خودی پر شاعری
بے خودی شعور کی حالت سے نکل جانے کی ایک کیفیت ہے ۔ ایک عاشق بے خودی کو کس طرح جیتا ہے اور اس کے ذریعے وہ عشق کے کن کن مقامات کی سیر کرتا ہے اس کا دلچسپ بیان ان اشعار میں ہے ۔ اس طرح کے شعروں کی ایک خاص جہت یہ بھی ہے کہ ان کے ذریعے کلاسیکی عاشق کی شخصیت کی پرتیں کھلتی ہیں ۔
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں
چلے تو پاؤں کے نیچے کچل گئی کوئی شے
نشے کی جھونک میں دیکھا نہیں کہ دنیا ہے
اتنی پی جائے کہ مٹ جائے میں اور تو کی تمیز
یعنی یہ ہوش کی دیوار گرا دی جائے
the formality of you and I should in wine be drowned
meaning that these barriers of sobriety be downed
یہ کیسا نشہ ہے میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں
-
موضوع : انتظار
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے اعتبار مجھے
بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا
دن رات مے کدے میں گزرتی تھی زندگی
اخترؔ وہ بے خودی کے زمانے کدھر گئے
-
موضوعات : زندگیاور 1 مزید
اللہ رے بے خودی کہ ترے پاس بیٹھ کر
تیرا ہی انتظار کیا ہے کبھی کبھی
o lord! There are times when such is my raptured state
even though I am with you, and yet for you I wait
یہاں کوئی نہ جی سکا نہ جی سکے گا ہوش میں
مٹا دے نام ہوش کا شراب لا شراب لا
نہ تو ہوش سے تعارف نہ جنوں سے آشنائی
یہ کہاں پہنچ گئے ہیں تری بزم سے نکل کے
what is this place that I have reached, having left your company
اتنی پی ہے کہ بعد توبہ بھی
بے پیے بے خودی سی رہتی ہے
مئے حیات میں شامل ہے تلخیٔ دوراں
جبھی تو پی کے ترستے ہیں بے خودی کے لئے
محبت نیک و بد کو سوچنے دے غیر ممکن ہے
بڑھی جب بے خودی پھر کون ڈرتا ہے گناہوں سے
ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی
ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے
-
موضوعات : آگہیاور 2 مزید
خواب میں نام ترا لے کے پکار اٹھتا ہوں
بے خودی میں بھی مجھے یاد تری یاد کی ہے
اے بے خودی دل مجھے یہ بھی خبر نہیں
کس دن بہار آئی میں دیوانہ کب ہوا
کہہ دیں تم سے کون ہیں کیا ہیں کہاں رہتے ہیں ہم
بے خودوں کو اپنے جب تم ہوش میں آنے تو دو
we will tell you who and what we are and where we stay
let your besotten lovers regain consciousness today
بے خودی میں ہم تو تیرا در سمجھ کر جھک گئے
اب خدا معلوم کعبہ تھا کہ وہ بت خانہ تھا
نیاز بے خودی بہتر نماز خود نمائی سیں
نہ کر ہم پختہ مغزوں سیں خیال خام اے واعظ
اللہ رے بے خودی کہ ترے گھر کے آس پاس
ہر در پہ دی صدا ترے در کے خیال میں
چھوڑ کر کوچۂ مے خانہ طرف مسجد کے
میں تو دیوانہ نہیں ہوں جو چلوں ہوش کی راہ
-
موضوع : مے کدہ
ہاں کیف بے خودی کی وہ ساعت بھی یاد ہے
محسوس کر رہا تھا خدا ہو گیا ہوں میں
وفور بے خودی میں رکھ دیا سر ان کے قدموں پر
وہ کہتے ہی رہے واصفؔ یہ محفل ہے یہ محفل ہے
تری یاد میں تھی وہ بے خودی کہ نہ فکر نامہ بری رہی
مری وہ نگارش شوق بھی کہیں طاق ہی پہ دھری رہی
کہاں تک اے واعظو یہ جھگڑے مزے اٹھانے دو بے خودی کے
جو ہوش میں ہوں تو میں یہ سمجھوں حرام کیا ہے حلال کیا ہے
شہ بے خودی نے عطا کیا مجھے اب لباس برہنگی
نہ خرد کی بخیہ گری رہی نہ جنوں کی پردہ دری رہی