aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "حبوط"
آج بھی انتظار کا وقت حنوط ہو گیاایسا لگا کہ حشر تک سارے ہی پل ٹھہر گئے
ناگاہ آئے روتے ہوئے شاہ اوصیاغسل و حنوط فاطمہؑ خود حجرے میں کیا
حنوط تتلیاں شو کیس میں نظر آئیںشریر بچے گھروں میں بھی سہمے سہمے رہے
کبھی کہتے تھے کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں تم مجھ سے اچھا نہ لکھنے لگو اور میں نے صرف چند مضمون لکھے تھے اس لیے جی جلتا تھا کہ یہ میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ ان کے انتقال کے بعد نہ جانے کیوں مرنے والے کی چیزیں پیاری ہو گئیں۔ ان کا ایک ایک لفظ چبھنے لگا اور میں نے عمر میں پہلی دفعہ ان کی کتابیں دل لگا کر پڑھیں۔ دل لگا کر پڑھنے کی بھی خوب رہی۔ گویا دل لگانے کی بھی ضرورت تھی! دل خود بخود کھنچنے لگا۔ افوہ! تو یہ کچھ لکھا ہے ان کی رلنے والی کتابوں میں۔ ایک ایک لفظ پر ان کی تصویر آنکھوں میں کھنچ جاتی اور پل بھر میں وہ غم اور دکھ میں ڈوبی ہوئی مسکرانے کی کوشش کرتی ہوئی آنکھیں وہ اندوہناک سیاہ گھٹاؤں کی طرح مرجھائے ہوئے چہرے پر پڑے ہوئے گھنے بال، وہ پیلی نیلاہٹ لیے ہوئے بلند پیشانی، پژمردہ اودے ہونٹ جن کے اندر قبل از وقت توڑے ہوئے ناہموار دانت اور لاغر سوکھے سوکھے ہاتھ اور عورتوں جیسے نازک، دواؤں میں بسی ہوئی لمبی انگلیوں والے ہاتھ اور پھر ان ہاتھوں پر ورم آ گیا تھا۔ پتلی پتلی کھیچی جیسی ٹانگیں جن کے سر پر ورم جیسے سوجے ہوئے بد وضع پیر جن کے دیکھنے کے ڈر کی وجہ سے ہم لوگ ان کے سرہانے ہی کی طرف جایا کرتے تھے اور سوکھے ہوئے پنجرے جیسے سینے پر دھونکنی کا شبہ ہوتا تھا۔ کلیجے پر ہزاروں، کپڑوں، بنیانوں کی تہیں اور اس سینے میں ایسا پھڑکتا ہوا چلبلا دل! یا اللہ یہ شخص کیوں کر ہنستا تھا، معلوم ہوتا تھا کوئی بھوت ہے یا جن جوہر خدائی طاقت سے کشتی لڑ رہا ہے، نہیں مانتا مسکرائے جاتا ہے خدا جبار و قہار چڑھ چڑھ کر کھانسی اور دمہ کا عذاب نازل کر رہا ہے اور یہ دل قہقہے نہیں چھوڑتا۔ کون سا دنیا و دین کادکھ تھا جو قدرت نے بچا رکھا تھا مگر پھر بھی نہ رلا سکا۔ اس دکھ میں جلن، ہنستے نہیں ہنساتے رہنا، کسی انسان کا کام نہیں۔ ماموں کہتے تھے : زندہ لاش، خدایا اگر لاشیں بھی اس قدر جان دار، بے چیں اور پھڑکنے والی ہوتی ہیں تو پھر دنیا ایک لاش کیوں نہیں بن جاتی۔ میں ایک بہن کی حیثیت سے نہیں ایک عورت بن کر ان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتی تودل لرز اٹھتا تھا۔ کس قدر ڈھیٹ تھا ان کا دل۔ اس میں کتنی جان تھی۔ منہ پر گوشت نام کو نہ تھا۔ مگر کچھ دن پہلے چہرے پر ورم آ جانے سے چہرہ خوبصورت ہو گیا تھا۔ کنپٹی ابھر گئی تھیں۔ پچکے ہوئے گال دبیز ہو گئے تھے۔ ایک موت کی سی جلا چہرہ پر آئی تھی اور رنگت میں کچھ عجیب طلسمی سبزی سی آگئی تھی۔ جیسے حنوط کی ہوئی ممی، مگر آنکھیں معلوم ہوتا تھا کسی بچے کی شریر آنکھیں جو ذرا سی بات پر ناچ اٹھتی تھیں اور پھر کبھی ان میں نوجوان لڑکوں کی سی شوخی جاگ اٹھتی تھی اور یہی آنکھیں کبھی دورے کی شدت سے گھبرا کر چیخ اٹھتیں۔ ان کی صاف شفاف نیلی سطح گدلی زرد ہو جاتی اور بے کس ہاتھ لرزنے لگتے۔ سینہ پھٹنے پر آ جاتا۔ دورہ ختم ہوا کہ پھر وہی روشنی، پھر وہی رقص پھر وہی چمک۔
میں نے بٹوہ نکال کر دس روپے اس بڑھیا کو دے دیے اور سراج سے کہا، ’’آؤ سراج۔۔۔‘‘سراج کی بڑی بڑی آنکھوں نے ایک لحظے کے لیے میری نگاہوں کو راستہ دیا کہ اس کے چہرے کی سڑک پر چند قدم چل سکیں۔۔۔ میں ایک بار پھر اسی نتیجے پر پہنچا کہ وہ خوبصورت تھی۔۔۔ سکڑی ہوئی خوبصورتی۔۔۔ حنوط لگی خوبصورتی۔۔۔ صدیوں کی محفوظ و مامون اور مدفون کی ہوئی خوبصورتی۔۔۔ میں نے ایک لحظے کے لیے یوں محسوس کیا کہ میں مصر میں ہوں اور پرانے دفینوں کی کھدائی پر مامور کیا گیا ہوں۔
پدما زیر لب مسکرائی، ’’مگر ایک بات ضرورہے‘‘ ثوث نے دالان کے کتب خانہ میں واپس آتے ہوئے کہا۔ ’’کلدانی اور اشوری بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ یہ الواح دیکھو، اور ساتھ ہی اس قدر سفّاک۔‘‘ اس نے سفالی الواح کے انبارکی طرف اشارہ کیا۔ ’’جنگ سے پہلے ان کی یہ کتابیں سیکڑوں اونٹوں پر لاد کر ہمارے یہاں لائی جاتی تھیں۔‘‘ اس نے جھک کر باریک خط میخی میں کندہ ایک لوح ...
شامل تھا یہ ستم بھی کسی کے نصاب میںتتلی ملی حنوط پرانی کتاب میں
یہ گھر تو سج جائے گا پرندہ حنوط کر کےمگر میں اپنی مثال کیوں کر بنا رہا ہوں
یادش بخیر! مجھے وہ شام کبھی نہ بھولے گی جب آخرکار آغا تلمیذ الرحمن چاکسوی سےتعارف ہوا۔ سنتے چلے آئے تھے کہ آغا اپنے بچپن کے ساتھیوں کے علاوہ، جو اب ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے، کسی سے نہیں ملتے اور جس سہمے سہمے انداز سے انہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا، بلکہ کرایا، اس سے بھی یہی ہویدا تھا کہ ہر نئے ملاقاتی سے ہاتھ ملانے کے بعد وہ اپنی انگلیاں ...
مکرر آنکہ، اس افراتفری میں ہم فینی ڈارلنگ کا انجام بتانا تو بھول ہی گئے۔ اس رونمائی کے چند ہفتے بعد ہمیں اوکاڑہ منڈی جانا پڑا۔ وہاں گڑ کی ایک دکان کا اسٹاک چیک کرنے پہنچے تو مال کہیں نظر نہ آیا۔ مالک دکان سے پوچھا، میاں صاحب! گڑ کہاں ہے؟ انہوں نے اپنے منھ پر انگوچھا ڈالا اور دونوں ہاتھوں سے زور زور سے کھجور کا پنکھا جھلا تو زندہ مکھیوں کے نیچے سے ب...
’’میں یہاں قریب ہی رہتا ہوں۔ وائف پچھلے سال فوت ہو گئیں۔ اب شدید تنہائی ہے۔۔۔بارہ کنال کی کوٹھی۔۔۔غسل خانے ریلوے اسٹیشن کے غسل خانوں سے مشابہہ ہیں۔ کسی کا شاور چلتا ہے تو رکتا نہیں۔۔۔ڈبلیو سی ایسے رستے ہیں کہ ٹائلز میں اورنج رنگ کا زنگ لگ گیا ہے۔۔۔ٹائلیں چکٹ۔۔۔پردے گرا چاہتے ہیں۔ قالینوں پر چلو تو مٹی دھب دھب اٹھتی ہے۔ جب گھر والی نہ رہے تو گھر کہا...
مہر سپہر عیّاری کا یہ عرض کرنا تھا کہ شہزادہ سمجھا یہ حضرت بغیر مٹھی گرم کیے کب ٹلتے ہیں، فوراب دس ہزار روپیا منگوا آگے رکھا اور کہا اس وقت اتنا تو حاضر ہے جب خبر آ جائےگی انشاء اللہ دو چند اور پیش کروں گا۔ خواجہ وہ روپے داخل زنبیل مبارک کر خدمت امری نام دار میں حاضر ہوئے اور گزارش کیا۔ پیر و مرشد کمترین نے ہرچند سمجھایا حسن کی بےوفائی، حسینوں کی ک...
اے آفتاب حب وطن تو کدھر ہے آجتو ہے کدھر کہ کچھ نہیں آتا نظر ہے آج
’’میں تو یوں ہی رو رہی ہوں، آنکھوں کو، آنسو بہانے کی عادت جو ہے، میں تو بہت خوش ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر ماں اور بھی پھوٹ پڑی۔ اس کا چھریرا جسم سسکیوں سے لرز لرز گیا، ’’سب مرد تمہارے ابا جیسے تھوڑی ہوتے ہوں گے۔ وہ لڑکا تو بہت معصوم معلوم ہوتا ہے، وہ تم سے محبت کرے گا، تمہارا دل نہیں دکھنے دے گا۔ میں تو یہ سوچ کر پھولے نہیں سماتی۔ وہ تمہیں اپنے ساتھ لے جا...
دوسری صبح جب اس کی آنکھ پوری طرح کھلی تو ایک بوڑھا سرخیمے کے پردے میں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ مینٹل پیس پر سجا ہوا ایک حنوط شدہ جانور کا سر یا جیسے سیاہ چادر میں سے جھانکتا کسی چڑیل بڑھیا کا چہرہ۔ مگر وہ مسکرا رہا تھا اپنے تین نقلی دانتوں سمیت۔ زمان کو جھرجھری سی آ گئی۔ ’’تم اپنے ملک کے صدر کو ذاتی طور پر جانتے ہو؟‘‘
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books