aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "چکاچوند"
’’جب میں مروں تو مجھے گلابی کپڑوں میں دفن کرنا اور بہت سے ولایتی مٹر کے پھول میرے اوپر ڈال دینا۔‘‘ اس نے افسردگی اور جذبہ سے کہا، میرا دل درد سے سمٹ کر ایک زندان معلوم ہونے لگا۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ زمانہ آ گیا جب وہ میرے پاس نہ ہوگی اور میں اکیلا ہوں گا۔ یہ خیال ایک تیر کی طرح سے میرے جگر کے پار ہو گیا۔ آم کے درخت میں ایک کویل درد سے یکایک کوکی...
ریستوران کی فضا پرسکون اور خاموش تھی۔ بالکونی کے نیچے پلاٹ میں رنگین پھولوں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔ ایک طرف سنگین بنچ کے اوپر ناشپاتی کے درخت پر جابجا سپید پھول چمک رہے تھے۔ ایک کمسن بچہ بڑی خاموشی اور انہماک سے گھاس پر گرے پڑے پھولوں کو اٹھا اٹھا کر بنچ پر جمع کر رہا تھا۔ پانچ سال پہلے جب میں اپنی رجمنٹ کے ساتھ قاہرہ جا رہا تھا، تو پال نے آخری رات اسی جگہ ڈنر دیا تھا۔ اس شام گوتما تتلی کے پروں ایسی رنگین ساری میں ملبوس تھی۔ اس کے نرم سیاہ بال بڑی خوبصورتی سے دولٹوں میں گندھے ہوئے تھے، اور بائیں کان کے اوپر چنبیلی کی تین کلیاں مسکرا رہی تھیں۔ ڈوبتے سورج کی نارنجی شعاعیں اس کے صندلیں جسم میں چکاچوند سی پیدا کر رہی تھیں۔ وہ ایک ایسا سنہری خواب معلوم ہو رہی تھی جو شروع رات کی ادھ پکی نیند میں دیکھا گیا ہو۔ پال بڑی مشکل سے نیلی سرج کے سوٹ میں ٹھسا ہوا تھا اور کئی بار کرسی پر پہلو بدل چکا تھا۔ وہ کولڈبیف کے ساتھ گرین کمل کے ہلکے گھونٹ چڑھا رہا تھا اور سگریٹ کے ساتھ سگریٹ سلگا رہا تھا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے یہ ڈنر اس نے اپنے اعزاز میں دیا ہو۔ ہمارے سروں پر ناشپاتی کی نازک ٹہنیاں اسی طرح سپید پھولوں سے لدی ہوئی تھیں۔
وہ بڑی پتلی چھمک سی تھی۔۔۔ شاہ بھی تھا، اس کے دوست بھی تھے۔ رشتہ داروں میں سے کچھ مرد بھی تھے۔ اس چھمک چھبیلی عورت نے اس کونے کی طرف دیکھتے ہوئے بھی ایک بار سلام کیا اور پھر دوسری طرف گاؤ تکیے سے ٹیک لگائے ٹھمکتی ہوئی بیٹھ گئی۔ بیٹھتے وقت اس کی کانچ کی چوڑیاں پھر کھنک اٹھیں۔ شاہنی نے ایک بار پھر اس کے بازوؤں کی طرف دیکھا۔ اس کی ہری کانچ کی چوڑیوں ک...
وہ تو ایک نہ بول سکنے والی بھیڑ تھی جسے زبردستی کھینچا جارہاہو۔ اس میں ترغیب تھی نہ دعوت، کوئی خیال نہ چکاچوند، ایک مری ہوئی خاموش، سرد اور جھلسی ہوئی نعش! وہ اپنے تصور سے کانپ گئی اور ساگر کے بازو کو پکڑ کر یوں رک گئی، جیسے چلتی ہوئی مشین میں سے کسی نے قوت کا تار کھینچ لیا ہو۔ اور ساگر نے اپنے گردوپیش اندھیرے کو گھورا، اور اس کے برف کی مانند سر، م...
گوری دادی سفید جھک چاندنی بچھے تخت پر سفید بے داغ کپڑوں میں ایک سنگ مرمر کا مقبرہ معلوم ہوتی تھیں۔ سفید ڈھیروں بال، بے خون کی سفید دھوئی ہوئی ململ جیسی جلد، ہلکی کرنجی آنکھیں جن پر سفیدی رینگ آئی تھی، پہلی نظر میں سفید لگتی تھیں۔ انہیں دیکھ کر آنکھیں چکاچوند ہو جاتی تھیں۔ جیسے بسی ہوئی چاندنی کا غبار ان کے گرد معلق ہو۔نہ جانے کب سے جئے جارہی تھیں۔ لوگ ان کی عمر سو سے اوپر بتاتے تھے۔ کھلی گم سم بے نور آنکھوں سے وہ اتنے سال کیا دیکھتی رہی تھیں۔ کیا سوچتی رہی تھیں کیسے جیتی رہی تھیں۔ بارہ تیرا برس کی عمر میں وہ میری اماں کے چچا دادا سے بیاہی تو گئی تھیں مگر انہوں نے دلہن کا گھونگٹ بھی نہ اٹھایا۔ کنوارپن کی ایک صدی انہوں نے انہی کھنڈروں میں بتائی تھیں۔ جتنی گوری بی سفید تھیں اتنے ہی ان کے دولہا سیاہ بھٹ تھے۔ اتنے کالے کہ ان کے آگے چراغ بجھے، گوری بی بجھ کر بھی دھواں دیتی رہیں۔
حسن کے جلوے ہم سب نے اپنی اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور اپنے اپنے حساب سے، لیکن ایک تخلیق کار جلوۂ حسن کو کن کن صورتوں میں دیکھتا ہے اور اس کے بارے میں کیسے کیسے انکشافات کرتا ہے کیا ہم اس سے واقف ہیں ؟ اگر نہیں تو یہ انتخاب آپ ہی کے لئے ہے ۔ اسے پڑھئے اور جلوؤں کی چکاچوند سے لطف اٹھائے ۔
شہر کی زندگی نئے اور ترقی یافتہ زمانے کا ایک خوبصورت عذاب ہے ۔ جس کی چکاچوند سے دھوکا کھاکر لوگ اس میں پھنس تو گئے لیکن ان کے ذہنی اورجذباتی رشتے آج بھی اپنے ماضی سے جڑے ہیں ۔ وہ اس بھرے پرے شہر میں پسری ہوئی تنہائی سے نالاں ہیں اور اس کی مشینی اخلاقیات سے شاکی ۔ یہ دکھ ہم سب کا دکھ ہے اس لئے اس شاعری کو ہم اپنے جذبات اور احساسات سے زیادہ قریب پائیں گے ۔
سادگی زندگی گزارنے کے عمل میں اختیار کیا جانے والا ایک رویہ ہے ۔ جس کے تحت انسان زندگی کے فطری پن کو باقی رکھتا ہے اور اس کی غیر ضروری آسائشوں، رونقوں اور چکاچوند کا شکار نہیں ہوتا ۔ شعری اظہارمیں سادگی کے اس تصور کے علاوہ اس کی اور بھی کئی جہتیں ہیں ۔ یہ سادگی محبوب کی ایک صفت کے طور پر بھی آئی ہے کہ محبوب بڑے سے بڑا ظلم بڑی معصومیت اور سادگی کے ساتھ کر جاتا ہے اور خود سے بھی اس کا ذرا احساس نہیں ہوتا ہے ۔ سادگی کے اور بھی کئی پہلو ہیں ۔ہمارے اس انتخاب میں پڑھئے ۔
चका-चौंदچکا چوند
dazzling, bright
اس پھلواری کے سرے پر لکڑی کا ایک بنچ رکھا تھا۔ اس پر بیٹھے تو نیچے وادی کاحسین مگر اداس اداس منظر دکھائی دیتا۔ جتنی دیر سورج غائب رہتا۔ ہلکی ہلکی نیلی دھند مکڑی کے جالے کی طرح اس منظر پر چھائی رہتی۔ اور ایسا نظر آتا جیسے پانی میں عکس دیکھ رہے ہوں جب سورج نکلتا۔ تو دھندایکا ایکی سنہری ہوکر اس مرقع کو اور بھی حسین بنادیتی۔ مگر چند ہی لمحوں کے بع...
گورکی کا کردار فی الحقیقت بہت حیرت افزا ہے، غریب گھرانے میں پیدا ہو کر وہ صرف تیس سال کی عمر میں روسی ادب پر چھا گیا۔ طبقہ ادنیٰ کا شاعر بیسویں صدی کا بائرن میکسم گورکی زندگی کی تاریک ترین گہرائیوں کے بطن سے، جو جرائم مصائب اور بدیوں کا مسکن ہے، پیدا ہوتا ہے۔ اس نے فقیروں کی طرح ہاتھ پھیلا پھیلا کر روٹی کے سوکھے ٹکڑے کے لئےالتجا نہ کی اور نہ جوہری ...
پھر وہ جمیلہ کے یہاں جائے گی۔ اس کے باہر نکلتے ہی سارے دیکھنے والے حیران رہ جائیں گے۔ راستے میں اسے طاہر، ایوب اور دیپ چند ملیں گے۔ ان کی یہ ہمت تو نہ ہوگی کہ اس سے کچھ بولیں، مگر وہ ہمیشہ سے زیادہ تیز نظروں سے اس کی طرف گھورنے لگیں گے، آنکھوں سے ایک دوسرے کی طرف اشارے کریں گے، اور ان میں سے ہر ایک اپنے کوٹ کا کالر کھینچ کھینچ کر اور خواہ مخواہ ان...
وہ اندلس کے ان اجڑتے ہوئے قصبوں سے آئے تھے جہاں تمام تر قابل کاشت اراضی کسی ڈیوک یا ڈچس کی ذاتی ملکیت ہوتی ہے۔ ان شخصی ریاستوں میں گناہ بھی وہی کرتے ہیں اور ان کا ثواب بھی لیتے ہیں۔ دہقان صرف زمین پر مشقت کرنے کا گناہ کرتے ہیں اور ظاہر ہے ایسے گناہ کا ثواب نہیں ہوتا۔ چنانچہ موسم گرما میں وہ ایک ٹڈی دل کی صورت اس شہر سمندر پر یلغار کر دیتے ہیں اور غ...
اور اس لمحہ مصر کے لوگوں نے روشنی سے چکاچوند میں چندھیائی ہوئی آنکھیں مل مل کر دیکھا تو وہاں نہ یوسف تھا اور نہ زلیخا تھی، بس ہر طرف روشنی ہی روشنی تھی۔
میں نے دروازہ کھولا۔ اندر کے ٹھنڈے اندھیرے کے بعد، باہر کی چکاچوند اور تپش پر میں حیران رہ گیا۔ دروازہ جس کا رنگ سلیٹی اور جالی مٹیالی تھی، اسپرنگوں کی ہلکی سی آواز سے بند ہو گیا۔ اس بند دروازے کے اندر ٹنکچر آیوڈین اور اسپرٹ کی بو تھی اور چمڑے منڈھے لمبے پنجوں اور پالش اتری کرسیوں پر لوگ بیٹھے اخبار اور رسالوں کے ورق بےدلی سے الٹتے تھے۔ مرد نوائے و...
زندگی میں پہلی بار باہر نکلنا ہوا تھا…. یہ دنیا ہی اور تھی، ہر وقت چکاچوند، گلیمر۔ مہینہ تو پتہ ہی نہیں چلا کیسے گزرا۔ جس دن انہوں نے واپس جانا تھا۔ بیٹے نے کھانے کی میز پر بیٹھتے ہوئے پوچھا…. ”ابو اب آپ کا اسٹی میٹ کیا ہے۔“اس نے سنجیدگی سے کہا…. ”دس کروڑ“
تیزی سے آتے جاتے بیرے باہر لان میں بیٹھے مہمانوں کی سروس کر رہے تھے۔ لان میں کرسیاں رسمی پھولوں کی طرح یہاں سے وہاں تک بکھری اب مدھم نظر آنے لگی تھیں۔ ان کرسیوں پر بیٹھے بہت سے لوگوں کو وہ پہچانتا تھا۔ بہت سے لوگ اس کو پہچانتے تھے۔ کئی ایک سے اس کی سلام دعا تھی۔وہ یہاں کا اتنا پرانا ممبر تھا کہ کسی کو بھی اس کے کاؤنٹر سائین پر بڑی سہولت سے نئے ممبر ٹرائل پرلے لیا جاتا تھا۔ اندر کی تیز روشنیوں کی چکاچوند میں باہر کے چمکدار ہلکے اندھیرے کی طرف کسی کی توجہ بھی نہیں جاتی۔
فرانسس کرک نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ کے اندر ایک خاص ’’علاقہ‘‘ بھی ہے جہاں خودمختاری کی نمود ہوتی ہے۔ ایک ایسا مقام جہاں انسان اچانک نتائج اخذ کرتا اور اپنے طورپر فیصلے کرتا ہے۔ یہ عمل علت ومعلول کے تابع ہے۔ لہٰذا جبریت (Determinism) کی صورت میں نہیں ہے۔ کیا یہی وہ مقام نہیں جہاں انسان کے ہاں تخلیقی زقند نمودار ہوتی ہے؟ یوں نظرآتا ...
مسکراہٹ بدستور میرے لبوں پر تھی۔میں نے پلکیں گراکر چکاچوند آنکھوں میں اندھیرا لانا چاہا مگر میری آنکھوں میں سورج اتر گئے تھے۔ میں نے پھر پلکیں اٹھالیں۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books