aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "बुग़्ज़"
برج ادب
ناشر
مٹیابرج ہندوستانی لائبریری، کولکاتہ
عطیہ کار
گھر لوٹ لے بغض و حسد و کذب و ریا کا سرکاٹ لے حرص و طمع و مکر و دغا کا
یہ چاروں طرف سے ندا آ رہی ہے کہ کل کون تھے آج کیا ہوگئے تم
بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِثانی ہواکرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ۔ آنکھیں، ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے، کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کوئی چیز آتی اور انھیں نہ مل...
میں بغض نفرت حسد محبت کے ساتھ رکھوںنہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
پرنسپل نے بڑی شفقت سے کہا، ’’رک کیوں گئی ہو۔۔۔ جو کچھ تم اس سے کہنا چاہتی ہو، مجھ سے کہہ دو۔‘‘’’جی۔۔۔ بس صرف اتنا کہ اگر اس کے قدم مضبوط نہ رہے تو میں خود کشی کرلوں گی۔۔۔ عورت زندگی میں۔۔۔ صرف ایک ہی مرد سے محبت کرتی ہے۔‘‘
شاعری میں کوئی بھی لفظ کسی ایک معنی، کسی ایک رنگ، کسی ایک صورت ، کسی ایک ذہنی اور جذباتی رویے تک محدود نہیں رہتا ہے ۔ ساحل کو موضوع بنانے والے اس شعری بیانیے میں آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ساحل پر ہونا سمندر کی سفاکیوں سے نکلنے کے بعد کامیابی کا استعارہ بھی ہے ساتھ ہی بزدلی ،کم ہمتی اور نامرادی کی علامت بھی ۔ ساحل کی اور بھی کئی متضاد معنیاتی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ ساحل کے ان مختلف رنگوں سے گزریں گے ۔
बुग़्ज़بغض
malice, spite, hatred
वह बैर जो मन ही मन में बढ़ाया , जाय, और प्रकट न किया जाय, द्वेष, कीनः।।
’’قصہ تو آپ میرا تمام کر کے رہیں گے۔‘‘’’کس لیے؟ مجھے تم سے کیا بغض ہے؟ اللہ کے واسطے کا بیر تو نہیں مجھ سے؟‘‘
’’اری نگوڑی خبر بھی ہے یہ تیری بہو قطامہ کیا گل کھلا رہی ہے؟‘‘مہترانی نے ایسے چندھرا کر دیکھا جیسے کچھ نہیں سمجھتی غریب۔ کہ کس کا ذکر ہو رہاہے اور جب اسے صاف صاف بتایا گیا کہ چشم دیدہ گواہوں کا کہنا ہے کہ بہو اور رتی رام کے تعلقات نازیبا حد تک خراب ہو چکے ہیں، دونوں بہت ہی قابل اعتراض حالتوں میں پکڑے گئے ہیں تو اس پر بڑھیا بجائے اپنی بہتری چاہنے والوں کا شکریہ ادا کرنے کے، بہت چراغ پا ہوئی۔ بڑا واویلا مچانے لگی۔ کہ ’’رام اوتروا ہوتا تو ان لوگوں کی خبر لیتا جو اس کی معصوم بہو پر تہمت لگاتے ہیں۔ بہو نگوڑی تو اب چپ چاپ رام اوتار کی یاد میں آنسو بہایا کرتی ہے۔ کام کاج بھی جان توڑ کرتی ہے۔کسی کو شکایت نہیں ہوتی۔ ٹھٹول بھی نہیں کرتی۔ لوگ اس کے ناحق دشمن ہو گئے ہیں۔ بہت سمجھایا مگر وہ ماتم کرنے لگی کہ ساری دنیا اس کی جان کی لاگوں ہو گئی ہے۔ آخر بڑھیا اور اس کی معصوم بہو نے لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔ وہ تو کسی کے لینے میں، نہ دینے میں، وہ تو سب کی راز دار ہے۔ آج تک اس نے کسی کا بھانڈا پھوڑا، اسے کیا ضرورت جو کسی کے پھےک میں پیر اڑاتی پھرے۔ کوٹھیوں کے پچھواڑے کیا نہیں ہوتا۔ مہترانی سے کسی کا میلا نہیں چھپتا۔ ان بوڑھے ہاتھوں نے بڑے بڑے لوگوں کے گناہ دفن کئے ہیں۔ یہ دو ہاتھ چاہیں تو رانیوں کے تخت الٹ دیں۔ پر نہیں اسے کسی سے بغض نہیں۔ اگر اس کی گلے میں چھری دبائی گئی تو شاید غلطی ہو جائے۔ ویسے وہ کسی کے راز اپنے بوڑھے کلیجے سے باہر نہیں نکلنے دے گی۔‘‘
نکال پھینکو دلوں سے بتان بغض و عنادنہیں تو حلقۂ اسلام سے نکل جاؤ
جلنے دو ان کو اور انہیں دیکھتے رہوان منکروں کو بغض ولایت نہ مار دے
اتنا کیوں بغض ہے ستاروں سےہاتھ بس چاند سے ملاتے ہو
گونڈہ کے ایک مشاعرہ میں جگر مرادآبادی کے ساتھ اسٹیج پر اور بہت سے شاعر بیٹھے ہوئے تھے۔ جگرؔ صاحب کے نئے مجموعے ’’شعلۂ طور‘‘ کا موازنہ ان کے پہلے مجموعہ ’’آتش گل‘‘ سے کیا جارہا تھا۔ ایک مقامی شاعر جو جگرؔ صاحب سے بغض رکھتے تھے اس ذکر سے کافی پریشان تھے۔ جب ان کے پڑھنے کا وقت آیا تو اتفاق سے ان کے سامنے لٹکا ہوا گیس بھبھک گیا اور اس میں سے سرخ رنگ کی...
بغض بھی سینے میں رکھتا ہوں امانت کی طرحنفرتیں کرنے پہ آ جاؤں تو حد کرتا ہوں میں
بغض معاویہ میں سبھی ایک ہو گئےاس اتحاد نے مجھے نازی بنا دیا
دل ہی دل میں وہ بغض رکھتا ہےجو بظاہر خفا نہیں مجھ سے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books