aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "उकताए"
عادت ہی بنا لی ہے تم نے تو منیرؔ اپنیجس شہر میں بھی رہنا اکتائے ہوئے رہنا
کیا ہند کا زنداں کانپ رہا ہے گونج رہی ہیں تکبیریںاکتائے ہیں شاید کچھ قیدی اور توڑ رہے ہیں زنجیریں
اگلے دن ہم صحن میں بیٹھے تھے۔ اس وقت بھائی جان اپنے کمرے میں پڑھ رہے تھے۔ بدو بھی کہیں ادھر ادھر کھیل رہا تھا۔ باجی حسبِ معمول بھائی جان کے کمرے میں چلی گئی، کہنے لگی، ’’آج ایک دھندناتا بورڈ کر کے دکھاؤں۔ کیا رائے ہے آپ کی؟‘‘ بھائی جان بولے، ’’واہ، یہاں سے کک لگاؤں تو جانے کہاں جا پڑو۔‘‘ غالباً انہوں نے باجی کی طرف زور سے پیر چلا یا ہو گا۔ وہ بناوٹ...
چودھری نے ٹوکا، ’’بکواس مت کرو جو واقعہ ہے، اسے بیان کرو۔‘‘پرکاش مسکرایا۔ ’’تو سنیے۔۔۔ پندرہ دن تک میرا دوست عشق کے زبردست حملے کے اثرات دور کرنے میں مصروف رہا اور سوچتا رہا کہ اسے جلدی واپس چلا جانا چاہیے۔ ان پندرہ دنوں میں اس نے کاغذ پنسل لے کر تو نہیں لیکن دماغ ہی دماغ میں اس لڑکی سے اپنی محبت کا کئی بار جائزہ لیا۔ لڑکی کے جسم کی ہر چیز اسے پسند تھی۔ لیکن یہ سوال درپیش تھا کہ اسے حاصل کیسے کیا جائے۔ کیا ایک دم بغیر کسی تعارف کے وہ اس سے باتیں کرنا شروع کردے؟ بالکل نہیں، یہ کیسے ہوسکتا تھا۔۔۔ کیوں، ہو کیسے نہیں سکتا۔۔۔ مگر فرض کرلیا جائے اس نے منہ پھیر لیا۔
उकताएँاکتائیں
get bored
उकताएاکتائے
got fed up
دل کے ایواں میں لیے گل شدہ شمعوں کی قطارنور خورشید سے سہمے ہوئے اکتائے ہوئے
لوگ یک رنگئ وحشت سے بھی اکتائے ہیںہم بیاباں سے یہی ایک خبر لائے ہیں
زندگی کی قدر سیکھی شکریہ تیغ ستمہاں ہمیں تھے کل تلک جینے سے اکتائے ہوئے
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں ...
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یا ربکیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
گردوپیش کی ہر چیز ٹھٹھری ہوئی تھی۔ سڑک کے دو رویہ پست قد مکان اور درخت دھندلی دھندلی روشنی میں سکڑے سکڑے دکھائی دے رہے تھے۔ بجلی کے کھمبے ایک دوسرے سے دور دور ہٹے، روٹھے اور اکتائے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ ساری فضا میں بدمزگی کی کیفیت تھی۔ ایک صرف تیز ہوا تھی جو اپنی موجودگی منوانے کی بیکار کوشش میں مصروف تھی۔جب دو سائیکل سوار نمودار ہوئے اور ہوا کے تیز و تند جھونکے ان کے کانوں سے ٹکرائے تو انھوں نے اپنے اپنے اوورکوٹ کا کالر اونچا کرلیا۔ دونوں خاموش تھے۔ مخالف ہوا کے باعث انھیں پیڈل چلانے میں کافی زور صرف کرنا پڑرہا تھا۔مگر وہ اس کے احساس سے غافل ایک دوسرے کا سایہ بنے شالامار باغ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اگر کوئی انھیں دور سے دیکھتا تو اسے ایسا معلوم ہوا کہ سڑک جو لوہے کی زنگ آلود چادر کی طرح پھیلی ہوئی تھی، ان کی سائیکلوں کے ساکت پہیوں کے نیچے ہولے ہوئے کھسک رہی ہے۔
یوں جو اسکول سے اکتائے ہوئے رہتے ہوبیٹا
تمہیں تو قبر کی مٹی بھی اب پکارتی ہےیہاں کے لوگ بھی اکتائے ہیں چلے جاؤ
عمر کی ڈھلتی ہوئی دوپہر میںٹھنڈی ہوا کے جھونکے کا احساس بھی
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books