aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "سرخیل_مسیحا_نفساں"
شکر ایزد کہ وہ سرخیل مسیحا نفساںزلف بر دوش پئے پرسش بیمار آیا
کربلا میں اثر باغ جناں آج بھی ہےبوے انفاس مسیحا نفساں آج بھی ہے
یاد جن کی ہمیں جینے بھی نہ دے گی راہیؔدشمن جاں وہ مسیحا نفساں کیسے ہیں
آج کل اپنے مسیحا نفساں کیسے ہیںآندھیاں تو یہ سنا ہے کہ ادھر بھی آئیں
دوستو موت سے اپنی یہ مثالی پیکارباعث رشک مسیحا نفساں ٹھہرے گی
گل و نسریں کے تصور سے مری سانسوں میںنکہت زلف مسیحا نفساں باقی ہے
احسان لیے کتنے مسیحا نفسوں کےکیا کیجیے دل کا نہ جلا ہے نہ بجھا ہے
جس سے اخترؔ ہو مرے درد محبت کا علاجکیا مسیحا نفسوں کو وہ دوا یاد نہیں
ہم بھی زندہ تھے مسیحا نفسوں کے ہوتےسچ تو یہ ہے کہ وہی وقت تھا مر جانے کا
ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کو محابا
میر کے بارے میں یہ غلط فہمی، کہ وہ خالص زبان یا روز مرہ کے شاعر ہیں، کئی وجہوں سے عام ہوئی۔ اول تو یہ کہ میراور ان کے بعض معاصروں میں ایک طرح کی سطحی اور لازمی مماثلت تو ہے ہی، کیوں کہ بہر حال ان سب شعرا کی بنیادی زبان مشترک تھی۔ دوسری بات یہ کہ میر کے بارے میں اس طرح کے واقعات مشہور ہوئے کہ انہوں نے کہا، میں وہ زبان لکھتا ہوں جس کی سند جامع مسجد کی سیڑھیوں پرملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ محاورے اور تلفظ وغیرہ کی حد تک تو اس بیان پر اعتماد کرنا چاہیے، لیکن شعری زبان کے جوہر پر اس کا اطلاق غیرتنقیدی کارروائی ہے اور میر کی روح سے بے خبری کاپتہ دیتا ہے۔ پھر یہ کوئی ضروری نہیں کہ شاعر کو شعوری طور پر معلوم ہو کہ وہ کیا کررہا ہے، یا اگر معلوم بھی ہوتو وہ اس کا اظہار کرسکے یا کرناچاہے۔ علاوہ بریں، اپنی شاعری کے بارے میں شاعر کے بیانات کو اسی وقت معتبر جاننا چاہیے جب ان کی پشت پناہی اس کے کلام سے ہوسکتی ہو۔ لہٰذا میر عام معنی میں روز مرہ کے شاعر نہیں ہیں۔ انہوں نے روز مرہ کی زبان پر مبنی شاعری لکھی ہے۔ یہ عظیم کارنامہ ان سے یوں انجام پایا کہ انہوں نے کئی طرح کے لسانی اور شاعرانہ وسائل استعمال کیے، اور اس ترکیب وتناسب سے، کہ ان کا مجموعہ اپنی بہترین صورت میں اپنی طرح کا بہترین شاعرانہ اظہار بن گیا۔ اس ترکیب وتناسب کا پتہ لگانا مشکل بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔ غیرضروری اس لیے کہ وہ قواعدی (Normatuve) نہیں ہوسکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو شاعری کا کھیل ہم سب میر ہی کی طرح کھیل لیتے۔ لیکن ان لسانی اور شاعرانہ وسائل کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ (۱) میر نے استعارہ اور کنایہ بکثرت استعمال کیا۔ آئی۔ اے۔ رچرڈس (I.A. Richards) نے بہت خوب لکھا ہے کہ جذبات کے نازک اور باریک پہلوؤں کا جب اظہار ہوگا تو استعارے کے بغیر نہ ہوگا۔ کلینتھ بروکس (Cleanth Brooks) اس پررائے زنی کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ شاعر کو مشابہتوں کاسہارا لازم ہے، لیکن سب استعارے ایک ہی سطح پر نہیں ہوتے، نہ ہی ہر استعارہ ایک دوسرے کے ساتھ صفائی سے چپک سکتا ہے۔ استعاروں کی سطحیں آگے پیچھے اوپر نیچے ہوتی رہتی ہیں اور تناقضات بلکہ تضادات کو راہ دیتی ہیں۔ استعاروں کے اس عمل کو کلینتھ بروکس (Cleanth Brooks) مستحسن قرار دیتاہے اور اسے قول محال اور طنز کا نام دیتا ہے۔ اپنی بعض تحریروں میں بروکس اس خیال کو بہت آگے لے گیاہے، یہاں تک کہ اس نے گرے (Gray) کی نظم (جس کا ترجمہ ہمارے یہاں ’’شام غریباں‘‘ کے نام سے نظم طباطبائی نے کیا) میں بھی طنز کی کارفرمائی دیکھ لی ہے۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بنیادی طور پر کلینتھ بروکس کا خیال بالکل درست ہے۔ میر کے استعاروں میں طنز اور قول محال کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ مغربی تنقید کنایہ کی اصطلاح سے بے خبر ہے، لیکن کنایہ بھی استعارے کی ایک شق ہے۔ کیوں کہ کنایہ کی تعریف یہ ہے کہ کسی معنی کو براہ راست ادا نہ کیاجائے، لیکن کوئی ایسا فقرہ یا لفظ کلام میں ہو جس سے اس معنی پر دلالت ہوسکے۔ والٹراونگ (Walter Ong) کا خیال ہے کہ سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں انگریزی شاعری کوریمس (Ramus) کے اس نظریے سے بہت نقصان پہنچا کہ استعارہ محض تزئینی چیز ہے، شاعری کا جوہر نہیں ہے۔ یہ صحیح ہے کہ استعارے کے بارے میں بعض باریک بینیاں، جو جدید مغربی مفکروں کو ہاتھ آئی ہیں، ہمارے قدیم نقادوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ لیکن ہمارے یہاں یہ خیال شروع ہی سے عام رہا ہے کہ استعارہ شاعری کا جوہر ہے۔ اسی لیے استعارے کو صنعتوں کی فہرست میں نہیں رکھا گیا، بلکہ اس کا مطالعہ علم بیان کی ضمن میں کیا گیا، کہ استعارہ وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ ہم ایک ہی معنی کو کئی طریقے سے بیان کرسکتے ہیں۔ میر کا زمانہ آتے آتے استعارے کی حیثیت مضمون کے تصور میں اس طرح ضم ہو گئی تھی کہ اس کا الگ سے ذکر بہت کم ہوتا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ استعارہ ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ارسطو نے یونہی نہیں کہاتھا کہ، ’’استعارے پر قدرت ہونا سب صلاحیتوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ نابغہ کی علامت ہے، کیوں کہ استعاروں کو خوبی سے استعمال کرنے کی لیاقت مشابہتوں کو محسوس کرلینے کی قوت پر دلالت کرتی ہے۔‘‘ (۲) استعارہ فی نفسہٖ معنوی امکانات سے پر ہوتا ہے۔ لیکن وہ استعارے جو کثرت استعمال کی بناپر محاورہ یا عام زبان کا حصہ ہوجاتے ہیں، ان کے معنوی امکانات ہمارے لیے بے کار ہوجاتے ہیں، کیوں کہ اکثر کو صرف ایک ہی دومعنوی امکانات کے لیے استعمال کیا جاتاہے، اورباقی امکانات معطل یا غیر کارگر رہتے ہیں۔ زبان چونکہ ایسے استعاروں سے بھری پڑی ہے، اس لیے شاعر نئے استعارے تلاش کرتاہے اور نئے پرانے دونوں طرح کے استعاروں کو مزید زور بھی دیتا ہے۔ میر نے یہ عمل مناسبت کے ذریعہ انجام دیا۔ مناسبت الفاظ، یعنی الفاظ میں باہم مناسبت ہونا، یا الفاظ اور معنی اور مضمون میں مناسبت ہونا، رعایت لفظی سے پیدا ہوتی ہے، یا رعایت معنوی سے۔ رعایت معنوی اکثر براہ راست استعارہ ہوتی ہے۔ رعایت لفظی استعارے کا التباس پیدا کرتی ہے۔ (ملحوظ رہے کہ استعارے کا بنیادی عمل مشابہتوں کی دریافت ہے۔) (۳) رعایت چوں کہ تلازمہ ٔ خیال سے پیدا ہوتی ہے اس لیے جب وہ خالص استعارہ یا تشبیہ یا محاورے یا ضرب المثل کے ساتھ آتی ہے تو دوہرا استعارہ قائم ہوتا ہے۔ کیوں کہ تشبیہ بھی استعارے کی طرف اشارہ کرتی ہے، محاورہ تو اصلاً استعارہ ہوتاہی ہے، اور ضرب المثل میں نئے معنوی امکانات بھی از خود پیدا ہوتے ہیں۔ (۴) میر نے رعایت کو اکثر اس طرح بھی برتا ہے کہ اس کی وجہ سے شعر میں قول محال یا طنز یعنی (Irony) کی جہت بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ (۵) مناسبت پیدا کرنے کی خاطر میر نے رعایت کو کبھی کبھی یک سطحی انداز میں بھی برتاہے، کہ شعر میں کوئی ندرت تو پیدا ہوجائے۔ میر کے یہاں مناسبت کا التزام اس کثرت سے ہے کہ وہ غالب اور میر انیس کے ساتھ اردو میں رعایتوں کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ میر کی رعایتیں مختلف صنائع لفظی ومعنوی کااحاطہ کرتی ہیں۔ مناسبت کی کثرت نے میر کی زبان کو بے اتنہا چونچال، پرلطف، کثیر الاظہار، تازہ کار اور تہ دار بنادیاہے۔ میر کے کسی معاصر کو یہ امتیاز نصیب نہیں۔ اوپر کی گفتگو میں جن نظریاتی مباحث اور اصولوں کی طرف اشارہ ہے، ان کا عملی ادراک میر اور ان کے معاصرین کو ضرور رہا ہوگا۔ لیکن ہمارے زمانے میں مباحث اور اصول بڑی حد تک بھلا دیے گئے ہیں۔ اس فروگذاشت سے نقصان میر کا نہیں ہوا، بلکہ ہمارا ہوا۔ کیوں کہ ہم میر کی تحسین وتعین قدر کے بعض اہم ترین پہلوؤں سے بے بہرہ رہ گئے۔ میں نے شرح میں جابجا ان مناسبتوں اور رعایتوں کی تشریح کی ہے جن سے میر کا کلام جگمگارہا ہے۔ یہاں محض نمونے کے طور پر ایک دومثالیں پیش کرتا ہوں۔ اشعار کی تشریح نہ کروں گا، صرف استعارے اور مناسبت لفظی کے تعامل (Interaction) کے نتیجے میں ان اصولوں کی کارفرمائی دکھاؤں گا جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔ ملحوظ رہے کہ یہ غزل بڑی حد تک اس اسلوب کا نمونہ ہے جسے ہم لاعلمی کی بنا پر روز مرہ کا اسلوب کہتے ہیں۔ یہ زبان اس حد تک تو روز مرہ ہے کہ اس میں تصورات نہیں ہیں، لیکن اگر یہ محض روز مرہ ہوتی تو اس میں شاعری بہت کم ہوتی، اظہار خیال زیادہ ہوتا۔ یہ زبان شاعری کی زبان اس لیے بن گئی ہے کہ میر نے ان اصولوں پر عمل کیا ہے جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔ دیوان سوم کی غزل ہے، میں چند اشعار پیش کرتاہوں، دست ودامن جیب وآغوش اپنے اس لائق نہ تھے پھول میں اس باغ خوبی سے جو لوں تولوں کہاں دوسرے مصرعے میں معمولی سا استعارہ ہے۔ دنیا کو ’’باغ خوبی‘‘ کہا ہے اور معشوقوں یا حسینوں کو ’’پھول‘‘، لیکن ’’خوب‘‘ کے معنی’’معشوق‘‘ بھی ہوتے ہیں، اس لیے ’’باغ خوبی‘‘دنیا کے بجائے کسی محفل یا جگہ کا استعارہ بھی بن جاتا ہے۔ چوں کہ معشوق کے جسم کو بھی ’’باغ‘‘ کہتے ہیں اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کو’’گل حسن‘‘ یا’’پھول‘‘ کہا جاتاہے۔ اس لیے ’’باغ خوبی‘‘ محض معشوق کا استعارہ بھی بن جاتاہے۔ اب’’پھول‘‘ کے معنی ’’معشوق‘‘ نہیں بلکہ معشوق کے جسم کا کوئی حصہ، یا اس کے جسم کے کسی حصے کا بوسہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ’’باغ خوبی‘‘ اور ’’پھول‘‘ ایک معمولی استعارہ نہیں، بلکہ ایک پیچیدہ استعارہ بن جاتے ہیں جوایک شخص، ایک محفل اور ایک عالم کے مفہوم کو محیط ہیں۔ پہلے مصرعے میں ’’پھول‘‘ کی مناسبت سے ’’دست ودامن جیب وآغوش‘‘ کہا ہے، کیوں کہ پھول رکھنے کی یہی جگہیں ہوتی ہیں۔ دست اور دامن میں مناسبت ظاہر ہے کہ دامن کو ہاتھوں سے پکڑتے ہیں۔ اسی طرح جیب وآغوش میں بھی مناسبت ظاہر ہے، کیونکہ گریبان سینے پر ہوتا ہے، اور آغوش میں لینے کے معنی ہیں، ’’سینے سے لگاکر بھینچنا‘‘ پھر دست اور آغوش میں بھی مناسبت ہے، کیوں کہ آغوش میں لیتے وقت ہاتھوں کو کام میں لاتے ہیں۔ لہٰذا یہ جگہیں جو پھول رکھنے کے لیے مناسب ہیں، یوں ہی نہیں جمع کردی گئی ہیں۔ ان میں آپس میں بھی مناسبت ہے۔ اب استعارہ دیکھیے۔ ’’دست ودامن جیب وآغوش‘‘ متکلم کی صلاحیت کا استعارہ ہے۔ یہ صلاحیت روحانی بھی ہوسکتی ہے، اخلاقی بھی، اور جسمانی بھی۔ دست اور آغوش کاتعلق براہ راست جسم سے ہے، اس لیے شعر میں جنسی تلازمہ قائم ہوتا ہے اور دوسرے مصرعے کا’’باغ خوبی‘‘ اس دنیا کا استعارہ نظر آتاہے جس میں معشوق بھرے پڑے ہیں اور’’پھول‘‘ معشوق کا استعارہ نظر آتاہے۔ یا ’’باغ خوبی‘‘ معشوق کاجسم اور پھول اس کے جسم کا حصہ یا جسم کے حصے سے لمس یا بغل گیری کا استعارہ دکھائی دیتا ہے۔ لہٰذا دونوں مصرعوں میں جنسی مناسبت مستحکم ہوجاتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ’’باغ خوبی‘‘ سے مراد روحانی تجربات یا معرفت ہو، اور پھول سے مراد معرفت کا پھول ہو۔ دامن اور جیب کے الفاظ ان معنی سے متغائر نہیں ہیں۔ کیونکہ بنیادی لفظ ’’پھول‘‘ ہے، جو بظاہر ’’باغ خوبی‘‘ سے بھی کم پر زور ہے۔ لیکن یہ بنیادی لفظ اس لیے ہے کہ پہلا مصرع تمام وکمال اس کی مناسبت سے کہاگیا ہے۔ اس مناسبت کا ایک فائدہ اور ہواکہ پہلے مصرعے میں ٹھوس اور مرئی چیزوں کا ذکر ہے، یعنی ’’دست ودامن جیب وآغوش‘‘ اس وجہ سے جنسی تلازمہ مستحکم ہواہی ہے، شعر میں تجرید کی جگہ تجسیم آگئی ہے۔ اگر مناسبت کا خیال نہ ہوتا تو دل، جان، روح وغیرہ قسم کے الفاظ رکھ سکتے تھے، پھر شعر تجریدی ہوجاتا اور ہاتھ، دامن، آغوش میں بھر لینے کے انسانی اور فوری عمل کی گنجائش نہ رہتی۔ اس وقت انسانی اور فوری تاثر کی بنا پر شعر میں شوق کی تعجیل (Urgency) اور وفور اشتیاق (eagerness) بہت خوبی سے آگئی ہے۔ اگر آنکھ وغیرہ قسم کالفظ رکھتے تو لمس کے جنسی تلازمے سے ہاتھ دھونا پڑتا۔ اب لفظ ’’کہاں‘‘ پر غور کیجئے۔ یہ دو معنی رکھتاہے۔ ’’کہاں‘‘ بمعنی’’کس جگہ‘‘ یعنی ہاتھ، جیب، دامن، آغوش جو جگہیں مناسب تھیں وہ تو اس لائق نہ نکلیں، اب میں ان پھولوں کو کس جگہ لوں۔ ’’کہاں‘‘ کے دوسرے معنی استفہام انکاری کے ہیں، کہ میں پھول کو نہیں لے سکتا۔ اب’’پھول‘‘ کے ابہام کا ایک اور پہلو دیکھئے۔ کئی جگہوں کا ذکر کرنے سے یہ امکان پیدا ہوتاہے کہ ’’پھول‘‘ صیغۂ واحد میں نہیں، بلکہ صیغۂ جمع میں ہے۔ یعنی متکلم بہت سے پھولوں کاخواہاں ہے اور ایک کو بھی حاصل کرنے کا اہل نہیں ہے، سیر کی رنگیں بیاض باغ کی ہم نے بہت سر کا مصرع کہاں وہ قامت موزوں کہاں سردوکو قامت یار سے تشبیہ دیتے ہیں۔ چونکہ قامت یار کو ’’موزوں‘‘ بھی کہتے ہیں اور مصرع بھی’’موزوں‘‘ کہلاتا ہے، اس لیے سرو کے لیے ’’مصرع‘‘ کا استعارہ رکھاہے، جو بہت نادر نہیں لیکن دلچسپ ہے۔ اب یہاں سے مناسبت کا کھیل شروع ہوتاہے۔ سرو چوں کہ مصرع ہے اور سردوباغ میں ہوتاہے، اس لیے باغ کو’’بیاض‘‘ کہا۔ دوسری بات یہ کہ باغ سے گلدستہ بناتے ہیں اور اشعار کے مجموعے کو بھی گلدستہ کہتے ہیں اور گلدستے کو بیاض سے وہی نسبت ہے جو پھول کو باغ سے۔ لہٰذا ’’بیاض‘‘ اور’’باغ‘‘ میں مناسبت اورمستحکم ہوگئی۔ اور چوں کہ مصرعے کی ایک صفت ’’رنگین‘‘ بھی ہوتی ہے، اور باغ بھی رنگوں سے بھراہوتا ہے، اس لیے باغ کو ’’رنگین بیاض‘‘ کہا، م کیوں کہ یہ مناسبت دونوں طرف جاتی ہے۔ لیکن ’’بیاض‘‘ کے معنی ’’سفیدی‘‘ بھی ہوتے ہیں۔ اس طرح’’رنگین بیاض‘‘ میں قول محال پیدا ہوگیا۔ (یعنی رنگین سفیدی) اور آگے دیکھیے۔ ’’باغ‘‘ کی مناسبت سے ’’سیر‘‘ ہے، جو سامنے کے مناسبت ہے۔ لیکن سردوکو پابہ زنجیر کہتے ہیں، اس لیے پابہ زنجیر کو دیکھنے کے لیے سیرکرنے جانا میں ایک لطیف طنزیہ تناؤ بھی ہے۔ ’’میر‘‘ اور’’سرو‘‘ ایک ہی خاندان کے لفظ معلوم ہوتے ہیں، حالانکہ ایسا ہے نہیں۔ لیکن اس شبہے کی بنا پر سرو کی سیر کرنے میں ایک نیا لطف محسوس ہوتاہے۔ مناسبت کا لحاظ نہ ہوتا تو سیر کی جگہ کوئی اور لفظ ’’گشت‘‘ رکھ دیتے تو کوئی ہرج نہ محسوس ہوتا۔ پھر، معشوق کو ’’سرورداں‘‘ بھی کہتے ہیں، اس طرح ’’سیر‘‘ اور معشوق کے ’’قامت موزوں‘‘ میں بھی ایک مناسبت پیداہوگئی۔ ’’سیر‘‘ اور’’کہاں‘‘ میں مناسبت ظاہر ہے، باؤ کے گھوڑے پہ تھے اس باغ کے ساکن سوار اب کہاں فرہاد وشیریں خسرو گلگوں کہاں ’’باؤ کے گھوڑے پر سوار ہونا‘‘ کے معنی ہیں ’’بہت مغرور ہونا۔‘‘ میر نے محاورے کو دوبارہ استعارہ بنادیاہے، کیوں کہ اس شعر میں اس محاورے کے معنی یہ بھی ہیں کہ اس باغ کے رہنے والے بہت جلد ی میں تھے۔ ’’ساکن‘‘ کے معنی ہیں ’’رہنے والا۔‘‘ لیکن’’ٹھہرے ہوئے‘‘ کو بھی ’’ساکن‘‘ کہتے ہیں۔ اس طرح ’’ساکن‘‘ اور’’سوار‘‘ کے الفاظ خاص کر وہ سوارجو ہوا کے گھوڑے پر سوار ہو، قول محال کالطف پیدا کررہے ہیں (ساکن سوار۔) ’’ساکن‘‘ بمعنی ’’رہنے والا‘‘ میں ایک طنزیہ تناؤ بھی ہے کیونکہ اگر وہ لوگ ’’رہنے والے‘‘ (بمعنی ’’ٹھہرنے والے‘‘، ’’قائم رہنے والے‘‘) تھے، تو پھر اتنی جلدی غائب کیسے ہوگئے؟ طنزیہ تناؤ کی ایک جہت یہ بھی ہے کہ وہ لوگ تھے تو رہنے والے، لیکن عجیب رہنے والے تھے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے۔ فرہاد، شیریں، خسرومیں مناسبت ظاہر ہے۔ لیکن گھوڑے، شیریں اور گلگوں میں بھی مناسبت ہے۔ کیوں کہ شیریں کے گھوڑے کا نام ’’گلگوں‘‘ تھا۔ باغ اور گلگوں کی مناسبت ظاہر ہے، خسرو او ر گلگوں میں بھی مناسبت ہے، کیوں کہ بادشاہ کے ہاتھ اکثر پھول دکھایا جاتاہے جو تری وشادابی اور لطافت کی علامت ہے۔ بادشاہ کے چہرے پر عزت اور وقار کی سرخی بھی ہوتی ہے۔ لہٰذا ’’گلگوں‘‘ یوں بھی مناسب ہے۔ لیکن فرہاد وشیریں کو ایک طرف اور خسرو کو ایک طرف رکھنے میں بھی ایک طنزیہ جہت ہے۔ ’’اب کہاں فرہاد وشیریں؟‘‘ یعنی فرہاد وشیریں جہاں بھی ہیں، ایک ساتھ ہیں۔ ’’خسرو گلگوں کہاں؟‘‘ یعنی خسرو ان سے الگ ہے۔ ’’فرہاد وشیریں‘‘ کو ایک نحوی اکائی اور ’’خسرو گلگوں‘‘ کو دوسری نحوی اکائی کے طورپرباندھنے کی وجہ سے معنی کی یہ نئی شکل پیدا ہوگئی۔ ان مختصر مثالوں سے یہ بات واضح ہوگئی ہوگی کہ میر کی کثیر المعنویت اور تہ داری اور زبان کا نیا پن استعارے اور رعایت کے بغیر ممکن نہ ہوتا۔ اورخالی خولی روزمرہ میں ان صفات کا گزر نہیں۔ میر کے اسلوب کو سادی اور سریع الفہم کہنا اور ان کے ابہام، ان کی پیچیدگی، کثیر المعنویت اور غیر معمولی زور بیان کو نظر انداز کرنا، نہ صرف میر بلکہ تمام اردو شاعری کے ساتھ بڑی زیادتی ہے۔ جو شعر میں نے اوپر درج کیے ان میں کوئی چیزایسی نہیں جس کو مضمون کے لحاظ سے غیر معمولی کہا جائے۔ میر کی ساری آفاقیت اسی میں ہے کہ وہ عام باتوں کو بھی انکشاف کا درجہ بخش دیتے ہیں، اور یہ ان کے اسلوب کا کرشمہ ہے۔ میر کی کائناتی الم ناکی اورزندگی کے دردوغم میں غوطہ لگانے اور انسانی عظمت اور شش جہت کے اسرار کا سراغ لگانے کی تعریف میں صفحے کے صفحے سیاہ کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بات گہری ہو یا ہلکی، اسے شاعری بننے کی لیے کچھ شرطیں درکارہوتی ہیں۔ فلسفیانہ مضامین میں تھوڑابہت زور تو میاں فانی بھی پیدا کرلیتے ہیں۔ بڑا شاعر وہ ہے جو معمولی حقیقتوں کو بھی اس طرح پیش کرے کہ ایک حقیقت کے چار چار پہلوبیک وقت نظر آئیں اور شعر کے الفاظ آپس میں اس طرح گتھے ہوئے ہوں جہ جیسے ان میں برقی مقناطیسی (electromagnetic) قائم ہوگیاہو۔ استعارہ اور مناسبت کے اصولوں کی اس مختصر وضاحت کے بعد میں میر کی زبان کی بعض دوسری خصوصیات کی طرف مراجعت کرتا ہوں۔ (۶) میر نے فارسی کے نادر الفاظ اور فقرے اور نسبتاً کم مانوس الفاظ او رفقرے بکثرت استعمال کیے ہیں۔ انہوں نے عربی کے غریب الاستعمال الفاظ اور تراکیب، اور عربی کے ایسے الفاظ جو غزل میں شاذ ہی دکھائی دیتے ہیں، وہ بھی خوب استعمال کیے ہیں۔ عربی الفاظ وتراکیب کے استعمال کا یہ فن غالب بھی ٹھیک سے نہ برت سکے۔ میر کا عالم یہ ہے کہ ان کی کم غزلیں ایسی ہوں گی جن میں کم سے کم ایک نادر فقرہ یا لفظ یا اصطلاح اور چھ سات نسبتاً کم مانوس الفاظ یا فقرے نہ استعمال ہوئے ہوں۔ عربی کے فقرے اور تراکیب اقبال کے بعد میر کے یہاں سب شاعروں سے زیادہ نکلیں گے۔ ذوق اور مومن کو بھی عربی سے شغف تھا، خاص کر ذوق نے قرآن وحدیث سے خاصا استفادہ کیا ہے۔ ان دونوں کی عربیت (شاعری میں استعمال کی حدتک) غالب سے زیادہ، لیکن میر سے کم تھی۔ میر کے کلام میں روانی اس قدر ہے کہ کوئی لفظ یا فقرہ بے جگہ نہیں معلوم ہوتا۔ یہ خاصیت ذوق میں بھی ہے، لیکن میر کے یہاں عربی اس طرح کھپ گئی ہے کہ اکثر لوگوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ میں چند مثالیں ادھر اُدھر سے نقل کرتاہوں، ایسا موتیٰ ہے زندۂ جاوید رفتۂ یار تھا تب آئی ہے (دیوان دوم) ’’موتیٰ‘‘ بمعنی ’’مرنے والا‘‘ یہ لفظ اس قدر نادر ہے کہ اچھے اچھوں نے اس کو ’’موتی‘‘ پڑھاہے۔ کچھ کم ہے ہولنا کی صحراے عاشقی کی شیروں کو اس جگہ پر ہوتا ہے قشعر یرہ (دیوان دوم) ’’قشعریرہ‘‘ میر کو اتنا پسند تھا (اور یہ لفظ ہے بھی غضب کا) کہ اسے دیوان دوم میں ایک بار اور پھر ’’شکارنامۂ دوم‘‘ میں بھی استعمال کیا ہے۔ وصل کی دولت گئی ہوں تنگ فقر ہجر میں یا الٰہی فضل کر یہ حور بعد الکور ہے (دیوان پنجم) ’’حو ر بعد الکور‘‘ بمعنی زیادتی کے بعد کمی۔ اس کاجواب بھی میر کے پاس ہے، کیوں کر تو میری آنکھ سے ہودل تلک گیا بہ بحر موج خیر تو عسر العبور تھا (دیوان اول) سر شک سرخ کو جاتاہوں جو پئے ہر دم لہو کاپیاسا علی الاتصال اپنا ہوں (دیوان اول) منعم کا گھر تمادی ایام میں بنا سو آپ ایک رات ہی واں میہماں رہا (دیوان ششم) شیخ ہو دشمن زن رقاص کیوں نہ القاص لایحب القاص (دیوان اول) شرم آتی ہے پونچتے اودھر خط ہوا شوق سے ترسل سا (دیوان دوم) ’’ترسل‘‘ کے معنی عام لغات میں نہیں ملتے۔ مندرجہ ذیل الفاظ عام طور پر غزل کے باہر سمجھے جاتے ہیں، (انتفاع) کچھ ضرر عائد ہوا میری ہی اور ورنہ اس سے سب کو پہنچا انتفاع (دیوان سوم) (مستحیل) ہیں مستحیل خاک سے اجزائے نو خطاں کیا سہل ہے زمیں سے نکلنا نبات کا (مستہلک) مستہلک اس کے عشق کے جانیں ہیں قدر مرگ عیسیٰ وخضرکو ہے مزا کب وفات کا (دیوان دوم) (لیت و لعل) جان تو یاں ہے گرم رفتن لیت ولعل واں ویسی ہے یا کیا مجھ کو جنوں آتا ہے اس لڑکے کے بہانوں پر (دیوان پنجم) علاوہ بریں، میر نے عربی کے بہت سے الفاظ اصل عربی معنی میں استعمال کئے ہیں۔ مثلاً ’’زخم غائر‘‘ (گہرا زخم) ، ’’تجرید‘‘ (اکیلا پن) ، ’’تعدی‘‘ (حد سے بڑھنا) ، ’’سماجت‘‘ (زشتی) ، ’’کفایت‘‘ (کافی) ، ’’صمد‘‘ (بے نیاز۔ یہ لفظ اردو میں صرف اللہ کے نام کے طور پر مستعمل ہے۔) ، ’’متصل‘‘ (مسلسل، بے وقفہ) ، ’’بنا‘‘ (گھر) وغیرہ۔ عربی الفاظ اور فقروں کے گراں معلوم ہونے کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ میر نے ایسے الفاظ کو اکثر خودطبعی کے ماحول میں صرف کیا ہے۔ میں نے صرف چند شعر نقل کیے ہیں، اور وہ بھی ایسے جن میں عربی لفظ یا فقرہ بہت ہی نامانوس قسم کا ہے، ورنہ متوسط درجے کے نامانوس الفاظ، یا ایسے عربی الفاظ جو عام طور پر غزل میں استعمال نہیں ہوتے، میر کے یہاں کثیر تعداد میں ہیں۔ فارسی الفاظ اور فقروں کی تعداد عربی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ان میں سے بعض تو اس قدر نادر ہیں کہ پہلی نظر میں وہ مہمل معلوم ہوتے ہیں۔ فارسی کی مثالیں میں یہاں درج نہیں کررہا ہوں، کیوں کہ بہت سے اشعار شرح یا انتخاب میں آگئے ہیں۔ (۷) فارسی سے شغف کے باوجود میر کے کلام کی عام فضا غالب سے بالکل مختلف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ غالب کا تخیل بہت تجریدی ہے۔ ان کے اکثرفارسی الفاظ وتراکیب تجریدی اور غیر مرئی تصورات واشیا کا اظہار کرتے ہیں، اس لیے غالب کی فضا بہت اجنبی معلوم ہوتی ہے، با وجود یک جہاں ہنگامہ پیدائی نہیں اس طرح کا مصرع تو میر کے یہاں بھی مل جائے گا، کیوں کہ ’’یک جہاں ہنگامہ‘‘ اور ’’پیدائی‘‘ میں تجرید سے زیادہ تجسیم کارنگ ہے۔ مثلاً میر کا مصرع ہے، یاد رباز بیاباں یادر مے خانہ تھا اس میں غالب کے مصرعے کی کیفیت ہے۔ لیکن غالب کا دوسرا مصرع۔۔۔، ہیں چراغان شبستاں دل پروانہ ہم سراسر تجریدی ہے۔ کیوں کہ پہلے تو پروانے کادل فرض کیجئے، جو غیرمرئی ہے۔ پھر اس دل کا شبستاں تصور میں لائیے، جو خیالی ہے۔ پھر اس شبستاں میں چراغاں کو تصور میں لائیے جو اور بھی زیادہ خیالی ہے۔ استعارے کی ندرت اور پیکر کے بصری چمک نے شعر کو غیر معمولی طور پر حسین بنا دیا ہے، ورنہ اس کے اجزا کو الگ الگ کیجئے اور پھر ان کی تجرید پر غور کیجئے تو تعجب نہیں کہ شعر بالکل غیر حقیقی دکھائی دے۔ غالب کے یہاں اکثر فارسیت اس درجے کی، یا اس سے بھی آگے کی ہے۔ کیوں کہ اس شعر میں لسانی الجھاؤ نہیں ہے، جب کہ غالب اکثر لسانی الجھاؤ بھی پیدا کردیتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ میر اس طرح کا تاثر پیدا کرنے سے بالکل عاری ہوں جو غالب کاخاصہ ہے۔ مثلاً دیوان اول کاجو مصرع میں نے اوپر نقل کیا، اس غزل کا ایک شعر ہے، شب فروغ بزم کا باعث ہوا تھا حسن دوست شمع کا جلوہ غبار دیدۂ پروانہ تھا اس شعر کو غالب کے دیوان میں ملادیجئے تو کسی کو شک نہ ہوگا کہ یہ غالب کا شعر نہیں ہے۔ پروانے کی آنکھ غیر مرئی ہے، پھر اس میں غبار فرض کیجئے جو خیالی ہے، پھر شمع کے جلوہ کو اس غبار سے تعبیر کیجئے، جو تصوراتی ہے۔ لہٰذا غالب کا تجریدی رنگ میر کے یہاں ناپید نہیں۔ اگر غالب پر بیدل کااثر نہ ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ میر کے تجریدی اشعار سے بھی غالب نے استفادہ کیا ہوگا۔ لیکن چونکہ عام طور پر میر کا تخیل ٹھوس اور مرئی اشیا سے کھیلتاہے، اس لیے ان کی فارسیت غالب سے مختلف طرح کی ہے۔ یہ بات ملحوظ رہے کہ اردوکے بیش تر تصوراتی اور تجریدی الفاظ فارسی الاصل ہیں، اس لیے غالب کی فارسیت ان کی تجریدیت کے لیے سونے پر سہاگہ بن گئی۔
(۱) سب سے پہلے چند باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔ (۱) میں مائیتھالوجی کو ’’علم الاصنام‘‘ اور ’’دیومالا‘‘ کی اصطلاحوں کے تحت زیر بحث نہیں لایا۔ کیونکہ مائیتھاس، میں لغوی طور پر، دیوی دیوتاؤں کی طرف کوئی بھی اشارہ نہیں ہے۔ (۲) مائیتھاس، انسانی تخئیل کی ایک ایسی صورت ہے جو کائنات کو مختلف تجسیمی اکائیوں میں تقسیم کرتے ہوئے کائنات کے اسرار کو سمجھنے کی سعی کرتی ہے۔ (۳) مائیھاس، انسان کے فطری شعور میں شامل ہے اس لیے اس کی شکلیں مختلف تہذیبی ادوار میں مختلف رہی ہیں۔ (۲) ان بنیادی وضاحتوں کے بعد جب ہم اسلامی مزاج کا جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی فکری مزاج تجسیمی طرزِ فکر کا مخالف ہے۔ یہی کیفیت اس فقرے میں دکھائی دیتی ہے کہ اسلام بت گری اور بت پرستی کادشمن ہے۔ لہٰذا اسلامی طرز فکر میں مائیتھالوجی کی وہ صورت دکھائی نہیں دیتی جو قدیم جرمن قوموں، یونانیوں، رومیوں، مصریوں اور سریانی قوموں میں دکھائی دیتی ہے۔ (۳) ظہورِاسلام کے وقت ان تہذیبی علاقوں اور منطقوں میں جہاں مائیتھالوجی، بطور مذہبی فکر کے موجود ہوا کرتی تھی، عیسائیت کی عمل داری تھی۔ اور عیسائیت کا الٰہیاتی اور دینی فکر بھی پرانے دیوی دیوتاؤں کا دشمن تھا۔ یسوع، کی زمین پر آمد سے نہ صرف پرانے مذاہب متروک ہوچکے تھے بلکہ ان کے دیوی دیوتا بھی امن کے شہزادے اور ابنِ آدم کے ورود کے باعث جنگلوں اور ویرانوں میں چھپ چکے تھے۔ (۱) اس صداقت کو مشہور عیسائی شاعر عرملٹن۔ ولادت مسیح کی تقریب پر لکھی ہوئی نظم میں یوں بیاں کرتا ہے : ’’پے عورؔ اور بالیمؔ اپنے عبادت گھروں کو چھوڑ چکے ہیں۔ فلسطین کے شکست خوردہ دیوتاؤں کے ساتھ اور اشطاردت کے ہمراہ جو کبھی زمین آسمانوں کے خداوند تھے۔ اب جلتی ہوئی مشعلوں کے بغیر تاریکی میں ہیں۔ لیبیاؔ کا دیوتا۔ ہامونؔ اپنا ناقوس توڑچکا ہے اور تاموسؔ کے لیے کافر لڑکیاں سوگ میں ہیں۔‘‘ (۴) اس حقیقت کے پیش نظر یہ کہنا چاہیے کہ ظہورِ اسلام کے وقت دیوی دیوتاؤں کی مائیتھالوجی سوائے نجد ویمن اور ہندوستان کے کہیں بھی موجود نہ تھی۔ اور اسلام نے لات و مناتؔ، عزّی اور نائیلہؔ کو اپنے فکری غلبے کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا۔ اسلام نے جس فلسفے نقطہ نظر کو ادب و شعر میں رواج دیا ان میں قدیم عربی دیوی دیوتا شامل نہیں ہوئے۔ (۵) مسلمانوں کی فتح فلسطین اور مشرقی عیسائی علاقوں کی تسخیر کے ساتھ جو یونانی فلسفہ دریافت ہوا وہ یونانی کم اور عیسائی فلسفہ زیادہ تھا۔ سقراط، افلاطون، اور ارسطو، فلاطینوس۔ ان سب کی صورتیں عیسائی الہامی مذہب کے مطابق تراشی گئی تھیں۔ مسلمانوں نے جس یونانی فلسفے کو اپنی میراث میں شامل کیا اس میں مائتھالوجی کی جگہ منطق نے لی تھی، اپالوؔ وینسؔ وغیرہ ان میں شامل نہ تھے۔ تاہم مائتھالوجی، اگر کہیں نظر آتی ہے تو علم نجوم میں دکھائی دیتی ہے۔ اور علم نجوم کو مسلمانوں نے ہمیشہ کفر سمجھا ہے کیونکہ غیب کا جاننے والا اللہ ہے۔ جھوٹے خدا نہیں ہیں۔ جو ستاروں کی حرکت پر پوشیدہ ہیں۔ (۶) ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت حاکم اور فاتح تہذیبی عناصر کی تھی۔ لہٰذا مسلمانوں کا ہندی دیوؔمالا سے متاثر ہونا بے معنی ہے۔ سومنات اور کانگڑا کامندر جس کے ساتھ البیرونی کا واقعہ متعلق ہے۔ اس امر کی شہادت ہیں۔ (۱) اسلام بطور مذہب اللہ کے ساتھ کسی دیوی دیوتا کو شریک نہیں کرتا۔ (۲) اللہ کی حاکمیت غیر محدود اور بے مثل ہے۔ او ردیوی دیوتا، کائنات سے پیدا ہوتی ہوئی انسانی اور نیم فلسفیانہ ایلورا ایجنٹا، صورتیں اور تجسیمی اکائیاں ہیں۔ لہٰذا ان کی طاقت اور اقتدار محدود ہے۔ (۳) دیوی دیوتاؤں کی تاریخ فی ذاتہہ ارتقا کی تاریخ ہے جو ایک طرح سے انسانی ذہن کے ارتقاء کی کہانی ہے۔ یونان میں ٹائی ٹنس (راکشوں، دیوؤں، جنوں) کے بعد دیوتاؤں کا زمانہ آتا ہے اور یہاں بھی دیوتاؤں، کی ایک نسل دوسری نسل کے خلاف جنگ آزما ہوتی ہے۔ یونان دیومالا میں بعض دیوتا، شمالی یورپ کے ہیں۔ بعض مصر کے اور بعض اناطولیہ کے دیوتا ہیں۔ یونان کے اصل دیوتا، ان مہاجر دیوتاؤں، میں جذب ہوچکے تھے۔ (۱) ہندوستان میں، دیوتا، خالص آریائی نہ تھے۔ (۲) شومت، اور ویشنو، کے مذہب میں عمرانی ارتقاء کاکافی فاصلہ ہے۔ (۴) یہ حقائق خود، دیوی دیوتاؤں، کے فکری طور پر حتمی نہ ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ لہٰذا اللہ کے مذہب کادیوی دیوی دیوتاؤں کے ساتھ گھل مل جانا۔ فکری طور پر ناممکن تھا۔ (۷) مسلمانوں نے ہندوستان میں جس تعلیمی نظام کو رائج کیا۔ اس کی اساس مذہب اسلام اور عجمی اسلامی علوم پر تھی۔ ہندوؤں کے مدرسے (پاٹھ شالائیں) اس تعلیمی نظام میں شامل نہ تھے۔ لہٰذا مسلمانوں کا ہندو مذہب کے دیوتاؤں کے ساتھ کوئی بھی رابطہ قائم نہ ہوا۔ مسلمانوں کی علمی نشو و نما توحیدکے تابع رہی اور اس طرح مسلمانوں کا فکری ماحول مائیتھالوجی کے آریائی اثرات سے غیرمتاثر رہا۔ (۸) بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں زیادہ تعداد اُن مسلمانوں کی تھی جو بھارت درشن کے باشندے تھے۔ لہٰذا تبدیلی مذہب سے انقطاعِ روایت، واقع نہیں ہوتی۔ دیوی دیوتاؤں کی روایت، ان لوگوں کے نزدیک ٹوٹتی نہیں بلکہ مذہب اسلام میں کہیں جذب ہوجاتی ہے۔ (۱) پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس، جذب ہوتی ہوئی روایت کاہمیں کہیں بھی چہرا دکھائی نہیں دیتا۔ (۲) دوسرا یہ ہے کہ تبدیلی مذہب، فی نفسہ انقطلاع روایت ہے۔ (۳) یہ لوگ ایساکہتے ہوئے ان مختلف مذہبی تحریکوں کو فراموش کردیتے ہیں جو وقتاً فوقتاً رونما ہوتی رہی تھیں۔ اور اسلام، کو غیراسلامی اثرات سے پاک رکھنے کی سعی کرتی تھیں۔ (۴) دین الٰہی کے بعد جو تحریکیں ظاہر ہوئی تھیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ (۱) مجد د الف ثانی کی تحریک (۲) اٹھارہویں صدی کی مذہبی تحریک (۳) سید احمد شہید کی تحریک (۴) تحریک احمدیت (۵) مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی تحریک، اور تحریکِ خاکسار (۶) جماعت اسلامی کی تحریک۔ (۹) ان تحریکوں کی موجودگی میں جو دین الٰہی کے بعد ظاہر ہوئی ہیں۔ اسلام اور ہندو اثرات کا مسئلہ واضح ہوجاتا ہے۔ (۱) اسلام نے اگرچہ پرانی مائتھالوجی کو رد کیا ہے لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اسلام نے اپنے مزاج کے مطابق اپنی مائتھالوجی تخلیق نہیں کی۔ (۲) اسلامی تہذیبی تاریخ میں ہمیں جابجا، مائیتھاس، کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے۔ (۳) سیرت رسول اللہ میں حضورؐ کی شخصیت کو جن علامتوں سے مرتب کیا گیا ہے۔ ان میں انسانی تخیل کا۔۔۔ استعمال کیا گیا ہے۔ (۱) نعتوں میں محبوب خدا کا تصور مائیتھالوجی سے مشابہ ہے۔ (۲) شق الصدر، شق القمر، اور معجزے، بھی اسی مزاج کی شہادت ہیں۔ (۳) صوفیا کی کرامات بھی اسی طرز فکر کا حصہ ہیں۔ (۴) اسلام نے اپنی تاریخ، کو مائیتھالوجی میں بدل دیا ہے۔ واقعہ کربلاکے بزرگ نہ صرف تاریخ میں سانس لیتے ہیں۔ بلکہ تاریخ کے حلقے سے باہر نکل کر ہمارے ذہن اور دل میں شامل ہوجاتے ہیں۔ ہم انہیں اپنے تخیل کی مدد سے اپنے پاس اپنے دل میں جذب کرلیتے ہیں۔ اور یوں ان کو پہچاننے کی سعی کرتے ہیں۔ (۵) امامِ غائب کاتصور، نزول مہدی، کاتصور، اسلامی مائتھالوجی کے تصورات ہیں۔ (۶) محمد اسد اپنی کتاب بجانب مکہ میں سقوطری کی ایک خانقاہ کا ذکر کرتے ہیں۔ جہاں انہوں نے درویشوں کے ایک رقص میں شرکت کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ رقص کی کیفیت نے انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ پوچھیں کہ ایسا رقص، اسلام میں کیسے داخل ہوا۔ (۱) یہ رقص ان کے خیال پر قدیم مذہبی رقص کی صدائے بازگشت تھا۔ (۲) قدیم زمانے میں پرانے پجاری، دیوتا، کے بت کے سامنے رقص کرتے تھے۔ (۷) لیکن جو بات ہمارے لیے غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ سقوطری میں جس رقص کو علامہ اسد نے دیکھاتھا وہ پرانے رقص سے کس حدتک مختلف ہے؟ (۸) درویشوں کارقص، تصور کے حوالے سے معنی قبول کرتاہے۔ اور یہ تصور، غائب اور ارفع کی ہمہ گیری سے پیدا ہوتا ہے جو اسلام کے مزاج کے مطابق ہے۔ (۹) اسلام نے تجسیمی مائتھالوجی کے بجائے تصوراتی مائتھالوجی کو تخلیق کیا ہے۔ (۱) اسلام کے مائتھاس کی بنیاد تاریخ اور تصوریت پر ہے۔ لہٰذا وہ اپنے ادراک میں اپنی تہذیبی حدود سے باہر نہیں جاتا۔ اس مذہب کے زیر اثر جو شخص اسلام کی روایات کو ایک تسلسل کے طور پرپہچانتا ہے۔ وہ اس تسلسل میں اپنے مزاج کے مطابق ایک عجیب و غریب کائنات دیکھتا ہے۔ جس میں سیرت رسول اللہ تاریخِ اسلام، تذکرہ اولیاء، جنگ نامے، کشف و کرامات، غزل کی شاعری، قصے کہانیاں اور نرگس و سومن ویاسمن، شامل ہیں۔ یہ کائنات تخیل کی مدد سے قائم ہوتی ہے۔ او رتخیل ہی کی مدد سے انسانی فراست کے قابو میں آتی ہے۔ (۲) ایک ایسی عظیم الشان، مائیتھاس، کی موجودگی میں گھنشا م، اور جوپیٹر، یااکالی کی طرف جانا عمداً انحراف کے سوا اور کوئی مفہوم نہیں رکھتا۔
اردو کی ادبی صحافت کی حتمی تاریخ کا تعین مشکل ہے ۔ڈاکٹر عبدالسلام خورشید اور جی ڈی چندن وغیرہ اس کا نقطۂ آغاز گلدستوں کو قرار دیتے ہیں۔ کچھ محققین ماہنامہ ’تہذیب الاخلاق‘، ’محب ہند‘ ، ’نور نصرت‘ اور ’مخزن الفوائد‘ کو ادبی صحافت کا نقش اول بتاتے ہیں۔ میری رائے میں منطقی طور پر ان بیانات کی کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ جہاں تک گلدستوں کی بات ہے تو اس کی اہمیت تذکرہ یا انتخاب کلام سے زیادہ نہیں ہے۔ ادبی صحافت جن تشکیلی، ترکیبی اجزا، عناصر اور معیار و منہج سے عبارت ہے، گلدستے ان سے میل نہیں کھاتے ہیں اور یوں بھی مولوی کریم الدین کے گل رعنا اور مولوی ابوالحسن کے معیار الشعرا کا سن اشاعت بالترتیب 1845 اور 1848 ہے۔ ’تہذیب الاخلاق‘ کو بھی ادبی صحافت کا نقطۂ آغاز کہنا تاریخی توقیت و ترتیب کے لحاظ سے غلط ہے کہ اس کا سنہ اشاعت 20دسمبر 1870 ہے۔ اوریوں بھی بقول گیان چند جین ’’اس میں غلبہ معاشرتی، علمی اور سیاسی موضوعات کا تھا‘‘ اردو کے اولین ماہنامہ کے حوالے سے بھی اختلاف رائے ہے۔ جی ڈی چندن ’محب ہند‘ کو پہلا جامع اور علمی رسالہ کہتے ہیں جب کہ سید احمد قادری ماہنامہ ’نور نصرت، کلکتہ‘ کو اردو کا پہلا ماہنامہ بتاتے ہیں جس کے مدیر مولوی عبدالغفور شہباز تھے۔ ممتاز محقق رفاقت علی شاہد کی نظر میں دکن سے 1874ء میں شائع ہونے والا ’مخزن الفوائد‘ اردو کا پہلا ادبی رسالہ ہے جس کے مدیر سید حسین بلگرامی تھے۔اسی خیال کا اظہار پروفیسر اکبر حیدری کاشمیری نے اپنے مضمون اردو کا پہلا ادبی رسالہ ’’مخزن الفوائد‘‘ حیدر آباد (مطبوعہ سہ ماہی فکر و تحقیق، نئی دہلی جولائی ۔ دسمبر1997) میں کیا ہے۔ میرے خیال میں اولیت میں الجھنے کا اب کوئی فائدہ نہیں کہ اس کا حتمی تعین مشکل ہے۔ اس لئے ادبی صحافت کا رشتہ اخبارات سے جوڑنا پڑے گا۔ صرف ماہانہ رسائل کی بنیاد پر اردو کی ادبی صحافت کے دو سو سال پورے نہیں ہو سکتے۔ ادبی صحافت کو اگر 1822میں شائع ہونے والے ہفت روزہ ’جامِ جہاں ‘نما سے جوڑ کر دیکھا جائے تو کم و بیش اس کے دو سو سال پورے ہو جائیں گے۔ ادبی صحافت کے ذیل میں وہی اخبارات شامل کیے جا سکتے ہیں جن میں ادبیات کے گوشے ہوا کرتے تھے۔ جامِ جہاں نما میں شعری تخلیقات کی اشاعت کے شواہد موجود ہیں اس لیے ادبی صحافت کا نقطہ آغاز بھی ہری ہردت کی ملکیت اور سدا سکھ لال کی ادارت میں 27مارچ 1822بروز بدھ جاری ہونے والا جامِ جہاں نما کلکتہ ہی قرار پائے گا۔ ڈاکٹر انور سدید کے مطابق’’18اپریل1827 کے جام جہاں نما میں مسٹر ڈی کاسٹا کی غزل شائع ہوئی اس کا مطلع اور مقطع حسب ذیل ہے: کل ہم تمہارے کوچے میں آئے چلے گئے ہے ہے ہزار اشک بہائے چلے گئے کل اس پری کی بزم میں سب مل کے برملا تیری غزل ڈی کاسٹا گائے چلے گئے مولوی محمد باقر کے دہلی اردو اخبار(تاریخ اجرا1836) میں غالب ؔ، ذوقؔ، مومنؔ، بہادر شاہ ظفرؔ ، نواب زینت محل اور دگر شعراکا کلام شائع ہو ا کرتا تھا۔ صادق الاخبار (1844)، قران السعدین (1845) ، فوائد الشائقین (1846)، اسعد الاخبار(1847)، قطب الاخبار(1849)،کوہ نور(1850)،نور الابصار(1852)،آفتاب ہند (1853)، کشف الاخبار(1855)، مظہر الاخبار(1856)، سحر سامری(1856 )، روزنامہ اعجاز لکھنو(1856)،قاسم الاخبار کرناٹک (1861)،جامع الاخبار مدراس(1862)، فتنہ (1882)وغیرہ میں بھی شعر ی و ادبی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔ اودھ اخبار لکھنو (1858)میں رتن ناتھ سرشار کاناول ’’فسانہ آزاد‘‘ قسط وار شائع ہوا کرتا تھا۔ منشی سجاد حسین کے اودھ پنچ (1877)میں بھی طنزیہ و مزاحیہ نظمیں چھپا کرتی تھیں۔ اس کے اداریے کا آغاز ہی کسی چبھتے ہوئے شعر سے ہوتا تھا۔مثلاً یہ واقعہ جہاں میں بے شک نیا ہوا الّو کے گھر میں دیکھیے پیدا ہما ہوا ملک الشعرا دوارکا پرشاد افق لکھنوی کی ادارت میں پندرہ روزہ اخبار ’نظم‘ کی اشاعت کا آغاز 5؍ اگست،1888 کو ہوا۔ 12؍صفحات کے اس اخبار میں 8صفحات پر منظوم خبریں ہوا کرتی تھیں۔ 1853میں منشی دیوان چند کی ادارت میں ہمائے بے بہا شائع ہوا کرتا تھاجس میں سائنسی ، علمی اور ادبی نوعیت کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ کچھ لوگ اس پند روزہ اخبار کو پہلا ادبی رسالہ مانتے ہیں ۔ اس طرح دیکھا جائے تو ادبی صحافت کے ابتدائی نقوش ہفت روزہ یاپندرہ روزہ اخبارات میں نظر آتے ہیں۔ 2 باضابطہ ادبی رسائل کا وجود بہت بعد میں ہوا۔انیسویں صدی کے اواخر میں ادب سے مختص رسائل شائع ہونا شروع ہوئے جن میں رسالہ انجمن پنجاب (1865)،اتالیق پنجاب (1870)، مراۃ الہند لکھنو (ستمبر1875)،ماہنامہ ’تیرہویں صدی ‘اگرہ(1879)، رسالہ دلگداز (1887)، حسن حیدر آباد(1888)،افسر حیدر آباد(1896)، دبدبۂ آصفی حیدر آباد (1897)،معارف علی گڑھ ( 1898)، ادیب اگرہ (جنوری1899) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مراۃ الہند، لکھنؤ محلہ رانی کٹرا لکھنو سے کشمیری پنڈت کشن رائو کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔بقول اکبر حیدری کاشمیری’’ یہ غالباً شمالی ہند کا پہلا ادبی رسالہ ہے۔‘‘(فکر و تحقیق، جنوری۔مارچ، 2004) تیرہویں صدی، آگرہ آگرہ سے 1879 میں شائع ہونا شروع ہوا۔ حصۂ نثر کے مدیر میر ناصر علی تھے جب کہ حصۂ نظم کی ترتیب و انتخاب کی ذمہ داری حافظ رحیم اللہ صبا اکبرآبادی کے سپرد تھی۔ اس رسالہ میںسرسید کے نیچری عقائد کے خلاف مضامین تسلسل سے شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ ایک اہم رسالہ تھا جس کی بابت مولانا عبدالحلیم شرر نے دلگداز (جنوری 1915) میں لکھا تھا کہ: ’’تیرہویں صدی میں اعلیٰ منشیانہ قابلیت کے ساتھ ساتھ قدیم ادبی مذاق کی نگہداشت ، نئی خیال آرائیوں اور جدتوں کے ساتھ کی جاتی تھی اور پرانا مشرقی لٹریچر کچھ جدت طرازیوں کے ساتھ نئے لباس میں ظاہر کیا جاتا تھا کہ نئے اور پرانے دونوں گروہوں سے بے اختیار واہ واہ کے نعرے بلند ہوتے تھے۔ ‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت۔ مرزا غالب ریسرچ اکیڈمی، آگرہ۔2014 ص۔133) دلگداز ،لکھنو رسالہ دلگداز لکھنو کا اجراء 25جنوری 1887کو ہوا جس میں مولانا عبدالحلیم شرر کے ناول بھی شائع ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر قمر سلیم کے مطابق: ’’شرر کی ادارت میں ’دلگداز‘ 28سال دو ماہ تک شائع ہوتا رہا۔‘‘ ’دلگداز‘ قیمتی مضامین کا مخزن تھا۔ اس میں مختلف ادبیات کے علاوہ تاریخ، نسائیات، ہندوستانیات اور دیگر موضوعات پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ خاص طور پر ’تاریخِ صقلیہ ،حسن کی کرشمہ سازیاں، ہندوستان میں مشرقی تمدن‘ کی قسط وار اشاعت سے رسالہ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ عربی ادبیات اور عالم عرب کی شخصیات کے متعلق مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی رسالہ تھا جس میں پہلی بار ’بلینک ورس‘ پر مضمون (مطبوعہ جون 1900) کی اشاعت سے بحث و مباحثہ کا آغاز ہوا۔اس میں مشاہیر عالم کے کارنامے، ممالک اور شہروں کے بارے میں معلوماتی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالے کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں نظم و غزل کے لیے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ قمر سلیم نے رسالہ ’دلگداز‘ کا اشاریہ تیار کیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس مجلہ میں تنوع کا خاص خیال رکھا جاتا تھا اور ترجیحی طور پر معلوماتی مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔عبد الحلیم شرر کے اداریے بہت بیش قیمت ہو ا کرتے تھے۔ مولانا اردو زبان و ادب کے بڑے ادیب تھے اور شناور بھی مگر اردو کے مستقبل سے شاید مطمئن نہیں تھے۔ ایک طرح کی مایوسی تھی جو دلگداز نومبر1910میں شائع اس اقتباس سے جھلکتی ہے۔’’اردو ہو یا ہندوستان کی کوئی اور زبان یہ سب مٹنے والی چیزیں ہیں جو اپنی اپنی عمریں پوری کر کے صرف کتابوں میں رہ جائیں گی اور زبانوں پر فقط انگریزی ہو گی۔‘‘ حسن، حیدرآباد حسن حیدر آباد( اگست 1888) مولوی سید فخر اللہ کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ۔ جس میں تاریخی ، علمی، ادبی، لسانی، اخلاقی، سیاسی ،سائنسی اور مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے۔یہ سارے مضامین معلومات افزا ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عالمانہ اور ادیبانہ ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر اکبر حیدری کاشمیری نے لکھا ہے کہ ’’اردو رسالوں میںیہ امتیاز صرف حسن کو حاصل تھا کہ اس کے بہترین لکھنے والوں کو ایک اشرفی صلے میں دی جاتی تھی۔‘‘ جن مضامین پر اشرفی بطور انعام دی گئی ڈاکٹر محمد انورالدین نے ان انعام یافتہ مضامین کی ایک فہرست اپنے کتاب میں درج کی ہے۔ان کے مطابق اہرام مصر(مولوی محمد ابوالحسن)، کتب خانہ ہائے اسلامی (محمد شبلی نعمانی)، سکندر اعظم کی حالات زندگی پر ایک محققانہ نظر (مجیب احمد تمنائی)، سلطان محم خاں ثانی اور قسطنطنیہ کی فتح (عبدالحلیم شرر)، تذکرۂ تیمور (محمد شفیع)، عربوں کے سویلزیشن کی تاریخ (مولوی محمد یوسف علی خاں قزلباش) جیسی تحریریں شامل ہیں۔ افسر،حیدرآباد رسالہ افسر حیدرآباد کا اجراء اپریل 1897میں ہوا۔ اس میں ادبی و علمی نوعیت کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کی ادارت سے مولوی عبد الحق کا بھی تعلق رہا ہے۔ عابد رضا بیدار نے ’اردو کے اہم ادبی رسالے اور اخبار‘ میں افسر کے تعلق سے اہم تفصیلات درج کی ہیں۔ انہوں نے ’بستان آصفیہ‘ کے مصنف وِٹھل راؤ کا ایک اقتباس درج کیا ہے کہ: ’’ابتدا میں مولوی محب حسین صاحب ایڈیٹر معلم نسواں دوسال تک ایڈیٹر رہے۔ چند روز کے لئے رسالہ بند ہوگیا۔ بعد ازاں مولوی عبدالحق بی اے کی زیر ایڈیٹری شائع ہونا شروع ہوا۔‘‘ اس رسالہ میں تاریخی، تمدنی اور فوجی مضامین اور اہم کتابوں پر ریویو وغیرہ شائع ہوا کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد انورالدین لکھتے ہیں کہ: ’’اس رسالہ میں عموماً فوج سے متعلق مضامین شائع ہوتے تھے۔ جیسے افسران فوج کے اہم مضامین کے ترجمے، مشہور سپہ سالاروں کے تذکرے، تواریخ جنگ، فنون سپہ گری، جنگی کھیل، ایجادات حرب کے آلات وغیرہ۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی شکار سے متعلق بھی مضامین شائع ہوتے تھے۔‘‘ (حیدر آباد دکن کے علمی و ادبی رسائل) افسر کے مشمولات معیاری ہوا کرتے تھے۔ مولوی عبدالحق کے تبصروں کے علاوہ جو اہم مضامین شائع ہوئے ا ن میں اردو ناولوں پر ایک نظر(مولوی محمد عزیز مرزا بی اے) حروف مقطعات و علامات معدنی و آلات تحریر طبع (مولوی نظام الدین حسن بی اے)، فلسفۂ قیافہ(مولوی سید نذیر حسین فاروقی)، انسان کی نشو و نما (مولوی عبدالغنی رافت)، اردو اخبارات کے ایڈیٹروں کو نیک صلاح (عبدالحق بی اے) قابل ذکر ہیں۔ اسی افسر میں مولوی محب حسین کا ایک مضمون عورتوں کی نسبت سرسید احمد کے خیالات شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ جنگی تاریخ (مولوی محب حسین) قوموں کی پندرہ مشہور علامتیں اور زوال کی نشانیاں( خواجہ غلام الثقلین)، مسئلۂ ازدواج پر ایک نظر (مولوی محمد اختر)، مصنفین کی نسبت غائبانہ خیال (مولوی عبدالحق) جیسے مضامین شائع ہوئے۔ یہ اس دور کا ایک اہم رسالہ تھا۔ جس کے بند ہونے پر مولوی عبدالحق کو خواجہ الطاف حسین حالی نے یہ لکھا تھا کہ :’’کیا افسر بالکل بند ہوگیا؟ ہندوستان میں کوئی عمدہ رسالہ نہیں چل سکتا۔ معارف، ادیب، حسن اور دیگر عمدہ عمدہ میگزین چند روز کی ہوا کھا کے نوبت بہ نوبت راہیٔ ملک عدم ہوگئے۔ پھر افسر کے چلنے کی کیا امید ہو سکتی ہے۔ جس چیز کی خریداری کا مدار مسلمانوں پر ہوگا اس کا رونق اور فروغ پانا معلوم۔‘‘ دبدبۂ آصفی، حیدر آباد دبدبۂ آصفی کا اجراء 1897میں ہوا۔ مہاراجہ سرکشن پرشاد یمین السلطنت اس کے بانی تھے اور ادارت پنڈت رتن ناتھ سرشار کے سپرد تھی۔ اس رسالہ میں اعلیٰ پائے کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے موضوعات اور مشمولات کی فہرست سے اس کے متنوع اور معیاری ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محمد انورالدین لکھتے ہیں کہ: ’’اس رسالہ کا معیار کافی بلند ہوتا تھا اور انسانی علوم کے ہر گوشے پر مضامین پیش کئے جاتے تھے۔ چنانچہ منطق، فلسفہ، موسیقی، طبیعات، فلکیات، طب، نجوم، عروض اور خالص ادبی موضوعات پر مضامین ملتے ہیں۔‘‘ (حیدر آباد دکن کے علمی وادبی رسائل) دبدبۂ آصفی میں مضامین کے انتخاب کا معیار بہت سخت تھا۔ اس کے لئے باضابطہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ اس میں کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی تھی۔ رتن ناتھ سرشار نے اس حوالہ سے لکھا ہے کہ:’’کسی صاحب کے ساتھ اس میں رعایت نہ کی جائے گی۔ یہاں تک کہ اگر ولی نعمی مہاراجہ پیشکار، بہادر کا کوئی مضمون کمیٹی نے پسند نہیں کیا تو دست بستہ بصد عجز واپس کیا جائے گا۔ ‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محمد انورالدین، حیدر آباد دکن کے علمی و ادبی رسائل، ص۔122) معارف ،علی گڑھ؍پانی پت معارف علی گڑھ کی اشاعت کا آغاز یکم جولائی1898کو ہوا۔ اس کے مدیر مولوی وحید الدین سلیم پانی پتی تھے۔اس رسالے کے مقاصد اور قواعد میں ایک اہم مقصد یہ بھی تھا کہ ’’اس کے ذریعہ اردو زبان کے علم و ادب کا دائرہ وسیع ہو اور اس میںہر قسم کی علمی ، فلسفی، اخلاقی، مذہبی، تمدنی اور تاریخی مضامین لکھے جائیں۔ انگریزی،عربی اور ترکی زبانوں کی نایاب کتابوں اخباروں اور رسالوں سے ہر قسم کے مفید دلچسپ اور پاکیزہ مضامین ترجمہ کیے جائیںتاکہ مسلمانوں میں روشن ضمیری، عمدہ تربیت اور تہذیب کی اشاعت ہو۔‘‘ (بحوالہ اسعد فیصل فارقی، علی گڑھ میں اردو صحافت عہد بہ عہد،2016،صفحہ 53) اس رسالے میں مقتدر شخصیات کی تخلیقات شائع کی گئیں۔ اس میں جن مقاصد کا اظہار کیا گیا تھا ان کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ اس میں جو چند مضامین بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں اردو اور ناگری کی بحث(مولوی رشید احمد سالم )، اسلام اور فنونِ لطیفہ( ابراہیم احمد)، ابن جبیر اور ان کا سفر نامہ (مولانا وحید الدین سلیم) رامائن کے بعض سین(مولوی عبد العلی خاں)، اندلس کے مسلمان شعرا اور ان کی نیچرل شاعری(مولوی عزیز الرحمن) وغیرہ اہم ہیں۔ معارف میں زیادہ تر مضامین اسماعیل خاں اور مولانا وحید الدین سلیم کے ہوتے تھے۔ حاجی اسماعیل خاں نے جب ’ہلال‘ اور’ تارہ‘ کے عنوان سے ترکوں کے خلاف مضمون لکھا تو معارف پر اس کا نہایت منفی اثر ہوا۔ معارف سے بڑی مقتدر شخصیات وابستہ تھیں۔ اکبر الہ آبادی جن کی نظم روانیٔ آب پہلی مرتبہ معارف ہی میں شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے اس رسالہ کے حوالہ سے لکھا تھا کہ: ’’رسالہ معارف نہایت عمدہ رسالہ ہے۔ اس میں سائنٹفک اور تاریخی مضامین بڑے بڑے لائق بزرگوں کے نکلتے ہیں۔ میں دل سے اس رسالہ کی ترقی چاہتا ہوں جس کے معنی یہ ہیں کہ اپنی علمی ترقی چاہتا ہوں۔ اس طرح کا کوئی رسالہ اس وقت اَپر انڈیا میں نہیں نکلتا۔ کم سے کم میری نظر سے نہیں گزرا۔ رسالہ معارف رکاکت اور بے تہذیبی سے بالکل خالی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس کے جاری کرنے والے کی سچے دل سے یہ خواہش ہے کہ ملک کو فائدہ پہنچے۔ بجائے معارف کے اس کا نام آفتاب علم زیادہ اچھا ہوتا۔ کیوں کہ اس میں حضرات شمس العلماء کے مضامین اکثر ہوتے ہیں۔ ‘‘ (عابد رضا بیدار، اردو کے اہم ادبی رسالے اور اخبار، انسٹی ٹیوٹ آف اورینٹل اسٹڈیز، رامپور، ص۔178) ڈپٹی نذیر احمد نے منظوم خراجِ تحسین یوں پیش کیا: بہت خوش ہوا دیکھ کر دل معارف کثیر الفوائد ،قلیل المصارف نہ پاؤ گے اردو میں کوئی رسالہ کہ جو ہوسکے اس کے پڑھنے سے عارف اسے دیکھو گر جاننے ہوں حقائق پڑھو اس کو گر تم کو بننا ہو عارف کہ نایاب موتی ہیں اس کے مضامین وگرنہ بہت چل پڑے ہیں زخارف (عابد رضا بیدار، اردو کے اہم ادبی رسالے،ص۔179) ادیب ،فیروزآباد آگرہ ادیب فیروز آباد آگرہ ایک اہم علمی ،ادبی رسالہ تھا۔ جس کے سر نامے پر یہ عبارت درج ہوتی تھی ’’ایک بالکل نئی طرز کا ماہوار علمی میگزین‘‘ اس کے ایڈیٹر سید اکبر علی اکبر آبادی سند یافتہ کلکتہ یونیورسٹی کلکتہ تھے۔ اس کے مقاصد کے تحت یہ تحریر کیا گیا تھا کہ:’’ ادیب جو ہندوستان بھر میںاپنی خاص طرز کا ایک بالکل جدید میگزین ہے۔ اس کی بڑی غرض یہ ہے کہ ملک میں اعلیٰ لٹریچر کا مذاق پیدا کیا جاوے۔۔۔ اور یہ ثابت کیا جائے کہ سائنس اور مذہب میں فی الاصل کوئی مخالفت نہیں۔‘‘ ادیب میں دیگر رسائل کے اعلیٰ مضامین کی تلخیص کے ساتھ ساتھ تصانیف جدیدہ پر ریویو شائع کئے جاتے تھے۔ اس میں سائنس، عجائبات عالم، یادگاری واقعات، ریویو اور معلومات کے عنوان سے تحریریں چھپتی تھیں۔ علم ہیئت، علم نباتات وغیرہ سے متعلق دلچسپ مضامین شائع ہو ا کرتے تھے۔ اس رسالے کی بہت پذیرائی ہوئی۔ علامہ شبلی نعمانی نے فرمایا:’’ میں موجودہ رسالوں میں ’ادیب‘ کو سب سے افضل سمجھتا ہوں۔‘‘ شاہ محمد اکبر صاحب علائی نے رسالے کی یوں داد دی کہ: ’’واقعی مخزن خزانہ عامرہ ہے فی الحقیقت شائقین علمی تحقیقات کے لیے تو پورا رہبر ہے۔‘‘اس رسالے کی اتنی قدر دانی ہوئی کہ مدیر نے یہ لکھا:’’ادیب کو گلشن ہستی میں قدم رکھتے ہی گل چینان معانی نے جس غیر متوقع قدر دانی اور شفقت کی نگاہوں سے ہاتھوں ہاتھ لیا اس سے ہم کو قوی امید ہو گئی کہ اس کا نخل مراد ایک قدر داں پبلک کی فیض آبیاری سے بہت جلد نشو ونما پا کر سر سبز و بار آور ہوگا۔ ہندوستان کے ہر حصے کے معزز اردو خواں پبلک نے ادیب کی جو قدر کی وہ اخباری دنیا میں شاید پہلی نظیر ہے۔‘‘(ادیب ، فروری1899) 19ویں صدی کے اواخر میں کچھ اور مجلات شائع ہوئے جن میں شبلی نعمانی کی ادارت میں اینگلو اورینٹل کالج میگزین علی گڑھ اور منشی نوبت رائے نظر کا خدنگ نظر اور خیالِ محبوب ،حیدرآباد وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ادبی صحافت کا زریں دور بیسویں صدی کو کہا جا سکتا ہے۔ اس صدی میں جو رسائل و مجلات شائع ہوئے ان میںادبی موضوعات اور مباحث کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی۔ ان رسائل میں نظم و نثر کا عمدہ انتخاب ہوتا تھا اور ان سے مسلم الثبوت اور معتبر ادبا جڑے ہوئے تھے۔ مخزن،لاہور اپریل 1901میں شیخ عبد القادر کی ادارت میں مخزن کی اشاعت کا آغاز ہوا جس نے ادیبوں کے ذہن و فکر کے زاویوں کو بدلا اور اردو ادب کو بہت سے رویوں اور رجحانات سے آشنا کیا۔یہ بنیادی طور پر رومانیت کو فروغ دینے والا رسالہ تھا ۔اس رسالے نے ہندئوں اور مسلمانوں کے باہمی ارتباط کی کوشش کی اور اچھے ادیبوں و شاعروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا ۔ تین ادوار پر محیط اس رسالے کی ادارت سے شیخ عبد القادر کے علاوہ شیخ محمد اکرام، حفیظ جالندھری، علامہ تاجور نجیب آبادی ،بیدل شاہجہاں پوری اور حامد علی خان، میر نثار علی شہرت کی وابستگی رہی ہے۔ اس میں سماجیات ، اخلاقیات، اسلامیات، شخصیات کے علاوہ تاریخ، تنقید، تصوف، تحقیق پر مضامین کے علاوہ ترجمے بھی شائع ہوا کرتے تھے۔اس میں نقد و تنقید کا ایک اچھا سلسلہ تھا۔ یہ رسالہ بھی علم و ادب کا بیش بہا خزینہ ہے۔اس نے نئے فنکاروں کو متعارف کرایا اور بڑے بڑے ادیب پیدا کیے۔مختلف اصناف ادب پر مشتمل یہ وہ مجلہ تھا جس نے ادبی صحافت کی تاریخ میں ایک نمایاں نقش قائم کیا۔ اس کے خصوصی شماروں میں دربار نمبر اور سال گرہ نمبر کو بے پناہ مقبولیت ملی ۔یہ اتنا اہم رسالہ ہے کہ اس کے کئی اشاریے تیار کیے گئے۔جاوید اختر علی آبادی نے مخزن کا توضیحی اشاریہ مرتب کیا ہے اور امتیاز ندیم نے ماہنامہ ’مخزن اشاریہ اور ادبی خدمات‘ کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے۔ زمانہ،کانپور 1903میں ماہنامہ ’زمانہ‘ شیو برت لال ورمن کی ادارت میں بریلی سے شروع ہوا۔ اس کے بعد دیا نارائن نگم نے اس کی ادارت سنبھا لی اور یہ کانپور سے نکلنے لگا۔ ’زمانہ‘ میں اعلیٰ پائے کے ادبی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے موضوعات میں بہت تنوع تھا۔ ڈاکٹر شفیع احمد عثمانی کے مرتب کردہ اشاریے سے پتہ چلتا ہے کہ شاید ہی کوئی ایسا موضوع ہو جس کا احاطہ رسالہ ’زمانہ‘ میں نہ کیا گیا ہو۔ فلسفہ، مذہبیات، سماجی علوم، لسانیات، سائنس، اطلاقی سائنس، فنون لطیفہ ، ادبیات، تاریخ، جغرافیہ ، سفر نامے، سوانح عمریاں اس کے علاوہ اردو زبان خاص طور پر اردو ہندی کے قضیے کے حوالے سے بیش قیمت تحریریں اس میں شامل ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیںکہ ادبی رسائل میں سائنسی مضامین نہیں ہوتے ان کی تردید کے لیے زمانہ کے وہ مضامین ہی کافی ہیں جن میں علم ِ ریاضی، علم نجوم، علم کیمیا، علم معدنیات، علم ارضیات، علم طبقات الارض، علم نو ع انسانی، علم نباتات اور دیگر موضوعات پر تحریریں شامل ہیں۔ زمانہ ایک عہد ساز علمی اور ادبی رسالہ تھا۔ خدا بخش لائبریری پٹنہ سے 33 جلدوں پر مشتمل زمانہ کا انتخاب مختلف موضوعات کے تحت شائع کیا گیا ہے جن میں مشاہیر ادب اردو، ادبیات ہندی، ادبیات فارسی، ہندوستانی زبان کا مسئلہ، اخبارات و رسائل اورفنون ِلطیفہ کافی وقیع ہیں۔ اردوئے معلی، علی گڑھ ؍کانپور 1903میں ہی اردوئے معلی علی گڑھ کی اشاعت مسٹن روڈ موجودہ رسل گنج علی گڑھ سے شروع ہوئی اس میں سیاسی نوعیت کے مضامین کے ساتھ ساتھ ادبی، سوانحی، علمی و تاریخی تمدنی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی بی۔ اے نے اس رسالے کو ادب اور سیاست کا ایک حسین امتزاج بنایا تھا۔اس مجلہ نے سیاسی شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ اعلیٰ ادبی ذوق پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مقاصد کے تحت مولانا نے بہت قیمتی باتیں تحریر کی تھیں جن پر آج کے مدیران کو بھی عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ:’’ اس رسالے کا مقصد صرف ایک ہے۔ یعنی درستیٔ مذاق۔ چنانچہ اس لحاظ سے امور مندرجہ ذیل کی پابندی کی جاوے گی۔ ٭ مضامین نثر ہر قسم کے ہوں گے۔ یعنی سوانحی، تاریخی، علمی، فلسفی، اخلاقی، تمدنی، ادبی، تنقیدی و متعلق بہ افسانہائے مختصر و مکمل۔ ٭ یہ مضامین نہ حد سے زیادہ خشک ہوں گے نہ حد سے زیادہ ہلکے اور اُن کی ترتیب ایسی ہوگی جو ہر قسم کے مذاق کو گوارا ہو۔ ٭ حصۂ نظم میں صرف اس قسم کی نظمیں شائع کی جائیں گی جن کے انداز بیاں میں کچھ خصوصیت ہو۔ ان نظموں کے متعلق قدیم و جدید کی قید نہ ہوگی۔ ٭ نظم و نثر دونوں میں حتی الامکان صحت زبان کا سختی کے ساتھ لحاظ رکھا جائے گا۔ ‘‘ ’اردوئے معلی‘ میں ان تمام مقاصد کے پیش نظر ہی تحریروں کی اشاعت عمل میں آئی۔ مولانا حسرت موہانی نے اس میں بہت سے اہم سلسلے شروع کئے۔ جن میں تذکرۃ الشعراء جیسا ایک مفید کالم بھی تھا۔ جس کے تعلق سے مولانا نے لکھا تھا کہ :’’اردو زبان کے تمام گذشتہ اور موجودہ اساتذہ کا ایک ایسا تذکرہ ترتیب دیا جائے جس میں ہر استاد کا مفصل حال اور اس کے کلام پر بے لاگ تنقید موجود ہو اور اس تذکرے کی تقسیم باعتبار سلاسل شعراء پانچ جلدوں میں ہو۔‘‘ مولانا نے اس سلسلے کے تحت بہت سے مشہور اور گمنام شعراء کے احوال و کوائف اور انتخاب کلام شائع کئے۔ جسے کتابی شکل میں ڈاکٹر احمر لاری نے مرتب کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں انتخاب دواوین اور گلدستوں کے انتخابات کے سلسلے بھی تھے۔ یہ تمام سلسلے بہت مفید تھے۔ اُن کا یہ کام اس لحاظ سے بہت مفید ہے کہ انہوں نے ہمارے بیش قیمت ادبی اور شعری سرمائے کو محفوظ کر دیا۔ اردوئے معلی ہی میں اصلاحِ زبان سے متعلق تحریروں کی اشاعت ہوئی۔ ’ادب الکاتب والشاعر‘کے عنوان سے نظم طباطبائی کا مضمون کئی قسطوں میں شائع کیا گیا جو لسانی نقطۂ نظر سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ اس میں طبا طبائی نے تذکیر و تانیث، غلط الفاظ کی تحقیق اور سم الخط کے حوالے سے بہت عمدہ خیالات کا اظہار کیا تھا۔ صحت زبان پر بھی اس رسالہ کا خاص ارتکاز تھا۔ چنانچہ اس تعلق سے کئی مضامین شائع کئے گئے۔ انہیں میں ایک مضمون ’اردو زبان پنجاب میں‘ کے عنوان سے تھا جس میں کلام اقبال پر اعتراضات کئے گئے تھے۔ یہ تنقید ہمدرد کے عنوان سے اگست1903کے شمارہ میں شائع ہوا۔ جس میں یہ لکھا گیا تھا کہ :’’رسالہ مخزن میں جب سے اقبال کی نظمیں شائع ہونے لگی ہیں اس وقت سے اہل پنجاب کا دماغ اور بھی آسمان پر پہنچ گیا ہے۔ جس کو دیکھئے اقبال اور ناظر کا حوالہ دے کر اپنی زبان کو مستند قرار دیتا ہے۔۔۔ اقبال کا کلام ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ ترکیبیں نہایت درست ہوتی ہیں اور مضامین اکثر بلند، طرز بیان پسندیدہ ہوتا ہے اور سلسلۂ خیالات اکثر نازک و لطیف۔ لیکن اگر کچھ کمی رہ جاتی ہے تو صحت زبان کی جس کی وجہ سے ان کے کلام کا سارا لطف خاک میں مل جاتا ہے۔ ‘‘ اسی طرح ’اردوئے معلی‘ میں مولانا الطاف حسین حالی کی زبان کی لغزشوں پر بھی تنقید کی گئی ہے۔ ’اردوئے معلی‘ ہی میں چکبست اور شرر کا معرکہ بھی شائع کیا گیا جو گلزار نسیم کے حوالے سے تھا۔ اسی رسالہ میں شوق نیموی کا مشہور رسالہ ’اصلاح مع ازاحۃ الاغلاط‘ بھی شائع کیا گیا تھا۔ ’اردوئے معلی‘ میں شاہ حاتم، مرزا مظہر جانِ جاں، قائم، سودا، رنگین، مصحفی، مجروح، امیر اللہ تسنیم، اصغر علی خاں نسیم، مومن، غالب، شاہ ظفر، شاہ نسیم، ندا بدایونی، ظہیر دہلوی، گستاخ، وفا رامپوری پر حسرت کے مضامین شائع ہوئے۔ یہ تمام مضامین حسرت موہانی کے گہرے تنقیدی شعور کا ثبوت ہیں۔ ان میں بہت اہم تنقیدی نکات و اشارات ہیں۔ آل احمد سرور ’اردوئے معلی‘ کے امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے مولانا حسرت موہانی کو ایک اچھا محقق اور قابل قدر نقاد قرار دیتے ہیں: ’’یہ رسالہ تحقیق و تنقید، سیاسی مضامین، انتخاب کلام اور تبصروں کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اگر اس کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو حسرت کو صرف ایک بڑا شاعر ہی نہیں بلکہ ایک اچھا محقق اور ایک سنجیدہ اور قابل قدر نقاد ماننے میں کسی کو تامل نہ ہوگا۔‘‘ (بحوالہ ثریا حسین، مرتب: حسرت موہانی، ص۔46) ’الناظر‘،’لکھنؤ 1909میں ظفر الملک علوی کی ادارت میں ’الناظر‘ لکھنو کا اجرا ہواجس میں تاریخی و ادبی مضامین کے علاوہ انگریزی اور دوسری غیر ملکی زبانوں کے تراجم شائع ہوئے۔ اس کا شمار بھی اردو کے قدیم اہم ادبی رسائل میں ہوتا ہے۔ خدا بخش لائبریری، پٹنہ سے 8 جلدوں پر محیط اس کا ا نتخاب شائع ہوا ہے۔ اس میں اردو شعرائ، تاریخ ہند، اردوشعر و اددب، تذکرے، تعلیمی ادارے اہمیت کے حامل ہیں۔ اس کے اداریے نظرات کا بھی انتخاب خدا بخش لابئریری سے شائع کیا گیا ہے۔ ادیب، الہ آباد 1910میں الہ آباد سے ادب اردو کا ایک باتصویر ماہوار رسالہ جاری ہوا۔ جس کے مدیر نوبت رائے نظر تھے۔جس میںموضوعات کا تنوع بھی تھا اور مشمولات بھی نہایت معیاری ہوا کرتے تھے۔ فلسفہ، صنعت و سائنس، معاشیات، سیاسیات، تہذیب و تمدن، تعلیمات، ہندو تہذیب و مذہب ، اسلام اور متعلقات، شرق اوسط، اردو زبان و ادب، عربی فارسی شاعری، شعرائے اردو، مصوری، فن تعمیر و آثار قدیمہ، افسانے، غزلیں ، نظمیں، تذکرے، اخبارات و رسائل اس کے موضوعی مشتملات تھے۔ اس کی ادارت سے نوبت رائے نظر کے علاوہ، مسیحی شاعر و ادیب پیارے لال شاکر میرٹھی اور فائلولوجی کے ماہر حسیر عظیم آبادی کی وابستگی رہی ہے۔ یعنی کہ ہندو، عیسائی اور مسلمان تینوں نے اس مجلہ کو اپنے خون جگر سے سینچا اور سنوارا ہے۔ ادارتی لحاظ سے یہ رسالہ اردو کے امتزاجی اور تکثیری مزاج کا آئینہ دار ہے۔ پیارے لال شاکر میرٹھی لکھتے ہیں کہ’’ اردو میں صرف ادیب ہی پہلا رسالہ تھا۔ جو یورپ، مصر و قسطنطنیہ کے زریں رسائل کے مقابلے میں فخریہ پیش کیا جا سکتا تھا(العصر، اگست۔ ستمبر،1913) عابد رضا بیدار نے ’نوبت رائے نظر کا ادیب 1910۔1913‘ کے عنوان سے ایک انتخاب شائع کیا ہے اور رسالہ ادیب کے مشمولات اور امتیازات کے حوالے سے بہت معلوماتی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ’’ترتیب (ایڈیٹنگ )کا سلیقہ جیسا ادیب میں نظر آتا ہے اور جو تنوع اس میں رہتا تھاوہ دوسری جگہ نظر نہیں آتااور مشتملات کا ایسا معیار رکھنے والے دو ایک پرچے اس وقت اگر موجود تھے تو ان کا درجہ ادیب کے بعدہی آتا ہے‘‘ اس کے ایک خصوصی شمارے کی تعریف کرتے ہوئے عابد رضا بیدار لکھتے ہیں’’ دہلی دربار کے موقع پر دہلی کے بارے میں جیسا بھرپور اور مصور شمارہ ادیب کا نکلا ۔ اردو میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی۔‘‘ العصر، لکھنو العصر کی اشاعت کا آغاز مارچ1913میں ہوا ۔ اس کے مدیر پیارے لال شاکر میرٹھی سابق مدیر ادیب الہ آباد تھے جن کا آبائی وطن میرٹھ تھااور مدفون پہاڑ گنج دہلی کے مسیحی قبرستان میں ہیں۔ یہ ایک باتصویر رسالہ تھا جس کے قواعد کے تحت یہ درج ہے کہ: ’’یہ باتصویر ماہوار رسالہ جو علم و ادب کی ترقی کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ ہر ماہ کے آخر میں لکھنو سے شائع ہوتا ہے۔ ملک کے نامور اہل قلم ، مسلم الثبوت اساتذہ اور بہترین انشا پرداز اسے وقیع اور دلچسپ بنانے میں سرگرم ہیں۔ مضامین کی نوعیت ایسی ہے جو ہر طبقے کے لیے دلچسپ ہو۔‘‘ اداریے میں یہ بھی لکھا گیا کہ ’’ملک میں بہت سے موقت الشیو ع رسالے شائع ہوئے اور ہوتے ہیںمگر بااستثنائے چند ان کا اجرا زیادہ تر تجارتی اغراض سے ہوا ہے۔ ایک بہت بھاری نقص ہے جو اخبارات و رسائل کے حق میںزہر قاتل کا اثر رکھتا ہے۔ کیوں کہ تجارتی پرچوں کے ایڈیٹر عموماً بدلتے رہتے ہیں اور ایڈیٹروں کی تبدیلی کے ساتھ پرچوں کا مقررہ معیار یا امتیاز خصوصی قائم نہیں رہتا : ہر کہ آمد عمارت نو ساخت۔‘‘ العصر میں تاریخ، علوم و فنون، تاریخ ہند، مذہبی افکار، فلسفہ و سائنس، صنعت و حرفت، مشاہیراردو، مسائل زبان وبیان سے متعلق مضامین اور منظومات شائع ہوا کرتی تھیں۔ عابد رضا بیدار نے العصر کا ایک انتخاب شائع کیا ہے ۔ وہ اس رسالے کی بابت لکھتے ہیں’’مارچ1913میں اس کا پہلا شمارہ نکلا اور دسمبر 1917میں آخری۔ کاغذ، کتابت اور طباعت کے ساتھ ساتھ مشتملات کا وہ اعلیٰ معیار جو ادیب کو چھوڑ کر کسی دوسرے پرچے میںکم ہی مل سکے گا۔ذاتی پرچہ ہونے کے باوجود العصر نے برقرار رکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مضامین کا تنوع اور خالص ادب کے ساتھ ساتھ سماجی اور سائنسی علوم پر متوازن زور بھی اسی انداز پر قائم رہا۔ ‘‘ نقاد، آگرہ 1913 میں آگرہ سے ماہنامہ’نقاد‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے مدیر مولوی سید نظام الدین شاہ دلگیر اکبرآبادی اعلیٰ پائے کے انشاء پرداز تھے۔ اس مجلہ کا مقصد فن تنقید کو زندہ کرنا، پاکیزہ لٹریچر کا مذاق پیدا کرنا اور زبان کو کلاسیکی بنانے کی کوشش کرنا تھا۔ ادب لطیف کے فروغ میں اس رسالہ کا کردار بہت اہم ہے۔ اس کے اداریے میں نقاد کے منہج اور منصب کی وضاحت یوں کی گئی تھی: ’’نقاد کا کام جس طرح یہ ہوگا کہ لوگوں کے اصلی عیوب نکال کے ان کے سامنے پیش کر دئیے جائیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فرض بھی نقاد نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ کمالات اور محاسن کی داد دی جائے۔‘‘ (بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت،ص۔167) نقاد میں شبلی نعمانی، عبدالحلیم شرر، نظم طباطبائی، نیازفتح پوری، حامد حسن قادری، مولانا سعید احمد مارہروی جیسے مسلم الثبوت ادیبوں کی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔محمد بشیر الحق دسنوی نے اردو ادب علی گڑھ (1963) میں اس رسالہ کے امتیازات اور خصوصیات پر روشنی ڈالی ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ نقاد نے واقعی اپنا فرض ادا کیا۔ موجودہ عہد میں اس نوع کے رسالوں کی شدید ضرورت ہے کہ شاید ہماری تنقیدی روش اب بہکتی جا رہی ہے۔ کہیں صرف تنقیدی تعصبات و تحفظات ہیں تو کہیں نتقیص و تضحیک۔ علی گڑھ میگزین 1920میں پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ادارت میں علی گڑھ میگزین کا اجرا ہوا۔اس کی ادارت سے اردو کی بہت اہم شخصیات کی وابستگی رہی ہے جن میں خواجہ منظور حسین، آل احمد سرور، ظفر احمد صدیقی، جاں نثار اختر،ابواللیث صدیقی ،بشیر بدروغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اس میں بہت سے اہم علمی و ادبی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس رسالے نے بھی ادبی ذوق کو جلا بخشنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کے خصوصی شمارے جو قیمتی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں علی گڑھ نمبر، غالب نمبر، اقبال نمبر، اکبر الہ آبادی نمبر، طنز و ظرافت نمبر ، فانی نمبراور مجاز نمبر قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر آل احمد سرور کی نگرانی اور بشیر بدر کی ادارت میںغالب نمبر شائع ہوا جس کے اداریے میں بشیر بدر نے لکھا تھا’’ ایک زبان ، ایک شاعر، ایک یونیورسٹی کی تثلیث(اردو، غالب، علی گڑھ ) میں ہماری یہ کوشش پہلی کوشش ہے جس میں یہ وحدت قائم ہوئی ہے۔ اس خصوصی شمارے میں غالب کے نانا(پروفیسر مسعود حسین خان) ، غالب کا نفسیاتی شعور(سعید احمد صدیقی)، غالب اور بیگم غالب(اعجاز اختر)، غالب کا استفہامیہ ذہن(بشیر بدر) قابل ذکر ہیں۔ اردو،اورنگ آباد انجمن ترقی اردو ہند کا ترجمان رسالہ اردو کااجرا جنوری1921میں ہوا۔انجمن کی مجلس شوریٰ کی تجویز یہ تھی کہ ’’یہ رسالہ مثل دوسرے رسالے کے کشکول نہ ہو جس میں ہر قسم کے مضامین بلالحاظ مناسبت و ربط درج کر دئیے جاتے ہیں۔ بلکہ اس میں زیاہ تر زبان و ادب کی بحث ہو۔ اردو زبان اس کی تاریخ، اصطلاحات، لغت، الفاظ، محاورات اور تنقید کے متعلق مضامین ہوں ۔ ‘‘(اردو ،اپریل1921) ۔ رسالہ اردو میں بلند پایہ مستند اور معتبر تحقیقی و تنقیدی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ رسالہ اتنا اہم تھا کہ اسے پریم چند نے’ اردو رسالوں کا قافلہ سالار‘ کہا ۔یہ رسالہ تحقیقات عالیہ کا خزانہ عامرہ ہے۔ اس میں نادر و نایاب مخطوطات اور کمیاب کتابوں سے قاری کو روشناس کرایا جاتا تھا اور زبان و ادب سے متعلق مباحث اور مسائل پر گفتگو بھی ہوتی تھی۔خاص طور پر اصطلاحات علمیہ کاایک مفید کالم بھی تھا جس میں طبیعات، نفسیات، نباتات وغیرہ کے انگریزی اصطلاحات کے اردو تراجم ہوتے تھے۔ کتابوں پرمبسوط تبصرے کا ایک خاص التزام ہوتا تھا۔ ڈاکٹر یونس غازی کے مطابق:’’ رسالہ مذکور میں کم و بیش ایک ہزار پانچ سو ساٹھ کتابوں اور تین سو پچیس رسالوں پر تبصرے شائع ہوئے۔‘‘ افکار و واقعات کے تحت مولوی عبد الحق اردو کی صورت حال پر لکھا کرتے تھے۔ اس رسالے میں اردو ہندی تنازعہ کے تعلق سے بھی بہت سی تحریریں شائع ہوئیںجن میں آنریبل شری سمپورنا نند کی ہندی نوازی(اکتوبر1938) ، بابو پرشوتم داس نندن اور ہندی اردو(جولائی1937) ، پروفیسر جھا اور اردو ہندی(جولائی1937)،پھر وہی ہندی اردو کی بحث(جنوری1937)، سی پی اور ہندی اردو(جنوری 1938)، گاندھی جی اور اردو ہندی(جولائی1937)، مسٹر بوس اور ہندی(جنوری1938)، مسٹر ساورکر اور قومی زبان(جولائی1938)، مولانا ابوالکلام آزاد اور ہندی اردو(جولائی1938)اہم ہیں۔باد ہ کہن کے تحت شعرا کا تذکرہ اور کلام بھی شائع ہوتا تھا۔ مولوی غلام ربانی کا اس رسالے کے بارے میں یہ خیال تھاکہ’’ہندوستان کا تو ذکر کیا ہے یورپ اور امریکہ میں بہت کم رسالے ہیں جن کا معیار اتنا بلند اور مذاق اتنا پاکیزہ ہو جیسا اردو کا۔ ‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محمدیونس، انجمن ترقی اردو ہند کی تاریخ اور خدمات، صفحہ280 ) رسالہ اردو تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے شائع ہونے لگا۔ رسالہ اردو کا اشاریہ 1921تا1962 ماخذات کے مصنف سید سرفراز علی رضوی نے مرتب کیا ہے اور1966سے 1998تک کا اشاریہ مصباح العثمان نے ترتیب دیا ہے۔ ڈاکٹر یونس غازی نے شمارے کی ترتیب کے لحاظ سے تمام مشمولات کا ذکر کیا ہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رسالہ اردو کا موضوعاتی کینوس بہت وسیع تھا اور بقول جمیل الدین عالی:’’رسالہ اردو نے علمی انداز اور تحقیقی اپروچ کی وہ بنا ڈالی جو اردو میں تقریباً نا پید تھی۔‘‘ اس رسالے میں مشاہیر ادب کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ وہ چند مضامین جو بہت اہم ہیں اور عہد حاضر کے لئے بہت مفید ہیں۔ ان میں انگریزی ادب پر عربی کے اثرات(احمد الحسینی) انگریزی میں اردو کے الفاظ (شیخ محمد اسماعیل پانی پتی) اردو اور بنگلہ زبانوں میں انڈو آریائی نسل کے مشترک الفاظ (سید شبیر علی کاظمی) اردو ادب کی ہندوستانی قومیت (شہاب جعفری) قابل ذکر ہیں۔ اس میں جہاں ادبیات سے متعلق مستند ماخذ ہیں وہیں اردو صحافت کے تعلق سے بہت سے مراجع بھی ہیں۔ رسالہ اردو(اکتوبر1935) میں مولوی عبد الرزاق ارشد کا ایک مضمون آدھی صدی پہلے کے اردو اخبار شائع ہوا ہے۔ جس میں چوتینس اخبار کا ذکر ہے۔ اسی طرح رئیس احمد جعفری کا ایک مضمون اکتوبر1945کے شمارے میں ہے جس میں پچہتر اخبارات کا ذکر ہے۔ ضیاء الدین احمد برنی کے مضمون ’’صوبہ ممبئی کے اردو، فارسی ، عربی اخبارات‘‘ میں اکہتر اخبارات کا تبصرہ ہے۔ ڈاکٹر محمد عبدالحق کے مضمون’’مدراس کے اردو اخبار‘‘(مطبوعہ اپریل 1941)میں پچاس اخبارات کی تفصیل ملتی ہے۔ پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی کا بھی ایک مضمون ’اب سے آدھی صدی پہلے کے اردو اخبار‘(اپریل1935)میں شائع ہوا ہے جس میں تقریباً 65 اخبارات کا ذکر ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو اردو صحافت کی تحقیق میں بھی یہ رسالہ ایک رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ ’ہمایوں‘، لاہور 1921میں لاہور سے میاں بشیر احمد بی اے آکسن بیرسٹر ایٹ لا نے اپنے والدجسٹس محمد شاہ دین ہمایوں کی یاد میں اس کا آغاز کیا تھا۔ اس میں علمی ، ادبی، تمدنی، اخلاتی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ بزم ہمایوں، جہاں نما، محفل ادب، آپ اور ہم جیسے عنوانات کے تحت تخلیقات شائع کی جاتی تھیں۔ افسانے اور شاعری کا بھی وافر حصہ تھا۔اس رسالے میں بھی کئی اہم مضامین شائع ہوئے جن میں تھامس گرے کے کلام پر تنقیدی نظر(محی الدین قادری زور)، ہندی شعرا کا تخیل(سدرشن)قابل ذکر ہیں۔محفل ادب میں معاصر رسائل سے مضامین ، منظومات اور دیگر اندراجات کے اقتباسات اور انتخابات شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے مقاصد کے تحت ایک اہم بات یہ درج تھی کہ’’ دل آزار تنقیدیں اور دل شکن مذہبی مضامین شائع نہیں کئے جائیں گے‘‘ اس کی ادارت سے علامہ تاجور نجیب آبادی کی وابستگی رہی ہے۔ یہ بھی بر صغیر کا ایک معیاری اور معتبر رسالہ تھا۔ آل احمد سرور نے اردو ادب علی گڑھ (جنوری۔اپریل 1951) میں ہمایوں سالگرہ نمبر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ : ’’ہمایوں نے اردو زبان و ادب کی بڑی خدمت کی ہے اور ہمیشہ سنجیدہ اور متین افکار کی آئینہ داری کی ہے۔‘‘نورالہدیٰ نے اس مجلے کے بارے میں مکمل تفصیلات اپنے مضمون ]مطبوعہ فکر و تحقیق ،اپریل۔ جون [2005میں درج کی ہیں۔ اس رسالے میں اردو ہندی چپقلش کے حوالے سے بشیر احمد ، ڈاکٹر محی الدین، محمد حسین ادیب، تاجور نجیب آبادی، مولوی عبد العزیز، ناظر دہلوی ، مولانا وحید الدین کے مضامین شائع ہوئے۔ ان مضامین کا تجزیہ عبدالرشید ارشد ، ڈاکٹر محمد ارشد نے مجلہ ہمایوں اور اردو ہندی چپقلش کے عنوان سے اپنے مضمون میں کیا ہے جو جہانِ تحقیق میں شائع ہوا ہے ۔ اسی طرح ہمایوں میں آثار قدیمہ کے موضوع پر مولوی عبد اللہ، بشیر احمد، تاجور نجیب آبادی، تمکین کاظمی، حسن نظامی، دیوانہ بریلوی، مبارک علی، مقبول رحمان، منصور احمد کے مضامین شائع ہوئے۔ جن میں نشاط باغ، جہاں گیر کا مقبرہ، دکن کے آثارِ قدیمہ، ہمایوں کا مقبرہ ، چین کی دیوارِ عظیم، شالامار باغ، مصر کے آثارِ قدیمہ،اہرام مصری اور توتنخ امین کا مقبرہ،مقبرہ زبیدہ ، تاج، موہن جودارو، ٹیکسلا وغیرہ جیسے مضامین ہیںجن کا تجزیہ عبد الرسول ارشد نے ہمایوں اور آثار قدیمہ کے عنوان سے کیا ہے۔ نگارآگرہ، لکھنؤ؍ بھوپال؍کراچی فروری 1922میں نگار کا اجراء ہوا۔ رسالہ کے سرورق پر ’مجلہ علمیہ و ادبیہ‘ درج ہوتا تھا۔ رئیس التحریر نیاز فتحپوری تھے اور معاون مدیر کی حیثیت سے مخمور اکبرآبادی کا نام شائع ہوتا تھا۔ علامہ نیاز فتح پوری نے ترکی کی انقلابی اور رومانی شاعرہ نگار بنت عثمان سے متاثر ہوکر اس کا نام نگار رکھا تھا۔ یہ اردو کا ایک اہم رسالہ تھا۔ اس مجلے کا ارتکاز اہم ادبی، تہذیبی، مذہبی، تاریخی اور تمدنی مباحث و مسائل پر تھا۔اس میں ایک کالم ’’مالہ اور ماعلیہ ‘‘ کے عنوان سے تھا۔ جس میں شعری محاسن و معائب پر بیباک گفتگو ہوتی تھی۔ اب یہ سلسلہ معدوم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اصلاح سخن کی روایت ختم ہو گئی۔ اس رسالے نے بھی ادبی ذہنوں کو متاثر کیا۔ خاص طور پر نگار کے ادبی اور مذہبی مباحث سے وہ جمود ٹوٹا جو ادبی اور مذہبی معاشرے پر طاری تھا۔ علامہ نیاز فتحپوری نے نگار کو عالمانہ اور دانش وارانہ رنگ و روپ عطا کیا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ رسالہ صرف ادبی موضوعات اور مباحث پر مرکوز ہو بلکہ نگار میں تمام علوم و فنون کا استقصا ان کا مطلوب و مقصود تھا۔اسی لئے انہوں نے اپنے اداریے میں لکھا تھا: ’’ جس وقت ترتیب نگار کے فرائض پر میں نے غور کیا تو ضروریات زمانہ دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ تو میں نے پہلے ہی سانس میں کر لیا کہ نگار کو جس کے نام میں ہرچند ادبی پہلو زیادہ روشن ہے اور میں اسے لطیف کی رعایت سے بہرحال قائم رکھنے پر مجبور ہوں۔ خالص ادبی رسالہ تو نہ بننے دوں گا کیوں کہ ادب کی وہ مانگ جو چند سال پیشتر تھی باقی نہیں رہی اور میں نے بھی (جو اپنی گزشتہ زندگی کی بہت سی چاندنی راتیں اسی موضوع کی خلوت میں بسر کر چکا ہے) اب اس کو مناسب نہیں سمجھا کہ جو تفریح تماشہ کرنے والوں کی کثرت سے اس درجہ پامال اور عام ہو چکی ہے اسے پھر پبلک کے سامنے پیش کروں۔ ‘‘ ’عناصر نگار‘ کے تحت علامہ نیاز فتحپوری نے یہ بھی لکھا تھا کہ:’’ میں یہ دعویٰ تو نہیں کر سکتا کہ نگار ہمیشہ زندہ رہے گا یا یہ کہ اس کی حیات بہت طویل ثابت ہوگی۔ تاہم یہ وعدہ ضرور کرتا ہوں کہ جب تک اس رسالہ کی تحریر میرے سپرد ہے اس وقت تک اس کو صرف اس وجہ سے بند نہ ہونے دوں گا کہ مضامین فراہم نہیں ہوتے یا لکھنے والے توجہ نہیں کرتے کہ عام طور پر یہ دقت بھی محسوس کی جاتی ہے۔ اب رہا مادی سوال سو اس کے متعلق میرا عقیدہ ہمیشہ سے یہ رہا ہے کہ ہندوستان میں بھی جہاں عام طور سے فقدانِ ذوق کی شکایت کی جاتی رہی ہے ایک ماہوار رسالہ اپنی زندگی قائم رکھنے کے لئے یقینا کافی توجہ طلب کر سکتا ہے اگر وہ حقیقتاً اس کا اہل ہے۔ ‘‘ نگار میں اسلامیات، اقتصادیات، حیاتیات، روحانیات، مذہبیات، نفسیات، فلکیات، لسانیات، سائنس، تنقید، تاریخ، تعلیم، تقویم اور تذکروں سے متعلق مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس کے خاص عنوانات ملاحظات، باب الاستفسار، باب الانتقاد، مالہ وما علیہ، باب المراسلہ والمناظرہ رہے ہیں۔ عالمی ادبیات سے متعلق بھی اس میں مضامین کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ عربی شعراء اور ادباء پر بھی بہت وقیع مضامین شائع ہوئے ہیں جن میں ابوالعتاہیہ کے حالات (عبدالصمد الہ آبادی) ابوالعتاہیہ (سید محمد جعفر حسین) ابوالعلاء معری(نیاز فتح پوری) ابوالعلاء معری اور رسالۃ الغفران (سید احتشام حسین ندوی) ابونواس اور ان کی شاعری (جلیل الرحمن اعظمی) عنترہ بن شداد (مولوی محمد علی) عین الزماں طرابلسی (سید جلال کلکتہ) مجنوں اور اس کا دیوان (جلیل الرحمن اعظمی) متنبی (ظہیر عالم) متنبی (نیاز فتح پوری) آنسہ می عندلیب مصر (عبدالحمید نعمانی) ابوالعلاء معری پر ہندوستان فلسفہ کے اثرات (سید احتشام احمد ندوی) عربوں کا فن تنقید (شوکت سبزواری) شامل ہیں۔ آثار قدیمہ کے تحت بھی اس میں بہت اہم مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ جن میں قلعہ گوالیار کی تاریخی اہمیت (عبدالرشید لشکر) دہلی کا پرانا قلعہ (شاد صابری) تاج آگرہ اور مسٹر ہگسلے(سید عبدالرحمن اعجاز) شاہان مغلیہ کے باغات (محمد حامد دہلوی) نقوش اجنتا کی داستان (نواب احمد) غارہائے اجنتا (نواب احمد) قابل ذکر ہیں۔ اس کے علاوہ سنسکرت اور ہندی ادبیات سے متعلق بھی کئی اہم مضامین شائع کئے گئے ہیں۔ جن میں تلسی داس (ناطق مالوی) رامائن و مہابھارت (نیاز فتح پوری) فطرت نگار تلسی کا ناصحانہ کلام (اعظم کریوی) کبیر داس (نیاز فتحپوری) شاعرہ دیوی رانی میرابائی (عبدالجلیل) ہندی اور عربی کے ہم معنی اشعار (محمد امین عباسی) ہندی کا مشہور حسن نواز شاعر مشہور بہاری (اعظم کریوی) ہندی کی بعض نازک تشبیہات (نیاز فتحپوری) ہندی کی عشقیہ شاعری (ابوسعید بزمی) رامائن پر ایک تحقیقی نظر (نواب سید حکیم احمد) جلوۂ کرشن (ہوش بلگرامی) اہم ہیں۔ خاص طور پر نگار کے خصوصی شمارے مومن نمبر، غالب کی شوخیاں نمبر، معاصر غزل نمبر، جدید شاعری نمبر،ہندی شاعری نمبر ، عورت اور فنونِ لطیفہ نمبر، کتابیات تحقیق نمبر، اصنافِ سخن نمبر، تنقید نمبر اور معاصر غزل گویوں پر تنقید نمبر، نظیر نمبر، حسرت نمبر کو بے پناہ مقبولیت ملی۔ ان تمام خصوصی شماروں میں بے پناہ علمی و ادبی ذخیرہ محفوظ ہے۔ ڈاکٹر عطا خورشید نے ’نیاز فتحپوری کا نگار:وضاحتی اشاریہ 1922-1966‘کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جس میں نگار کے جملہ مشمولات کی تفصیلات درج ہیں۔ جامعہ، علی گڑھ؍دہلی 1923میں علی گڑھ سے رسالہ جامعہ کا اجرا ہوا جس کے مدیر نور الرحمن تھے۔ اس میں تعلیمی و تدریسی مضامین کو ترجیحی حیثیت حاصل تھی مگر سیاسیات ، تہذیب ، تاریخ ، شخصیات، مذہب کے علاوہ ادب میں نثری اور شعری اصناف پر مشتمل مضامین شائع ہوتے تھے۔ اس کا امتیاز یہ بھی ہے کہ اس رسالے میں معاشیات سے متعلق اہم مضامین شائع کئے جاتے تھے۔ اس رسالے کا اپنا الگ علمی اور ثقافتی منہج تھا۔ اس کے مشمولات پر نگاہ ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں اعلیٰ علمی اور ادبی ذوق کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ تاریخ کے ذیل میں ہندو اور آریہ کی وجہ تسمیہ(اکبر شاہ نجیب آبادی)، آثارِ عرب (ابراہیم عمادی)، آثار فراعنہ مصر(سعید انصاری) جہاں بہت اہم ہیں وہیں اردو زبان کے تعلق سے اردو رسم الخط(مولانا اسلم جیراجپوری)، اردو رسم الخط(محی الدین قادری زور)، قومی زبان (مولوی بدرالحسن) ہندوستان کی مشترکہ قومی زبان(خطبہ بابو راجندر پرشاد) قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح سرقہ و توارد(سید شاکر حسین نکہت سہسوانی )، اور شمالی ہندوستانی کے دیہات کی زبان (سید مطلبی فرید آبادی)، عربی زبان عصر جاہلی میں (عبد العلیم احراری) بہت اہم ہیں۔ اس رسالے کا معیار اس لیے بھی بلندتھا کہ اس کی ادارت سے اسلم جیراجپوری، یوسف حسین خان، ڈاکٹر عابد حسین، نور الحسن ہاشمی، پروفیسر محمد عاقل، پروفیسر نجم حنفی جیسی شخصیات کی وابستگی رہی ہے۔ ڈاکٹر فرزانہ خلیل نے رسالہ جامعہ کا تنقیدی اشاریہ (1923تا1947) تیار کیا ہے جو شائع ہو چکا ہے۔ نیرنگ خیال، لاہور جولائی1924میں لاہور سے حکیم محمد یوسف حسن کی ادارت میں ’نیرنگ خیال‘ جاری ہوا ۔ادبی صحافت میں اس نے بہت سارے نئے تجربے کیے خاص طور پر سال ناموں کی اشاعت اس کا ایک بڑا کارنامہ ہے، یہ رسالہ بھی اپنے موضوعات اور مشمولات کی وجہ سے بہت مقبول ہوا ۔اس رسالے میں سوانح ،شخصیات کے علاوہ دیگر شعری و نثری تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس کے جو خصوصی شمارے ہیں ان سے ہمارے قارئین کو کچھ نئی جہتوں اور زاویوں کا علم ہوا ان میں مختصر افسانہ نمبر ، چینی افسانہ نمبر، ماہیا نمبر اور ایڈیٹر نمبر قابل ذکر ہیں۔ نیرنگ خیال کا ایک شمارہ ’’نگارش لطیف ‘‘کے نام سے جون 1932میں شائع ہوا جو خواتین قلم کاروں پر مشتمل تھا۔ اس میں نذر سجاد حیدر، سکندر خانم، زہرہ ، شیو رانی(بیگم پریم چند)، نکہت شیروانیہ، خدیجہ بیگم، خورشید اقبال حیا بیگم( مدیرہ خاتون مشرق میرٹھ) مس حجاب اسمعٰیل، یشودا دیوی (بیگم کنہیا لال کپور) کی نگارشات شامل ہیں۔ یہ شاید واحد ایسا رسالہ تھا جس نے علامہ اقبال کی زندگی میں ہی 1932میں اقبال نمبر شائع کیا تھا۔دیوان حنان خان نے’’ نیرنگ خیال کا موضوعاتی اشاریہ ‘‘کے عنوان سے کتاب مرتب کی ہے جو 2007میں شائع ہوئی۔ عالم گیر،لاہور 1924 میںحافظ محمد عالم کی ادارت میں اس کی اشاعت شروع ہوئی ۔ شبلی بی ۔کام بھی اس سے وابستہ تھے اور نجمی نگینوی کا بھی اس کی ادارت سے رشتہ رہا۔ تاریخی ناول نگاری کے فروغ میں اس مجلے کا کردار بہت نمایاں ہے۔ خاص نمبروں کے حوالے سے یہ رسالہ بہت مقبول رہا ہے۔ اس کے اداریے میں بھی اس کی طرف اشارے کئے گئے ہیں۔ نومبر 1930 کے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ: ’’ کہ یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے۔ عالمگیر کے خاص نمبرکئی سال سے ملک کے تمام دیگر خاص نمبروں کے لئے بہمہ وجوہ قابل رشک ثابت ہورہے ہیں۔‘‘ اور اشتہار میں بھی یہ درج کیا گیا ہے کہ: ’’عالمگیر واقعی عالمگیر ہے اور اس کا خاص نمبر واقعی خاص نمبر ہے۔ ‘‘ فہرست کے صفحہ پر نمایاں طور پر یہ عبارت درج ہوتی تھی کہ:’’عالمگیر ہندوستان بھر کے علمی ادبی (باتصویر) رسائل میں سب سے زیادہ چھپتا ہے۔‘‘ عالمگیر کے کئی خاص نمبر شائع ہوئے جن میں عید، عید قرباں نمبر، تاریخ نمبر قابل ذکر ہیں۔ اس میں مقالات مدیری کے عنوان سے ایک سلسلہ تھا جو کافی اہم تھا۔ تحقیق و تصحیح اور رفتار زمانہ کے عنوان سے شبلی بی۔کام کالم لکھا کرتے تھے جس میں زیادہ تر گفتگو زبان کے معیار کے حوالہ سے ہوتی تھی۔ اس کے چند اہم مضامین میں غالب اور اس کے چند شعر (عامر عثمانی۔مئی1937) ، کیا اکبر اَن پڑھ تھا(نور احمد خاں فریدی۔جنوری۔فروری1950) ، قدیم ہندوستان کی عورت(یوسف علی خان ۔اگست1941) امرء القیس کے حالات زندگی (عبدالرحمن اصلاحی مستقیمی۔ اگست1941) شاہانِ اودھ کا آخری چراغ (عزیز گورکھپوری۔ ستمبر 1941) مستشرقین کی عربی علوم سے دلچسپی (کمال عظیم آبادی۔اگست1941) دیوار چین (حکیم محمد ابراہیم۔اکتوبر1936)، خسرو باغ الہ آباد (عبدالسبحان ناظر الہ آبادی۔نومبر1925) قابل ذکر ہیں۔ عالمگیر کے مضامین بہت اہم اور مفید ہوا کرتے تھے۔ اس کے ایک اداریے میں یہ لکھا گیا تھا کہ : ’’شمارۂ حاضرہ میں تمام مضامین افادی حیثیت سے بہت کامیاب ہیں۔ ہمیں اس حقیقت صحیحہ کے اعلان میں تامل نہیں کہ عالمگیر کے مضامین حقیقی معنوں میں حیات آموز ہوتے ہیں۔‘‘ (اکتوبر۔1936) شمع، آگرہ 1925 میں آگرہ سے ماہنامہ ’شمع‘ کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس رسالہ کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی ادارت سے روشن خیال دانشور اور ممتاز مورخ پروفیسر محمد حبیب (آکسن) اور حسن عابد جعفری (آکسن) کی وابستگی تھی۔ ’شمع‘ کا مقصد یہ تھا کہ یہ مجلہ محرک خیالات ثابت ہو اور لوگوں میں اس سے غور و فکر کی تحریک پیدا ہو۔ بیش قیمت علمی اور ادبی سرمائے کی بازیافت بھی اس کا مقصد تھا۔ اس میں تاریخ ،فلسفہ، سیاسیات، سائنس اور مذاہب کے متعلق مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ رسالے کے اغراض و مقاصد کے تعلق سے بڑی اہم بات یہ لکھی گئی ہے کہ: ’’ادب اردو میں ایک بڑا نقص ہے جو بدقسمتی سے ہنوز موجود ہے وہ یہ کہ زبان کو اظہار خیالات کا ذریعہ بنانے کے بجائے محض زبان کی طرف توجہ دی جاتی ہے۔‘‘ یہ رسالہ بہت سے اہم تاریخی اور تہذیبی، تمدنی معلومات کی فراہمی میں بہت مفید ثابت ہوا۔ رسالہ ’معارف‘ اعظم گڑھ میں اس کے مشمولات کی تعریف کی گئی اور یہ اعتراف کیا گیا کہ: ’’لائق ایڈیٹروں کے متعلق معلوم ہے کہ رسالہ کا بلند معیار ان کے پیش نظر ہے۔ یہ یقینا خوشی کی بات ہے کہ اب اردو رسائل کا وہ دور ختم ہو رہا ہے جب ایڈیٹری کے لئے صرف ’جمع و ترتیب‘ کی صلاحیت کافی سمجھی جاتی تھی۔ اب پروفیسر اقبال، پروفیسر شفیع، پروفیسر محمد حبیب اور حسن عابد جعفری کا اردو رسالوں کی ترتیب و اشاعت میں حصہ لینا ہماری زبان کے ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ ‘‘ (بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت،ص178-179) سہیل،علی گڑھ جنوری 1926میںعلی گڑھ سے سہیل کا اجراء ہوا۔ یہ انجمن اردوئے معلی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا سہ ماہی علمی رسالہ تھا۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی علیگ اس کے مدیر تھے۔ مجلہ سہیل کے اغراض و مقاصد میں ایک خاص بات یہ درج تھی کہ ’’سہیل کو ہر شاعر یا نثر نگار کی تالیف قلوب کا ذریعہ نہ بنانا‘‘ جب کہ آج عموماً زیادہ تر رسائل کی روش تالیف قلوب کی ہے۔ اسی وجہ سے معیاری تخلیقات کے فقدان کی شکایت عام ہوچکی ہے۔ سہیل کا معاملہ ذرا الگ طرح کا تھا کہ اس کی ادارت سے وابستہ پروفیسر رشید احمد صدیقی بالغ نظر تھے اور علوم و ادبیات پر ان کی گہری نظر بھی تھی۔ اس لئے سہیل میں قیمتی اور وقیع مضامین ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ مشمولات کی فہرست سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا معیار کافی بلند تھا۔ سہیل میں ’’اردو رسم الخط اور اردو کی اشاعت(سید طفیل احمد)، داستان اردو (نصیر حسین خیال)، عہد مغلیہ میں ہندی زبان کی سرپرستی (سید معین الدین شاہجہاں پوری)، اردو کے اسالیب بیان (سید محی الدین قادری زور)، مثنوی بوستان خیال (احسن مارہروی)، اردو کی ترقی میں ہندوؤں کا حصہ(عبدالشکور ایم اے علیگ)، تاریخ گوئی کی ایجاد و ترقی (سید ضامن علی ترمذی)، ترتیب کتب خانہ و تقسیم علوم (سید کامل حسین)‘‘ جیسے مضامین شائع ہوئے۔ سہیل پہلے سہ ماہی تھا بیچ میں توقف اور تعطل کا شکار بھی رہا جس کی وجہ سے اسے سالنامہ میں تبدیل کرنا پڑا۔ جنوری 1936 کا شمارہ سالنامہ کے طور شائع ہوا۔ جس میں معاون مرتب کے طور پر آل احمد سرور کا نام درج تھا۔ اس میں بہت سے اہم مضامین شائع ہوئے جن میں مصوری کے میلانات نو (ڈاکٹر سلیم الزماں علیگ)، اناتول فرانس کا فلسفۂ زندگی (اشفاق حسین)، اردو اور اس کے تاریخی مآخذ (ابواللیث صدیقی)، حالی ایک محب وطن کی حیثیت سے (ڈاکٹر ذاکر حسین) حافظ کے کلام میں کلام (ڈاکٹر عبدالستار صدیقی) بہار اور اردو شاعری (معین الدین دردائی علیگ) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ اسی سالنامہ میں قومی ادب اور ہندی سمیلن کے عنوان سے ڈاکٹر اشرف کا ایک وقیع مضمون شائع ہوا جو اردو ہندی تنازع سے متعلق تھا۔ اس مضمون کے تعلق سے اداریے میں بہت ہی بیش قیمت باتیں تحریر کی گئی تھیں۔ رشید احمد صدیقی نے یہ لکھا تھا کہ:’’ واقعہ یہ ہے کہ فی نفسہ زبان کا مسئلہ اتنا پیچیدہ اور نازک نہیں جتنا اسے مذہبی اور جماعتی رنگ دے کر ناخوشگوار اور ناپسندیدہ بنا دیا گیا۔‘‘ اردو کے تعلق سے مزیدانہوں نے یہ بھی لکھا کہ :’’اردو قطعاً وہ زبان نہیں ہے جس کو ہندوستان میں کسی اعتبار سے اجنبی کہا جا سکے۔ نظربراں اردو کو بدیسی کہنا زبان کی تاریخ ترکیب اور فلسفہ سے بیگانگی کی دلیل ہے۔ ‘‘اداریے میں پروفیسر وحیدالدین سلیم کی کتاب وضع اصطلاحات کے حوالہ سے یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اردو ان زبانوں میں شامل ہے جو سنسکرت سے مشتق ہیں۔‘‘اسی اداریے میں اردو زبان میں آریائی اور سامی عناصر کے تناسب کا جائزہ لیا گیا اور فرہنگ آصفیہ کے الفاظ کے جدول کے ذریعہ میزان کل نکال کر یہ واضح کیا گیا کہ اردو ہندی نژاد ہے۔ بہارستان،لاہور 1926میں بہارستان کی اشاعت کا آغاز ہوا۔ اس کے مدیر مسئول اختر شیرانی اور معاون رفیعی اجمیری تھے۔ سرِ ورق پر یہ شعر ؎ بنام شاہد نازک خیالاں عزیز خاطر آشفتہ حالاں درج رہتا تھا۔ یہ ادارے کے مطابق اردو علم ادب کی دلچسپیوں کا ماہوار مجموعہ تھا ۔اس میں بہت سی اہم قیمتی نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ خاص طور پر اختر شیرانی کے ناول اور اشعار شائع ہوتے تھے۔ یہ بھی ایک باتصویر رسالہ تھا۔ اسی رسالے کے شمارہ اکتوبر میں تحقیقِ قصہ پدمنی(مولانا احتشام الدین صاحب حقی دہلوی، ایم ۔ اے۔ علیگ) شائع ہوا۔ اس کے علاوہ اختر شیرانی کا ایک مسلسل ناول ’’دنیائے شباب ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس کا پہلا باب دہلی کی ایک سنہری رات تھا۔ صید و شکار کے تحت جہانگیر کا آخری شکار(اختر شیرانی)،ایک افغان شاعرہ یا داستان مستورہ، ایک ملعون پیغمبر ڈرامہ(اختر شیرانی) شائع ہوئے۔ ’حشر جذبات‘ کے عنوان سے حضرت آغا حشر کاشمیری کی غزل شائع ہوئی۔ جس کا ایک شعر بہت مشہور ہوا: سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد ’در یگانہ‘ کے عنوان سے مرزا یاس یگانہ لکھنوی اور ’نوائے مضطر‘ کے عنوان سے افتخار الملک افتخار الشعرا خان بہادر حضرت مضطر خیر آبادی کی شاعری شائع ہوئی۔ اسی شمارے میں حضرت غریب جہاں آبادی کا ترجمہ کردہ ایک ترکی افسانہ ’’اسیر حرم‘‘ شائع ہوا۔ دسمبر1926میں مصر کے آثار قدیمہ(حفیظ الدین شملہ)اور فرعون طوطخ ایمن کا مقبرہ کے عنوان سے مضامین شائع ہوئے۔ یہ رسالہ ادبی حلقے میں بہت مقبول ہوا۔ اس کے بارے میں ضیاالملک ، ملائے رموزی جرنلسٹ نے یہ لکھا تھا کہ’’بہارستان کا ہر صفحہ جہاں جمال فطرت کی گلریزیوں کا ایک جلوہ پرور منظر ہے وہاں وہ اختر ورفیعی کے عزم و ثبات عمل کا قابل تقلید اور رجسٹری شدہ قبالہ بھی ہے۔ ‘‘انھوں نے اختر شیرانی کو یہ بھی لکھا کہ’’ حقیقت میں بہارستان آپ کی سنجیدگی، سلامت ذوق اور زندہ دلی کا عدیم النظیر ثبوت ہے۔‘‘ ادبی دنیا، لاہور 1929میں علامہ تاجور نجیب آبادی کی ادارت میں ادبی دنیا کا اجراہوا۔ اس کی پیشانی پر ’مشرق و مغرب کے قدیم و جدید ادبیات کا ماہوار مرقع‘ کی عبارت درج تھی۔ ڈائریکٹر کی حیثیت سے آنریبل جسٹس عبدالقادر اور بطور مدیر تاجور نجیب آبادی کے نام ہیں۔ اس رسالہ میں افتتاحی حصہ، تعلیمی حصہ، تنقیدی حصہ، علمی حصہ اور تاریخی حصہ کے علاوہ نظمیں، غزلیں، دنیائے ادب جیسے عنوانات کے تحت تخلیقات کی اشاعت ہوتی تھی۔ مولانا تاجور نجیب آبادی ’حال و قال‘ کے عنوان سے اداریہ لکھتے تھے۔ اس مجلہ سے منصور احمد، حفیظ ہوشیار پوری، عاشق حسین بٹالوی میراجی، قیوم نظر، حامد علی خان، عبداللہ قریشی کی بھی ادارتی وابستگی رہی ہے۔ 1944 میں مولانا صلاح الدین احمد نے جب اس کی ادارت سنبھالی تو اس کا رنگ و روپ بھی بدل گیا۔ انور سدید نے مولانا صلاح الدین احمد اور ادبی دنیا کے حوالے سے بہت اہم بات لکھی ہے: ’’مولانا صلاح الدین احمد کے نزدیک ادب تعبیر حیات بھی تھا اور زندگی کی تفسیر بھی، یہ روشنی اور توانائی بھی فراہم کرتا تھا اور لطافت، بہجت اور مسرت بھی۔ انہوں نے ادبی دنیا کو اپنے انہی تصورات کا نقیب بنایا اور پختگی کردار نے اسے زندہ رکھا۔‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات،ص۔17) ادبی دنیا نے اپنی الگ شناخت قائم کی اور کئی نسلوں کی تربیت میں اس رسالے نے اہم کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ادبی صحافت کی تاریخ میں ادبی دنیا کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔ اس کے خصوصی شماروں میں ڈراما نمبر، اقبال نمبر اور وحشت، کلکتوی نمبر قابل ذکر ہیں۔ ساقی، دہلی؍کراچی 1930میں اردو کے اولین ناول نگار ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور واقعات دارالحکومت کے مصنف بشیر الدین احمد کے بیٹے شاہد احمد بی ۔ اے آنرز دہلوی نے ساقی کے نام سے ایک رسالہ دہلی سے شائع کیا جو تقسیم ہند کے بعد کراچی سے شائع ہونے لگا۔اس کا مقصد شاہجہاں آباد کی زبان و ثقافت کا تحفظ تھا۔ دیوان حافظ سے فال نکال کر اس کا نام ساقی رکھا گیا تھا: جہانِ فانی و باقی فدائے شاہد و ساقی رسالہ کے لوح پر اقبال کا یہ شعر درج ہوتا تھا: اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور ساقی نے بنا کی روش لطف کرم اور مشمولات کو جرعات کا عنوان دیا گیا تھا اور اداریہ نگاہ اولین کے نام سے تحریر کیا جاتا تھا۔ اس رسالے کا امتیاز وہ موضوعات ، مسائل اور کالم ہیں جنھیں قارئین بے حد پسند کرتے تھے۔ جمیل جالبی نے شاہد احمد دہلوی نمبر کے اداریے ’نگاہ اولیں‘میںلکھا ہے کہ ’’ساقی کا شمار اردو کے کثیر الاشاعت ماہنامہ میں ہوتا تھا۔ اس کا حلقہ اثر کوہ ہمالہ کی چوٹیوں سے لے کر راس کماری تک پھیلا ہوا تھا اس کے سال نامے اور خصوصی شمارے بہت مقبول ہوئے۔‘‘ ساقی نے افسانہ نمبر، دہلی نمبر، میر ناصر علی نمبر، عظیم بیگ چغتائی نمبر، جاپان نمبر، راشدالخیری نمبر شائع کیا۔ جون 1964میں اس کا ناولٹ نمبر شائع ہوا جس میں احسن فاروقی کا مضمون ناولٹ اور طویل افسانہ کے علاوہ جو ناولٹ شائع ہوئے ان میں ’اور ریکارڈ بجتارہا‘(محمد احسن فاروقی)، خیراتی اسپتال(شوکت عثمان ترجمہ سعد منیر)، طوفان حوادث(پروین سرور)، سفید عورت کالا آدمی(رشیدہ رضویہ) ، ایک شمع رہ گئی تھی(فرحت انوار)، شیطان اکیلا ہے(تقی مدرسی ترجمہ حسنین قادری) قابل ذکر ہیں۔ 1960کا سال نامہ افسانہ نگار خواتین کے لیے مختص تھا۔ جس میں نمائندہ خواتین کے افسانے شائع کیے گئے۔ پروفیسر محمد عبداللہ نے ساقی کا نذر الاسلام نمبر بھی مرتب کیا تھا۔ اگست1934کے شمارے میں پروفیسر احمد علی کا ایک وقیع مضمون ’ادبی چوری‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے اس میں انھوں نے غالب کے ایک شعر اور پوپ کی نظم کی سطروں میں مماثلت تلاش کی ہے۔اس حوالے سے انھوں نے حالی کا یہ شعر بھی درج کیا ہے۔ پردے میں شب کے کوئی شاعر جو چور ہے پھرتا ٹٹولتا ہوا مانند کور ہے انھوں نے یہ لکھا ہے کہ ’’اردو کی موجودہ ادبی دنیا چوریوں سے بھری ہوئی ہے۔‘‘ مگر انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ: ’’اوروں کے تجربے، مشاہدات، خیالات سے استفادہ کرنا یا اثر قبول کرنا چوری نہیں کہلائے گا کیوں کہ ’’اگر چوری اس کا نام ہوگا تو سب سے بڑا چور شیکسپیئر نکلے گاکہ اس نے اوروں کی کہانیوں کو لے کر اپنے ڈرامے بنائے مگر شیکسپیئر نے صرف اوروں سے ڈھنچر لے لیے اور ان میں جان خود ڈال دی اگر وہ یہ ڈھنچر اوروں سے نہ لیتا تو ممکن تھا کہ آج انگلستان کا بلکہ دنیا کا ادب غریب ہوتا۔‘‘ سرقہ بہت گمبھیر مسئلہ ہے اور یہ وبا ان دنوں عام ہے۔ خاص طور پر رسائل کے مدیران کو اس تعلق سے بہت سی دقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ ساقی کے مدیر شاہد احمد دہلوی نے اس مضمون پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بڑی اچھی بات کہی ہے’’پروفیسر صاحب نے مدیرین رسائل کو خاص طور سے متوجہ کیا ہے کہ ایسے مضامین رسائل میں شائع نہ کیے جائیں جن کے ماخذ کا حوالہ نہ دیا گیا ہو۔ یہ امر دشوار ہی نہیں بلکہ ناممکن العمل ہے۔ ایک مدیر سے یہ توقع کسی طرح نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ دنیا بھر کے لٹریچر سے کماحقہ واقف ہو۔۔۔۔ مدیرین کے لیے کیسے ممکن ہے کہ ہر مضمون کا ماخذ تلاش کر لیں۔ اگر مضمون نگار حضرات ہی خیانت سے باز رہیں تو ہماری صحافت سے یہ بے اعتدالیاںاٹھ سکتی ہیں ورنہ مدیرین کے روکے تو یہ سیلاب رکنا نہیں۔‘‘(نگاہ اولیں ، اگست1934 ) ساقی کا ارتکاز افسانے پر زیادہ تھا اس لئے اس میں افسانے کے علاوہ مغرب کے شاہکار افسانوں کے تراجم شائع ہوتے تھے۔ اس تعلق سے ساقی کا تراجم نمبر قابل ذکر ہے۔ ریزۂ مینا کے نام سے ساقی نے افسانوں کا ایک انتخاب شائع کیا تھا اور اسی رسالہ میں منظوم افسانے بھی شائع کئے گئے۔ ساقی میں ممتاز خواتین افسانہ گاروں کے افسانوں کا ایک انتخاب بھی شائع کیا گیا تھا۔ جس میں 46 افسانہ خواتین کی تخلیقات شامل تھیں۔ اردو افسانہ کے فروغ میں ساقی کا کردار بہت اہم رہا ہے۔ اسی لئے ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز نے ’اردو افسانہ کے فروغ میں ساقی کا کردار‘ کے عنوان سے ایک مقالہ تحریر کیا ہے۔ تاج بیگم فرخی نے اپنی کتاب ’شاہد احمد دہلوی: شخصیت فن‘‘ (اکادمی ادبیات، پاکستان ۔2006) میں ساقی کے دہلی اور کراچی کے ادوار اور مشمولات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: افسانوی ادب کے فروغ کی طرح علمی، تنقیدی اور تحقیقی مباحث کے فروغ میں ساقی کراچی اور شاہد احمد نے نمایاں کردار ادا کیا۔ ستمبر 1948سے اپریل 1967 تک ساقی میں ادب، علم، تاریخ، ثقافت، تہذیب، روایت اور جاذبیت کی دنیا آباد رہی جو ادبی تاریخ کا زریں باب ہے۔ ماہنامہ شاعر،آگرہ؍بمبئی 1930ہی میں شاعر کا اجرا جمعیت الشعرا ہند کے آرگن کے طور پر ’قصرالادب‘ آگرہ سے مرزا غالب کی یوم وفات پر ہوا۔ اس میں نگراں کے طور پر علامہ سیماب اکبرآبادی اور مدیر مسئول کی حیثیت سے منظر صدیقی اکبرآبادی کا نام درج ہوتا تھا۔ اس مجلہ کا مقصد اصلاح فن اور تجدید قواعد تھا۔ اس کے مستقل عنوانات میں اصلاح سخن، شاعرانہ معلومات، محاکات، معیار، محاورات دہلی، عام فہم عروض تھے۔ اس کا زورمناظمہ پر تھا۔ مناظمہ کی ترویج کے عنوان سے ایک مضمون میں تغزل کے بجائے مناظمہ کی وکالت یوں کی گئی ہے: ’’ہم چاہتے ہیں کہ مشاعروں سے زیادہ مناظموں کو رواج دیا جائے اور ان کے لئے ایسے عنوانات اور موضوعات بطور طرح قائم کئے جائیں جن کی ملک کو ضرورت ہو۔‘‘ (بحوالہ سید اختیار جعفری، آگرہ میں اردو صحافت، ص۔185) اس رسالے نے بھی ادبی ذہنوں پر اہم نقوش مرتب کیے۔ افتخار امام صدیقی کے دور ادارت میں شاعر کے نئے تجربات کی وجہ سے بھی اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔ اس کی اشاعت کا عرصہ بہت طویل ہے اور اس اشاعتی عرصے میںشاعر نے بہت سے خصوصی شمارے اور اعترافی گوشے شائع کیے اور اردو ادب کو نئے نئے موضوعات ، زاویوں اور جہات سے روشناس کرایا۔ شاعر کے جن خصوصی شماروں کو عالمی سطح پر بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ان میںہم عصر اردو ادب نمبر، عالمی اردو قلم کار خواتین نمبر، قومی یکجہتی نمبر، اقبال نمبر، ڈراما نمبر، افسانہ نمبر، منٹو نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ خیالستان، لاہور 1930میں خیالستان کا اجراء ہوا۔ یہ حافظ محمود شیرانی کے صاحب زادے اختر شیرانی ٹونکوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے مدیر اعزازی مولانا سہاعلیگ تھے اور معاون لطیفی بی۔اے۔ سرِورق پر اردو علم و ادب کی رنگینیوں کا ماہوار مجموعہ درج ہوتا تھا۔ اس میں تمام اصناف کا احاطہ کیا جاتا تھا۔ تصاویر بھی ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ اتنا مقبول ہوا کہ نظیر لدھیانوی نے منظوم گلہائے تہنیت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: خوشا قسمت کہ اس کو دیکھ پایا جلوہ گر ہم نے بہت پہلے سنی تھی جس کی آمد کی خبر ہم نے ’خیالستان‘ کہتے ہیں زبانِ عشق میں اُس کو بہت تعظیم حاصل ہے جہانِ عشق میں اس کو تعجب کیا ہے گر صورت میں رنگینی زیادہ ہے چمن پروردہ ہے آخر بہارستان زادہ ہے تعجب کیا ہے گر حور و ملک بھی ہیں اسیر اس کے ادیب الملک اختر اور لطیفی ہیں مدیر اس کے خیالستان کا ایک اہم عنوان ’خیالستان کی ڈاک‘ تھا۔ اس میں بہت ہی عمدہ قسم کے خطوط شائع ہوا کرتے تھے۔ بعض خطوط تو ایسے ہیں جن کے حوالہ سے اختر شیرانی نے لکھا تھا کہ:’’ اس کے ناظرین میں ایسے گرامی قدر افراد بھی ہیں جو ملک کے بیسیوں رسالوں کے ایڈیٹروں سے بہتر قوت نگارش اور سلیقۂ تحریر رکھتے ہیں۔‘‘ اور حقیقت یہی ہے کہ بعض خطوط تنقیدی مضامین سے بھی زیادہ اہمیت اور افادیت کے حامل ہوا کرتے ہیں۔ محترمہ طاہرہ حسنین کا ایک خط ملاحظہ فرمائیے: ’’خیالستان ہر لحاظ سے قابل ہزار ستائش ہے۔ اگر ایک طرف اس کا دامن گلہائے تخیل سے مشام جاں کو رشک ہزار گلستاں اور جنت بداماں کئے ہوئے ہے تو دوسری طرف علمی و ادبی جواہر پارے دیدۂ ظرف نگاہ کو دعوت تحقیق و تدقیق دیتے ہیں۔ آپ کی ادب کوشیاں، نکتہ نوازیاں جو لیلائے ادبِ اردو کے قالب بے جان میں سامان دم مسیح فراہم کر رہی ہیں۔ بے پایاں جوش و مسرت کے ساتھ مبارک باد کی طلب گار ہیں۔ دعا کرتی ہوں کہ رسالہ روز افزو ترقی چمن بے زیاں اور نکہت آرائیاں، ندرت پیمائیاں اور جدت آفرینیاں ہر صاحب ذوق کے لئے جاں بخش اور روح پرور ثابت ہوئیں۔ دس روپے کی حقیر ترین رقم بطور نذر خیالستان کے لئے مرسل خدمت ہے۔ گر قبول افتد زہے عز و شرف۔‘‘ خیالستان میں اختر شیرانی کی بہت سی اہم تحریریں شائع ہوئیں۔ جن میں ایک زندہ جاوید شاعر، ایلیٹ، ٹیگور ایران میں، خیام اپنے خدا کے ساتھ، سرسید کی غیرمعروف تالیف، شاعروں کی سرگزشت، سلطان ٹیپو کی شہادت گاہ، عشق کی پہلی غلطی، شکست سکوت، نئے ایران کا نیا بادشاہ قابل ذکر ہیں۔ اسی خیالستان میں مہر جی سندھیا والیٔ گوالیار(نوشتہ نواب زادہ اے۔ایف۔ایم عبدالعلی) آغا حشر کاشمیری اور دھرمی بالک، (سردارموہن سنگھ دیوانہ) بوسوں پر شعرائے مغرب کی چند ملاحت آفریں رائیں (مترجمہ عظیم قریشی لدھیانوی) عارف کی آپ بیتی (اخذ و ترجمہ اختر شیرانی) تاریخ رزمیات ایران (پروفیسر نولدیکی کی اہم تصنیف، جرمنی سے ترجمہ:ڈاکٹر شیخ محمد اقبال پر )، عورت مختلف آئینوں میں (وحید گیلانی بی اے) جیسے مضامین شائع ہوئے۔ عورت مختلف آئینوں میں ایک اہم مضمون تھا۔ اس مضمون کے حوالہ سے یہ لکھا گیا تھا کہ : ’’ اس مضمون کی دوسری قسط کا وعدہ سلامتیٔ سر کی شرط پر منحصر رکھا گیا ہے۔ یہ دلچسپ مضمون تھا جس میں عورتوں کے تعلق سے مختلف مشاہیر کے اقوال درج کئے جاتے تھے۔ ندیم، گیا، ندیم کی اشاعت کا آغاز جون۔1931میں ہوا۔ نظرات میں سید ریاست علی ندوی نے لکھا تھا کہ : ’’ندیم کا پہلا پرچہ 1931میں شائع ہوا تھا۔ اس وقت صوبے سے کوئی دوسرا رسالہ نہیں نکلتا تھا۔ ‘‘(جنوری۔1941) ندیم کی ترتیب و ادارت سے انجم مان پوری، سید ریاست علی ندوی اور سید حسن امام کی وابستگی رہی ہے۔ یہ ایک اہم رسالہ تھا جس میں مختلف علمی اور ادبی موضوعات پر بیش قیمت تحریریں شائع ہوئیں۔ اس کے اداریے میں یہ تحریر کیا گیا تھا کہ: ’’ندیم دو سال سے جاری ہے۔ اس عرصہ میں اس نے اردو ادب کی جو خدمات انجام دی ہیں وہ ناظرین سے مخفی نہیں۔ عام طور سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ صوبۂ بہارکی زمین اردو اخبارات خصوصاً رسائل کے لئے موافق نہیں۔ یہاں کی آب و ہوا رسائل کو راس نہیں آتی لیکن ندیم نے اس خیال کی تردید کردی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ اگر اچھے پیمانے پر استقلال کے ساتھ رسائل جاری کئے جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کامیاب نہ ہوں۔ الحمدللہ ندیم دو سال سے جاری ہے اور نہایت کامیاب ہے۔‘‘ ندیم کا بہار نمبر علمی اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس تعلق سے اداریے میں یہ لکھا گیا تھا کہ : ’’ندیم کا بہار نمبر نکالنے کا خیال صرف اس غرض سے ہوا تھا کہ اردو دادب کے جواہر ریزے جو خاک پاک بہار میں پوشیدہ ہیں وہ دنیا کی نگاہوں کے سامنے آجائیں اور جوہر بھی نگاہیں دیکھ لیں کہ اُن کی آب و تاب ہندوستان کے دوسرے صوبوں کے گوہر بیش بہا سے کسی طرح کم نہیں۔‘‘ (جولائی۔اگست1933) اور حقیقت یہی ہے کہ ندیم نے صوبۂ بہار کے قلم کاروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اور انہیں گوشۂ گمنامی سے نکالنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ اس کے اداریے میں اس تعلق سے یہ بات لکھی گئی ہے کہ: ’’ندیم کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ اس میں صوبۂ بہار کے اُن انشاء پردازوں اور شعراء کو کھینچ کر باہر نکالا ہے جو گوشۂ خاموشی ہی میں مست تھے اور کسی طرح دنیا کے سامنے آنا پسند نہیں کرتے تھے۔علم و ادب کے وہ جواہر ریزے جو اب تک پوشیدہ تھے اب ندیم کے صفحات پر درخشاں ہوکر دنیا کی آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہیں۔ ‘‘ (جولائی۔اگست1933) ندیم نے واقعی یہ فرض پورا کیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ: بِہار کی بھی شرکت ہے بہار گلشن میں لہو سے ہم نے بھی سینچا ہے باغِ اردو کو ندیم گیا کے مضامین بہت وقیع اور افادی حیثیت کے حامل ہوا کرتے تھے۔ اسی لئے خدا بخش لائبریری پٹنہ نے ندیم کا1931سے 1945تک کا انتخاب شائع کیا ہے جو 17 جلدوں پر محیط ہے۔ جس کی موضوعاتی تقسیم یوں کی گئی ہے: ’’بہار میں علوم ادبیات، تاریخ بہار، جمیل مظہری کی شاہکار ناولٹ اور اس کی قربان گاہ پر، شاد عظیم آبادی چند مطالعے، مکتوبات مشاہیر، سفرنامے، غالب اقبال اور ٹیگور، مشاہیر بہار ۔1، مشاہیر بہار۔2، بہار میں علوم و ادبیات۔2، مشاہیر اردو ادب، علی گڑھ تحریک اردو ادب، ادبیات عربی ،فارسی، ہندی، سنسکرت، انگریزی، تاریخ ہند اور ممالک غیر، اسلامی تہذیب و ثقافت۔1، اسلامی تہذیب و ثقافت۔2 اور تعلیمات‘‘۔اس کے علاوہ ندیم گیا کے ا داریے کا انتخاب شذرات کے عنوان سے شائع کیاگیا ۔ ندیم میں اردو ہندی تنازع سے متعلق بھی کئی اہم تحریریں ہیں۔ جن میں اردو ہندی ہندوستانی( قاضی محمد سعید) اردو ہندی تنازع پر ایک سرسری نظر(حاجی نبی احمد) صوبۂ بہار میں اردو ہندی کا تنازع( مولوی عبدالحق)، بھارتیہ ساہتیہ پریشد کی اصل حقیقت (مولوی عبدالحق)، انجمن ترقی ہندی کاشی (محمد مصطفی)، اردو ہندی (خواجہ عبدالرؤف عشرت)، اردو زبان و رسم خط کی موجودہ صورت حال کا جائزہ (مدیر ندیم)، رسم الخط (عبدالقدوس ہاشمی ندوی) اہم ہیں۔ شاہکار، لاہور اپریل1935میںاردو مرکز لاہور کا علمی، تعلیمی و ادبی مجلہ شاہکار شائع ہوا۔ جس کے ایڈیٹر پروفیسر تاجور نجیب آبادی اور جائنٹ ایڈیٹر ن م راشد ایم۔ اے تھے۔ اس کے شذرات میں ن م راشد نے لکھا تھا کہ’’ہماری خواہش ہے کہ ہم شاہکار کے ذریعہ ایسا ادب اور ایسا فن پیدا کریں جو ہمارے نوجوانوں کی جمالی تشنگی کی تسکین کا باعث ہو۔‘‘ مولانا تاجور نجیب آبادی نے لکھا تھا کہ’’ حسب ذیل عنوانات شاہکار میں مستقل ہوں گے ۔ تاریخ ادب اردو، اردو ادب کے اہل طرز، تذکرہ معاصرین، موازنہ: ہر عہد کے حریفانِ کمال کا موازنہ۔ سوالات و جوابات: ہر قسم کے ادبی ، فنی، معاشرتی، اصلاحی مسائل پر بحث ہوگی۔ سنیما: مشاہیر عالم ، تعلیمی ادارات،تعلیمات، اصلاحات ،تنویرات۔ بزم تحقیق: اردو ادب کے اہم مسائل پر اہل الرائے اور علمائے ادب کی بحث و تمحیص اور ان کے ناطق فیصلوں کی اشاعت۔ ‘‘ ’شاہکار‘ میں اسی نوع کے مضامین شائع ہوتے رہے اور یہ رسالہ ادبی حلقے میں بہت مقبول بھی ہوا۔ ڈاکٹر صفیہ مشتاق نے اپنے مضمون ’رسالہ شاہکارکا سرسری جائزہ‘ مطبوعہ تحقیق نامہ جولائی 2014میں لکھا ہے۔’’یہ ایک علمی، تعلیمی، فنی اور ادبی رسالہ تھا۔ شاہکار کی معیاری تحریروں نے شائقین علم و ادب کی تشنگی علم و ادب کو کسی حدتک پورا کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘ معیار، پٹنہ 1936میں بانکی پور پٹنہ سے انجمن ترقی اردو ہند شاخ پٹنہ کا مجلہ معیار شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کے مرتب قاضی عبد الودود اور معاون محمد شرف عالم آرزو جلیلی تھے۔ معیار میں علمی،تحقیقی،ادبی نوعیت کی نگارشات شائع ہوا کرتی تھیں۔ معیار کے مستقل عنوانات معروضات، تعارف، آثار ادبیہ، غالب، افسانے، تمثیل، نظم، مقالات، مطبوعات جدیدہ، اقتباسات، محکمہ اور عالم ادب تھے۔ ایک عنوان بہار بھی تھا۔ جس میں صوبہ بہار سے متعلق ادبی ، تاریخی مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس میں زیاہ تر تحریریں قاضی صاحب کی ہوا کرتی تھیں۔ اس میں قاضی صاحب کا ایک افسانہ ’’ہونہارنوجوان‘‘ بھی شائع ہوا۔ رسالے کے مشمولات پر غور کرنے سے مدیر کی محنت کا اندازہ ہوتا ہے۔ بہت وقیع اور قیمتی مضامین معیار میں موجود ہیں۔عابد رضا بیدار نے معیار کی مکمل فائل کی عکسی اشاعت تجزیاتی اشاریے کے ساتھ خدا بخش لائبریری سے شائع کی ہے۔ معاصر، پٹنہ نومبر 1940 میں شائع ہونے والا معاصر پٹنہ بھی ایک اہم علمی اور ادبی مجلہ ہے۔ اس کی ادارت سے ڈاکٹر عظیم الدین احمد، پروفیسر عبدالمنان بیدل اور پروفیسر کلیم الدین احمد کی وابستگی رہی ہے۔ اس میں معیاری تنقیدی مقالے، تحقیقی مضامین کی اشاعت کے علاوہ غیر مطبوعہ مخطوطات کا تعارف بھی پیش کیا جاتاتھا۔ اس کا موضوعاتی دائرہ وسیع تھا۔ اس میں نفسیات، لسانیات، سماجیات، تاریخ، تعلیم، تصوف، تذکرہ، تراجم، تنقید، سائنس، جغرافیہ، داستان، انشائیے اور منظومات وغیرہ شائع ہوا کرتے تھے۔ اردو زبان سے متعلق اس رسالے میں کئی اہم مضامین شائع ہوئے جن میں اردو رسم الخط کے تہذیبی رشتے (محمد حسن) اردو ہندی زبانیں( سید حسن عسکری) بناوٹی ہندی(عندلیب شادانی) ہماری زبان کے مختلف نام (سنت کمار سنہا) 1939 میں عدالتی زبان (قیام الدین احمد وغیرہ شامل ہیں۔ عربی اور فارسی ادب سے متعلق بھی اس میں مضامین شائع ہوتے رہے ہیں۔ جن میں اہل یورپ اور عربی کی خدمت(سید احمد) بہار میں عربیت اور اس کے اثرات(مسعود عالم ندوی) حدیث عیسیٰ ابن ہشام (سید احمد) قابل ذکر ہیں۔ گمنام شعراء کے ذیل میں بھی کئی مضامین ہیں۔ جن میں ایک مضمون سید حسن عسکری کا ’اجاگر چند الفت‘ بھی ہے۔ اس میں سائنسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے۔ اس ذیل میں ارتقائے فن پرواز پر ایک نظر(رضا احمد جعفری) شہاب ثاقب اور سنگفل (ح۔م۔اسلم) وقیع کہے جا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر نور اسلام علیگ نے ’معاصر کا توضیحی اشاریہ‘ مرتب کیا ہے جو خدا بخش لائبریری، پٹنہ سے 2002 میں شائع ہوا۔ انہوں نے معاصر کے مندرجات کے حوالہ سے لکھا ہے کہ:’’اس کے مشمولات انتہائی معیاری اور بلند پایہ ہیں۔ اس کے معیار کو اردو کے معدودے چند رسالے ہی پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ انہوں نے معاصر کی دو اہم خصوصیات پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کے بقول: ’’سب سے اہم خصوصیت تو یہ تھی کہ اس نے علاقائی ادب پر زور دیا۔ اس میں بہار کے غیر معروف ادیبوں اور شاعروں پر بالالتزام مضامین شائع ہوئے جن کی مدد سے صوبۂ بہار میں اردو ادب کی بہت سی گمشدہ کڑیوں کا سراغ لگایا جا سکتا ہے— معاصر کی دوسری خصوصیت مخطوطات کا تعارف ہے۔ اس کے ہر شمارے میں اہم مخطوطات پر تعارفی مضامین بالالتزام شائع ہوتے تھے۔‘‘ معاصر کے قاضی عبدالودود نمبر کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ واقعی معاصر نے قاضی عبدالودود کی تحقیقی خدمات کو بہترین خراج عقیدت پیش کیاہے۔ اس کا اشاعتی تسلسل برقرار نہیں رہا پھر بھی اس رسالہ نے بہت سے علمی اور ادبی مسائل و مباحث کو زندہ رکھا اور ارباب ادب کو ادبی علمی مباحث پر سنجیدگی سے غور فکر کی دعوت دی۔ خدا بخش لائبریری، پٹنہ نے عطا خورشید کی تقدیم کے ساتھ کلیم الدین احمد اور قاضی عبدالودود کے رسالہ معاصر کا ایک انتخاب شائع کیا ہے جس میں ادبیات، تاریخ، تحقیق و تحسین، زبان و صحافت، مخطوطات، افسانہ، نظمیں کے زیر عنوان معاصر میں موشوعہ تخلیقات پیش کی گئی ہیں۔ اس میں تاریخ کے حوالہ سے لکھے گئے کچھ مضامین بہت بیش قیمت ہیں۔ جن میں عہد اسلامیہ میں دربھنگہ پر ایک نظر (الیاس رحمانی) انگلستان میں پہلا ایرانی سفیر (سید عزیز حیدر کجہوی) شگرف نامہ ولایت اور اس کا مصنف (سید عزیز حیدر) صبح صادق اور اس کا مصنف (سید عزیز حیدر) سید غلام حسین مصنف سیر المتاخرین کے حالات خودنوشت (سید عزیز حیدر) مرزا ابوطالب علی خاں لندنی اور ان کا سفر یورپ (سید عزیز حیدر) مرحوم حاجی پور (محمد عبدالحکیم) دیوان ہمایوں بادشاہ (حافظ شمس الدین احمد) قابل ذکر ہیں۔ اردو ادب،علی گڑھ ارددو ادب کا اجراء جولائی 1950 میں علی گڑھ سے ہوا۔ یہ انجمن ترقی اردو ہند کا سہ ماہی رسالہ ہے جس کے پہلے مدیر آل احمد سرور تھے۔ رسالہ ہی میں یہ درج تھا کہ ’’ہندوستان میں اپنی نوعیت کا پہلا تنقیدی رسالہ ہے جس میں علمی تحقیقی مضامین شائع ہوتے ہیں۔‘‘ اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’’اردو ادب میں شائع ہونے والے مضامین مستقل تصنیف کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ یہ واقعی ایک اہم رسالہ تھا جس میں شعری تخلیقات نہیں شائع ہوا کرتی تھیں۔ مگر 1965 میں اردو ادب کا تخلیق نمبر شائع ہوا جس میں نظمیں، غزلیں، افسانے، انشائیے اور ڈرامے شائع کئے گئے۔ جنوری۔اپریل 1951کے سخن ہائے گفتنی میں لکھا گیا تھا کہ :’’ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ انجمن ترقی اردو ہند کا یہ ادبی رسالہ تحقیق و تدقیق کے ساتھ تنقید کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھے۔ اور اس طرح ادبی ذوق کی رہنمائی اور صحت ذوق کی ترویج کا فرض انجام دے۔‘‘ یہ بھی لکھا گیا کہ: ’’بہت سے اشخاص نے رسالہ کے معیار کو سراہتے ہوئے ہمیں اس کی خشکی اور سنجیدگی کی طرف توجہ دلائی ہے اور منہ کا مزہ بدلنے کے لئے نظموں، غزلوں اور افسانوں کی شمولیت پر بھی زور دیا ہے۔ ہم تخلیقی ادب کی عظمت کے منکر نہیں مگر اول تو ہم رسالہ اردو کی پرانی روایات کو یک قلم ترک نہیں کرنا چاہتے۔ دوسرے پرچہ کو معجون مرکب بنانا ہمارے نزدیک کوئی مستحسن عمل نہیں ہے۔ نیز یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اردو میں ایک خالص تنقیدی اور تحقیقی پرچہ کی ضرورت مسلم ہے اور اس ضرورت کو اگر اردو ادب پورا کر سکے تو یہ اس کا قابل فخر کارنامہ ہوگا۔‘‘ اس رسالہ میں نذیر احمد، خواجہ احمد فاروقی، حسن عسکری پلکھنڈوی، نجیب اشرف ندوی، حبیب احمد صدیقی، مالک رام، اسلوب احمد انصاری، عابد رضا بیدار وغیرہ کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اردو ادب کے بہت سے خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں حسرت نمبر، آزاد نمبر، ذاکر نمبر، غالب نمبر ، مومن نمبر، مولوی عبدالحق نمبر، شبلی نعمانی نمبر، ذوق نمبر، راج بہادر گوڑ نمبر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ بعد میں اس کی ادارت تبدیل ہوتی رہی۔ مسعود حسین خان، خلیق انجم، اسلم پرویز نے اس کی ادارت کے فرائض انجام دیئے اور اس رسالہ نے قیمتی مضامین کے ساتھ خصوصی شماروں کے ذریعے ادبی دنیا میں اپنی اہمیت اور معنویت کا عَلم لہرایا۔اب اطہر فاروقی اس کے مدیر و مرتب ہیں۔ 2 ادبی صحافت کا صحیح طور پر ارتقا اس وقت ہوا جب اس کا رشتہ انگریزی زبان و ادب سے استوار ہوا۔ انگریزی ادبیات کی وجہ سے بہت سی اصناف اردو ادب میں آئیں۔ تراجم کا بھی سلسلہ شروع ہوا اور ان ترجموں سے ادبی صحافت کی ثروت میں گراں قدر اضافہ ہوا اور اس کے موضوعاتی دائرے میں وسعت پیدا ہوئی اور نئے ادبی مباحث نے جنم لیا۔ مولانا صلاح الدین احمد مدیر ادبی دنیا نے اس تعلق سے بڑی قیمتی بات لکھی تھی کہ ’’اردو کو اوریجنل لکھنے والوں سے زیادہ اچھے مترجموں کی ضرورت ہے۔‘‘ 2 ابتدا میں ادبی صحافت کسی خاص گروہ ، تحریک، رویے اور رجحانات کی ترجمان نہیں رہی مگر جیسے جیسے ادبی صحافت کا ارتقائی سفر آگے بڑھتا رہا۔ ادبی رسائل کئی خانوں اور زمروں میں تقسیم ہو گئے اور نظریاتی مباحث کا ایک سلسلہ ساشروع ہو گیا۔ بہت سے رسائل ترقی پسند تحریک کی ترجمانی کرنے لگے توکچھ رسالوں نے جدیدیت کی راہ اختیار کی اور کچھ رسائل آزادانہ طور پر شائع ہوتے رہے۔ ترقی پسند رسائل: جن رسائل کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی رہی اور ترقی پسند اقدار و نظریات کی ترویج و تبلیغ میں جن کا اہم کردار رہا ان میں رسالہ ’ادبِ لطیف‘ ، ’نقوش‘، ’نیا ادب،لکھنؤ،سویرا، کتاب لکھنو، گفتگو ممبئی، عصری ادب دہلی، عصری آگہی دہلی، شاہراہ دہلی، فنون لاہور، سہیل گیا ،افکار بھوپال؍ کراچی ،صبا حیدرآباد، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ لئیق رضوی نے اپنی کتاب ’ترقی پسند ادبی صحافت‘ میں ادوار کے لحاظ سے مختلف ترقی پسند رسائل کا ذکر کیا ہے جن میں ان رسائل کے علاوہ ماہنامہ ’ایشیائ‘ ،میرٹھ(مدیر: ساغرنظامی) ماہنامہ ’منزل‘، لکھنؤ (مدیر: مفتی رضا انصاری)، ماہنامہ ’اضطراب‘ لکھنؤ(مدیر: نسیم سندیلوی)، ماہنامہ ’جدید اردو‘ کلکتہ(مدیر: پرویز شاہدی)، ماہنامہ ’شعاع اردو‘، الہ آباد (مدیر: ڈاکٹر اعجاز حسین)، ’نئی کرن‘ ،دربھنگہ (مدیر: مظہر امام)، ماہنامہ ’کرن‘ الہ آباد (مدیر: تیغ الہ آبادی)، ماہنامہ ’کارواں‘ الہ آباد( مدیر: اعجاز حسین)، ماہنامہ ’چندن‘ کانپور، (مدیران: ساحر ہوشیارپوری، نریش کمار شاد)، ’ہمارا ادب‘ ،لکھنؤ (مدیر: کمال احمد صدیقی)، ’نقوش‘ جالندھر (مدیر: فکر تونسوی) ’چراغ‘ حیدرآباد، (مدیر: حیرت بدایونی) ماہنامہ ’تہذیب‘ پٹنہ (مدیر: سہیل عظیم آبادی) ’فنکار‘ دہلی(مدیر: پرکاش پنڈت) ’خیال‘، کامٹی(مدیر: فیض انصاری) ’شب رنگ‘ الہ آباد (مدیر: سید ڈاکٹر محمد عقیل) ’سوبرس‘، دہلی(مدیر: نشتر خانقاہی)’نیا ورق‘، بمبئی (مدیر: ساجد رشید)’اقدار‘، دہلی(مدیر: ڈاکٹر علی جاوید) ’آب و گل‘ ،دہلی (مدیر: قمر رئیس) ماہنامہ ’بیباک‘، مالیگاؤں (مدیر: ہارون بی۔اے) ’بحث و مباحثہ‘ ، دہلی(مدیر آصف اعظمی)’جوش بانی‘، الہ آباد (مدیر: علی احمد فاطمی)وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان تمام رسائل پر لئیق رضوی نے تفصیلی گفتگو کی ہے اور ترقی پسند ادبی صحافت کے امتیازات کو واضح کیا ہے۔ ادب لطیف، لاہور ادب لطیف لاہور(سن اجرا 1935) میں جملہ اصناف ادب کے ساتھ ساتھ ترقی پسندوں کے نظریات پر زیادہ ارتکاز ہوتا تھا۔پنجاب بک ڈپو کے مالک چودھری برکت علی کے اس رسالہ کا پہلا شمارہ طالب انصاری نے ترتیب دیا تھا۔ اس کے مدیروں میں بہت سے اہم نام ہیں۔جن میںفیض احمد فیض، راجندر سنگھ بیدی، ممتازمفتی، قتیل شفائی، فکر تونسوی، احمد ندیم قاسمی، عارف عبدالمتین، انتظار حسین، اظہر جاوید، مرزا ادیب اور صدیقہ بیگم جیسی شخصیتیں قابل ذکر ہیں۔ ادارتی تبدیلی کے ساتھ ساتھ اس کے مشمولات اور مندرجات میں بھی تبدیلی آتی رہی اور نئے نئے سلسلے اور کالم شروع ہوتے رہے ۔ اداریے کا عنوان بھی تبدیل ہوتا رہا۔ پیرایہ آغاز اور پہلا لفظ کے عنوان سے اس کے اداریے شائع ہوتے رہے۔ جب انتظار حسین نے اس کی ادارت سنبھالی تو اس دور میں زیادہ تر مذاکرے شائع ہوئے اور مباحث کا سلسلہ شروع ہوا۔مذاکرے کا ایک عنوان تھا ’میرا مسئلہ کیا ہے‘ اس عنوان کے تحت احمد مشتاق نے بہت دل چسپ جواب دیا تھا کہ’’ یہ تو مجھے خبر نہیں کہ بحیثیت ایک شاعر کے میرا مسئلہ کیا ہے لیکن مندرجہ ذیل باتیں واقعی میرا مسئلہ نہیں۔1۔ایسا مضمون لکھنا جسے پڑھ کر قاضی عبد الودود، مختار الدین آرزو اور غلام رسول مہر عش عش کر اٹھیں۔2 ۔آدم جی پرائز کے لیے کتاب چھپوانا۔3۔ ادب میں دلچسپی رکھنے والوں کی پسند اور نہ پسند کا خیال رکھنا۔‘‘ انور سدید لکھتے ہیںکہ ’’انتظار حسین نے ادب لطیف کو ایک مخصوص نوع کا تہذیبی رسالہ بنانے کی کوشش کی چنانچہ اس دور میں ادب لطیف ،ادبی اور تہذیبی رویوں کی تجربہ گاہ بن گیا۔نئے مباحث کی طرح ڈالی گئی اور اختلافی نکتے کو بگوش ہوش سننے پر قارئین اور ادبا کو مائل کیا گیا۔‘‘ا دب لطیف کے بعض خصوصی شماروں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی جن میں نظم و غزل نمبر، افسانہ نمبر، مولوی عبدالحق ،فیض اور غالب نمبر قابل ذکر ہیں۔ کلیم، دہلی جوش ملیح آبادی کا رسالہ کلیم بھی ترقی پسند اقدار کا ترجمان تھا۔ اس کی اشاعت کا آغاز جنوری 1936 میں ہوا۔ پہلے جوش ملیح آبادی نے ’کاخِ بلند‘ کے عنوان سے اس کا اعلان شائع کیا تھا۔ بعد میں اسے کلیم کر دیا گیا۔ جوش ملیح آبادی نے اس رسالہ کی اشاعت کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ لکھا تھا کہ: ’’مدت دراز سے میری تمنا تھی کہ ہندوستانی علم و ادب اور ہندوستانی ذہن و فکر کو عصر حاضر کی سطح تک کرنے کی خاطر ایک ایسا ماہنامہ جاری کروں جو اپنے تمام ظاہری اور باطنی خصوصیات کے لحاظ سے زندہ اقوام کے جدید ترین معیار صحافت پر پورا اتر سکے۔‘‘ (بحوالہ ،جاوید اختر علی آبادی، جوش ملیح آبادی کا رسالہ کلیم، ص۔22) ’کلیم‘ میں اشارات ،رفتار وقت ، اخبار اردو، نقد و نظر کے تحت مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ اس رسالہ نے بہت کم وقت میں ارباب علم و دانش کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیابی حاصل کی اور جوش ملیح آبادی نے بھی اس رسالہ کو مفید سے مفید تر بنانے کے لئے جی توڑ کوشش کی۔ مگر ارباب ادب کی سرد مہری کی وجہ سے یہ رسالہ اشاعتی تعطل کا بھی شکار رہا۔ رسالہ کلیم کو جوش ملیح آبادی نے اپنی روح کی آواز کہا مگر ارباب ادب کی بے حسی اور نامساعد حالات کی وجہ سے یہ آواز دم توڑ گئی اور یہ رسالہ صرف تین سال تک ہی نکل پایا۔ جوش نے اپنے ایک اداریے میں لکھا تھا کہ: ’’کتنا بلند حوصلہ تھا دل میں، کتنا زبردست سودا تھا سر میں ’’کلیم‘‘ کو آسمان صحافت کا آفتاب بنا دوں گا۔ اس کا معیار اتنا بلند کر دوں گا کہ ایشیاء اور یورپ دونوں میں اس کی نظیر نہیں مل سکے گی۔ لیکن چند مہینے گزرنے پائے تھے کہ حوصلہ سرنگوں ہوگئے، اول تو صرف درجۂ اول ہی کے مقالے شائع کئے گئے پھر درجہ دوم کے مقالے بھی باریاب ہونے لگے اور آخر میں درجہ سوم کے مضامین بھی چھپنے لگے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘(بحوالہ، جاوید اختر علی آبادی، جوش ملیح آبادی کا رسالہ کلیم، ص۔24-25) ’کلیم‘ کے 35 شمارے شائع ہوئے ،جنوری 1939ء میں شاید اس کا آخری شمارہ شائع ہوا۔ ڈاکٹر جاوید اختر علی آبادی نے اس کے 35 شماروں کا اشاریہ مرتب کیا ہے جس سے کلیم کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس میں انہوں نے کچھ مضامین کا انتخاب بھی شامل کیاہے جو اقبالیات، ادب تنقید، افسانوی ادب، اردو زبان اور مذہب اسلام کے تعلق سے ہیں۔ اردو زبان کے ذیل میں جو مضامین شامل کئے گئے ہیں وہ اس اعتبار سے اہم ہیں کہ وہ اردو ہندی تنازعہ پر محققانہ روشنی ڈالتے ہیں۔ ان میں ہماری زبان (سید رضا قاسم مختار) اپنی زبان کی کتھا (خواجہ عبدالرؤف عشرت لکھنوی) بھارتیہ ساہتیہ پریشد کی اصل حقیقت (مولوی عبدالحق) رسم الخط (نیاز الدین حمد) ہندی اردو کے سوال کا محدود نظریہ اور شمالی ہند کی اصلی زبان (سید مطلبی فرید آبادی) ہندوستان کی جمہوری زبان پانچ قسطیں (امام اکبر آبادی) قابل ذکر ہیں۔ نقوش، لاہور نقوش لاہور (مارچ1948)بھی ترقی پسندرسالہ تھا۔ احمد ندیم قاسمی اور ہاجرہ مسرور اس کے اولین مدیران تھے ۔ اس کی لوح پر یہ خوبصورت عبارت تحریر تھی’’ زندگی آمیز اور زندگی آموز ادب کا ترجمان‘‘اس کا اداریہ طلوع کے نام سے شائع ہوتا تھا۔آزادی نمبر1949میں ہاجرہ مسرور نے اس کے اداریے میں لکھا تھا کہ’’ہمارا مقصد محض یہ نہیں کہ ہم قدامت پسند ادبی انجمنوں اور خود غرض سند یافتہ ادیبوں کو آئینہ دکھاتے رہیں۔ ہم اپنے وطن اپنی قوم اور انسانیت کے مستقبل کے معمار ہیں اور ہمیں بڑی بے جگری اور جرأت سے ابھی کتنی ہی آزمائشوں سے گزرنا ہے۔ ہمارے مخالفین میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اپنے اصلی ناموں سے ہمارے خلاف قلم اٹھانے کی جسارت کر سکیں ۔ وہ اپنی اونچی کرسیوں، بڑی تنخواہوں اور اخباروں کے مدیروں سے دوستانہ روابط سے فائدہ اٹھا کر جاسوسی ناولوں کے نقاب پوشوں کی طرح انگنت سوانگ بھرتے ہیں یہ ہماری قوت کا ثبوت ہے۔ ‘‘ بعد میں وقار عظیم نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی، ان کے بعد تن تنہا محمد طفیل نے ادارت کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نقوش کو ایک ایسے رسالے میں تبدیل کر دیا جس کی نظیر ملنی مشکل ہے۔ محمد طفیل کا یہ رسالہ علمی اور ادبی حلقوں میں بہت مقبول تھا۔ اس کے خصوصی شماروں اور سال ناموں کو حوالہ جاتی حیثیت حاصل ہے جن میں آپ بیتی نمبر ، شخصیات نمبر، طنز و مزاح نمبر، ادبی معرکے نمبر ، لاہور نمبربطور خاص قابل ذکر ہیں۔ نیا ادب، لکھنؤ ’نیاادب ‘لکھنؤہندوستان کا ترقی پسند ماہنامہ تھا۔ اس کے ادارہ تحریر میں سبط حسن ، علی سردار جعفری، اسرار الحق مجاز اور محمد رضا انصاری شامل تھے۔یہ رسالہ مکمل طور پر ترقی پسند مصنفین کے لیے وقف تھا ۔ اس میں فاشزم مذہبی رجعت پسندی اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف تحریریں اور تخلیقات شائع ہوتی تھیں۔ اس کے اداریے میں فاشزم کے خلاف احتجاجی نوعیت کی تحریریں ہوتی تھیں۔ سبط حسن نے ’پاگلوں کی بستی‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھا ہے کہ : ’’یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ فاشزم انسانی تہذیب اور انسانی ترقی کا دشمن ہے اور نازی نظامِ زندگی میں شہری آزادی اور فنون لطیفہ کے لئے کوئی جگہ نہیں۔‘‘ ایک اور اداریہ ہے جس کا عنوان ہے ’اردو خطرہ میں ہے‘۔اس اداریے میں Quisling کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے ۔کہتے ہیں کہ Quisling ناروے کا وزیراعظم تھا۔ جس نے جرمن حملہ آوروں سے مل کر ناروے کی راجدھانی کا پھاٹک کھول دیا تھا تاکہ غنیم شہر پر قابض ہو جائیں۔‘‘ اردو کے تعلق سے یہ لکھا کیا گیا ہے کہ: ’’ اردو زبان کے بوسیدہ قلعہ کے اندر بھی نہ جانے کتنے کوئس لنگ چھپے ہوئے ہیں جو موقعہ پاتے ہی قلعہ کا پھاٹک کھول دیں گے یا غنیم کو بتا دیں گے کہ قلعہ کی ساری ڈھس ناسوروں سے چور ہے اور قلعے کی تمام دیواروں میں بڑے بڑے شگاف پڑ چکے ہیں۔‘‘ اسی اداریے میں محمد سجاد مرزا صاحب پرنسپل عثمانیہ ٹریننگ کالج حیدرآباد کے رسالہ اردو رسم خط پر گفتگو کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ:’’ دنیا کی تمام چیزوں کی طرح زبان اور رسم الخط بھی تغیر پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ ‘‘ نیاادب میں بہت سے قیمتی مضامین بھی ملتے ہیں۔ ایک مضمون سید مطلبی فریدآبادی کا ہے جس کا عنوان ہے ’دلمیر کسان شاعر‘۔ یہ میرٹھ ، سہارنپور کے دیہات سے تعلق رکھنے والے منور خان کی شاعری پر گفتگو ہے جن کا دیوان چھپا تھا، ان کی شاعری میں جدید انقلابی رجحانات ملتے ہیں۔ نئے ادب میں ادب اور سیاست کے حوالہ سے بہت سی اہم باتیں بھی درج ہوتی تھیں۔ انالوئی اسٹرانگ کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ: ’’ہمیں ادب کے نظریات میں اپنا وقت نہیں خراب کرنا چاہئے۔ ہمیں صرف جنتا کو بیدار کرنے کے لئے لکھنا چاہئے۔ ‘‘ اسی طرح نیا ادب میں ایک چھوٹی سی خبر یوں درج کی گئی ہے کہ: ’’شمالی ہندوستان کی ایک یونیورسٹی کا مطالبہ ہے کہ برناڈشا کی کتابیں نہ پڑھائی جائیں۔ ان سے دہریت پھیلتی ہے بلکہ اس قسم کی تمام کتابیں جلا دی جائیں جن سے تخلیقی قوتیں ابھرتی ہیں۔ ‘‘ نیا ادب مکمل طور پر ترقی پسند تصورات کا حامل رسالہ تھا۔ جس سے بہت سے لوگوں کو اختلاف بھی تھا۔ نیا ادب میں ہی مرزا جعفر علی خاں اثر کا ایک مضمون شائع کیا گیا جس کا عنوان ہے ’نیا ادب کدھر جا رہا ہے‘۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ: ’’نیا ادب ایسے ہی پادر ہوا خیالات اور توہمات کا مجموعہ ہے یا پھر اُن سنی سنائی باتوں کا بگڑا ہوا خاکہ ہے۔ جو یورپ کے ادیبوں کی تصانیف میں ملتی ہیں۔ ‘‘ اس رسالہ میں نظمیں، کہانیاں، تبصرے اور مضامین شائع ہوتے تھے۔ جوش ملیح آبادی نے بھی مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے فرائض انجام دیئے۔ مگر بعد میں اس رسالہ سے علیحدگی اختیار کرلی۔ سویرا، لاھور سویرا ترقی پسند ادب کا ترجمان تھا ۔ چودھری نذیر احمد نے 1940میں جاری کیا۔ ترقی پسند ادب کی ترویج و اشاعت میں اس رسالے کا کردار بہت اہم ہے۔مدیران کی تبدیلی سے سویرا کا رنگ و روپ بھی بدلتا رہا۔اس کو ترتیب دینے والوں میں ظہیر کاشمیری، احمد راہی، ساحر لدھیانوی، احمد ندیم قاسمی، فکر تونسوی ،عارف عبد المتین، محمد سلیم الرحمن، حنیف رامے، سیدہ شاہین، صلاح الدین محمود وغیرہ کے نام اہم ہیں۔ان ناموں کے ساتھ ساتھ ہی سویرا کی صبح و شام تبدیل ہوتی رہی۔ پہلے اس کے سر نامے پر ترقی پسند فنکاروں کا ترجمان درج ہوتا تھا۔ بعد میں اسے ادب آرٹ کلچر میں بدل دیا گیا۔ پہلے اس کا ترقی پسندانہ رنگ تھا بعد میں جب صلاح الدین محمود اس کے مدیر بنے تو رسالے کا آغاز آیات قرانی سے ہونے لگا۔ جب احمد ندیم قاسمی اس کے مدیر تھے تو اداریے میں یہ لکھا گیا تھاکہ ’’سویرا ہندوستان کے نوجوان فن کاروں کے معجزات کا ایک دو ماہی انتخاب ہے ۔ اس لیے یہ کسی معین منزل کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ زندگی اور کائنات کی بیکراںوسعتوں کے نشیب و فراز اس کی جولان گاہ ہیں۔ ہر سویرا ایک نئے سویرے کا پیامی ہے اس لیے ہمارے عزائم مقاصد صرف ان الفاظ میں پوشیدہ ہیں کہ سویرا اردو کے نئے ادب کی ایک میزان ہوگا۔‘‘اسی رسالہ سویرا میں ادارے کی طرف سے بہت قیمتی بات کہی گئی تھی کہ ’’اس کے مندرجات ادیبوں کی جگہ ادبیات سے عبارت ہوں گے۔‘‘ اس میں بہت سے اہم مضامین اور مقالات شائع ہوئے۔جن میں خورشید رضوی کا مضمون ’’عربی ادب قبل ازاسلام‘‘ قابل ذکر ہے جو 17-18 قسطوں میں شائع ہوا۔اس میں مختلف اصناف پر تحریریں ہوا کرتی تھیں۔ ’جان پہچان‘ ایک اچھا عنوان تھا۔ اس کے علاوہ ایک عنوان ’محفل‘ تھا جس میں ادباء ’میں کیوں لکھتا ہوں‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے تھے۔ اس میں فرانسیسی ادب اور یورپی انگریزی ادب کے تراجم کی اشاعت بطور خاص ہوا کرتی تھی۔ کتاب، لکھنؤ ماہنامہ کتاب ،لکھنؤ(دسمبر1962) بھی ترقی پسند تحریک کا ترجمان تھا۔ ایڈیٹر کے طور پر سید جمیل احمد کا نام شائع ہوتا تھا اور مجلس مشاورت میں سید احتشام حسین ،حیات اللہ انصاری اور عابد سہیل جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ اس کا اداریہ خاص طور پر چشم کشا اور فکر انگیز ہوا کرتا تھا۔ اس میں تمام اصناف ادب کے ساتھ تلخ، ترش اور شیریں کے عنوان سے کالم شائع ہوا کرتا تھا۔ کتاب کے جو خصوصی شمارے اردو زبان و ادب کو نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہیں ان میں نئی ہندی کہانی نمبراور مراٹھی کہانی نمبر قابل ذکر ہیں۔ مراٹھی کہانی نمبر جون 1968 میں شائع ہوا جس کے مرتب نور پرکار تھے۔ مقالہ کے تحت مراٹھی ادب کا ارتقا (عبدالستار دلوی) مراٹھی کے بدلتے ادبی رجحانات (پروفیسر کیشو وشرام) مراٹھی ڈرامے کے روپ (کماری وجیاسالوی )شامل تھے۔ افسانے کے تحت دیواکر کرشن، یشونت گوپال جوشی، وی سی کھانڈیکر، چھڑکے، گنگا دھر گارڈگل، اروند گوکھلے، وجے تیندولکر، جے ای کلکرنی، وینکٹیش، بابو راؤ گل، حمید دلوائی کی تخلیقات شامل تھیں۔ نئی ہندی کہانی نمبر جولائی 1964ء میں شائع ہوا۔ اس میں فنیشور ناتھ رینو، موہن راکیش، اوشا پریم، رمیش بخشی، کملیشور، رگھوویر سہائے، نرمل ورما، راجیندر یادو، شانی ، کنور نارائن، ٹھاکر پرشاد سنگھ، امرکانت کے افسانے شامل کئے گئے۔ یہ تمام کے تمام ہندی کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔’کتاب‘ کا افسانہ نمبر جنوری 1964 میں شائع ہوا جس کے مرتب رام لعل اور عابد سہیل تھے۔ یہ 1962 کے بہترین افسانوں کا ایک عمدہ نتخاب تھا۔ گفتگو،ممبئی علی سردار جعفری کا مجلہ گفتگو (1967) مکمل طور پر ترقی پسند تحریک سے مربوط تھا۔ اس کے سرنامہ پر ’ادب اور تہذیب کا باشعور ترجمان‘ جیسی عبارت درج تھی۔ یہ مجلہ در اصل ترقی پسند منشور اور مقاصد پر مشتمل ہوتا تھا مگر اس کے دروازے دوسرے قلم کاروں کے لیے بھی کھلے ہوئے تھے۔’ پیش گفتار‘ کے تحت اس کا اداریہ تحریر کیا جاتا تھا۔ گفتگو فہرست کا عنوان تھا۔ جس میں مختلف اصناف ادب کے حوالہ سے تحریریں شامل کی جاتی تھیں۔ اس کے اداریے میں علی سردار جعفری نے بہت جذباتی انداز میں ادب اور ادیب کے حوالہ سے بہت فکر انگیز باتیں لکھی تھیں۔ انہوں نے ادیبوں کے ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے یہ تحریر کیا تھا کہ: ’’ادب اور ادیب اس وقت ایک بحرانی دور سے گزر رہے ہیں۔ عقیدے زخمی ہیں اور یقین و اعتماد کی سانس اکھڑی اکھڑی سی ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے آدرشوں کے چہرے مسخ ہوئے ہیں۔ خوابوں کو قتل گاہوں سے گزرنا پڑا ہے اور قدروں کی تشنجی کیفیت نے دلوں میں ہول بٹھا دیا ہے۔ ان پھیلے ہوئے ریگزاروں میں کہیں کہیں نئی اُپج نئے انداز تخلیق اور نئی فکر کے نخلستان ملتے ہیں۔ لیکن ان کے سائے اتنے گھنے نہیں ہیں کہ اردو ادب ہڈیوں کو پگھلا دینے والی تپتی ہوئی دھوپ سے بچ سکے اور نہ پانی کے چشمے اتنے وافر ہیں کہ پیاسے اپنی پیاس بجھا سکیں۔ اس لئے سب کرب میں مبتلا ہیں۔ ذات کے قلعہ میں بندہو جانے والے اور ذات کے قلعہ سے باہر یلغار کرنے والے سب آگ میں جل رہے ہیں۔ لیکن اصل اختلاف وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں یہ سوال آتا ہے کہ اس آگ کو کیسے بجھایا جائے اور اسے کس طرح نار سے نور میں تبدیل کیا جائے۔ صرف کرب، صرف تشنج، صرف جلتے رہنے میں نہ تو انسانیت کی نجات ہے، نہ ادیب کی ذات کا سپر بیکار ہے۔ نظریات کی سپر، عقائد کی سپر، یقین کی سپر بھی اس وقت تک بے معنی ہے جب تک وہ سورما پیدا نہیں ہوتا جو اپنی سپر کو تلوار میں تبدیل کردینے کی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہو۔ ‘‘ (گفتگو، جلد اول۔1967) اس رسالہ سے کئی اہم شخصیات کی وابستگی رہی ہے۔ معاون ایڈیٹر کے طور پر سید احمد شمیم اور مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے روشن لال وڈیرا کا نام بھی درج رہا ہے۔ مجلس ادارت میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ ترقی پسند ادب نمبر کی مجلس ادارت میں قمر رئیس، سید محمد عقیل رضوی، وحید اختر، عتیق اللہ کے نام درج ہیں۔ عصری ادب، دہلی محمد حسن کی نگرانی میں شائع ہونے والے عصری ادب(جنوری1970) میں ترقی پسند نظریات کی تشہیر و تبلیغ ہو ا کرتی تھی۔ اس میں بھی وہی موضوعات اور مضامین شائع ہوئے جو عام انسانی زندگی اور عوامی شعورسے تعلق رکھتے ہیں۔ خاص طور پر ظلم و استحصال ، سماجی معاشی مسائل پر ادبی زاویے سے گفتگو ہوتی تھی۔ حرف آغاز میں پروفیسر محمد حسن نے لکھا تھا کہ: ’’عصری ادب کی اشاعت 1970 میں ہوئی۔ زمانہ ایسا تھا جب ترقی پسند ادب کا نام لینا جرم سمجھا جانے لگا تھا۔ ادب کے سماجی رشتوں کا ذکر بے ادبی کی دلیل ٹھہرا تھا۔ ادب برائے ادب کا غلغلہ آسمان سے زیادہ بلند تھا۔ اور ادب اور جمالیات کے نام پر مہملیت اس درجہ فروغ پانے لگی تھی کہ صحیح العقل اور باذوق حضرات سر در گریباں تھے۔ اکثر اپنے خلوت خانوں کا رخ کر چکے تھے اور ادبی سرگرمیوں کو دفتر بے معنی سمجھ کر کنارہ کش ہو چکے تھے۔ بعض دوست سنجیدگی سے اپنے ماضی کے اوراق سے ترقی پسندی کا حرف حرف کھرچ کر پھینک دینے میں مصروف تھے کچھ سنجیدگی سے اپنے ادب اور زندگی بھر کے اپنے خیالات اور اقدار کو غلط جان کر اُن پر نظر ثانی کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس کساد بازاری میں عصری ادب نے آنکھ کھولی، مقصد یہ تھا کہ جدیدکی بھڑکیلی اصطلاح کے پیچھے جو قدامت بلکہ دقیانوسیت چھپی ہوئی ہے اسے بے نقاب کیا جائے۔ عصری ادب نے کبھی جدیدیت یا جدید ادب کو برا نہیں کہا لیکن جدیدیت اور جدید ادب کے مختلف ادب کی نشان دہی ضرور کی اور ان میں سے مہمل پسند یا رجعت پسند عناصر کی تنقید سے گریز نہیں کیا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ یہ کام منفی تھا۔ اصل کام تو غیرصحت مند عناصر سے لڑنا نہیں بلکہ صحت مند عناصر کو پروان چڑھانا ہے۔ تاریکی کو کوسنے کے بجائے تاریکی دور کرنے کے لئے ننھا سا دیا روشن کرنا زیادہ اہم کام ہے۔ ‘‘(عصری ادب،1975) عصری ادب نے سیاست اور سماج کے مسائل پر سنجیدگی سے لکھا اور تخلیقی فنکاروں کے ساتھ ساتھ عوامی ذہن کو جھنجھوڑنے کی بھی کوشش کی۔ ’آڑے ترچھے آئینے‘ میں زیادہ تر عالمی اور قومی سیاست کے حوالے سے تحریریں شائع ہوتی تھیں۔ کیوں کہ اس کا مقصد بنیادی طور پر عصری تقاضوں اور مظاہرِ عصر سے ہم آہنگی ہے۔ اس رسالے میں سیاست اور ثقافت کے عصری مسائل کو ادبی دائرے میں شامل کرنے پر زور تھا۔ محمد حسن جن نظریات اور تصورات کے حامل تھے ان کی عکاسی ان کے اس رسالے میں بھی ہوتی تھی۔ وہ ایسے ادب کے قائل تھے جو اپنے عہد کا عکاس ہو۔ جس میں تاریکیوں اور ظلمتوں کے خلاف احتجاج ہو۔ وہ چاہتے تھے کہ اگر اندھیرا دور نہ بھی ہو تب بھی تخلیق کاروں کا فرض ہے کہ ایک ننھا سا دیا ضرور جلائیں تاکہ تاریکی کچھ تو کم ہو۔ انہوں نے اپنے رسالہ کے ذریعے ادیبوں کو اپنا فرض منصبی یاد دلایا اور ادب کے کردار کا تعین کیا۔ ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی وجہ سے جبر و استحصال اُن کا مرکزی موضوع رہا۔ اسی لئے معاشرے میں جبر و استحصال کی جو بھی صورت نظر آئی اس کے خلاف انہوں نے اپنے قلم اور ادب کے ذریعے آواز اٹھائی۔ عصری ادب کا ایک شمارہ خواتین خصوصی نمبر اپریل اکتوبر1980 میں شائع ہوا جس کے سرورق پر مشہور فلسطینی گوریلا مجاہد لیلیٰ خالد کی تصویر تھی۔ حرف آغاز میں محمد حسن نے لکھا تھا: ’’ظلم و ستم کے انگنت روپ ہیں۔ استحصال کے انوکھے اور نرالے نام اور نت نئے ہتھکنڈے ہیں۔ ان مظالم سے ہم روز صبح و شام دوچار ہوتے ہیں۔ سڑک پر بھیک مانگتے لوگ سڑی گرمی میں جلتی ہوئی فٹ پاتھ پر کروٹیں بدلتے خاندان، غلیظ اور دم گھنٹے والے ماحول میں آدھی چوتھائی اُجرت پر کام کرتے ہوئے پھٹے کپڑے پہنے ہوئے لڑکے لڑکیاں نہ جانے کتنے انسانی مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گزرتے رہتے ہیں اور ہمارے پتھر دل اُن کے عادی ہو جاتے ہیں۔ انہی مناظر میں ایک منظر عورت بھی ہے جس کا استحصال صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔‘‘ اسی خصوصی شمارہ میں ’عورت نامہ‘ کے تحت جو بات لکھی گئی ہے وہ واقعی نہ صرف پڑھنے بلکہ اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ عورتوں کے لئے آج حالات قدرے بدل گئے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں اب بھی عورت مخالف ذہنیت برقرار ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’دو سچے قصے سن لیجئے: ایک خاتون نے شاعرہ کی حیثیت سے نام کمایا۔ ہندوستان و پاکستان میں دھوم مچ گئی۔ اسی دوران اُن کی شادی ہوگئی اور شوہر نامدار نے حکم صادر کیا کہ شعر و شاعری بند اور کلام کی اشاعت پر مکمل پابندی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن شاعرہ کا کوئی شعر بھی گھر کی چاردیواری سے باہر نہیں آیا کہ شاید دل کی چار دیواری سے ہی باہر نہیں آیا۔ دوسری خاتون نے چند افسانوں سے پوری ادبی دنیا کو چونکا دیا۔ رسالوں سے ان کے افسانے دلوں میں اتر کر اپنی فنکاری اور بصیرت کے جھنڈے گاڑ دیئے۔ نقادوں نے سراہا، مدیروں نے تعریف کی۔ پڑھنے والے ان کی تحریر کے متوالے ہوگئے کہ اسی دوران اُن کی شادی ہوگئی اور شوہراور ان کے سسرال والوں نے افسانہ نگاری پر پابندی لگا دی اور ارددو ادب ایک عہد آفریں افسانہ نگار سے محروم ہوگیا۔‘‘ اس تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ مرد اساس معاشرہ میں نہ جانے کتنی تخلیقی ذہانتوں کا قتل ہوا ہوگا جس کی روداد اب شاید کہیں محفوظ بھی نہیں ہوگی۔ عصری آگہی، دہلی قمر رئیس کے رسالے عصری آگہی(1978) میں ترقی پسندانہ نظریات و تصورات کی ترویج پر خاص توجہ تھی۔اس رسالہ کا بنیادی مقصد تھا قاری اور تخلیقات کے درمیان رشتے کا استحکام اور لوگوں کو سماجی، سیاسی سروکار سے آگاہ کرنا۔ عالم انسانیت کے سامنے جو سوالات اور چیلنجز ہیں ان پر غور کرنا۔ اس رسالہ نے نازی فاشزم ، بدترین نسلی تفریق اور وحشیانہ تعصب کے خلاف کھل کر لکھا۔ اس کے علاوہ اُن ادبی مباحث کو اپنے رسالہ میں جگہ دی جن سے فکر و نظر کے نئے دریچے وا ہوں۔ ’چہرہ‘ عنوان کے تحت اداریہ تحریر کیا جاتا تھا۔ قمر رئیس نے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ : ’’ادبی مجلوں کا بڑا کام یہی ہوتا ہے کہ نئے تخلیقی رجحانات اور نظریاتی سوالوں پر سنجیدہ بحث کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ نئے تجربوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ادیب اور قاری کے درمیان اعتبار اور ابلاغ کے نازک رشتے کو روشن اور مضبوط بناتے ہیں۔ افسوس ہے کہ یہ کام ہمارے یہاں نہیں ہو رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اکثر لکھنے والے گھٹن اور بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔ اردو کے بہت سے نوجوان ادیب مستقلاً ہندی میں لکھنے لگے ہیں اور کچھ نے بیزار ہو کر لکھنا ترک کر دیا ہے۔ ‘‘ اس رسالہ میں چہرہ، نقد ادب، نقد نظر، تخلیق و تجزیہ، نظم، غزل، افسانہ، تبصرے کے عنوانات سے تخلیقات کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ قمر رئیس کا ہر اداریہ فکر انگیز اور چشم کشا ہوا کرتا تھا۔ وہ عصری مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ اپنے ایک اداریہ ’دھواں سا ہے کچھ اس نگر کی طرف‘ میں لکھتے ہیں کہ: شاید ہم بھی کشاں کشاں کسی فاشزم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سوال یہ ہے وہ کون سی طاقتیں ہیں، وہ کون سے طبقے ہیں جو فرقہ پرستی کو اپنے مفادات اور پنے سیاسی مقاصد کے لئے زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کون سے ذرائع، وہ کون سے ادارے ہیں جنہیں وہ اپنے مقاصد کے حصول آلۂ کار بنا رہے ہیں۔ اگر ہم انہیں جانتے اور پہچانتے ہیں اور پھر بھی خاموش ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان اپنے قلم سے اپنی قوت اظہار اور عمل سے اُن قوتوں کو بے نقاب نہیں کر رہے ہیں جو مذہب، کلچر اور سیاست کے نام پر ہمیں فرقہ پرستانہ فاشزم کی تنگ اندھیری اور خونی گھاٹیوں کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ تو ایک پل کو ہی سہی ہم سوچیں کہ آنے والی پیڑھیاں ہمیں معاف کر سکیں گی۔ کیا وہ بزدل ریاکار اور مجرم کہہ کر نفرت سے ہماری ان قبروں کو نہیں روندیں گی۔‘‘ قمر رئیس کے اداریے دراصل احتجاج نامہ ہیں۔ وہ ان تمام آئیڈیالوجی کو نشانہ بناتے ہیں جن سے انسانیت کو خطرات لاحق ہیں۔ ا نہوں نے اپنی تحریروں میں جمہوریت پسند تحریکوں اور ترقی پسند طاقتوں کو توانائی عطا کرنے کی بات کہی ہے۔ قمر رئیس نے یہ رسالہ اس لیے شائع کیا تاکہ لوگوں کو یہ بتا سکیں کہ ترقی پسند ایک ابدی اور لا زوال تحریک ہے جو کبھی مر نہیں سکتی کسی نہ کسی شکل میں وہ ضرور زندہ رہے گی۔ اس رسالے کے بیدی نمبراور افسانہ نمبر کو بہت مقبولیت ملی۔ شاہراہ، دہلی شاہراہ بھی ترقی پسندوں کا ترجمان تھاجنوری 1949میں ساحر لدھیانوی کی ادارت میں اس کا آغاز ہوا۔ اس میں بھی زیادہ تر ترقی پسندوں کی تخلیقات شائع ہوا کرتی تھیں۔ اس کی ادارت سے سرلا دیوی، مخمور جالندھری، پرکاش پنڈت، فکر تونسوی، وامق جونپوری، ظ۔ انصاری اور محمد یوسف جامعی کی وابستگی رہی ہے۔ پہلے شمارے میں ایڈیٹرس کی حیثیت سے ساحر لدھیانوی اور رام پرکاش اشک کے نام تھے اور اداریہ بعنوان ’رہنما‘ میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ: ’’ہمارے اغراض و مقاصد وہی ہیں جن کا اعادہ انجمن ترقی پسند مصنفین گذشتہ بارہ برس میں بارہا کر چکی ہے۔ انجمن کا منشور یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور جاں بلب رجعت پسندی اپنی زندگی کی مدت بڑھانے کے لئے دیوانہ وار ہاتھ پاؤں مار رہی ہے۔ پرانے تہذیبی ڈھانچوں کی شکست و ریخت کے بعد اب تک ہمارا ادب یک گونہ فراریت کا شکار رہا ہے اور زندگی کے حقائق سے گریز کرکے کھوکھلی روحانیت میں اور تصور پرستی میں پناہ ڈھونڈھ رہا ہے جس کے باعث اس کی رگوں میں نیا خون منجمد ہو گیا ہے اور ادب سخت قسم کی ہیئت پرستی اور گمراہ کن منفی رجحانات کا شکار ہوگیا ہے۔‘‘ اس اداریے میں ہندوستانی ادیبوں سے کہا گیا ہے کہ :’’وہ ایسے ادبی رجحانات کو نشو و نما پانے سے روکیں جو فرقہ پرستی، نسلی تعصب اور انسانی استحصال کی حمایت کرتے ہیں۔ ‘‘ شمارہ نمبر 2 میں احمد آباد میں کرشن چندر کے خطبۂ صدارت کے حوالے سے اداریہ لکھا گیا ہے ’’کرشن چندر نے کہا تھا کہ :ترقی پسند ادیب نے ہر منزل پر انسان کی نئی زندگی کا ساتھ دیا ہے۔ اس نے سقراط بن کر زہر کا پیالہ پیا ہے۔ بائرن بن کر دیس سے جلاوطنی قبول کی ہے۔ وہ رالف فاکس اور رولکا بن کر موت کے گھاٹ اترا ہے۔ وہ گورکی بن کر گاؤں گاؤں گھوما ہے۔ اراگان اور پبلو نرودا بن کر عوام کے گوریلا دستوں میں کام کرتا رہا ہے اور آج بھی ہر جگہ جہاں جہاں جنتا اپنی نئی زندگی، نئی روحانیت اور نئے اخلاق کے لئے لڑ رہی ہے وہ لہو کی روشنائی سے ادب کی لافانی کتاب لکھ رہا ہے۔ اور جب بھی آپ دیکھیں کہ سردار جعفری، ساحر لدھیانوی اور کیفی اعظمی کی نظموں کو جیل کی سلاخوں کے اندر بند کر دیا گیا ہے ۔ جب آپ سنیں کہ راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی کے افسانوں پر پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔ جب آپ کو معلوم ہو کہ ساغر نظامی اور نیاز حیدر کے گیتوں کے گلے میں پھانسی کی رسی لٹکا دی گئی ہے تو سمجھ لیجئے کہ ترقی پسند ادیب اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔‘‘ اس اداریے میں پولیس سینسر شپ کے خلاف بھی آواز بلند کی گئی ہے۔ کیوں کہ احمد آباد کے خطبۂ صدارت کے بعد یہ شرط لگا دی گئی تھی کہ : ’’ اس وقت تک کوئی مضمون، نظم یا غزل پڑھنے کی اجازت نہیں مل سکتی جب تک شاعر اور مضمون نگار اپنی اس تخلیق کو پولیس سے سنسر نہ کروالیں۔‘‘ ظ۔ انصاری نے اس رسالے کا رنگ و روپ بدل دیا اور اسے غیر معمولی مقبولیت اور شہرت حاصل ہوئی۔ اس رسالے کے کہانی نمبر ، ناولٹ نمبر، افسانہ نمبر اور طنز و مزاح نمبر کو قارئین کے درمیان بے پناہ مقبولیت ملی ۔ شاہراہ کا طنز و مزاح نمبر بہت مقبول ہوا۔ اس کے مرتب فکر تونسوی تھے جس میں انہوں نے چند رسمی فقرے اور چند سنجیدہ فقرے کے ذیلی عنوانات کے تحت لکھا تھا کہ: ’’جن دنوں مشہور ادبی ماہنامہ ’ساقی‘دہلی سے شائع ہوتا تھا۔ ان دنوں برادرم شاہد احمد صاحب مدیر ساقی نے یہ روایت قائم کر دی تھی کہ وقتاً فوقتاً ساقی کا طنز و مزاح نمبر نکالا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد جب ’ساقی‘ پاکستان چلا گیا تو یہ بہترین ادبی روایت بے کسی کا شکار ہوگئی۔ یہاں تک کہ خود شاہد صاحب نے بھی اس تخلیقی روایت کا ساتھ چھوڑ دیا۔ میں اس روایت کو ایک بار پھر دہلی کے ادبی قبرستان سے اٹھا کر زندہ کرنا چاہتا تھا۔‘‘ شاہراہ میں مختلف ادبی اصناف پر مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔ رسالہ میں نئے ادب کے معمار کے تحت ایک اچھا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جس میں لوئی اراگاں اور دیگر عالمی فنکاروں پر مضامین شائع ہوئے۔ شاہراہ نے نوجوان فنکاروں کو بھی متعارف کرانے کا سلسلہ شروع کیا اور اردو کے مسائل پر بھی اداریے تحریر کئے گئے۔ محمد یوسف جامعی نے اپنے ایک اداریے میں بہت معنی خیز بات لکھی تھی کہ: ’’کسی بھی اقلیت کی زبان کو کچلا نہیں جا سکتا۔ اقلیتوں کی زبان کو فروغ دینا ہی جمہوریت کی عظمت کی دلیل ہے۔ ‘‘(جون1958) ڈاکٹر نوشاد منظر نے رسالہ شاہراہ کا اشاریہ مرتب کیا ہے جو 2014میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوا۔ 304صفحات پر محیط اس کتاب میں نوشاد منظر نے شاہراہ کے تمام مشمولات کا تجزیاتی مطالعہ کیا جس سے شاہراہ کے موضوعاتی تنوع کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ فنون، لاہور فنون لاہور احمد ندیم قاسمی اور حبیب اشعر کی ادارت میں 1963میں شائع ہونا شروع ہوا۔ یہ اردو ادب کا ایک معتبر اور مستند رسالہ تھا۔ جس نے ادبی معاشرے پر بہت گہرے اثرات مرتب کیے اور خاص طور پر نئی نسل کے شعرا اور ادبا کی تربیت کی اورآج کے ترقی پسند ادبا اسی فنون کی دین ہیں۔ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں کہ’’ فنون میں مختلف اہل قلم کو ان کی تخلیقات اور ان کے فن پر مختصر تبصرے کے ساتھ متعارف کروانے کا اہتمام بھی کیا۔ چنانچہ ابتدا میں اس وقت کی نو عمر فہمیدہ ریاض اور کشور ناہید کا تعارف ان کی تصویروں کے ساتھ شائع کیا گیا۔ دونوں شاعرات کی شہرت کا آغاز یہیں سے ہوا۔ یہی نہیں ایسے شاعروں، ادیبوں کی فہرست بہت طویل ہے جنھوں نے فنون کے صفحات پر اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔یہیں انھوں نے ترقی کے مدارج طے کئے ۔ (محمود اسیر، اوراق کے ادبی خدمات، صفحہ30) فنون میں مصوری، موسیقی، خطاطی اور فوٹو گرافی پر مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ فنون میں اختلافی مباحث پر جو گفتگو ہوتی تھی وہ بہت قیمتی ہے۔ فنون کے فکری مباحث نے ادبی ذہنوںمیں تحرک اور طغیانی پیدا کی بہت سے ایسے مسائل پر مباحث اور مذاکرے ہوئے جو ادب کے لیے بہت مفید تھے۔ ڈاکٹر ابرار آربی نے مجلہ فنون کے فکری مباحث کے عنوان سے جرنل آف ریسرچ میں ایک مضمون تحریر کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیںکہ’’ ان مباحث نے نہ صرف فنون کو ایک فکری شناخت دی بلکہ ادب کے طالب علموں کو فلسفیانہ فکر اور اصطلاحات سے روشناس کرایاکہ عام طور پر ادب کا قاری فلسفے کی ادق اصطلاحات پڑھتے ہی بدکنے لگتا ہے لیکن فنون میں اپنی کاوش سے عام قاری کے لیے فلسفیانہ اور فکری مشاغل نے گہری دلچسپی پیدا کی۔‘‘ادبی رجحانات کی تشکیل میں بھی فنون کا ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس تعلق سے ڈاکٹر عقیلہ بشیر نے بہت عمدہ گفتگو کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ’’احمد ندیم قاسمی کے ادارتی رویے کا خلاصہ تخلیقی معیارات کی پابندی اور قابل قدر تجربوں کی حوصلہ افزائی ہے۔۔۔آج کے معاصر ادبی منظر نامے پر ہم جن رجحانات کو نمایاں ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اس کی تشکیل میں مجلہ فنون کا اہم حصہ بھی بہر طور شامل ہے۔‘‘ احمد ندیم قاسمی کے بعد منصورہ احمد نے فنون کی ادارتی ذمے سنبھالی۔ فنون کی خصوصی اشاعتوں میں جدید غزل نمبر، اختر حسین جعفری نمبر،خدیجہ مستور نمبر قابل ذکر ہیں۔ سہیل، گیا ترقی پسندی کے فروغ میں ماہنامہ سہیل گیا کابھی کردار ناقابل فراموش ہے۔ بسمل سنسہاروی نے 1939میں اس کا اجرا کیا تھا بعد میں ادریس سنسہاروی نے اس کی ادارت سنبھالی۔ بہار کی ادبی صحافت میں اس رسالے کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس کے خصوصی شمارے میں بھاگل پور کا ادبی ماحول نمبر، جمیل مظہری نمبر، سہیل عظیم آبادی نمبر، کلام حیدری نمبر، کیفی اعظمی نمبر قابل ذکر ہیں۔ تناظر، دہلی بلراج ورما کا سہ ماہی تناظر(ستمبر1977) بھی ترقی پسند مجلہ تھا۔مگر اس میں دوسرے مکتب فکر کے افراد کی تخلیقات بھی شائع ہوا کرتی تھیں ۔ اس رسالے میں ہندوستان کے آرٹ ادب اور کلچر پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ اس میں جدید و قدیم بہت سے نظریات و رجحانات سے متعلق وقیع مضامین شائع ہوئے۔ افکار،بھوپال؍ کراچی افکار بھوپال؍ کراچی بھی ترقی پسندوں کا ایک اہم رسالہ ہے۔ یہ صہبا لکھنوی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس میں جہاں ادبی تخلیقات شائع ہوتی تھیں وہیں ملکی اور غیر ملکی تراجم بھی اشاعت پذیر ہوتے تھے۔ افکار کا خصوصی کارنامہ خود نوشت سوانح عمریوں کی اشاعت ہے۔ اس کے خاص نمبروں میں برطانیہ میں اردو نمبر، جوش نمبر، فیض نمبر، امیر خسرو نمبر، ندیم نمبر، غالب نمبر، آزادی نمبر، مجاز نمبروغیرہ قابل ذکر ہیں۔ صبا، حیدرآباد صبا حیدر آبادسے سلیمان اریب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا ۔ اس کی مجلس مشاورت میں حبیب الرحمن ، فضل الرحمن، ڈاکٹر طاہر علی خان، مسلم، رائے جانکی پرشاد، ڈاکٹر حفیظ قتیل، عالم خوند میری، دلاور علی خان، رضیہ بیگم جیسی شخصیتیں شامل تھیں۔ اور مجلس ادارت میں سلیمان اریب کے علاوہ حسینی شاہد اور وحید اختر کے نام بھی بعض رسالوں پر درج تھے۔ اس رسالے نے بھی ترقی پسند تخلیقات کی اشاعت میں اہم کردار ادا کیااور ترقی پسند رجحانات کی تشہیر و تبلیغ میں حصہ لیا۔ صبا کے اداریے فکر انگیز اور چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ ادب کی معاصر صورت حال پر مدیر کی گہری نگاہ تھی۔ سلیمان اریب کو یہ احساس تھا کہ اب اچھے قلمکاروں کا فقدان ہے۔ اسی لئے اپنے ایک اداریے میں انہیں یہ لکھنا پڑا تھا : ’’اردو کے ادبی رسالوں کو مالی مشکلات کے علاوہ ادبی معیار کے سلسلے میں بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک طرف قدرِ اوّل کی تخلیقات کی عدم اصولی اور دوسری طرف اوسط اور معمولی درجہ کی تخلیقات کی افراط۔ اچھی تخلیقات قطع نظر اس کے کہ آج کے مشہور لکھنے والے بھی کم ہی اچھا لکھ رہے ہیں اس لئے دستیاب نہیں ہوتیں کہ اُن کو غیر ادبی رسالوں سے معقول رائلٹی مل جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کساد بازاری کے زمانہ میں صرف ادبی خدمت ہی کوئی معنی نہیں رکھتی اور کام چلاؤ قسم کی تخلیقات اس لئے شائع کرنا پڑتی ہے کہ ہر ماہ رسالہ کا پیٹ بھرنا ضروری ہوتا ہے۔ چنانچہ اس صورت حال سے نمٹنا کچھ آسان نہیں تاہم ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اب محض دوستی اور مروت کو زیادہ راہ نہ دی جائے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ صبا کے دروازے غیرمعروف اور نئے لکھنے والوں پر بند ہو جائیں گے لیکن اس سے یہ ضرور ہوگا کہ مشہور اور پرانے لکھنے والوں کی کمزور تخلیقات بھی صرف نام پر شائع نہ ہو سکیں گی۔‘‘ (اداریہ: پہلی بات) صبا میں خطوط کا کالم بازگشت کے عنوان سے شائع ہوتا تھا اور صبا میں جان پہچان کے عنوان سے معاصر شخصیات پر تعارفی اور تنقیدی نوعیت کے مضامین کی اشاعت کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا تھا۔ اس تعلق سے ایک خط میں لکھا گیا ہے: ’’جان پہچان کا سلسلہ اچھا ہے۔ اسے جاری رکھو لیکن ایک بات ذہن میں رکھو کہ پرانے لوگوں پر لکھوانے کی ضرورت نہیں۔ نئے لوگوں پر لکھواؤ۔ پرانے لوگ جو متعارف ہیں ان پر لکھوانے سے کیا حاصل۔ اس سے صفحات تو بھر سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ اس میں نئے لوگوں کی حق تلفی ہے۔ پرانے لوگوں پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ جن پر کچھ نہیں لکھا گیا ہے ان پر مضامین آئیں گے تو ان کی ہمت افزائی ہوگی اور لوگ انہیں جان سکیں گے۔ ‘‘(عقیل احمد رانچی) یہ خط اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ آج بھی روش نہیں بدلی ہے۔ ایک ہی شخصیت پر سینکڑوں ہزاروں مضامین لکھے جاتے ہیں اور ان مضامین میں نہ کوئی نئی جہت ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی نیا زاویہ اور باقی جو گمنام اور غیر متعارف ہیں ان پر چند سطریں بھی نہیں تحریر کی جاتیں۔ اب اس روش کو بدلنے کی شدید ضرورت ہے۔ عقیل احمد نے اسی خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ:’’حیدرآباد کے علاقہ میں آدی باسی نسل کے بہت سے لوگ آباد ہیں۔ مثلاً ڈھیڑ، ڈور، بھیل، چنچو وغیرہ اُن کی نسل، زندگی اور تہذیب بالکل الگ ہے۔ ڈھیڑ اور ڈور تو شہروں میں آگئے ہیں لیکن دوسرے لوگ اب بھی شہر سے الگ ہیں۔ ان پر مضامین شائع کرو۔ اس کے علاوہ تاریخ ،عمرانیات، مصوری، موسیقی، اہم مقامات وغیرہ غرض یہ کہ بے شمار موضوع ہیں لیکن اُن پر کوئی بھی نہیں لکھتا۔ لے دے کر یہی تین چار موضوع ہیں جن پر اُردو رسالوں میں بار بار مضامین آتے رہتے ہیں اور ہاں صبا میں تیلگو کے ادیبوں، شاعروں یا بڑی شخصیتوں پر بھی مضامین آنے چاہئے۔ (عقیل احمد) اِن کی یہ شکایت بھی بجا ہے کہ اردو رسائل کی موضوعاتی زمین تنگ ہوتی جارہی ہے۔ صرف انہی موضوعات پر مضامین تحریر کئے جاتے ہیں جن پر پہلے ہی سے بکثرت مضامین موجود ہیں۔ نئے موضوعات کی جستجو کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے موضوعات بھی محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ صبا میں وحید اختر ’سخن گسترانہ بات‘ کے عنوان سے مضامین لکھا کرتے تھے۔ اپنی ایک تحریر میں انہوں نے ہندوستان میں ادبی رسائل کی صورت حال کے حوالہ سے بہت معنی خیز اور فکر انگیز باتیں لکھی تھیں: ’’آزادی کے بعد سے ہمارے ملک میں ادبی رسائل کی تعداد گھٹتے گھٹتے اب تو دو ہی تین تک رہ گئی ہے۔ نکلنے کو دوسرے رسالے کثرت سے نکلتے ہیں اور ہزاروں ہی نہیں لاکھ ڈیڑھ لاکھ تک بک جاتے ہیں۔ مگر خالص ادبی رسالوں کی بازار میں کوئی مانگ نہیں۔ اس کسا بازاری کا اگر یہ سبب بتایا جائے کہ اردوداں طبقے کی قوت خرید گھٹ گئی ہے تو میں اسے نہیں مانوں گا۔ اس لئے کہ جب فلمی اور جاسوسی رسالے ایک ڈیڑھ لاکھ تک بِک سکتے ہیں تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ قوت خرید تو ہے مگر ذوق ادب نہیں رہا۔ ‘‘ صبا کے کئی خصوصی شمارے شائع ہوئے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد نمبر، شبلی نمبر، قومی یکجہتی نمبر،نہرو نمبر، کشمیر نمبر اور مخدوم محی الدین نمبر قابل ذکر ہیں۔ سلیمان اریب کی وفات کے بعد صفیہ اریب نے اس کی ادارت کی ذمہ داری سنبھالی اور صبا کے سابقہ معیار کو برقرار رکھنے کی ہرممکن کوشش کی۔ ترقی پسندوں کے ترجمان رسائل نے عوام کے سیاسی سماجی شعور کی بیداری میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اگر یہ رسائل نہ ہوتے تو شاید ہمارا پورا معاشرہ فرقہ وارانہ تعصبات کا اسیر ہوتا۔ بر صغیر کے جملہ اردو مجلات کے ادارتی اور موضوعاتی تجزیے کے بعد یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بیشتر ترقی پسند رسالے ماینفع الناس کے زمرے میں آتے ہیں ورنہ بہت سے رسائل میں تو صرف رلانے والی شاعری اور سلانے والے افسانے شائع ہوتے رہے ہیں جس کے تعلق سے ساقی کے اداریے میں یہ بات کہی گئی ہے ’’ رلانے والی شاعری اور سلانے والے افسانوں کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں ایسی شاعری اور ایسے ادب کی ضرورت ہے جو ہمارے خفتہ احساسات کو بیدار کر دے‘‘اور یہ فریضہ حقیقی طور پر زیادہ تر ترقی پسند رسائل نے ہی ادا کیا ہے۔ ٭٭ ترقی پسندوں سے الگ کچھ رسالے ایسے بھی تھے جس نے حلقہ ارباب ذوق کی ترجمانی کی ان میں صمد شاہین اور ممتاز شیریں کا رسالہ نیا دوراور نسیم درانی کا ماہنامہ سیپ کراچی قابل ذکر ہیں۔ جدیدیت کے ترجمان رسالے: ترقی پسندی کے متوازی جدیدیت سے متاثر بہت سارے مجلات تھے۔ جن میں تحریک دہلی،شاخسار کٹک، ماہنامہ شب خون الہ آباد،ماہنامہ اوراق لاہور، تماہی معیار دہلی، اقدار، پٹنہ، سطور، دہلی،جواز مالی گائوں کے نام لیے جا سکتے ہیں ۔ تحریک، دہلی گوپال متل کا رسالہ تحریک (تاریخ اجرامارچ1953) اردو کا ایک اہم مجلہ ہے۔ اس کے مرتبین میں مخمور سعیدی، تمکین کاظمی اور پریم گوپال متل جیسی شخصیتیں تھیں۔ یہ مکمل طور پر ترقی پسندی کا مخالف مجلہ تھا۔ اس میں ترقی پسندوں سے سخت معرکہ آرائی ہوتی تھی اور تلخ اداریے لکھے جاتے تھے۔ ادبی، سماجی اور سیاسی موضوعات پر بھی اداریے میں گفتگو ہوتی تھی۔ موضوعاتی تنوع کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ اس رسالہ کے مشمولات بہت وقیع ہیں۔ ماہنامہ تحریک میں دوسری زبانوں کے ادبی جائزے پر مبنی جو مضامین شائع ہوئے وہ بہت اہمیت کے حامل ہیں کہ ان سے ہمیں دوسری زبانوں کی سمت و رفتار، رویے اور رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔ جدید ہندی ادب (دیویندر اسر) ہندی غزل (شاہد میر) پنجابی ادب کے پچیس برس (سکھ پال ویر سنگھ حسرت) کشمیری ادب ایک اجمالی جائزہ (غلام نبی خیال) اُڑیا شاعری کے جدید تر رجحانات (کرامت علی کرامت) تمل ادب کے پچیس برس(عزیز تمنائی) جدید تیلگو ادب شعر افسانہ (ابوالفیض سحر) نئی مراٹھی شاعری (بدیع الزماں خاور) کنڑا ادب کے پچیس برس (حمید الماس) جدید گجراتی ادب پر ایک نظر (پروفیسر محی الدین) راجستھانی زبان اور اس کی شاعری (ڈاکٹر فضل امام) راجستھانی ادب کے پچیس سال (ش۔ک۔ نظام) اس کے علاوہ دوسری زبانوں کی نظمیں بھی شائع کی گئیں۔ جن میں ہندی ،پنجابی، اُڑیا، تامل، مراٹھی، کنڑ، گجراتی، راجستھانی، بنگالی وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح ان زبانوں کے افسانے بھی شائع کئے گئے۔ علاقائی زبانوں سے اردو کا رشتہ مضبوط کرنے میں یہ نگارشات بہت اہم ہیں کہ ان سے ہمارا ذہنی افق بھی وسیع ہوتا ہے اور آگہی کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں۔ معاصر ادبی رسائل میں بھی اسی طرح کے جائزوں اور تخلیقات کی شدید ضرورت ہے۔ رسالہ تحریک میں اردو زبان کے مسائل اور متعلقات کے حوالے سے بھی بیش قیمت مضامین کی اشاعت ہوتی رہی ہے۔ اس ضمن میں گوپال متل کے اداریے بہت معنی خیز اور وقیع ہیں جو انہوں نے اردو زبان کے حوالہ سے تحریر کئے ہیں۔ ایسے مضامین اور اداریوں میں اردو کے تحفظ کا مسئلہ(ستمبر1956) لسانی اقلیتوں کے لئے لمحۂ فکریہ، (اکتوبر 1957) اردو تحریک کا نیا موڑ(مارچ اپریل۔1958)اردو کے مخالفوں کے لئے لمحۂ فکریہ(جولائی اگست۔1958، جنوری 1980، فروری مارچ، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر۔1980، جنوری فروری 1981) اردو کا دشمن کون ہے (اپریل1959)، زبان کا مسئلہ (مارچ 1965) اردو اور کانگریس (مئی 1965) اردو ادب میں ہندوستانیت کا فقدان حقیقت یا واہمہ (فروری 1971) اردو اور مہاتما گاندھی (فروری 1978) قابل ذکر ہیں۔ گوپال متل کے علاوہ اردو سے متعلق جو مضامین اشاعت پذیر ہوئے ان میں اثر لکھنوی (کچھ اردو زبان سے متعلق(فروری1959) دھرم ویر بھارتی( یہ اردو کے حمایتی، فروری 1970) سردار گیان سنگھ ( اردو کی اہمیت مارچ، 1973) سید سلیمان اختر( اردو رسم الخط کی مخالفت کیوں، جولائی 1970)محمد سلیم قدوائی (اردو رسم الخط کا مسئلہ، اکتوبر 1970) مسعود حسن رضوی (اردو رسم الخط کا مسئلہ، ستمبر1956) اہم ہیں۔ ان مضامین کا ایک انتخاب شائع ہو جائے تو یہ اردو داں حلقہ کے لئے بہت مفید ہوگا۔ محمد مطیع اللہ خان نے ماہنامہ تحریک کا اشاریہ مرتب کیا ہے جس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کیسے کیسے قیمتی گوہر پارے ہیں۔ ’تحریک‘ بیش قیمت علمی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی مضامین اور تراجم کا خزینہ ہے۔ تحریک کے خاص نمبروں سے اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی جن میں جگر نمبر، غالب نمبر، انقلاب روس نمبر،سلور جبلی نمبر، تارا سوف نمبر ، چین نمبر اور بیس سالہ ادب نمبر اہم ہیں۔ شاخسار،کٹک دو ماہی شاخسار کا اجرا کٹک سے جون۔جولائی1965ء میں ہوا۔ اس کے مدیر امجد نجمی تھے اور مجلس مشاورت میں سید حرمت الاکرام، مظہر امام، کرامت علی کرامت اور حفیظ اللہ نیول پوری شامل تھے۔ ’نقش اول‘ کے عنوان سے امجد نجمی اداریہ لکھتے تھے۔ اپنے ایک اداریے میں انہوں نے اڑیسہ میں شاخسار کی ضرورت کے حوالے سے لکھا تھا: ’’عرصۂ دراز سے تمنا تھی کہ اڑیسہ سے ایک ایسے اردو رسالے کا اجراء عمل میں آئے جو اردو کی ہندوستان گیر تحریک کا ساتھ دے سکے لیکن نامساعدات نے آج تک ایسا ہونے نہیں دیا۔ ہر چند ارباب ذوق صلاح دیتے رہے۔ اہل قلم تعاون کا وعدہ فرماتے رہے۔ لیکن آگے بڑھ کر مینا اٹھانے والا بھی نظر نہیں آیا۔ آخر چند مخلص احباب نے ہمت عالی سے کام لے کر اس کشتی کو تلاطم خیز سمندر میں ڈال ہی دیا اور وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ اردو کا عرصۂ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ اب یہ دو ماہی ادبی جریدہ خدا خدا کرکے معرض وجود میں آگیا جس کا پہلا شمارہ شائع ہو کر آپ کے ہاتھ کی زینت بنا ہے۔ اس دور ابتلا میں کسی تازہ پرچہ یا رسالہ کا نکالنا گویا ہفت خواں طے کرنے کے برابر ہے لیکن اڑیسہ میں اردو کو زندہ و پائندرہ رکھنے کے لئے یہ اقدام ضروری تھا۔‘‘ ( بحوالہ حفیظ اللہ نیول پوری، اڑیسہ میں اردو، ص۔285) اور حقیقت یہی ہے کہ شاخسار نے اڑیسہ میں نہ صرف اردو کو زندہ رکھا بلکہ اردو زبان کو معاصر اڑیہ ادب کے رویے اور جحانات سے واقف کرانے کا فریضہ بھی ادا کیا اور اس کا دائرہ صرف اڑیسہ تک محدود نہیں رہا بلکہ دور دراز علاقے تک اس کی رسائی ہوئی اور اس کا شمار ادب کے مقتدر رسالوں میں ہونے لگا۔ یہ صرف اڑیسہ کا ایک رسالہ نہیں تھا بلکہ جدیدیت کے خد و خال متعین کرنے میں بھی اس رسالہ کا قائدانہ کردار رہا ہے۔ پروفیسر کرامت علی کرامت لکھتے ہیں: ’’ترقی پسند تحریک کے تعطل کے بعد نوجوان ادباء اور شعراء کرام کو کچھ نئے پن کی تلاش تھی۔ اس نئے پن کی جستجو نے ادب میں اس رجحان کو فروغ دیا جسے آج جدیدیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دور میں اردو کے جن چند رسائل نے جدیدیت کے خد و خال متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا ان میں شاخسار کٹک ایک ہے۔ ‘‘ (شاخسار کے اداریے اور تبصرے، ص۔10) پروفیسر کرامت علی کرامت جن کا ذہن اس رسالہ کے پیچھے کارفرما تھا وہ ’میرا صفحہ‘ کے عنوان سے اداریہ لکھا کرتے تھے اور کتابوں پر تبصروں کے علاوہ تنقیدی مباحث بھی چھیڑا کرتے تھے۔ انہوں نے لکھا ہے: ’’سچ تو یہ ہے کہ شاخسار کا ذکر کئے گئے بغیر جدیدیت کے دور کی پوری تاریخ نامکمل اور ادھوری رہ جائے گی اس کا سبب یہ ہے کہ اب تک اردو میں جدیدیت کے تعلق سے جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سکہ کا صرف ایک رخ پیش کرتا ہے۔ دوسرے رخ کے عرفان کے لئے اردو ادب میں شاخسار کے سوا کوئی دوسرا رسالہ ہے ہی نہیں۔‘‘ (شاخسار کے اداریے اورتبصرے، ص۔12) شاخسار میں نہ صرف اہم موضوعات پر مضامین کی اشاعت ہوتی تھی۔ تنقیدی بحث و مباحثہ ہوتا تھا بلکہ اڑیہ کی تخلیقات بھی شائع ہوا کرتی تھیں۔ یہ اس رسالہ کا ایک اہم پہلو ہے جس کی وجہ سے اس کی اہمیت اور قدر و قیمت بہت بڑھ جاتی ہے۔ شب خون،الہ آباد ماہنامہ شب خون الہ آباد(جون 1966) جدیدیت کا بنیاد گزار مجلہ تھا۔اس کے پہلے مدیر کی حیثیت سے ترقی پسند ادیب و نقاد ڈاکٹر سید اعجاز حسین کا نام رسالہ پر چھپتا تھا۔ اس کے بعد جمیلہ فاروقی، عقیلہ شاہین کے نام مدیر کی حیثیت سے شامل کئے گئے۔ محمود ہاشمی اور ساقی فاروقی کا بھی نام مدیر کی حیثیت سے شائع ہوتا رہا۔ ترتیب و تہذیب کے حوالہ سے شمس الرحمن فاروقی کا نام شمارہ نمبر 51 سے شامل ہوا اور آخری شمارے تک فاروقی صاحب کا نام ہی شائع ہوتا رہا۔ اسی رسالے کے ذریعے شمس الرحمن فاروقی نے جدیدیت کو جلا بخشی اور اس کے رویے اور رجحانات کی تشہیر و تبلیغ کا ذریعہ بنایا۔شب خون کی وجہ سے ادیبوں کا ایک بڑا کارواں جدیدیت سے جڑ گیا۔ اس رسالے کی خدمات بہت وقیع ہیں۔ شب خون نے ادبی صحافت میں جو نقش قائم کیا اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جدیدیت کے مخالفین بھی اس رسالے کی علمی و ادبی وقعت کا اعتراف کرتے ہیں۔ شب خون میں جن موضوعات و مباحث پر تحریریں شامل ہو اکرتی تھیں ان سے اردو ادب میں طغیانی اور جولانی کی نئی کیفیت پیدا ہوئی اور بحثوں کے نئے دروازے کھلے ۔ یقینی طور پر شب خون ایک تاریخ ساز رسالہ تھا جس کے مشمولات آج بھی قلم کاروں کے لیے مشعل راہ ہیں۔انیس صدیقی نے ’شب خون‘ کے امتیازات پر یوں روشنی ڈالی ہے : ’’شب خون نے اردو ادب میں جدیدیت کے انقلاب آفریں رجحان کی اساس رکھی اور اس کی معنویت اور اہمیت کو اُجاگر کرنے میں اہم اور تاریخی کردار ادا کیا۔ ’شب خون‘ نے نئے فکری اور معنوی ابعاد اجاگر کئے۔ قاری کے فکر و ذہن کو مرتعش کرنے والے فکر انگیز مباحث کو جنم دیا۔ جدید ادب کے مالہ و ما علیہ پر عالمانہ انداز کے حامل مضامین شائع کئے۔ جدیدیت کی تائید و تردید، افہام و تفہیم، وضاحت اور حد بندیوں پر کثرت سے تحریریں شائع کیں۔ ادب میں تخلیقی دانشوری اور فن کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے تازہ تخلیقات اور امکانات کو اپنے صفحات پر جگہ دی۔ ہندوستانی اور بیرونی زبانوں کے ادبیات کے سینکڑوں فن پاروں کی اشاعت کے ذریعے اردو ادب کو ثروت مند بنایا۔‘‘ (انیس صدیقی: شب خون کا توضیحی اشاریہ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔2017، جلد اول،ص۔xiii) جون 2005میں اس کا اختتامی شمارہ شائع ہوا جس میں شب خون کے گذشتہ چالیس برسوں کی بہترین تخلیقات کاانتخاب شائع کیا گیا تھا۔ جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل تھا۔ انیس صدیقی نے دو جلدوں پر مشتمل ’شب خون‘ کا توضیحی اشاریہ شائع کیا ہے ۔ اُن کے مطابق ’شب خون‘ میں 222مضمون نگاروں کے 635 مضامین شائع ہوئے۔ کُل شماروں میں صرف پانچ خاتون قلم کاروں کے 6 مضامین شائع ہوئے۔ 285 افسانہ نگاروں کے 1121 ؍افسانے اور 28 خاتون افسانہ نگاروں کے 61 افسانے شائع ہوئے۔ ممتاز شخصیتوں کے20 انٹرویوز کی اشاعت ہوئی۔ 15 مباحثے شائع کئے گئے اور شعری تخلیقات میں 659 شعراء کی 8047 غزلیں شائع ہوئیں۔ سب سے زیادہ 230 غزلیں ظفر اقبال کی شائع ہوئیں۔ صرف 26 شاعرات کی 132 غزلیں ’شب خون‘ میں اشاعت کا شرف حاصل کر سکیں۔ ’شب خون‘ کے تمام شماروں میں 528 شعراء کی 4835 نظمیں شائع کی گئیں اور شاعرات کی تعداد صرف 42 ہے اور اس کے شماروں میں 153 مترجمین کے ترجمے شائع ہوئے جن میں سب سے زیادہ تراجم شمس الرحمن فاروقی کے ہیں اور انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کی تخلیقات کے تراجم زیادہ بڑی تعداد میں شائع ہوئے۔ شب خون میں 62 مبصرین کے 685 تبصرے شائع ہوئے۔ جن میں سب سے زیادہ تبصرے شمس الرحمن فاروقی کے تھے جن کی تعداد 275 ہے اور سید ارشاد حیدر کے 131 تبصروں کی اشاعت شب خون میں ہوئی۔ اس میں بہت سے قلم کاروں کے تعارف نامے بھی شائع کئے گئے اور تقریباً 3603مکاتیب کی اشاعت عمل میں آئی۔انیس صدیقی کے اس توضیحی اشاریے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں دیگر زبانوں کے قلم کاروں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے یقینی طور پر اس رسالہ کو ایک عہد ساز حیثیت عطا کی تھی۔ اس میں اُن کی شب و روز کی محنت بھی شامل ہے۔ انور سدید نے بڑی اچھی بات کہی ہے کہ: ’’شب خون نے جدیدیت کی تحریک کو کامیاب بنانے اور نئے ادیبوں کو اعتماد عطا کرنے میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس پرچے کے پس پشت ایک مدیر بھی نظر آتا ہے اور یہ مدیر اپنی ایک ادبی شخصیت رکھتا ہے اور اس شخصیت کا ادبی پرتو شب خون کے مزاج سے نمایاں ہے۔ بہت سے پرچے سالہا سال تک چھپتے ہیں لیکن اپنی شخصیت کا نقش مرتب نہیں کر سکتے۔ ‘‘ معیار، دہلی شاہد ماہلی کا سہ ماہی معیار (1977)بھی جدیدیت سے متاثر رہا۔ اس رسالے نے بھی بہت سے نئے موضوعات پر مضامین شائع کیے ۔ جدید ہندی ادب اور جدید ہندوستانی مصوری کے علاوہ پاکستانی ادب کا بھی خاطر خواہ گوشہ اس میں شامل رہتا تھا۔ یہ در اصل ایک طرح کی ادبی دیوانگی تھی جس کا مقصد نئے ادب سے قارئین کو روشناس کرانا تھا۔ اقدار، پٹنہ پٹنہ سے1967میں ظفر اوگانوی کی ادارت میں اقدار کا اجرا ہوا۔ یہ جدیدیت کا ترجمان رسالہ تھا۔ اداریے میں ایک اہم بات یہ تحریر کی گئی تھی کہ’’ اقدار زبان کی حد بندیوں سے بھی بلند ہے اس لیے ہم دوسری زبان کے ادیبوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔‘‘ (ستمبر1967بحوالہ عطا عابدی، بہار کے اردو ادبی رسائل، صفحہ 168) شعر و حکمت،حیدرآباد شعر و حکمت حیدر آباد(جنوری1970) بھی جدیدیت سے متاثر رسالہ تھا۔اس کے مرتبین میں مغنی تبسم اور شہریار تھے۔اختر جہاں کا نام ایڈیٹر اور محتشم نوید کا مینیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے درج ہوتا تھا۔ شعر و حکمت میں زیادہ تر شاعری کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ یہ ایک اچھا رسالہ تھا جس کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے لکھا تھا کہ: ’’مشمولات کے اعتبار سے پرچہ درجۂ اول کی چیز ہے۔ اداریہ بہت عمدہ ہے۔ پرچہ پڑھے لکھے لوگوں کا معلوم ہوتا ہے۔‘‘ عالم خوند میری نے اس پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے یہ تحریر کیا تھا کہ : ’’شعر و حکمت کے پہلے شمارے نے مجھے بے حد متاثر کیا۔ اردو کے شعری اور تنقیدی ادب کے لئے شعر و حکمت کا اجراء ایک اہم واقعہ ہے۔ نئی اور عصری شاعری کے لئے واقعی ایک سنجیدہ رسالہ کی ضرورت تھی۔‘‘ خلیل الرحمن اعظمی نے اس رسالہ کو بہت خوبصورت انداز میں یوں سراہا کہ: ’’ شعرو حکمت اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا ایک نیا رسالہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو شعری ادب کے لئے مخصوص کر لیا ہے۔ پہلے پرچہ کی اٹھان بتاتی ہے کہ اس رسالہ کے ذریعے جدید شعری رجحان کے سلسلے میں جذباتی انداز کے مباحثوں اور مراسلاتی تحریر سے آگے بڑھ کر ہم زیادہ گہرائی کے ساتھ غور و فکر کرنا چاہتے ہیں۔ شعر و حکمت کے اس شمارے کی قابل توجہ خصوصیت ایسے مضامین کی شمولیت ہے جن میں معاصر شعراء کے تفصیلی مطالعہ اور تجزیے پیش کئے گئے ہیں۔ مغرب کے جدید شعری رجحانات سے روشناس کرانے کا سلسلہ بھی شروع کیا گیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر حامدی کاشمیری نے لکھا کہ: ’’یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ آپ نے اس صحیفے کو جدید شاعری اور اس کی تشریح و تعبیر کے لئے وقف کیا ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس نوع کے رسالہ کی ضرورت شدت سے محسوس ہو رہی تھی۔‘‘ شعر و حکمت کی فہرست کا عنوان بڑا خوبصورت تھا۔ ’مافیہ‘ جس میں نظمیں، گیت، غزلیں وغیرہ شائع ہوا کرتی تھیں۔ شعر و حکمت کا ایک خصوصی شمارہ ن۔م راشد نمبر تھا۔ جس میں فکر و فن کے تحت بہت سی اہم تحریریں شامل تھیں۔ ن۔م راشد کی منتخب نظمیں ’افاداتِ راشد‘ اور جدید فارسی شاعری کے عنوان سے ن۔م۔ راشد کی تحریریں بھی شامل تھیں۔ اس رسالے میں ہم عصر شعر و ادب پر مضامین شائع کیے جاتے تھے اور تنوع کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا تھا۔ سطور، دہلی سطور جون1970میں دہلی سے کمار پاشی کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ انہوں نے اپنے رسالہ میں یہ لکھا تھا کہ : ’’سطور منٹو کے الفاظ میں کسی خاص ادبی گروہ کا بھونپو نہیں ہے بلکہ اس کی اشاعت کا مقصد ادبی گروہ بندی کے مقابل ادب میں آزاد خیالی، غیر جانب داری، صاف گوئی اور سنجیدہ روی کو فروغ دینا اور جدیدیت سے متعلق پھیلائی گئی غلط فہمیوں کی دھند دور کرکے صحیح راستہ تلاش کرنا ہے۔‘‘ سطور بھی جدیدیت ہی کا ترجمان تھا جیسا کہ خطوط کے کالم بازگشت میں شامل انور سدید کے اس خط سے پتہ چلتا ہے: ’’مجھے توقع ہے کہ سطور جدیدیت کو تحریک بنانے میں مثبت کردار ادا کرے گا۔‘‘ اور رسالہ کے مشمولات سے بھی اس کی تائید و توثیق ہوتی ہے۔ اس میں مضامین، نظمیں، افسانے، غزلیں، قطعات، رباعیاں کے علاوہ خصوصی مطالعہ، نئی کتابیں اور باز گشت کے عنوان سے نگارشات شائع ہوتی تھیں۔ یہ رسالہ پہلے ہی شمارہ سے ارباب ادب کی توجہ مبذول کرانے میں کامیاب رہا ۔ خاص طور پر جدیدیت سے حلقہ بہ گوش قلم کاروں میں اسے بے پناہ مقبولیت ملی۔ ادارے کی طرف سے لکھا گیا تھا کہ:’’اس پرچہ کے اجراء کا مقصد محض چند افسانے، نظمیں اور غزلیں یکجا کرکے قارئین کی خدمت میں پیش کرنا نہیں بلکہ تخلیقی سطح پر نئی ہوش مندی کو فروغ دینا ہے۔ اب سے کچھ پہلے کچھ لوگوں نے زندگی کو امپورٹیڈ اصولوں کے تحت سمجھنے اور ادب خلق کرنے کا جو مینی فیسٹو مرتب کیا تھا اس کا طلسم اب شکست ہوگیا ہے اور جدیدیت کے رجحان نے ادب میں ایک نئے مکتبہ فکر کی بنیاد ڈالی ہے۔‘‘ سطور میں جدیدیت کی وضاحت کی گئی ہے اور یہ لکھا گیا ہے کہ: ’’ہمارے نزدیک جدیدیت کوئی خارجی نظریہ، عقیدہ یا آسمان سے نازل ہونے والا کوئی حکمنامہ نہیں بلکہ زندگی اور کائنات کے مظاہر کو آزادانہ طور پر دیکھنے اور انسان کے داخلی خارجی نواح میں ربط تلاش کرنے کے لئے ایک نئے انداز نظر کا نام ہے۔‘‘ اس رسالہ کی تخلیقات سے اس کے معیار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ا سے بہت سے اہم تخلیق کاروں کا تخلیقی تعاون حاصل تھا۔ اس میں بعض مضامین ادب اور تنقید کے حوالہ سے بہت قیمتی ہیں۔ مارچ۔مئی1978میں ایک سوالنامہ دیا گیا تھا کہ: ’’کیا اردو زبان کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے؟ ‘‘ اس کے جوابات کرشن موہن، کوثر چاند پوری، بلراج کومل، پرکاش فکری، شرون کمار ورما، ڈاکٹر نریش اور شاہد میر نے دئیے تھے۔اس میں کرشن موہن جی نے اردو کی عربی اور فارسی آمیزی اور مشرف بہ اسلام ہونے کا ذکر کیا ہے۔ جب کہ بلراج کومل نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ: ’’بیگانگی کا سبب سرکاری سرپرستی کا فقدان ہے۔ اردو والے ہندی سے دور نہیں ہیں اور نہ ہی وہ فارسی اور عربی الفاظ کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں۔ معاملہ اس کے برعکس ہے ہندی والے دلی طور پر اردو سے دور ہیں اور وہ سنسکرت الفاظ کے استعمال پر اصرار کرتے ہیں۔ بلراج کومل نے یہ بھی کہا کہ : ’’فارسی اور عربی الفاظ کو مکمل طور پر اردو زبان کے دائرے سے خارج کر دیا جائے تو اردو اپنے مخصوص منفرد مزاج سے محروم ہو جائے گی۔ زبانیں شعوری آمیزشوں سے ترقی نہیں کرتیں بلکہ وہ سماجی تقاضوں سے اپنی راہیں اسطوار کرتی ہیں۔ ‘‘ ڈاکٹر نریش سے بھی اردو کے تعلق سے زیادہ مثبت خیال کا اظہار نہیں کیا۔ انہیں بھی عربی اور فارسی الفاظ سے شاید وحشت ہوتی ہو۔ اس رسالہ کے یک موضوعی شمارے بھی شائع ہوئے جن میں گوپال متل نمبر(فروری1983) قابل ذکرہے یہ خصوصی شمارہ گوپال متل کے شخصی اور شعری کردار کے حوالہ سے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ شخصیت، نثر ، شاعری، تاثرات، تبصرہ نگاری جیسے عنوانات پر یہ شمارہ محیط ہے۔ جس میں جگن ناتھ آزاد، مخمور سعیدی ، آمنہ ابوالحسن، مظفر حنفی، وزیرآغا، بلراج کومل، عنوان چشتی، حامدی کاشمیری، بانی اورنظیر صدیقی کی تحریریں ہیں۔ اس میں ان کی شاعری اور مضامین کا بھی ایک انتخاب شامل کیا گیا ہے۔ جس میں اردو میں ہندوستانیت کا فقدان، سماجی حقیقت نگاری، ادب میں فحاشی پر احتساب، احیائے ادب کی تحریک، ادب کے جدید رجحانات، مثنوی فریاد داغ، حضرت جگر، مجاز وغیرہ شامل ہیں۔ سریندر پرکاش کے حوالہ سے بھی مارچ(1981) میں یک موضوعی شمارہ شائع کیا گیا جس میں کمار پاشی کا مضمون’دھند میں راستہ بناتا ہواتلقارمس‘ کے علاوہ سریندر پرکاش کے افسانے بن باس، مردہ آدمی کی تصویر، ہم صرف جنگل سے گزر رہے تھے، جمغورہ الفریم، جپی ژان، تعاقب، کٹا ہوا سر، جنت، گاڑی بھر رسد، سم باڈی، نو باڈی، ڈیتھ باڈی اور برف پر مکالمہ شامل ہے۔ یہ رسالہ ادبی حلقہ میں مقبول ہوا۔ باقر مہدی نے لکھا ہے کہ: ’’پرچہ کی خوبی یہ ہے کہ نان اکیڈمک یعنی غیر درسی ہے اس لئے بہت سے پروفیسر حضرات جدیدیت سے برہم ہیں۔ بشر نواز بہت سے دکتوران ادب سے کہیں زیادہ اردو اور فارسی ادب پر نظر رکھتا ہے اس لئے ڈگریوں کا تمغہ لگانے والے اس سے خفا رہتے ہیں۔‘‘ جواز، مالیگاؤں جواز مالیگاؤں بھی ایک اہم رسالہ تھا جو سید عارف اور نشاط انوار کی ادارت میں 1977میں شائع ہونا شروع ہوا ۔ ایک زمانے میں اس رسالے نے بھی بہت دھوم مچائی تھی۔ اوراق،لاہور ڈاکٹر وزیر آغا کے اوراق لاہور نے بھی جدیدیت کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس کے مشمولات چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ یہ شاید پہلا رسالہ ہے جس نے انشائیے کو ایک اہم صنف کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔ اس میں جو ادبی اور علمی مباحث ہوا کرتے تھے ۔ اس نے ادب میں تحرک اور طغیانی کی کیفیت پیدا کی ۔ یہ ایک رجحان ساز رسالہ تھا جس نے ادب کو بہت سے اہم موضوعات عطا کیے۔ خاص طور سے وہ موضوعات جو اردو ادب کے لیے اجنبی تھے۔شاید ہی کوئی ایسا ادبی موضوع ہو جس کے حوالے سے اداریے یا مباحث شامل نہ کیے گئے ہوں۔ اوراق کا ایک کالم ’’سوال یہ ہے ‘‘ کے عنوان سے تھا۔ جو بہت مقبول تھا، جس نے بحث و نظر کے نئے دروازے کھول دیے اور مختلف نظریہ فکر سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کو اپنے خیالات کے اظہار کا مو قع عطا کیا۔ اسی کالم میں اردو میں انگریزی الفاظ کی آمیزش پر ایک فکر انگیز مکالمہ قائم کیا گیا جس میں مشتاق قمر محرک تھے اور شرکائے بحث میں عبادت بریلوی۔ عبد السلام خورشید، جمیل ملک، سلیم اختر، ناصر سید شہزاد اور جمیل آزر تھے۔ اردومیں انگریزی الفاظ کی آمیزش کو لے کر بہت سارے خدشات تھے جس میں انگریزی الفاظ پر احتساب عائد کرنے کی بات بھی کہی گئی تو بہت توکچھ لوگوں نے کہا کہ انگریزی کا بر محل استعمال کوئی قبیح بات نہیںاور جو انگریزی کے الفاظ قبول عام حاصل کر چکے ہیں اس پر قدغن لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اوراق ایک دستاویزی مجلہ ہے۔ انور سدید نے بہت صحیح لکھا ہے کہ: ’’اوراق تازہ ادبی مباحث کو ابھارنے، نئے صحت مند تجربات کو فروغ دینے، انشائیہ نگاری کے جدید ترین تصور کو رائج کرنے اور نظم اور غزل کو جدیدیت کی راہ پر ڈالنے میں پیش پیش ہے اور یہی اس کی انفرادیت ہے جس کا اعتراف عرصے سے کیا جا رہا ہے۔‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔406) اوراق کے اداریے بصیرت افزا اور فکر انگیز ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں کہ: ’’اوراق کے ہر اداریے کی حیثیت ادبی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے معاشرہ ، تہذیب اور کلچر کے ساتھ بھی مربوط ہوتی رہی۔ ان اداریوں کے مطالعہ سے نہ صرف سوچ کی گرہیں کھلتی ہیں بلکہ غور و فکر کے نئے زاویے بھی سامنے آتے ہیں۔ اوراق کے اداریوں کی ایک اولیت یہ بھی ہے ان میں تاریخی ، مذہبی معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی، سماجی، ادبی اور تنقیدی و تحقیقی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔‘‘ (بحوالہ ڈاکٹر محمود اسیر، اوراق کی ادبی خدمات، ص۔398) مابعد جدید رسائل: مابعد جدیدیت جو ایک نئی تحریک تھی اس سے مختص بہت کم مجلات تھے مگر اس تحریک کے سب سے زیادہ اثرات ادبی معاشرے پر مرتب ہوئے۔ جدیدیت سے وابستہ بہت سے قلم کاروں نے بھی مابعد جدیدیت کا اثر قبول کیا ۔ پروفیسر وہاب اشرفی کے رسالے مباحثہ پٹنہ کو کسی حد تک مابعد جدیدیت کا نقیب کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ما بعد جدید نظریات اور تصورات کے حوالے سے بہت سے فکر انگیز مضامین شائع کیے گئے۔دانش الہ آبادی کا رسالہ سبق اردو بھی ما بعد جدیدیت کا نمائندہ مجلہ ہے۔ اس کے علاوہ آواں گارد سہ ماہی رسالہ استعارہ کاذکر ضروری ہے کہ صلاح الدین پرویز اور حقانی القاسمی کی ادارت میں شائع ہونے والے اس مجلے نے بھی ما بعد جدید تصورات اور رجحانات کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2 ترقی پسندی ، جدیدیت اور ما بعد جدیدیت سے ماورا بہت سے ایسے مجلات ہیں جن سے ادبی ذہنوں کو تحرک ملا۔ ایسے رسالوں میں مژگاں(کولکاتہ)،سوغات(بنگلور)، کتاب نما(نئی دہلی)،الفاظ (علی گڑھ)، صبح نو (پورنیہ)، نقد و نظر(علی گڑھ)، آج کل(نئی دہلی)، سب رس(حیدرآباد) ، فکر و نظر(علی گڑھ)، شیرازہ (کشمیر)، ایوان اردو(نئی دہلی) اردو دنیا(نئی دہلی)، بیسویں صدی(نئی دہلی)، ادب ساز(نئی دہلی)، روح ادب(کولکاتہ)، انشاا(کولکاتہ)، زبان و ادب(پٹنہ)،اردو ادب (نئی دہلی)،استفسار(جے پور)، تفہیم (کشمیر)،تمثیل نو(دربھنگہ)، جہانِ اردو(دربھنگہ)، کوہ سار(بھاگلپور)، قصے(نئی دہلی)، انتساب(سرونج)، امکان(لکھنؤ)، ساغر ادب (مظفر پور)، ثالث (مونگیر)، پیش رفت (دہلی)،عالمی فلک (دھنباد)، اردو (امراوتی)، تحریک ادب (بنارس)، دربھنگہ ٹائمز(دربھنگہ)، ابجد (ارریہ) وغیرہ کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ ان تمام رسائل میں اہم ادبی موضوعات اور مسائل پر تحریریں شائع ہوتی رہیں۔ اصناف ادب، ادبی تحریکات و رجحانات، تنقیدی نظریات کے حوالے سے ان رسائل میں مضامین کا بیش بہا ذخیرہ ہے لیکن رسائل کی بھیڑ میں کم ہی ایسے رسالے ہیں جس نے ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہوں۔ ڈاکٹر محمود اسیر لکھتے ہیں ’’یوں تو تقسیم کے بعد سینکڑوں رسالے ادبی افق پر طلوع ہوئے اور ان سب رسائل نے ادب کے صحت مند رجحانات پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن ادب پر اپنے اثرات ثبت کرنے کے لیے جس طویل زندگی کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں سے گنتی کے چند رسالوں کا مقدر بن سکی۔ ان رسائل میں ہمایوں، ادبی دنیا، ادبِ لطیف، افکار ، نیا دور، ساقی، نقوش، سویرا، تخلیق، سیپ، فنون اور اوراق نمایاں ہیں۔‘‘ محمود اسیر نے صرف پاکستانی رسائل کے نام لکھے ہیں ہندوستان میں بھی بہت سے رسالے ہیں جس نے ادب کے معیار و وقار اور اعتبار میں اضافہ کیاہے اور ذہنوں پر مثبت اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان میں سوغات،شاعر، شعور،ذہن جدید، آج کل وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ سوغات،بنگلور محمود ایاز کا سالہ سوغات(1959) اس معنی میں بہت وقیع ہے کہ محمود ایاز کی تنقیدی بصیرت کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ انھوں نے تخلیقات کے انتخاب اور اشاعت میں کسی بھی قسم کے سمجھوتے کو روا نہیں رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ سوغات کو علمی اور ادبی حلقوں میں سند اعتبار کا درجہ حاصل ہے۔اس کے مدیر محمود ایاز نے باز گشت کے عنوان سے ایک سلسلہ شروع کیا تھا تاکہ قارئین اور قلم کار شائع شدہ تخلیقات پر اپنے رد عمل کا اظہار کر سکیں ۔یہ بہت مفید سلسلہ تھا کاش آج بھی جاری رہتا۔ سوغات کا نئی نظم نمبر آج بھی ایک حوالہ جاتی اور دستاویزی اہمیت کا حامل ہے۔محمود ایاز کے اداریے فکر انگیز چشم کشا ہوا کرتے تھے۔ اُن کی رائے بڑی بے لاگ ہوا کرتی تھی۔ پیشہ وارانہ تنقید سے انہیں وحشت ہوا کرتی تھی۔ وہ ایسے نقادوں کے مقابلے میں ایک باشعور قاری کو زیادہ اہمیت تھے۔ اس لئے اُن کا خیال تھا کہ: ’’بعض اوقات ادب کا اچھا قاری ایک پیشہ ور نقاد سے اچھا فیصلہ دے سکتا ہے۔‘‘ اسی جگہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: یوں بھی سرکار، دربار کے تمغے ہوں یا نقادوںکی عنایت کردہ اسناد دونوں کی حیثیت پرکاہ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اصل بات تو وہ ہوگی جو پڑھنے والے کہیں گے۔‘‘ (بحوالہ: ڈاکٹر حلیمہ فردوس، اَرج، ص۔114) شاعر، ممبئی سیماب اکبرآبادی کا شاعر ممبئی بھی ایک اہم رسالہ ہے۔ اس کے اختراعی ذہن کے حامل مدیر افتخار امام صدیقی نے ادب میں بہت سے نئے تجربے کیے جس کی وجہ سے ادبی صحافت کو کئی اہم زاوئے ملے خاص طور پر شاعر کی خصوصی اشاعتوں اور اعترافی گوشوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ جن میںہم عصر اردو ادب نمبرقابل ذکر ہے۔ ذہن جدید، نئی دہلی زبیر رضوی کا رسالہ ذہن جدید بہت سے اعتبارات سے منفرد مجلہ ثابت ہوا۔ اس میں رسمی اور روایتی ڈگر سے ہٹ کر بہت سے وہ موضوعات شامل کیے گئے جو اردو میں کم متعارف تھے۔انھوں نے ادبیات کے علاوہ ذہن جدید میں فنونِ لطیفہ، تھیٹر، فلم، موسیقی، مصوری، آرٹ کلچر اور غیر ملکی ادب کے تراجم شائع کیے۔ اس کے علاوہ موضوعاتی مباحث کا سلسلہ قائم کیا۔ جس کی وجہ سے ذہن جدید کو بہت مختصر عرصے میں شہرت و شناخت کی وہ منزل نصیب ہوئی جو بہت کم رسالوں کا مقدر ہوتی ہے۔ زبیر رضوی کے اختراعی اور تجرباتی ذہن نے اس رسالے کو بام عروج تک پہنچایا اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کا نقش قائم کر دیا ۔ شعور، نئی دہلی بلراج مینرا نے اپنے مجلہ شعور کے ذریعے اس تہذیبی ، ثقافتی اور تاریخی منظر نامے کو روشن کیا جو قارئین کی آنکھوں سے اوجھل تھے۔ بہت سے اہم موضوعات پر شعور میں مضامین کی اشاعت ہوئی جس سے قاری ایک نئی دنیا کے رو بہ رو ہوئے آرٹ اور ادب کی نئی جہتیں روشن ہوئیں، ایک نئے اور الگ زاویے نے ذہنوں میں جنم لیا۔ آجکل، نئی دہلی رسالہ آجکل (1947)نے بھی اپنی انفرادی شان برقرار رکھی اور مختلف مدیروں کے اختراعی ذہنوں نے نئے نئے زاویوں اور جہات کی جستجو کی یہ رسالہ بھی انفرادیت کا حامل ہے۔ خاص طور پر آج کل میں موسیقی، مصوری، سیرو سیاحت، جنگلی جانور، کشمیر، جدید ہندی کہانی وغیرہ پر جو خصوصی شمارے شائع ہوئے اس سے قارئین کو ایک جہاں دگر کی سیاحت کا لطف آیا۔ ڈاکٹر جمیل اختر نے دو جلدوں میں آج کل کا اشاریہ مرتب کیا ہے۔ جس سے آج کل کے موضوعاتی تنوع کو اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سب رس،حیدر آباد سب رس(جنوری1938)بھی ایک اہم رسالہ ہے ۔ یہ ادارہ ادبیات اردو حیدرآباد دکن کا ترجمان تھا۔ ڈاکٹر سید محی الدین قادری زور کی نگرانی میں شائع ہوتاتھا۔ اس کے مدیر صاحبزادہ میر محمد علی خاں میکش تھے۔ اس کی مجلس ادارت میں خواجہ حمید الدین ایم۔اے، سکینہ بیگم، مہیندر راج سکسینہ شامل تھے۔سب رس کے مقاصد و قواعد کی وضاحت یوں کی گئی تھی:’’مضامین متعلقہ سیاسیات حاضرہ اور مذہبی مباحث کسی صورت میں قابل اشاعت متصور نہیں ہوں گے٭ اردو مطبوعات پر بے لاگ تنقید کرکے اردو تصنیف و تالیف کا ذوق صحیح پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی٭ غیر زبانوں کے شاہکار مضامین کو اردو میں منتقل کرکے اردو کے علمی ادبی سرمائے میں اضافہ کیا جائے گا اس رسالہ کا مقصد دکنی زبان و ادب کی بازیافت اور تحفظ تھا۔اس نے دکنی ادب کو فروغ دینے میں بہت اہم رول ادا کیا ہے۔ دکنی مباحث اور ادبیات پر اس کے مضامین دکنیات پر کام کرنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔سب رس کے بہت سے خصوصی شمارے نکلے۔ جن میں اقبال نمبر، دکن نمبر، اردو نمبر، ترقی پسند نمبر اور دیگر خصوصی اعترافی گوشے قابل ذکر ہیں۔ نیا دور، لکھنؤ رسالہ نیا دور(اپریل1955)بھی ایک اہم رسالہ ہے اس نے بھی ادبی ذہنوں پر بہت مثبت اثرات مرتب کئے۔ یہ رسالہ اپنے خصوصی نمبروں کی وجہ سے بہت مقبول ہوا۔ منشی نول کشور نمبر،یاد رفتگاں نمبر، اطفال نمبر، نصف صدی نمبر، اودھ نمبر، صحافت نمبر بہت مقبول ہوئے۔ اس رسالے سے اردو ادب کی بڑی اہم شخصیتیں وابستہ رہیں۔اس کا مبسوط اشاریہ ڈاکٹر اطہر مسعود خان نے مرتب کیا ہے۔جو رضا لائبریری رام پور نے شائع کیا ہے۔ اکیسویں صدی میں جن رسائل نے ادبی جمود اور جلمود کو توڑا ہے ان میں ’امروز علی گڑھابوالکلام قاسمی)‘، ’اثبات ممبئی‘(اشعر نجمی)، ’آمد پٹنہ‘(خورشید اکبر)، ’استفسار جے پور(ش ک نظام، عادل رضا منصوری)‘ قابل ذکر ہیں۔تحرک خیز اور فکر انگیزا دبی مباحث کی وجہ سے یہ رسائل ذہنوں میں زندہ رہیں گے۔ تحقیقی مجلات اردو میں خالص تحقیقی مجلات کی بھی ایک روایت رہی ہے۔ اس ذیل میں معیار، دریافت، تحقیق، بنیاد، بازیافت، ریسرچ جرنل، خدابخش لائبریری جرنل، رضا لائبریری جرنل، ہندوستانی الہ آباد، تحریر، دہلی اور سہ ماہی فکر و تحقیق، نئی دہلی، فکر ونظر علی گڑھ وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ان رسائل کا راتکاز صرف تحقیقی مقالات اور مضامین پر رہا ہے۔ اس میں کچھ شعبہ جاتی رسائل کے نام بھی شامل کئے جا سکتے ہیں۔ پٹنہ یونیورسٹی کا اردو جرنل بھی ایک تحقیقی مجلہ ہے اور چھپرا یونیورسٹی سے نکلنے والا اردو اسٹڈیز بھی اسی زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ غالبیات، اقبالیات کچھ ایسے رسالے بھی ہیں جو اقبالیات، غالبیات سے مختص ہیں۔ اقبالیات پر مرکوز رسائل میں اقبال اکیڈمی کراچی کا ’اقبال ریویو‘ اور اقبال اکیڈمی حیدرآباد سے شائع ہونے والے ششماہی ’اقبال ریویو‘ قابل ذکر ہیں۔ یہ رسالے اقبالیات کے مختلف فنی اور فکری زاویوں اور جہات کی تفہیم سے متعلق تھے۔ غالبیات سے متعلق جو رسائل شائع ہوئے ان میں سہ ماہی ’غالب کراچی‘ مرزا ظفرالحسن کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان سے غالب انسٹی ٹیوٹ کا ’غالب نامہ‘ اور غالب اکیڈمی کا ششماہی’جہانِ غالب‘ قابل ذکر ہیں۔ ’غالب نامہ‘ کا پہلا شمارہ جنوری -اپریل 1976میں شائع ہوا ہے جس کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر یوسف حسین خان اور مدیر نثار احمد فاروقی تھے۔ اس میں غالبیات سے متعلق مضامین کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ ’احرام مدعا‘ کے عنوان سے اداریے میں لکھا گیا ہے کہ ’’غالب نامہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ غالب اور عہد غالب سے متعلق موضوعات پر علمی مضامین، سنجیدہ تحقیق کے نتائج، متوازن تنقیدی اور نئی معلومات پیش کی جائیں مگر مجلس ادارت نے غالبیات اور متعلقات غالب کے علاوہ مشرقی ادبیات کے دوسرے پہلوؤں پر بھی بحث و نظر اور تنقید و تحقیق کے لیے کھلے رکھے۔‘‘ششماہی ’جہانِ غالب‘ غالب اکیڈمی کا ترجمان ہے۔ اس کا پہلا شمارہ دسمبر 2005 میں ڈاکٹر عقیل احمد کی ادارت میں شائع ہوا۔ اس رسالے میں ماہرینِ غالبیات اور غالب شناسوں کی تحقیقات اور مطالعات پر مرکوز تحریروں کی اشاعت ہوتی ہے۔ یک صنفی رسالے اردو میں بعض رسالے ایسے ہیں جو صرف ایک خاص صنف سے مختص ہیں۔ حیدرآباد سے نوراللہ محمد کی ادارت میں رسالہ مشاعرہ شائع ہوتا تھا جو صرف شاعری کی تاریخ، سوانح اور کلام کے لئے مختص تھا۔ اسی طرح ابوالمحامد حکیم محمد عبدالرزاق عرشی کے زیر ادارت حیات سخن کے نام سے ایک رسالہ کی اشاعت ہوا کرتی تھی۔ جس کا مقصد قدیم طرز شاعری کا احیاء تھا۔ سلسلۂ داستان گو بھی حیدرآباد کا ایک رسالہ تھا جو علی احمد بی ۔اے کی ادارت میں جاری ہوا۔ اس میں طبع زاد اور مترجمہ افسانے ہی شائع ہوا کرتے تھے۔ حیدر آباد سے ایک اہم رسالہ تاریخ کے نام سے 1929میں حکیم سید شمس اللہ قادری کی ادارت میں جاری ہوا جو تاریخ اور آثار عتائق کی تحقیق و تفحص پر مرکوز تھا۔ یہ رسالہ تاریخ سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے حوالہ جاتی حیثیت کا حامل ہے۔ مختلف شماروں کے مضامین سے اس کی اہمیت اور افادیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جنوری 1929کے شمارے میں مملکت آصفیہ (مدیر)، کتب خانہ اسکندریہ (جی ایچ بوشنل مترجمہ: مولوی سید معین الدین قریشی ایم۔اے) قنوج (وی۔اے اسمتھ مترجمہ: مولوی محمد ضامن کنتوری) جون 1940 میں پونا ملی کا قطب شاہی کتبہ، شہنشاہ بابر کے سکے، شیخ شہاب الدین سہروردی، سلاطین کلوا، مہم ارکاٹ، جنوری۔مارچ1931 میں امیر تیمور، (نواب جیون یار جنگ بہادر ایم۔اے)، وصیت نامہ(اورنگ زیب عالمگیر،درباب تقسیم مملکت)، سواحل ملیبار پر اشاعت اسلام (تحفۃ المجاہدین کے باب دوم کا ترجمہ)، اپریل تاجون 1929 کے شمارے میں دکن کی علمی ترقیاں(مدیر)، دکن میں مسلمان (مولوی سید حسن برنی)، سلاطین قطب شاہیہ کے تعلقات خارجہ (مولوی سید علی اصغر بلگرامی)، مورخ خافیخاں کا کتبہ (سید احمد اللہ قادری)، ملیبار سے عربوں کے تعلقات(مدیر)قابل ذکر ہیں۔ بلونت سنگھ کی ادارت میں الہ آباد سے ماہنامہ فسانہ دسمبر 1948 میں شائع ہونا شروع ہوا۔ اس رسالہ کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف افسانے شائع ہوا کرتے تھے۔ اسی رسالہ میں تیغ الہ آبادی، صالحہ نکہت کے فرضی نام سے بھی لکھا کرتے تھے۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ شاعر و ادیب کرشن کمار طور کی ادارت میں شملہ سے سرسبز شائع ہوتا ہے۔ یہ رسالہ صرف شاعری کے کے لئے مخصوص ہے۔ حیدر آباد سے مصطفی کمال پاشا کی ادارت میں شگوفہ نکلتا ہے جو طنز و مزاح سے مختص ہے۔ بنگلور سے عظیم الدین عظیم کی ادارت میں دوماہی ظرافت شائع ہوتا ہے۔ جو طنز و مزاح کے لئے مختص ہے۔ اس نوع کے اور بھی رسالے ہو سکتے ہیں۔ جن تک میری رسائی نہیں ہو سکی ہے۔ حاشیائی رسائل: اردو میں بہت سے رسالے قصبات، قریات اور اُن شہروں سے نکلتے ہیں جو مرکز سے بہت دور ہیں اُن رسائل کی رسائی مخصوص علاقوں تک ہی ہو پاتی ہے۔ اُن سے ادبی صحافت کے مؤرخین اور محققین بھی کم ہی واقف ہو پاتے ہیں جب کہ ان حاشیائی رسائل کی بڑی اہمیت اور معنویت ہے کہ ایسے علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں جو شعر و ادب کے لئے زرخیز نہیں ہیں۔ وہ ان علاقوں میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ وسائل کے بحران اور قاری کے فقدان کے باوجود شعر و ادب کی ترویج کے تئیں اُن کا جذبہ یقینی طور پر قابل ستائش ہے اور وہ قابل مبارک باد ہیں کہ اردو کے ایسے علاقوں سے رسائل شائع کرنے کی جرأت کر رہے ہیں۔ ان میں ’صبح نو‘، پورنیہ، ماہنامہ ’پیامِ سحر‘ کشن گنج، ماہنامہ ’فانوس‘ کٹیہار،دو ماہی ’غالب‘ کٹیہار، دو ماہی ’افکار‘ پورنیہ، ’عکس‘ ،ارریہ، ’ابجد‘ ،ارریہ، ’جامِ نو‘ ، دھنباد، ’پروانہ‘ دھنباد، ’کوئل‘ پلامو، ’میراث‘ ، جھریا، ’روپ‘ جھریا، ’ارم چمپارن، ’آئندہ‘ جمشید پور، ’شفق‘ بوکارو، ’انجو‘ مظفر پور، ’اسلوب‘ سہسرام، ’انعکاس‘ مظفر پور، ’نگارش‘ حاجی پور، ’جمیل‘ سیوان، ’حصار‘ رانچی، ’علم و ادب‘ لکھمنیا وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر عطا عابدی نے بہار کے ادبی رسائل میں ان پر اجمالی گفتگو کی ہے۔ بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں کے قصبات و قریات سے بھی یقینی طور پر اس نوع کے رسالے شائع ہوتے ہوں گے جن کا ذکر ادبی صحافت کے ضمن میں خال خال ہی آتا ہو۔ ڈاکٹر آصف فیضی کی کتاب ’دبستان صحافت‘ میں مالیگاؤں سے شائع ہونے والے کچھ اسی نوع کے رسائل کا ذکر ہے۔ جن میں معیار سخن، افتخار سخن، بہار، تاجدار، خورشید، پیغام، جمال، نوید نو، جلیس، نشانات، ہم زباں، روایت، احساس، رفتار ادب، محبان ادب، تصویر جدید، جدید رجحانات وغیرہ قابل ذکر ہیں۔اسی طرح آندھرا پردیش کے پونم، شاداب، فنکار، بساط ذکر و فکر، اصنام، رنگ و بو، مقناطیس، خوشبو کا سفر، پیام اردو، عدسہ، لمس کی خوشبو، پروانۂ دکن، بزم آئینہ، الانصار۔ اترپردیش کے تیر نیم کش (مراد آباد)، خرام (کانپور)، افق نو (شاہجہاں پور)، شاندار (اعظم گڑھ)، گُل کدہ (بدایوں)۔ اڑیسہ کے روزن، ترویج، ادبی محاذ، نئی شناخت۔ تمل ناڈو کے سرکار، امام، آب و تاب، ساون۔ گجرات کے گلبن، ذخیرہ، اجلی تحریر، نکات رنگ و برو۔ مدھیہ پردیش کے شجر۔ مہاراشٹر کے صبح امید، تکلم، فنون، شاہین، قرطاس، دل رس وغیرہ کے نام لئے جا سکتے ہیں۔ ’علم و ادب‘ کے مدیر نے اس تعلق سے بڑی اہم بات لکھی ہے جس پر توجہ دی جانی چاہئے: ’’علم و ادب کے نکالنے کا جواز کیا ہے۔ پہلا تو یہی کہ چھوٹی جگہوں کے لوگ بھی ادب کے بڑے مسئلوں میں اپنی ایک رائے رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ علم و ادب کے بڑے مراکز ان پر غور کریں یہ لوگ اپنے نظریے (کہہ سکتے ہیں کہ قصباتی یا علاقائی) کے تحت اردو کے بڑے منظر نامہ کو جانچنے پرکھنے کا ارادہ اور حوصلہ رکھتے ہیں۔ یہ رائے یا نظریہ، یہ ارادہ ، یہ حوصلہ اور اس کی آواز صدا بہ صحرا نہ ثابت ہو اس لئے ’علم و ادب ‘جیسے جریدے کا تصور ابھر کر آیا۔ (بحوالہ: ڈاکٹر عطا عابدی، بہار میں اردو کے ادبی رسائل،ص۔248) قاضی سلیم نے بھی اپنے ایک خط میں اس کی طرف یوں اشارہ کیا تھا کہ: ’’وقیع اور پائے کے ادب کے بجائے آج اردو کو افقی پھیلاؤ کی ضرورت ہے۔ بڑے ادب کے بجائے مختلف ادب درکار ہے۔ ‘‘ 2 رسائل نے یقینی طور پر ادبی ذوق کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مگر ادبی صحافت میں رسائل کے مقام اور معیار کا تعین اس کے اداریوں اور مشمولہ مباحث سے ہی کیا جا سکتا ہے کیوں کہ جب تک رسائل میں نئے مباحث نہیں ہوں گے قاری کو یکسانیت اور بوریت کا احساس ہوگا ۔ جن رسائل نے تخلیقیت اور اختراعیت کا خیال رکھا اور نئی جہتیں دریافت کیں وہ اب بھی اپنے ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔ کسی بھی رسالے میں اداریے کی حیثیت ریڑھ کی ہوتی ہے ۔ جن مجلات کے مدیران با شعور اور بالغ نظر تھے انھوں نے اپنے اداریوں کے ذریعے ادب میں طغیانی پیدا کی اور جمود کو توڑا مگر اب ایسے متحرک، فعال مدیر کم رہ گئے ہیں اور زندہ اداریوں کی تعداد بھی کم ہو گئی ہے ۔پہلے کے مدیروں نے بہت سے قلم کاروں کو جنم دیا اور ان کی شہرت و شناخت کا ذریعہ بنے۔ مگر آج کی ادبی صحافت کی صورت حال بہت مختلف ہو گئی ہے۔ بقول ابوالکلام قاسمی’’ آج کے مدیر حضرات عموماً کچی پکی ادبی تحریروں کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کی اچھی بری پیش کش کو بھی ادبی صحافت کا متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں۔‘‘ آج کل ادارت جمع و ترتیب سے عبارت ہو کر رہ گئی ہے۔ میرے خیال میں آج کے بیشتر مدیروں کے پاس نہ وہ وژن ہے اور نہ کوئی ادبی مشن اسی لیے آج ادبی صحافت کا معیار زوال پذیر ہے۔ اس لیے ادبی رسائل کی اشاعت کا جواز ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ شام و سحر کے مدیر ڈاکٹر شبیہ الحسن نے عصر حاضر میں ادبی رسالے کی عدم ضرورت کے حوالے سے تیرہ نکات پیش کیے ہیں ۔ ان کے مطابق معاشرے کو ادبی مباحث نہیں، سائنسی علوم کی ضرورت ہے غیرادبی ماحول میں ادبی رسالہ نکالنا غیردانش مندانہ فعل ہے ادبی رسائل متحرک نہیں منجمد ہوتے ہیں، جن کا عملی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں یہ رسائل ذاتی مفادات اور تشہیر کے لیے نکالے جاتے ہیں، یہ ادب کافروغ نہیں ترقی ذات اور درجات کا ذریعہ ہیں مقالات سطحی، تخلیقات غیرمعیاری اور شاعری اوزان و بحور سے عاری ہوتی ہے رسائل کسی طرزِ احساس کو اجاگرکرنے میں ناکام رہتے ہیں زیادہ تر رسالے تجارتی مقاصد کے لیے نکالے جاتے ہیں اس سے ادیب کو عروج حاصل ہوتا ہے اور ادب زوال پذیر ہوتا ہے ہر رسالے کا اپنا ایک خاص گروپ اور حلقہ اثر ہے ادبی رسائل میں حیاسوز مواد شائع ہوتا ہے ان رسائل کا اسلوب بیان بھی متعین نہیں اور نہ ہی یہ قارئین کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب کرپا رہے ہیں ۔ ان کے بعض نکات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر ان کے سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگر شبیہ الحسن کی بات پر عمل کر کے یہ ادبی رسائل بند کر دیے جائیں تو ہجوم افکار میں حساس انسان حبس کا شکار ہو جائے گا اور خیالات و جذبات کے ہیجان کی وجہ سے امراض و آزار میں مبتلا بھی۔ ادبی رسائل ان کے لیے ایک طرح کی سائیکو تھریپی ہیں۔ 2 اکیسویں صدی میں جو رسائل و جرائد شائع ہو رہے ہیںان میں سے بیشتر کی تفصیل پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی نے دو جلدوں پر محیط ’ہم عصر اردو رسائل:جائزہ‘ اور’ اکیسویں صدی کے ہم عصر اردورسائل‘ میں پیش کی ہے۔ پہلی جلد میں تقریباً 252 اور دوسری جلد میں 172رسائل کا ذکر ہے۔ یہ رسائل بھی اہمیت کے حامل ہیںکہ آج کے اس صارفی عہد میں ادب سے رشتہ منقطع ہو رہا ہے اور مادیت پر مرکوز معاشرے میں ادب کی افادیت اور معنویت پر سوالیہ نشان کھڑے کیے جا رہے ہیں۔ ایسے میں یہ تمام ادبی رسائل مالی بحران، تعداد اشاعت کی قلت اور قاری کے بحران کے باوجودزبان و ادب کا چراغ روشن کیے ہوئے ہیں ۔انہی مسائل سے رسائل کی زندگی جڑی ہوئی ہے ۔ شاہد احمد دہلوی نے ساقی کے سال نامہ جنوری 1940کے اداریے میں بہت اہم لکھی تھی کہ‘‘صحافتِ اردو کی بے شمار دشواریوں نے جرائد و رسائل کی عمر شماری کے لیے وقت کا پیمانہ بدل دیا ہے ۔ ہر سال سیکڑوں رسائل جاری ہوتے ہیں اور سال ختم ہوتے ہی خود ختم ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی سخت جان ہوا تو دق کے مریض کی طرح سسکتا رہتا ہے اور اچانک دم توڑ دیتا ہے۔ اردو صحافت کی دنیا ہی الگ ہے یہاں عمر کا حساب دنوں اور مہینوں سے لگایا جاتا ہے۔ یہاں وقت گزرتا نہیں گزارا جاتا ہے بلکہ گھسیٹا جاتا ہے اگر کوئی رسالہ چند سال بھی جی جائے تو اس ے بہت غنیمت سمجھنا چاہیے یہاں ان رسائل کا مذکور نہیں جن کا تعلق مذہبیات یا جنسیات سے ہے۔ ان کے پڑھنے والے بے شمار اور وسائل لا محدود ہیں۔ ذکر ان جرائد کا ہے، جن کا تعلق علم و ادب سے ہے وہ بھی اعلیٰ درجے کے علم و ادب سے۔‘‘ اس لیے ہمیں ادبی رسائل کی نہ صرف قدر کرنی چاہیے بلکہ اس کی اشاعت میں مدد بھی کرنی چاہیے تاکہ ہماری آنکھیں کم از کم زوالِ صحافت کی عبارتیں پڑھنے سے محفوظ رہ جائیں۔ انیسویں صدی سے اکیسویں صدی تک اردو کی ادبی صحافت کے طویل سفر میں مدیروں کو بہت سے موانع و مشکلات سے گزرنا پڑا ہے۔ بہتوں نے بیوی کا زیور بیچ کر مجلے کو زندہ رکھنے کی کوشش کی۔ ان مدیران کی قربانیوں کو ہم فراموش کر چکے ہیں۔ یہ ہمارے عہد کا بہت بڑا المیہ ہے۔ ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر یہ ادبی رسائل نہ ہوتے تو شاید ہم آج کے بہت سے بڑے قلم کاروں کی تحریروں سے محروم رہ جاتے۔عالمی ادبیات کے رویے ، رجحانات، سمت و رفتار سے نہ واقف ہو پاتے اور نہ ادبی مباحث زندہ رہ پاتے۔کتابیں اس کمی کو کبھی پورا نہیں کر پاتیں کیوں کہ رسائل کے مقابلے میں کتابوں کا دائرہ بہت محدود ہوتا ہے۔ مختلف تحریکات، رجحانات کے حامل رسائل میں ادبی معرکوں سے ہم محظوظ نہ ہو پاتے جن سے زبان و ادب کو بے حد فائدہ پہنچا اور علوم و ادبیات کے نئے زاویے روشن ہوئے مگر اب ادبی نقائض کا سلسلہ بند ہو چکا ہے تو ادب بھی منجمد اور مضمحل نظر آنے لگا ہے۔ کاش کوئی ٹھہرے ہوئے تالاب میں پتھر پھینکے تو پھر رسائل کا وہی جلوہ لوٹ آئے گا۔ بہر حال ادبی صحافت کی پوری تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو کے ادبی رسائل کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ بر صغیر ہند و پاک سے شائع ہونے والے علمی و ادبی رسائل میںعلوم و ادبیات کا بیش بہا خزینہ ہے اگران رسائل سے یک موضوعی انتخابات شائع کیے جائیں تو ہمیں بہت سی ناقص کتابوں اور مقالات و مضامین سے نجات مل جائے گی۔ خاص طور پر رسائل میں اردو کی ہندوستانی شہریت اوراردو ہندی تنازع سے متعلق جو بیش قیمت تحریریں ہیںان کا انتخاب فوری طور پر کسی اکیڈمی یا ادارے کی جانب سے کیا جانا چاہیے کہ اس وقت کی یہ بہت بڑی ضرورت ہے۔
بھرے بھرے چہرے پر جابرانہ انداز میں کھنچی آنکھیں، بھنچے ہونٹ، سیاہ نکٹائی کی امریکی گرہ میں پھنسی دوہری گردن، سیاہ کوٹ کی دائیں طرف، سینے کی جیب میں ریشمی رومال جس کا سرخ رنگ وقت کے ساتھ ساتھ فیڈ ہوتااب پیازی سا معلوم ہوتا ہے۔ داخلی دروازے کے سامنے دیوار پر کیل سے لٹکی اس پورٹریٹ کے فریم کے دائیں کونے پر چھپکلی کا داہنا پاؤں پڑتا ہے۔ تصویر لمحہ بھر کے لیے لرزتی ہے۔ کوٹ کے کالر کے کاج پر ایک سنہری پتنگا بیٹھا ہے جو بلب کی روشنی میں بالکل کسی تمغے کی طرح لشکتا ہے۔ چھپکلی اس کی گھات میں وہیں جم جاتی ہے۔ دیوار، چھپکلی، پورٹریٹ، پتنگا ایک ہی حقیقت کے انگ دکھائی دیتے ہیں۔ سیاہ کپڑوں میں ملبوس، اس علاقے کا انچارج میز پر جھکا، بے ضابطے کی کارروائی سرکار ی چوس پر سرکاری سیاہی سے تحریر کرتا ہے۔ سیاہی چوس پر پہلے ی سے بنے چند اور کیڑے مکوڑوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کی گردن اور بھی تن جاتی ہے۔ اسے وہاں کھڑے جانے کتنا عرصہ ہوگیا ہے۔ اسے ہلنے تک کی اجازت نہیں، اس کے بالکل پیچھے ایک قدم ہٹ کے دو سیاہ پوش دائیں بائیں بید لیے کھڑے ہیں۔ جب بھی وہ تھک کر اپنا پورا بوجھ دونوں میں سے کسی ایک ٹانگ پر ڈالنا چاہتا ہے، ان دونوں کے ہاتھوں میں پکڑے بید زناٹے سے ہوا کو چیرتے ہیں۔ اس کی مضبوط پنڈلیوں پر پڑ کے اچھلتے ہیں، جبڑوں کے تمام پٹھے تن جاتے ہیں، نظریں سامنے کوٹھڑی کے دروازے کی سلاخوں سے پار، تاریکی کو چیر کے کھڑکی کے راستے راہ پاتی ہیں۔ میں ابھی لوٹ آؤں گا۔ وہ اپنے بچے کو سینے سے ہٹاکر بیوی کی طرف دیکھتا ہے۔ بیوی گم سم اسے دیکھتی ہے، بچہ بھاگ کر صحن میں چلا جاتا ہے۔ تم نے کیا جرم کیا پتر؟ اس کی ماں کے سفید بال صحن سے آتی ہوئی سرد ہوا سے کانپتے ہیں۔ ہمارے خاندان میں آج تک کوئی۔۔۔ تم نے کیا کیا ہے؟ بیوی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں، بچہ سردی سے بے پروا بے حد خوش چوکڑیاں بھرتا صحن سے واپس آتا ہے۔ ابا، ابا، وہ، وہ۔ بچہ باہر کی طرف اشارہ کرتا ہے، اسے بتاتا ہے کہ جو بیج اس نے اپنے بیٹے کو بونے کے لیے دیا تھا اس کی کونپل پھوٹ پڑی ہے۔ کچے صحن کے عین وسط میں چھوٹے سے دائرے کی صورت چنے کنکروں کے درمیان گوڈی شدہ زمین میں ایک ننھی منی کونپل منوں مٹی کو اپنی تیز کٹار سی نوک سے چیر کے ابھری ہے۔ ہاں بیٹے وہ، اس میں ایسے ایسے موہنے لہکتے سرخ سرخ پھول فانوسوں کی صورت میں کھلیں گے۔ وہ بچے کو پھر سینے سے لگاکر بھینچتا ہے، الگ کرتا ہے، بیوی کو بھرپور نظروں سے دیکھ کر ماں کو یقین دلاتا ہے۔ ماں میں نے کوئی جرم نہیں کیا، جانے مجھے کیوں بلانے آئے ہیں، ابھی لوٹ آؤں گا۔ باہر سردی ہے بیٹے، سوئٹر پہن لو۔ بچہ چارپائی پر کھڑا ہے۔ بیوی کا ہاتھ اسے روکنے کے لیے اٹھتا ہے۔ دروازے کا سہارا لے کر ماں کا دل سسٹولی میں رکتا ہے۔ وہ ان سب کو تابلوں میں چھوڑ کر تیزی سے قدم اٹھاتا باہر سڑک پر آجاتا ہے۔ دو سیاہ پوش عملاً اسے اٹھاکر جیپ میں پھینک دیتے ہیں۔ جیپ چل پڑتی ہے۔ آگے ڈرائیور کے ساتھ انچارج بیٹھا ہے۔ اس کاچہرہ نظر نہیں آتا۔ پیچھے بیٹھے ہوئے چار سیاہ پوشوں نے اپنے گھٹنوں کے درمیان رائفلوں کو جیپ کے فرش پر کھڑا کرکے ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام رکھا ہے۔ وہ ان کے درمیان پھنسا بیٹھا اس قدروی۔ آئی۔ پی ٹریٹ منٹ پر حیران ہوتا ہے۔ جیپ تیزی سے شاہراہوں پر، گہری ہوتی ہوئی شام کی سیاہی پھیلاتی بھاگنے لگتی ہے۔ آسمان پر پھیلتے تاریک بادل ونڈ سکرین کے فریم میں مہیب صورتوں میں اٹھتے ہیں۔ اسے فوراً خیال آتا ہے کہ وہ اپنے بچے کو بتاکر کیوں نہیں آیا کہ تند ہوا اور تیز بارش اس کی کونپل کے لیے قاتل ہیں۔ جب تک یہ کونپل درخت نہیں بن جاتی اور اس پر موہنے مہکتے، سرخ سرخ پھول فانوسوں کی صوت میں نہیں جھولتے تب تک۔۔۔ مجھے اس کو بتاکر آنا چاہیے تھا۔ اس کی نظریں کوٹھڑی کی کھڑکی سے پلٹتی ہیں۔ پورٹریٹ کے دائیں کونے پر چھپکلی کا داہنا پاؤں اسی طرح جما ہے۔ آنکھیں پتنگے پر گڑی ہیں۔ چھپکلی کی دم کا آخری سرا دیوار پر ایک ملی میٹر سرکتا ہے۔ پورٹریٹ میں ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے۔ دیوار کی کیل پر تنی رسی، جس سے یہ پورٹریٹ لٹکی ہے، ذرا سی تنتی ہے، کیل پر محیط رسی کے نچلے زنگ آلود، بوسیدہ حصے کے چند تاگے ٹوٹتے ہیں۔ انچارج اپنی کلائی گھماکر وقت دیکھتا ہے، سردی کو دونوں ہاتھوں میں رگڑتا ہے، دروازے کی جانب دیکھتا ہے۔ ایک کونے سے مبہم سی آواز آتی ہے۔ وہیں اسی جگہ کھڑے کھڑے اس کی آنکھیں خودبخود کونے کی طرف اٹھ جاتی ہیں۔ اس کا لہو اس کے جسم میں رک جاتا ہے۔ آنکھیں وہیں گڑ جاتی ہیں، پتلیاں پھیل جاتی ہیں۔ اس کونے میں بنچ پر بیٹھی اس کی ماں اور بیوی اس کو تکے جاتی ہے۔ وہ کچھ کہنے کے لیے منہ کھولتا ہے، ساتھ ہی اس کا قدم ان کی جانب بڑھنے کے لیے اٹھتا ہے۔ شاڑ، شاڑ۔ بید ہوا کو چیرتے اس کے جسم پر برستے ہیں، وہ پھر وہیں جم جاتا ہے، اسے ملنے کی اجازت نہیں۔ انہیں یہاں کون لایا ہے۔ اسے کوئی جواب نہیں دیتا۔ انچارج اس کی طرف دیکھ کر ہنسنے کا ارادہ کرتا ہے پھر چہرے پر کوئی تاثر لائے بغیر پورٹریٹ کو دیکھنے لگتا ہے۔ پورٹریٹ مزید دوسوت نیچے سرک چکی ہے، پتنگا کوٹ کے کاج پر اسی طرح جما بیٹھا ہے۔ چھپکلی کے دونوں اگلے پیر اب فریم کو پار کرچکے ہیں۔ اس کا بایاں پچھلا پیر فریم کے کونے کے قریب ہے۔ دائیں ٹانگ دم کی سیدھ میں کھنچی ہے۔ بچے کو اکیلا ہی چھوڑ آئی ہیں۔ وہ بیدوں کے پے بہ پے وار سہتا، بنچ پر بیٹھی عورتوں سے تشویش بھرے لہجے میں پوچھتا ہے۔ اس کے پاس ماسی کو چھوڑ۔۔۔ میں نے کہا تھا تم بولوگی نہیں۔ اگر اب تم میں سے کوئی بھی بولا اس کی زبان کاٹ دی جائے گی۔ انچارج کی نظریں پتنگے کے پروں کا سونا چاٹنے کی خواہش میں، پلٹ کر بڑی بیدردی سے کاٹتی ہیں، ماں، بیوی سہم جاتی ہیں۔ یہ بڑی زیادتی۔۔۔ ان شریف عورتوں کو یہاں کیوں۔۔۔ شریف عورتیں؟ انچارج کے گلے میں قہقہوں کا جھاگ ابلتا ہے۔ وہ چاروں اور ماں بہنوں کی گالیاں تھوکنے لگتا ہے۔ تمہاری ماں بہن شریف عورتیں؟ اس کے بدن کے لہو میں طوفان آجاتا ہے۔ اس کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے وہ بڑھ کر انچارج کو۔۔۔ لیکن دونوں سیاہ پوش اسے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ تیسرا ایک نیم روشن کونے سے برآمد ہوتا ہے، دونوں ہاتھوں سے اس کی قمیض کو گریبان سے پکڑ کر پھاڑ دیتا ہے۔ پھٹی قمیض سے اس کے صحت مند تندرست سینے پر سردی کی سنسناہٹ پھیلتی ہے، اس کے جسم کے بال کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انچارج سر سے اشارہ کرتا ہے۔ تیسرا سیاہ پوش اسے بالوں سے پکڑ کر کھینچتا ہے باقی دونوں اسے دھکیلتے ہیں۔ ماں بیوی اسے دیکھتی ہیں پر چپ ہیں۔ تینوں سیاہ پوش اسے کمرے کی واحد کھڑکی کے پاس لاتے ہیں۔ ان میں سے ایک اس کی قمیض کے رہے سہے چیتھڑے بھی اتار پھینکتا ہے۔ کھڑکی سے آتی تیز سرد ہوااس کے جسم کے مساموں میں داخل ہوکر سراٹھاتی ہے۔ وہ جسم سے اٹھتی کپکپی کو جسم میں دبادیتا ہے۔ کھڑکی کی چوکھٹ پر دونوں ہتھیلیاں جماکر سینہ پھلاتا ہے۔ لمبا سانس بھرتا ہے۔ اب آسمان پر بادل پوری طرح جم چکے ہیں۔ مدھم مدھم کومل سرمئی سی روشنی جو تاریک سے تاریک رات میں بھی کہیں سے آجاتی ہے، کڑکتی کوندتی برق کے سامنے ہر لمحہ غائب ہوتی ہے۔ ان لمحوں کے بیچ کے لمحے میں پھر آسمان کی وسعتوں میں پھیل جاتی ہے۔ اس درمیانی لمحے کو وہ اپنے سارے وجود میں سمیٹ کر مسکراتا ہے، پلٹتا ہے۔ نظروں ہی نظروں میں ماں اور بیوی کو صبر کی تلقین کرتا ہے۔ آپ مجھے یہاں کیوں لے کر آئے ہیں؟ وہ بے صبری سے پلٹ کر سوال کرتا ہے۔ آپ مجھے جانے دیں گے یا نہیں۔ میرا بچہ گھر میں تنہا ہے۔ ایک سیاہ پوش ہاتھ میں پلاس لیے اس کی طرف بڑھتا ہے۔ یکایک اس کا بایاں ہاتھ پکڑ کر پینترا بدلتا ہے۔ اس کا بازو اپنی بغل میں لے کر سختی سے دبالیتا ہے۔ باقی سیاہ پوش اس کی طرف جھپٹتے ہیں۔ اسے زمین پر گراکر اپنے قابو میں لے لیتے ہیں۔ پلاس والا اس کی شہادت کی انگلی کاناخن پلاس کے دانتوں میں دباکر آہستہ آہستہ کھینچتا ہے، کھینچتا ہے، حتی کہ ناخن جڑ سے اکھڑنے لگتا ہے۔ درد کی تمام حسیات سمٹ کر اس کے ناخنوں میں آجاتی ہیں۔ اس کے اندر کا ایک ایک خلیہ تناؤ میں جھنجھنا اٹھتا ہے، لیکن وہ اپنے چہرے پر اذیت کا کوئی تاثر نہیں آنے دیتا۔ انچارج غور سے اس کے چہرے کو دیکھتا ہے۔ وہ خود دل ہی دل میں حیران ہوتاہے۔ اگرچہ وہ پہلے کبھی جسمانی اذیت سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ اب یہ کیسی شناسائی ہے کہ اذیت اجنبی محسوس نہیں ہوتی۔ شاید جسم اور دماغ کے ہم آہنگ ہونے پر دونوں حقیقتیں، دونوں اذیتیں ایک ہوجاتی ہیں۔ انچارج سیاہ پوش سے پلاس چھین کر دیوانہ وار اس کا ہر ناخن کھینچتا ہے، کھینچتا ہے۔ اس کے ناخنوں کے کناروں پر خون کی لکیریں ابھر کے محیط ہوجاتی ہیں۔ انچارج تھک کر لرز جاتا ہے۔ پلاس تان کر اس کے پیٹ پر مارتا ہے گالیاں دیتا ہوا سیاہ پوشوں کے ساتھ کانفرنس کرنے کے لیے پرے ہٹ جاتا ہے۔ ماں بہن کی گالیاں سنکر ماں، بیوی کے سر اور بھی جھک جاتے ہیں۔ وہ اپنے اذیت رسانوں کو مصروف دیکھ کر یکدم کروٹ بدلتا ہے۔ فرش پر پنجوں اور ہتھیلیوں کے بل چپکے سے چلتا ہے ماں اور بیوی کے قدموں میں جاپہنچتا ہے۔ بچہ تو محفوظ ہے نا؟ بوڑھی ماسی اس کا کیا خیال۔۔۔ ماں اور بیوی اسے ٹکر ٹکر دیکھتی ہیں۔ وہ کولہوں کے سہارے بیٹھ کر جلدی سے اپنے ہاتھ بغلوں میں داب لیتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں چلتے پانی کی لکیر دوڑ جاتی ہے۔ بچہ تو محفوظ۔۔۔ عین اسی وقت آسمان سے بارش کے پہلے قطرے کا فائر ہوتا ہے۔ بارش مشین گنوں سے چلتی گولیوں کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ بچہ اپنے لحاف کو ذرا سا اٹھاکر دوری چارپائی کی اور دیکھتا ہے۔ بہتر سال کی بوڑھی ماسی لحاف میں دبکی نیند میں غائب غلا ہے۔ بچہ بہت محتاط، چارپائی کی چرچراہٹ کو دھیرے دھیرے اپنے بس میں کرتا ہے۔ دبے پاؤں چل کر دیوار سے لگا اسٹول اٹھاتا ہے۔ بند دروازے کے سامنے رکھ اس پر چڑھتا ہے۔ آہستہ آہستہ کنڈی کھولتا ہے۔ دوسری چارپائی پر قبر سی بنی لحاف کی نیند میں غائب غلا بہتر سال کی ماسی کو دیکھتا ہے۔ کنڈی کھول کر وہ جلدی سے نیچے اتر کر اسٹول کو پھر دیوار کے ساتھ لگادیتا ہے۔ دروازے کا ایک پٹ کھول کر باہر جھانکتا ہے۔ دیواروں سے اچھلتی بوچھاڑ اس پر پڑتی ہے۔ ٹھنڈی یخبستہ ہوا اس کی ناک کی پھننگ سے ٹکراتی ہے۔ بچہ بڑی مشکل سے چھینک کو دباتا ہے۔ اسے صحن میں کونپل نظر نہیں آتی۔ اس کا دل زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تیز بارش کا پردہ ہے۔ کارپوریشن کے کھمبے پر جلتے بلب کی روشنی نے بارش کی چادر پر پھیل کر اسے اندھا شیشہ بنادیتا ہے۔ بچے کی جسم میں سردی کی سنسنی پھیل جاتی ہے۔ اس کو چھینک آہی جاتی ہے۔ دوسرے بستر پر بنی قبر میں جنبش ہوتی ہے۔ بچہ روہانسا ہوکر فوراً اپنے بستر میں دبک جاتا ہے۔ لحاف کی اوٹ سے ماسی کو دیکھتا ہے۔ ماسی پھر اپنی نیند میں قائم ہوچکی ہے۔ بچے کا دل مسلسل دھڑکے جاتا ہے، جانے باہر تیز بارش تند ہوا میں اس کے نئے نویلے بوٹے کا کیا حال ہوگا۔ اگر اس بوٹے کو کچھ ہوگیا تو؟ اس سے رہا نہیں جاتا۔ وہ بے چینی میں اٹھ کر اپنی تمام حرکات دہراتا ہے۔ دروازے میں کھڑا ہوکر اندھے شیشے سے پار دیکھنے کی سعی کرتا ہے۔ دیواروں سے ٹوٹتی پھوار اسے شرابور کردیتی ہے۔ اب ہواکارخ کھڑکی کی طرف ہے۔ جہاں اسے پھر کھڑا کردیا گیا ہے۔ تیز ہوا اس کے جسم پر بارش کی چاند ماری کرتی ہے۔ لمحہ بھر کے لیے اس کے جسم کے انچ انچ کو کٹے ہوئے بلیڈ چھیدتے ہیں۔ پھر جلد ہی اس کے جسم اور دماغ کی حقیقتیں ایک ہوجاتی ہیں۔ وہ بڑے اطمینان سے اپنے سن جسم پر بلیڈوں کے وار سہتا ہے۔ ماں اور بیوی میں اسے دیکھنے کی تاب نہیں۔ ان دونوں کی نظریں پورٹریٹ پر گڑی ہیں۔ ان کے چہروں پر نفرت اور حقارت، غم و غصے کے تاثرات ہیں۔ چھپکلی پوری کی پوری پورٹریٹ کے فریم کے شیشے پر آچکی ہے۔ سنہری پتنگا کاج پر تمغہ نہیں رہا۔ رفتہ رفتہ چلتا ہوا سر کے اس حصے پر آکے رک گیا جہاں سے بال چھدرے ہوتے ہوتے ماتھے میں ڈھل جاتے ہیں۔ چھپکلی کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ وہ اگلا دایاں پاؤں بڑھائے، پچھلی بائیں ٹانگ دم کی سیدھ میں تان کر گھات لگالیتی ہے۔ کیل کے اوپر بوسیدہ زنگ آلود رسی کے چند اور تاگے ٹوٹ جاتے ہیں، پورٹریٹ چار سوت کشش ثقل کی طرف کھسکتی ہے۔ اذیت خانے کا داخلی دروازہ کھٹکے سے کھلتا ہے۔ انچارج اور تمام سیاہ پوش اٹنشن ہوجاتے ہیں۔ وہ بھی کھڑکی سے پلٹ کر دیکھتا ہے۔ سیاہ سوٹ میں ملبوس ایک شخص برساتی اوڑھے، کار سے اترکر دوسیاہ پوشوں کی معیت میں داخل ہوتا ہے۔ برساتی اتار کے ایک سیاہ پوش کو تھما دیتا ہے۔ کوٹ کی جیب سے پائپ نکال کر منہ میں دباتا ہے۔ اس کے سامنے چھ فٹ کے فاصلے پہ کھڑا ہوکر گیس لائیٹر سے پائپ سلگاتا ہے۔ دھوئیں کے چھوٹے چھوٹے بادل اس کے منہ سے نکلتے ہی کھڑکی سے آتی ہوئی ہوا میں منتشر ہوجاتے ہیں۔ کونے سے رونے کی دبی دبی آواز آتی ہے۔ اس کی بیوی اپنے رومال کو منہ میں ٹھونسے، تھک ہار کے، چھلکتے صبر کے پیمانے کو چھلکنے سے روکنے کی کوشش کرتی ہے۔ پائپ والا منہ سے پائپ نکال کر اس کی جانب دیکھتا ہے۔ گڈ۔۔۔ انچارج بڑے فخر سے اپنی کارگزاری سناتا ہے۔ پائپ والے کاچہرہ مطمئن ہے۔ وہ پائپ والے کی طرف لپکتا ہے۔ دوسیاہ پوش فوراً بڑھ کر اسے پکڑ لیتے ہیں۔ میرا جرم۔۔۔ میرا جرم؟ یہ لوگ۔ انچارج کی تیز زبان اسے کاٹتی ہے۔ ماں بہن کی گالیاں۔ ماں بیوی کے سرزمین پر جھکے اٹھ نہیں پاتے۔ انچارج کے اشارے پرایک سیاہ پوش کونے میں پڑے کڑوے تیل کے کنستر میں ڈوبا کوڑا نکالتا ہے، دوبڑھ کر اسے گھسیٹ کے تاریک کوٹھڑی کے جنگلے کے ساتھ اس کی کلائیاں اور پیر باندھ دیتے ہیں، کچھ اس انداز میں جیسے یسوع مسیح کو سولی پر باندھا گیا تھا۔ سیاہ پوش کوڑے سے زائد تیل نچوڑ کر پائپ والے کو اجازت طلب نظروں سے دیکھتا ہے۔ پائپ والامنہ میں پائپ رکھ کر کش لیتا ہے۔ سیاہ پوش کوڑا لہراتا ہے۔ پہلا وار۔ اس کے دانت اور آنکھیں بھنچ جاتے ہیں۔ پشت کے ریشے لمحہ بھر کے لیے سن ہوکر تڑپتے ہیں۔ وار کے بعد اس کا منہ کھلتا ہے۔ آنکھیں جنگلے کے باہر کوٹھڑی کے اندھیرے میں شعلے پھینکتی ہیں۔ دوسراوار، تیسرا، چوتھا۔ اب اس کی پیٹھ کے پٹھوں کے تمام ریشے مسلسل تناؤ میں ہیں۔ اس کی آنکھیں مسلسل بھنچی ہیں، جن کے سامنے مرکز سے سرخ نقطہ ابھرتا ہے، افق سے افق تک تنتناہی چلا جاتا ہے۔ چیخیں ہروار پر اس کے گلے میں آکے اٹک جاتی ہیں۔ پائپ والاحیران ہے کہ اتنی اذیت کے باوجود یہ چیختا کیوں نہیں۔ اس کی ماں اور بیوی اس منظر کی تاب نہ لاکر بنچ پر بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کے کاندھے پر سر رکھ کے آنکھیں میچ لیتی ہیں۔ ماں، دوسرے ہاتھ سے اپنی گرم چادر کے دامن میں اپنی بہو کے سر کو بھی چھپا لیتی ہے۔ کورے مارنے والا ہانپ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کے پٹھوں کاتناؤ ختم ہوجاتا ہے۔ آنکھیں کھلتی ہیں۔ وہ جس طرف دیکھتا ہے۔ اس کی آنکھوں کے مرکز سے ابھرتا سرخ نقطہ تاریکی کو روشن کرتا افق سے افق تک پھیلتا دکھائی دیتا ہے۔ وہ تھکاوٹ سے چور، جنگلے سے بندھا، لٹک جاتا ہے۔ پورٹریٹ تین سوت اور نیچے لٹک گئی ہے۔ دو ایک تاگوں کے سوارسی کے زنگ آلود حصے سے تمام تاگے ٹوٹ گئے ہیں۔ پورٹریٹ کے ماتھے پر چھپکلی اور پتنگے کے درمیان تین انچ کافاصلہ رہ گیا ہے۔ ایک سیاہ پوش بڑھ کر اس کی کلائیوں اور ٹخنوں سے رسیاں کھولتا ہے۔ وہ بے جان، فرش پرڈھیر ہوجاتا ہے۔ انچارج اپنے فل بوٹ کی نوک اس کی پیٹھ سے لگاکر زور سے دھکیلتا ہے۔ پائپ والا پلٹ کر سٹول پر پڑی دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی پر، جو اس عرصے میں ان میں سے ایک لاکے رکھ گیا ہے۔ اپنے ہاتھ سینکتا ہے۔ انچارج میز سے کاغذات اٹھاکر اس کے سامنے کرتا ہے۔ پائپ والا پائپ کے چھوٹے چھوٹے کش لیتا، کاغذات کاسرسری مطالعہ کرتا ہے۔ انچارج کو شاباش دیتا ہے۔ انچارج سیلوٹ کرتا ہے۔ اس کا جی بار بار سلیوٹ کرنے کو چاہتاہے۔ لیکن اس خیال سے کہ صاحب برانہ مان جائے، ایک ہی سلیوٹ پر اکتفا کرتا ہے۔ یہ لوگ مجھے بلاوجہ گرفتار کرکے لے آئے ہیں۔ پائپ والامڑ کر اسے دیکھتا ہے۔ وہ فرش پر گھسٹتا اس کے قریب آتا ہے۔ چند قدم پرے رک کر ہانپنے لگتا ہے۔ انچارج اور سیاہ پوش اس کی طرف لپکتے ہیں۔ پائپ والے کے ہاتھ کے اشارے سے رک جاتے ہیں۔ بہت ڈھیٹ ہے۔ انچارج کے لہجے میں خفت ہے۔ پائپ والا خاموشی سے فرش کو دیکھتا ہے۔۔۔ آپ۔۔۔ آپ۔۔۔ پڑھے لکھے ہیں۔ افسر تو بعد میں بنے۔ مجھے یاد ہے طالب علمی کے زمانے میں آپ بھی۔۔۔ شٹ اپ، تم میرے بارے میں اتنا جانتے ہو! پائپ والے کا چہرہ تمتما اٹھتا ہے۔ پیٹ کاسارا لعاب پل بھر کے لیے حلق میں پھنس جاتا ہے۔ پائپ کا کش لے کر وہ اس کیفیت سے نبرد آزما ہوتا ہے۔ فرش پر بیٹھے بیٹھے وہ دیوانہ وار قہقہے میں فرش پر جھک جاتا ہے۔ پائپ والے کا رنگ فق ہوجاتا ہے۔ خاموش۔ جی اچھا۔ بہت بہتر و بہت مناسب۔۔۔ یہ بتائیے، میں چور ہوں، بدمعاش، غنڈہ، جواری، زانی، شرابی، قاتل، ڈاکو یا سمگلر ہوں، جو مجھے یہاں لایا گیا ہے؟ پائپ والا اطمینان کا سانس لیتا ہے کہ بات اس کی ذات پر پھیلتی خود ہی سمٹ گئی ہے۔ یا میں اپنے وطن کے خلاف کسی سازش میں ملوث ہوں جو آپ مجھے اذیتیں دے کر سازش کی تفصیلات معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ انچارج ایک طرف کھڑا دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگتا ہے کہ صاحب خواہ مخواہ اسے بکے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ وہ ابھی ایک سیکنڈ میں اس کی زبان بند کرسکتا ہے، لیکن پائپ والا اپنے ہر حکم کو جواز دینا چاہتا ہے۔ اگر وہ جواز نہ بھی دے تو بھی اس شحص کو جو فرش پر بیٹھا اپنے آپ کو شریف اور معزز شہری ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میری ماں، میری بیوی کی بے حرمتی۔۔۔ وہ تقریباً روہانسا ہوجاتا ہے۔ تمہارا صرف ایک جرم ہے۔ تم کسان ہو، مزدور ہو، کلرک ہو، شاعر ہو، خطرناک قسم کے بلڈی پوئٹ۔ میں بیک وقت یہ سب کچھ؟ ایک عرصے سے تم یہ سب کچھ ہو۔ تمہاری فائل کہتی ہے۔ آج دوپہر تم نے یہ ثابت بھی کردیا ہے۔ میں نے کچھ ثابت نہیں کرنا چاہا تھا۔ تو پھر تم ہجوم کے درمیان چبوترے پر کھڑے کیا بک رہے تھے؟ آواز کی آرزو میں، وہ خواہش، وہ خیال، وہ لفظ جنہیں میں نے اپنے سمیت اپنے وجود میں سمیٹ لیا تھا، آج ان کی نجات کادن تھا۔ اور میں ہجوم کے ساتھ مل کر اس حقیقت کا اعلان کر رہاتھا کہ ہم انسان ہیں، جانور نہیں۔ ہم آزاد ہیں، غلام نہیں۔ تم واقعی خطرناک شاعر ہو۔ میں یہاں ایک ہوں۔ اگر خواہشوں، خیالوں اور لفظوں کو آواز سے روشناس کرانا خطرناک ہے تو باہر سارا ہجوم، سارا شہر، ساراملک، ساری کائنات خطرناک ہے۔ انہوں نے اپنے مقدر پر لگی، جبر و استبداد کی مہریں توڑ ڈالی ہیں۔ پائپ والا بڑے اضطراب سے پائپ کو منہ کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں جماتا ہے۔ آپ کی بدنصیبی ہے کہ آپ نے مہریں لگانے والی مشین کا پرزہ بننا پسند کیا۔ پائپ والا کچھ کہنا چاہتا ہے کہ وہ میز کا سہارا لے کر لڑکھڑاتا ہوا اٹھتا ہے۔ میز کے سہارے کھڑا ہوجاتا ہے۔ تم بہت بولتے ہو۔ پائپ والا جلدی سے پلکیں جھکاکر کہتا ہے۔ سر کے اشارے سے انچارج کو بلاکر اس کے کان میں کچھ کہتا ہے۔ انچارج کا چہرہ مسرت سے دمک اٹھتا ہے۔ دوسیاہ پوش اسے وہیں میز کے پاس فرش پر پھر سے گرادیتے ہیں۔ دو اور ساتھ مل کر اسے پوری طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیتے ہیں۔ انچارج اس کے سینے پر چڑھ بیٹھتا ہے۔ اپنے مضبوط ہاتھ کے انگوٹھے اور انگلیوں کو اس کے جبڑوں کے دونوں طرف جماکر پوری قوت سے دباتا ہے۔ وہ مدافعت کرتا ہے، لیکن اسے منہ کھولنا ہی پڑتا ہے۔ پائپ والا ایک چھوٹا سا دہکتا ہوا انگارہ پیڈ کے کلپ میں انگیٹھی سے اٹھاکر اس کے قریب لاتا ہے۔ انگارے کی حدت اور سرخی سے اس کی آنکھوں کو سکون پہنچتا ہے۔ تم واقعی بہت بکواسی ہو۔ پائپ والا اس کے کھلے منہ کے راستے دہکتا انگارہ اس کی زبان پر رکھتا ہے۔ کونے میں گرم چادر کے نیچے ماں اور بیوی ایک دوسرے کو بھینچ لیتی ہیں۔ وہ سیاہ پوشوں کے شکنجے میں جکڑا تڑپتا ہے، چیختا ہے۔ ماں بیوی کانوں میں انگلیاں دے لیتی ہیں۔ پائپ والا انگارہ اٹھاکے پھر رکھتا ہے۔ حتی کہ اس کے منہ کے لعاب سے انگارہ بجھ جاتا ہے۔ پائپ والا کلپ سمیت انگارہ پرے پھینک کر بڑے اطمینان سے اٹھتا ہے، سوچتا ہے۔۔۔ اب یہ سدا کے لیے گونگا ہوگیا۔ عین اسی وقت پورٹریٹ کی رسی کا ایک اور تاگا ٹوٹتا ہے۔ پورٹریٹ چند سوت اور کشش ثقل کی جانب سرکتی ہے۔ اب صرف ایک تاگا رہ گیا ہے۔ جس کے سہارے پورٹریٹ کیل پر ٹنگی ہے۔ چھپکلی، اگلا دائیاں پاؤں اٹھائے، ماتھے کے تمغے، سنہری پتنگے پر اب جھپٹا ہی چاہتی ہے۔ وہ فرش پر لیٹا اپنے جسم کے تشنج پر قابو پاکر حواس مجتمع کرتا ہے۔ اجتماع میں پھڑکتی جلی زبان سے ان تمام لفظوں کا سیلاب امڈ آتا ہے، جو آج دوپہر ہجوم کی آواز کے ساتھ ہم آہنگ ہوئے تھے۔ درد، اذیت اور غصے میں جلتی زبان سے لکنت میں ابھرتے الفاظ، پائپ والے اور دیگر سیاہ پوشوں کی سمجھ میں نہیں آتے۔ یہ سدا کے لیے گونگا ہوگیا۔ اپنی دانست میں ان بے معنی آوازوں کو سنتے ہوئے، پائپ والے اور اس کے حواریوں کے ہونٹ مسکراہٹ میں پھیلتے قہقہوں میں پھوٹ پڑتے ہیں۔ قہقہے، کونے سے ابھرتی ماں اور بیوی کی سسکیاں، اس کی جلی ہوئی، لکناتی زبان سے دیوانہ وار نکلتے لفظ اور باہر کڑکتی بجلی، سرد سنسناتی ہوا پر تیز بارش کا منتاژ۔ کارپوریشن لیمپ پوسٹ کی روشنی سے بنے، اندھے شیشے کے پار دیکھتے ہوئے بچے کو یکدم ترکیب سوجھتی ہے۔ وہ دروازے سے ہٹ کر جلدی سے مڑتاہے۔ پل بھر کے لیے دوسرے بستر پر تنفس سے ابھرتی ڈوبتی رضائی کی قبر کو دیکھتا ہے۔ اپنی چارپائی کے پاس آکر جلدی جلدی جوتا پہنتا ہے، اپنی پوری قوت سے، اپنے بستر کالحاف اٹھاکر اوڑھتا ہے۔ پلٹ کر تیز تیز قدم اٹھاتا کمرے سے باہر نکل جاتاہے۔ صحن کے عین وسط میں پہنچ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اور اس ننھی منی کونپل کو اپنے لحاف کے دامن میں لے لیتا ہے، جو منوں مٹی کو اپنی تیز کٹار سی نوک سے چیر کے ابھری ہے اور درخت بننے پر جس کی شاخوں سے موہنے، مہکتے، سرخ سرخ پھول، فانوسوں کی صورت جھولیں گے۔
اراؤں۔۔۔ وسطی بہار کا ایک گاؤں اور اس کی ایک صبح۔ ادھر، جدھر آسمان جھکا ہے، دھرتی کی کوکھ سے نوزائیدہ بچے جیسی ملائم، گلابی صبح دھیرے دھیرے پاؤں نکال رہی ہے۔ بیٹھے بیٹھے ریڑھ کی ہڈیاں اکڑ گئی ہیں مجری کی۔ جسم کے ایک ایک حصے میں درد چبھنے لگا ہے۔ ہاتھ کی دسوں انگلیاں پھنسا کر جسم کو اینٹھتی ہے۔ چرر۔۔۔ ر۔۔۔ انگ انگ سے رس ٹپکنے لگا تھا لاج کا۔ چہرہ سرخ ہو اٹھا تھا۔ دھت۔۔۔ جھینپ جاتی ہے۔ زور پڑنے سے پٹھے پر قمیص کی کئی کئی برسات کھائی سلائی بھسک گئی تھی۔ انگلی بھر چاک کے اندر سے گوری چمڑی لجائی لجائی جھانکنے لگی تھی۔ صبح کاذب سے قبل۔۔۔ ابھی صبح پوری طرح نمودار نہیں ہوئی تھی۔ کونے کھدرے سے کھدبدی چڑیاں کھلی ہوا میں نکل آئی تھیں اور چھت اور اس کی ریلنگ پر پھدکنے لگی تھیں۔ دیکھتی ہے انہیں مجری اور پھدکتی ہے من ہی من اور چہچہاتی ہے پھر شانت ہوجاتی ہے۔ زور زور سے جماہی لینے لگتی ہے۔ رات بھیانک تھی۔ پوری رات اس نے چھت پر بیٹھے بیٹھے گزاری ہے۔ سونا تو دور، چارپائی پر لیٹنے تک کی خواہش نہیں ہوئی تھی اس کی۔ بناس پوری رات بہتی رہی تھی بلکہ رات اس کا بہاؤ کچھ زیادہ ہی تیز تھا۔ رہ رہ کر اس کی دھار سے ایک عجیب طرح کا شور پیدا ہوتا تھا۔ پوری رات اس نے خوف اور دہشت کے بیچ گزاری ہے۔ رات کا ایک ایک منظر اب تک اس کی آنکھوں میں کسی خوف ناک، ڈراؤنے خواب کی طرح گھوم رہا ہے۔ ریت کی طرح گڑ رہا ہے چبھ چبھ، جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی بے شمار بتیاں۔۔۔ بڑے بھیا کا کھیت خالی ہوچکا ہے۔ بوجھے ڈھوئے جاچکے ہیں۔ عجیب ہے۔ رات کی سیاہی میں سب کچھ دکھائی دے رہا تھا، صبح کے اجالے میں کچھ بھی نہیں۔ سوالیہ نشان لگ گیا تھا اجالے پر۔ اٹھ کر ریلنگ تک آتی ہے۔ پیپل کا درخت پہاڑ کی طرح کھڑا ہے۔ عرصہ پہلے بندھی ہوئی سوت کالی پڑچکی ہے۔ ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر رہی ہے۔ بناس اب بھی بہہ رہی ہے۔ برسوں سے بہتی آرہی ہے۔ جن دنوں وہ تین ربروالی جانگیا پہنا کرتی تھی اور دو دو چوٹیاں آگے پیچھے لٹکائے نو گھروں میں سے ایک گھر میں غوٹی ڈال چھوتی تی تی تا کا کھیل کھیلا کرتی تھی، بناس کو تب سے بہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ضرور بناس میں اور اس کے کنارے پر کھڑے پیپل کے درخت میں کوئی گہرا رشتہ تھا۔ گاؤں میں کئی پیپل ہیں، بوڑھے بوڑھے۔ اور کسی میں کوئی سوت کیوں نہیں لپیٹتا؟ چھوتی تی تی تا۔۔۔ نوگھروں میں سے ایک گھر۔ یہ گھر میرا ہے۔ پورے حق کے ساتھ اس میں نشان لگا دیا کرتی۔ گویا خواب دیکھنا اس کا حق ہو۔ ’’اماں، بناس والے پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟‘‘ ’’یہ جان کر تو کیا کرے گی؟‘‘ ’’میں بھی لپیٹوں؟‘‘ ’’تیرا بیاہ ابھی نہیں ہوا ہے۔‘‘ یہ گھر میرا ہے۔ چھوتی تی تی تا۔ برسات کے دنوں میں بناس جب پوری طرح بھر جاتی، وہ اپنے کھیت میں کام کرنے والی بنیہار عورتوں کے ساتھ گھاٹ پر چلی جاتی۔ یہ صرف بہانا ہوتا۔ دیکھنا تو ہوتا تھا پیپل کو۔ کیسے لپیٹتی ہیں سوت؟ چانچر پر بیٹھ کر دونوں پیر پانی میں لٹکا دیتی۔ ڈرپوک پرتھا تھا۔ پانی اسے کاٹتا تھا۔ کئی کئی دنوں پر نہاتا۔ کلوٹا۔ ’’تم جانتے ہو، پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟‘‘ وہ ’نا‘میں سر ہلاتا۔ دور سے ہی تاکہ اس کی چھپر چھپر سے بھیگے نہیں۔ کھل کھل ہنس دیتی وہ۔ ’’بدھو۔۔۔ تم بھی نہیں جانتے۔ ابھی میرا بیاہ نہیں ہوا ہے۔ بیاہ ہوجائے گا تو۔۔۔‘‘ بھیگ بھاگ کر گھر لوٹتی تو اماں ڈانٹتیں، ’’تو لڑکی ذات ہے۔ وہ بھی بڑے گھر کی۔ بنیہاروں (مزدوروں) کے ساتھ تیرا میل جول ٹھیک نہیں۔ بڑے بابو کو پتا چل گیا تو۔۔۔؟‘‘ اماں کی صرف دھونس ہوتی تھی، ڈرانے کے لیے۔ بیٹی کے باپ کا پورا جسم آنکھ اور کان ہوتا ہے۔ انہیں پتا تو ہوتا ہی تھا لیکن انہوں نے کبھی کچھ نہیں کہا۔ بس گود میں لے کر سمجھادیتے، ’’تم کو ندی میں نہیں جانا چاہیے۔ کچھ ہو ہوا گیا تو ہم کیا کریں گے۔ ہم تو خوب روئیں گے۔ اوں۔۔۔ اوں۔۔۔ اوں۔‘‘ بڑے بابو رونے کا ناٹک کرنے لگتے۔ تبھی وہ زور سے چھینکتی اور بڑے بابو سچ مچ رونے رونے کو ہو جاتے۔ فوراً آرہ، فاروق حسین کے دواخانہ، مٹھیا والے ڈاکٹر کے یہاں لے جاتے۔ بڑے بابو کافی پڑھے لکھے تھے۔ پہلے زمانے کے بی اے تھے۔ انگریزی فر فر بولتے تھے لیکن انہوں نے کبھی انگریزی دوائی نہیں دلوائی۔ کچھ ہوا نہیں کہ مٹھیا والے ڈاکٹر کے یہاں پہنچ جاتے۔ مٹھیا والے ڈاکٹر پہلے اسے دلارتے پھر اس کے منہ میں دوچار بوند دوائی ڈال دیتے۔ اتنی کسیلی کہ منہ کھرا ہوجاتا۔ پھر میٹھی گولیاں کھانے کے لیے دیتے۔ رفتہ رفتہ وہ اس کی عادی ہوگئی۔ پہلے ہی میٹھی گولیاں ہاتھ میں لے لیتی اور دوائی پینے کے بعد فوراً منہ میں ڈال لیتی۔ چلتے وقت وہ بھی تنبیہ کرتے، ’’ندی کے پانی میں مت کھیلنا۔‘‘ ’’میں تو کھیلوں گی۔‘‘وہ من ہی من ضد کرتی۔ بڑے بھیا کو تو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتا تھا اس کا ندی پر جانا۔ اس کے کان اینٹھنے جاتے لیکن وہ مانتی کب تھی۔ اس کا کان کئی کئی دنوں تک ٹس ٹس دکھتا رہتا لیکن وہ وہی پر تھا، وہ اور ندی کی چھپر چھپر وہی۔ اماں نے ہمیشہ لڑکی ہونا سکھایا بڑے گھر کی۔ وہ سمجھ نہیں پاتی، لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ لیکن گھر سچ مچ بڑا تھا۔ سولہ کمرے تھے۔ بڑا سا آنگن تھا اور اس میں ڈھیر ساری دھوپ تھی۔ بڑا سا دالان جس میں بڑے بابو ہمیشہ مجمع لگائے رہتے۔ گرام وکاس سمیتی کے مکھیا (صدر) تھے بڑے بابو۔ مکھیا جی۔ ’’جواہر روزگار یوجنا‘‘اور ’’سماجک سہائتا یوجنا‘‘ کی باتیں ہوتی رہتی تھیں دالان میں۔ چوسر بچھا ہوتا تھا اور بہاری حقے کی آگ کو تاڑ کے پنکھے سے جھل جھل کر سلگاتا رہتا تھا۔ دالان کے آگے ایک طرف گوشالہ تھی جہاں سیمنٹ کی بنی نادپر گائے، بھینس اور بیل بندھے ہوتے تھے اور بالکل پھاٹک کے پاس ہرن کے چھوٹے چھوٹے دو بچے کان کھڑا کیے ہمکنے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔ وہ ان کا گھر تھا۔ میرا گھر؟ چھوتی تی تی تا۔ پچھلی بار جب گاؤں میں ’’اندرا آواس‘‘کے مکان بن رہے تھے، بی ڈی او صاحب آئے ہوئے تھے۔ بڑے بابو کے نہ چاہتے ہوئے بھی ہرن کے بچوں کو اٹھالے گئے تھے۔ ان کا گھر بدل گیا تھا۔ اندر زنانہ قطعہ۔ صرف اماں اور وہ۔ اور تھا ہی کون؟ لگتا ہی نہیں گاؤں کا پریوار ہے۔ لیکن گاؤں کا پریوار بھی صرف بڑے بابو کی پرانی باتوں میں دیکھنے کے لیے ملتا تھا۔ پچاس پچاس، ساٹھ ساٹھ لوگوں کاپریوار۔ عورتیں آٹا گوندھنے اور روٹی سینکنے بیٹھتی تھیں تو بانہیں چڑھ جاتی تھیں۔ بہتوں کے یہاں تو روٹی بنتی ہی نہیں تھی۔ دس سیرا تسلے میں چاول کھدکتا تھا۔ لیکن اب گھر گھر میں روٹی بننے لگی ہے۔ چھوٹی چھوٹی پتیلی میں آرام سے گوندھا جاتا ہے آٹا لیکن بڑے بابو کے ساتھ ایسا نہیں تھا۔ چارجنوں سے اوپر بڑھاہی نہیں پریوار۔ بڑے بابو اکلوتے تھے۔ بابا آئی کے گزرنے کے بعد وہ اور ان کے بدن سے دو اور ایک تین۔ اتنا بڑا گھر بھائیں بھائیں۔ بھائیوں کی شادی ہوئی تو خوب خوب رونق بڑھی۔ پورا گھر رنگا پتا کر دلہن بن گیا۔ بنیہاروں میں دھوتی ساڑی بٹی اور پوری رات ڈوم کچ ہوا۔ خوب مزہ آیا۔ ہائے ہلا پسند نہیں تھا بڑے بابو کو لیکن اماں نے ان کی ایک نہ سنی۔ ایک ایک کورکسر نکالی جی بھر کر۔ کہیں سوتیلی نہ کہہ دے کوئی۔ جب ماں مری تھی وہ تین سال کی تھی اور بڑے بھیا پانچ کے آس پاس۔ اماں آئیں تو چھوٹکا بھیا آیا۔ کیسا تھا لال لال۔ چھوٹی چھوٹی بھینچی آنکھیں۔ دیکھنے میں سرکنڈے جیسا لخ لخ۔ بچپن میں ہی اس کا سر ٹیڑھا ہوگیا تھا۔ پہلا بچہ، اماں بھی اناڑی تھیں۔ کنواری آئی تھیں۔ خود تو سنبھلتی نہ تھیں، بچہ کیا سنبھلتا۔ زیادہ تر سوتا رہتا۔ ایک کروٹ۔ بس ایک طرف سے پچک کر سرٹیڑھا ہوگیا۔ جوان ہوا توایک دم گبرو نکلا۔ بڑے بھیا بھی اس کے سامنے ہیچ۔ ’’یہ بڑے بھیا کا حصہ۔۔۔ یہ بڑے بابو کا حصہ۔۔۔ اور۔۔۔ اور یہ چندا ماما کا حصہ۔۔۔‘‘ اماں نوالوں کا حصہ لگاکر کھلاتیں۔ جوان تو وہ بھی ہوئی تھی۔ پہلے پہل جب شلوار گندی ہوئی تھی، اماں نے پرانی ساڑھی پھاڑ کر کئی تہہ کرکے اس کے اندر لنگوٹے کی طرح کس کر باندھ دیا تھا۔ بڑا پراسرار تھا سب کچھ۔ جانے کیسے سن لیا تھا اس نے اماں کو بڑے بابو سے کہتے ہوئے، ’’اب اس کی شادی بیاہ کی چنتا کرو۔۔۔‘‘ چھوتی تی تا۔۔۔ تی تی تی تی تا۔۔۔ یہ گھر۔۔۔ بڑے بابو نے کہا تھا، ’’پہلے گھر میں گھر کرنی آجائیں، پھرمیاں کو وداع کریں گے لیکن اماں تنکا تنکاجمع کرنے لگی تھیں اسی دن سے۔ تب اس کا بناس پر جانا تقریباً بند ہوگیا تھا۔ بہت ضد بھی کی اس نے۔ صرف ایک بار جانے دو بناس پر۔ ایک بار بھی نہیں جاسکی تھی۔ لیکن اس نے اتنا پوچھا تھا، اماں لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ اماں کو جواب ہی نہیں ملاتھا۔ دیر تک سوچتی رہی تھیں۔ پھر جیسے کھوئی کھوئی بولی تھیں، ’’جیسے دھرتی۔۔۔‘‘ اور اب چاہ کر بھی وہ ضد نہیں کرسکتی۔ نہیں جاسکتی بناس پر۔ بوند بوند کچھ بھرنے لگا تھا اس کے اندر۔ کچھ ہی دنوں میں سب کچھ بدل گیا۔ پرتھا گاؤں چھوڑ کر آرہ چلا گیا۔ پرتھاہی کیا، گاؤں کے بہت سارے لوگ آرہ چلے گئے۔ کچھ تو وہیں بس گئے اور کچھ ادھر ادھرمر مجوری کرنے لگے اور جو بچے ہیں۔۔۔ ایک دم کاٹھ مار گیا مجری کو۔ جلدی سے جھک کرریلنگ کے نیچے ہوگئی۔ آنکھیں نکال کر باہر دیکھنے لگی۔ دکھن ٹولہ کی خلیج میں پرچھائیاں کانپ رہی ہیں۔ اندر ہی اندر کانپنے لگی وہ بھی۔ دھک دھک اتنی تیز کہ دل چھاتی پھاڑ کر باہر آنکلے۔ آنکھوں کو پھیلاکر صاف دیکھنے کی کوشش کرنے لگی۔ ایک دوتین پانچ، کئی کئی سانس حلق میں کہیں پھنسی رہی تھی۔ پگڈنڈی پر ان کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ رینگتی ہوئی پرچھائیاں ایک ایک کر پگڈنڈی پر آئیں تو اس کی جان میں جان آئی۔ ’’وہ نہیں تھے۔‘‘ دکھن ٹولہ کی عورتیں ’فراغت‘کے لیے نکلی تھیں۔ دھم سے چار پائی پر بیٹھ گئی۔ جیسے کئی بار سیڑھیوں پر چڑھی اتری ہو، زور زور سے سانس لینے لگی۔ آسمان تھوڑا صاف ہوا تھا۔ پیپل دکھ رہا تھا اور بناس کی دھار بھی۔ پھر اندر بوند بوند کچھ۔۔۔ پورا منہ کھول دیتی ہے، جیسے پوری صبح اتارلے گی اپنے اندر۔ بناس پی جائے گی پوری کی پوری۔ شمال جانب چھٹی گھاٹ اور جنوب کی طرف مشان گھاٹ ہلکا ہلکا دکھائی پڑ رہا تھا۔ درمیان میں اس طرف جانے کے لیے بانس کا چانچر۔ پیپل کی ایک شاخ جھک کر پانی میں ڈوب گئی ہے، جس کی آواز سے خوفناک ڈر پیدا ہو رہا تھا۔ اس طرف ٹیلے کے اوپر پولیس کی کیمپ۔ سناٹا ہے وہاں۔ کیمپ کے اندر لالٹین کی دھیمی بتی جل رہی تھی ابھی۔ نیچے سوروں کے چھوٹے چھوٹے کھوباڑ۔ ان سے لگی درجنوں جھونپڑیوں اور کچے مکانوں کا سلسلہ۔ دھوئیں میں لپٹی ہوئی دھیرے دھیرے لرز رہی تھیں جھونپڑیاں اور لرز رہا تھا وقت۔۔۔ بناسی ٹولا۔ ’’لڑیکے لڑائی اور یائی ناجھگرواای، بیٹھی کے لنا پھر یائی ہوسنگھتیا۔ بھئیلے منسوا انگواسنگھتیا۔‘‘ اس طرف املی کے درخت کے نیچے بہاری مسہرالاپ رہاتھا۔ پاگل۔ دوہی تو پاگل ہوئے گاؤں میں۔ ایک یہ دوسرے کوی چاچا۔ کوی راجہ رام پریہ درشی۔ لمبا قد، اکہرا بدن، الجھی الجھی داڑھی اور سرکے بال۔ آنکھیں چھوٹی، ٹھہری اور سوچتی ہوئی۔ شاہ پور کے ٹھاکر کے یہاں اس کا رشتہ لگایا تھا انہوں نے۔ لڑکاآرہ مہاراجہ کالج میں وکالت پڑھ رہا تھا اور اس اکیلے پر بیس بیگھے کی جوت تھی۔ ’’اماں میں بھی لپیٹوں۔۔۔؟‘‘ ’’تیرابیاہ۔۔۔‘‘ ’’چھوتی تی تا۔۔۔‘‘ بڑے بابو کلف لگی ادّھی کی کھر کھراتی دھوتی اور کرتا پہن کر کوی چاچا کے ساتھ جیپ میں چیوڑ ا اور گنے کا نیا گڑ لے کر دن تاریخ پکی کرنے گئے تھے۔ واپسی میں گاؤں کی سرحد پر کسی نے ایک چٹھی پکڑادی تھی۔ گھر پہنچے تو کسی سے کچھ نہیں بولے۔ کوی چاچا کے ساتھ دونوں بھائیوں کو لے کر چھت کے اوپر چلے گئے۔ اماں کو بھی پاس نہیں بلایا۔ اماں بڑے بابو کے مزاج سے واقف تھیں اچھی طرح۔ آدرش وادی، اصول اور آدرش کی خاطر نہ کہیں جھکے اور نہ کبھی ٹوٹے۔ 74ء میں جیل گئے تو جے پی کے آدرشوں کی گرہ ہی باندھ لی۔ وہ بندھی تو بجر جیسی، آج تک نہ کھلی۔ اسی بڑے بابو کے چہرے پر پسری ہوئی ضد دیکھ کر خیر منارہی تھیں اماں من ہی من، ضرور کچھ برا ہوا ہے۔ ’نگدی اگدی‘ کو لے کر بات اٹکی ہوگی اور انہوں نے انکار کردیا ہوگا۔ لڑکا سستے میں کہاں ملتا ہے؟ لاکھ کا تلک چڑھاؤ، ہزاروں کا سروسامان دو، تب کہیں بیٹی کی مانگ میں سندور بھرتا ہے۔ کیسی ہوتی ہے بیٹیاں جی۔ چھی! لیکن لڑکا اچھا تھا اور کھاتا پیتا بھی تھا۔ آج کے زمانے میں کسی اکیلے کی دس بیس بیگھے کی جوت ہوتی ہے کیا؟ نا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اب پہلے جیسا وقت بھی تو نہیں رہا۔ نہیں رہا گیا اماں سے۔ سیڑھیوں پر جاکر ان کی باتیں سننے لگیں، ان کے پیچھے پیچھے وہ بھی۔ سن کر ششدر رہ گئیں۔ نہیں سنبھلتیں تو بھربھراکر سیڑھیوں پر گرجاتیں۔ ’’دستہ‘‘نے چٹھی بھجوائی تھی۔ پچیس ہزار نقد اور چاول کے دس بورے چندہ دینے کے لیے کہا تھا۔ دستہ؟ اس گاؤں میں تو کوئی ’’دستہ‘‘ یا ’’سینا‘‘ وینا نہیں تھی اور نہ ہی کسی طرح کی مرمجوری کاجھگڑا۔ کسان یہیں کے اور مزدور بھی یہیں کے۔ بڑے بابو نے خود کتنوں کو اپنی زمین میں بسایا تھا اور کچھ پورب کی طرف، جدھر سے سڑک گاؤں میں داخل ہوتی ہے، اس کے کنارے بسے ہوئے تھے۔ کبھی کچھ بھی تو نہیں ہوا یہاں۔ البتہ قرب و جوار کے گاؤں میں۔۔۔ کوی چاچا کی سوچتی ہوئی آنکھیں سنحیدہ تھیں، ’’بچا لو مکھیا جی۔۔۔ اس گاؤں کو بچا لو۔۔۔‘‘ شاید کوئی بیماری تھی۔ اتنا ہی بولتے بولتے کوی چاچا کی سانسیں اکھڑنے لگی تھیں اور آنکھیں لت پت ہوگئی تھیں۔ اماں جلدی سے گلاس میں پانی لے آئیں۔ ایک ہی سانس میں غٹ غٹ۔ ’’تم کیوں آئیں یہاں؟‘‘ بڑے بابونے گھور کر دیکھا اماں کو۔ اماں پاس ہی کھڑی ہوگئیں، ڈر اور ضد میں جیسے۔ ’’صرف سبقت۔۔۔ دے دوچندہ۔۔۔ اور بندوقیں آئیں گی اور لاشیں گریں گی۔۔۔‘‘ چپ ہوگئے۔ اماں سے اور پانی مانگا۔ اماں گئیں آئیں۔ خلامیں دیکھ رہے تھے کوی چاچا۔ ’’بندوق کی اپنی مجبوری ہوتی ہے۔ سب کچھ اسی کے ذریعے طے ہونے لگتا ہے۔ مقصد پیچھے کسی اندھیرے گڈھے میں پڑجاتا ہے، غیراہم ہوجاتا ہے۔ کھیتی کرنے والے مزدوروں کے حق اور دلتوں کے سمان کے نام پر شروع ہوکر پورے ملک میں انقلاب لانے کے عظیم مقصدکے تحت شروع ہوا یہ آندولن آج کہاں پہنچ گیا ہے۔۔۔؟‘‘ ’’نہیں نہیں مکھیا جی، اسے کلاس اسٹرگل نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں تو ذات اہم ہوگئی ہے۔۔۔ کاسٹ اسٹرگل۔۔۔ نہیں، کاسٹ وار۔۔۔‘‘ بڑے بابو بے چینی میں ٹہل رہے تھے۔ نہ جانے کیا ہوگیا تھا کوی چاچا کو۔ بول رہے تھے اور جانے کتنا کچھ اور بولنا چاہتے تھے، ’’سامنت واد؟ جسے اس نسل نے دیکھا ہی نہیں۔ جس کے قلعے مسمار ہوئے زمانہ بیت گیا۔ کھنڈر رہ گیا ہے باقی۔ زمین بوس، دھول چاٹتا ہوا۔ صرف دکھنے کی چاہ اور للک۔۔۔ تم اسے مانو مکھیا جی، یہ سب ووٹ کی سیاست ہے۔ کچی عمر میں سماج کو اس کی جگہ سے آگے لے جانے کی کوشش آندولن کو الٹی سمت دے گی ہی۔ بندوق اور ووٹ، کوڑھ میں کھاج ہوجائے، زخم ناسور بنے گا ہی بنے گا۔ کتنا عجیب ہے اور کیسا المیہ؟ جتنا ہے اس سے زیادہ، جیسا ہے اس سے الگ، جانتے ہیں لوگ اس لڑائی کو۔۔۔‘‘ چارپائی پر سرجھکائے الغم بلغم گراتے رہے کوی چاچا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ کوی چاچا کی باتیں اکثر سمجھ میں نہیں آتیں۔ بڑے بابو کی سمجھ میں کچھ آیا ہو تو آیا ہو شاید۔ سورج کی پہلی کرن مجری پر پڑی ہے۔ بڑے بھیا کی فصل کٹ چکی ہے۔ بناس بہہ رہی ہے۔ پیپل ہری ہری پتیوں سے لدا دکھ رہا ہے۔ نیچے جانے کی طبیعت نہیں ہوتی۔ کافی اندر تک امس بھر گئی تھی اس میں۔ بڑے بابو اجتماعی طور پر جینے اور سوچنے کے عادی تھے۔ یہ مسئلہ ان کا ہوتے ہوئے بھی گاؤں کا مسئلہ تھا اور اس کا حل بھی ممکنہ طور پر گاؤں کے پاس ہی تھا۔ لیکن کتنی مایوسی ہوئی تھی پنچایت میں بڑے بابو کو۔ سب کو سانپ سونگھ گیا تھا جیسے۔ کسی کی زبان نہیں ہلی تھی۔ پہلی بار لگا تھا، اعتماد کا قتل ہوگیا ہے، بے اعتمادی پھیل گئی ہے۔ اس دن کے بعد عجیب تبدیلی آئی گاؤں میں۔ گھنٹو ں ساتھ بیٹھ کر شیوئیشر رائے اور لوچن کہار کا تاش کھیلنا تقریباً بند ہوگیا تھا۔ خوف اور اندیشہ کسی چھوت کی بیماری کی طرح پھیل گیا تھا پورے گاؤں میں۔ اب رانا جی کے دروازے پر رات رات تک محفلیں نہیں لگتی تھیں اور نہ ہی تڑبنے میں تاڑی پینے والوں کا جم گھٹ لگتا تھا۔ طوفانی درزی، جس کے متعلق عام تھا کہ اس کے ریڈیو میں صرف گانا ہی گانا ہے اور کچھ نہیں، وودھ بھارتی ہو یا شیلانگ، صبح ہو، دوپہر ہو یا شام ہو، اس کے دو بینڈ کے ریڈیو میں صرف گانا ہی گانا بجتا تھا اور جو چھ وولٹ کی بیٹری چارج کراکر صرف دوسروں کو سنانے کے لیے فل ساؤنڈ کیے رہتا تھا، اس کے ریڈیو نے گانا، گانا بند کردیا تھا۔ سب مشکوک، دہشت زدہ، اجنبی اجنبی چہرہ لیے اپنے ہی حول میں سمٹ گئے تھے۔ لیکن بڑے بابو۔۔۔ جانے کیسے تھے بڑے بابو۔ انکار کردیا تھا انہوں نے چندہ دینے سے۔ جرم کردیا تھا بڑے بابو نے۔ فیصلہ تو ہونا ہی تھا۔ دستہ نے لگائی ’جن عدالت۔ ‘ آخری صف میں بیٹھنے والے جلسے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔ آرتھک ناکہ بندی لگا دی گئی تھی بڑے بابو پر۔ ’’مکھیا جی کے کھیتوں میں کوئی کام نہیں کرے گا۔‘‘ حکم صادر فرمادیا گیا تھا۔ کسی نے کچھ نہیں کہا، احتجاج کی کوئی آواز نہیں۔ کسی کے اندر کوئی بے چینی نہیں۔ صرف بہاری نے کہا، ’’ہمنی کے کام نا کرب تہ کھائب کا۔۔۔؟‘‘ یہ اس کا اپنا مسئلہ تھا اور اس جیسوں کے ایسے مسئلوں پر غور و فکر کرنا کہیں سے شامل نہیں تھا ان عدالتوں کے آئین و قانون میں۔ تھکے تھکے لوٹ آئے تھے بڑے بابو۔ گاؤں کے لہلہارہے کھیتوں کے درمیان بڑے بابو کا کھیت خالی رہ گیا تھا۔ ہری مخملی چادر پر ٹاٹ کے پیوند جیسا۔ میڈھ پر کھڑے سونی آنکھوں سے دیکھتے رہتے تھے بڑے بابو۔ بنیہار کام کی تلاش میں ادھر ادھر نکلنے لگے تھے۔ پرتھا بھی آرہ جاکر رکشا چلانے لگا تھا۔ بہاری رہ گیا تھا بلکہ جا ہی نہیں سکا تھا کہیں۔ بڑے بھیا غصے سے پاگل ہو رہے تھے۔ چھوٹا بھائی چندہ دے دینے کے حق میں اپنی دلیلیں دے رہا تھا، ’’پچیس ہزار کی تو بات تھی۔۔۔ یہ سب تو نہیں ہوتا۔‘‘ حیران رہ گئے تھے بڑے بابو۔ پوری رات سوئے نہیں تھے۔ اٹھ اٹھ کر دیکھتی رہی تھی انہیں وہ۔ آرام کرسی پر ٹانگیں سیدھی کیے چھت کو گھورتے رہے تھے پوری رات اور پوری رات وہ کسی انہونی کی غیبی آہٹ سنتی رہی تھی۔ پہاڑ سی پوری رات۔ چھوٹا بھائی رات کو دیر سے لوٹتا۔ اماں تو اماں تھیں۔ کھول دیتی تھیں خود کو دروازے کی طرح۔ ’’چل کھانا کھالے۔‘‘ پوچھتی بھی نہ تھیں، کہاں رہتا ہے اتنی اتنی رات تک۔ جب پوچھنا چاہا، دیر ہوچکی تھی۔ گرہن لگ چکا تھا۔ ’’مجھے میرا حصہ چاہیے۔‘‘ ماں باپ کے زندہ ہوتے اس نے زمین جائداد میں اپنا حصہ مانگا تھا۔ اماں کے چہرے پر سناٹا پھیل گیا تھا۔ ’’یہ بڑے بھائی کا حصہ۔۔۔ یہ بڑے بابو کا حصہ۔۔۔‘‘ ٹکر ٹکر دیکھتی رہ گئی تھیں بڑے بابو کو۔ پھر کئی کئی رات بڑے بابو آرام کرسی پر ٹانگیں سیدھی کیے چھت کو گھورتے رہے تھے۔ کئی ایک دنوں تک گھر کے کونے کونے سے خاموشی کے سسکنے کی آوازیں آتی رہی تھیں۔ بربادی گھر کی دیواروں پر چھکلی کی طرح رینگ رہی تھی۔ نہ جانے کیا ہوگا؟ نہ جانے کیا ہونے والا ہے؟ جیسے گھر میں کوئی گھس آیا ہے۔ کوئی کچھ چرا رہا تھا۔ دیوار میں بڑی سی نقب گلادی ہوکسی نے۔ اس کے راستے کسی کے دونوں پیر اندر آئے ہیں۔ ذرا دیر میں پورا کا پورا وہ اندر آجائے گا۔ اسے کوئی پکڑنا چاہے تو نہیں پکڑ سکتا۔ اس کے پورے جسم سے تیل چورہا ہے۔ پکڑتے ہی چھٹ سے چھٹک جائے گا۔ لاکھ جتن کرو ہاتھ نہیں آئے گا، پھسل جائے گا۔ پھسل گیا تھا سب کچھ۔ بڑے بابو نے خاموشی توڑی تھی۔ دونوں بھائیوں کو ساتھ بیٹھایا تھا ایک دن اور بانٹ دیا سب کچھ۔ یہ تمہارا اور یہ تمہارا۔ الگ الگ ہوگئی تھی ایک چنے کی دو دال۔ ادھر گھر پھوٹا اور ادھر گاؤں۔ پورب کی طرف جدھر سے سڑک گاؤں میں داخل ہوتی تھی، اس کے کنارے بسی ہوئی چھونپڑیاں ایک ایک کربناس اس پار جالگیں اور آباد ہوا بناسی ٹولہ۔ ’’جتیا کے بتیا میں متیا مرائل کا ہے، سہے لا انیر درگیتا سنکھتیا۔ گنواں کے نواں ہنساؤ جن سنگھتیا۔‘‘ چمپئی دھوپ میں بہاری مسہر کا جسم تانبے جیسا چمک رہاتھا۔ سور باڑ سے نکل کر تازہ ٹٹیوں پر تیزی سے تھوتھنا رگڑ رہے تھے۔ ٹیلے کے اوپر کیمپ کا سپاہی منہ میں داتون پھنسائے ترکاری کاٹنے والی چھری سے بندوق کی نال پر لگی زنگ کھرچ رہا تھا۔ دور تھا لیکن عجیب طرح کی آواز آرہی تھی مجری کے کانوں تک۔ عجیب آواز تھی۔ گاؤں کے منہ منہ ہوتے گھر تک پہنچی تھی۔ چھٹکا ’’دستہ‘‘میں چلا گیا۔ نکسلائٹ بن گیا۔ کانوں پر یقین نہیں ہوا تھا۔ بڑے بابو کا وہ سبق جو انہوں نے بکسے پر رکھے لالٹین کی روشنی میں آدھی آدھی رات تک طوطے کی طرح رٹایا تھا، بھول گیا تھا چھوٹکا بھائی۔ اماں چپ۔ بڑے بابو چپ۔ گونگے بہرے گاؤں کے منہ میں اچانک زبان اگ آئی تھی، ’’کہیے مکھیا جی، گاؤں بچانے کی بات کر رہے تھے آپ؟‘‘ نہیں بچاپائے تھے۔ کچھ بھی تو نہیں بچاپائے تھے بڑے بابو۔ کئی چیزیں ایک ساتھ ٹوٹ گئی تھیں، جس میں ایک بیٹی کا رشتہ بھی تھا۔ چھوتی تی۔۔۔ یہ گھر۔۔۔ گھرا جڑا تھا، بسا کہاں تھا۔ بانس کے کونپل بانس کی کوٹھی میں ہی بوڑھے ہوگئے تھے۔ صرف پھلمی بیاہی گئی تھی۔ وہ بھی آرہ مندر میں جاکر۔ اس سال اس کی باری تھی۔۔۔ تجھے یہ دوں گی۔۔۔ تجھے وہ دوں گی۔۔۔ تنکا تنکا جمع کرنے والی اماں کی آنکھیں رو بھی نہ سکی تھیں۔ البتہ بڑے بابو کی آنکھیں خوب روئی تھیں۔ رو کر ایک دم ہلکا ہوگئے تھے بڑے بابو۔ اتنا کہ اس کا اندازہ ان کی ارتھی کو کندھا دینے والوں کو بھی ضرور ہوا ہوگا۔ بڑے بابو نہیں رہے۔ تھے بھی، تو نہیں ہی تھے لیکن ان کا ہونا صرف، کچھ نہ کچھ تو تھا ہی۔ جب بالکل ہی نہیں رہے تو جو کچھ تھا وہ بھی نہیں رہا۔ جنوب جانب شمشان گھاٹ۔ بناسی ٹولہ سے چند گز کی دوری۔ سب کو پتا تھا، اس پار ہیہر کی جھلاس اور اس پار بناس کے ارار پر ہر وقت مورچہ لگا رہتا ہے۔ بندوقیں تنی ہوتی ہیں۔ پتا کھڑ کا، ہوا سرسرائی، دونوں طرف سے دھائیں دھائیں۔ ادھر جانے کی ہمت کسی کی نہ ہوسکی۔ بڑے بابو کی چتا کو آگ گاؤں سے لگے کھیت میں دی گئی۔ پہاڑ ایسا شریر مٹھی بھر راکھ بن کر مٹی میں مل گیا۔ ایک جگہ خالی ہوگئی۔ کسی کا ہونا یا نہ ہونا کس طرح اثر پذیر ہوتا ہے، یہ منظر ابھرا جب چھوٹے بھائی نے ایک بار پھر راگ چھیڑا، ’’حصہ پھر سے لگے گا۔ مجھے بنجر زمین ملی ہے۔‘‘ بڑے بابو کہا کرتے تھے، ‘‘ عمل ایک حد کو پار کرجانے کے بعد ردعمل کو جنم دیتا ہے جو زیادہ بے رحم ہوتا ہے۔‘‘ ’’تجھے اب اک دھور زمین نہیں ملے گی۔‘‘ بڑے بھیا۔۔۔ بڑے بھیا، سینا میں چلے گئے تھے۔ سولہ کمروں کے درمیان دیوار کی سرحد کھڑی کردی گئی تھی۔ ناد پر بندھی گائے، بھینس کی طرح بانٹ دی گئی تھیں اماں اور وہ۔ ایک اس کھونٹے، ایک اس کھونٹے، اماں چھوٹے بھائی کے حصے لگیں اور وہ بڑے بھائی کے حصے۔ وہاں پہلے سے ہی بھابھیاں ایک ایک کھونٹے بندھی ہوئی تھیں۔ ان کی صورت حال اور بھی مختلف تھی شاید۔ بڑے بابو یاد آرہے ہیں اور یاد آرہی ہیں ان کی باتیں۔ عمل ایک حد کو پار کرجانے کے بعد ردعمل کو۔۔۔ بناسی ٹولہ کو لاشوں سے پاٹ دیا گیا تھا۔ تم ایک تو ہم دس۔ ’’سینا‘‘نے بڑے فخر کے کے ساتھ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ پورے ا کیس لوگ۔ نصف سے زیادہ عورتیں۔ بہادروں نے شیر خوار بچے تک کو۔۔۔ ’’ستیہے میں خونوا کجو نوا بہاؤ جنی، ماٹی میں ملاؤ جنی جنگیا سنگھتیا۔ کُفتے میں بہریلا چھتیا سنگھتیا۔‘‘ اپنے پریوار میں بہاری بچ گیا تھا۔ پچا کہاں تھا، پاگل ہوگیا تھا۔ دن دوپہر یا املی کے پیڑ کے نیچے پڑا رہتا۔ کوی چاچا، جن کے گیت گاتا تھا بہاری مسہر، زاروقطار روتے۔ باڑھی گرام میں نوسینا حمایتوں کا قتل، گاؤں کے کھیتوں میں دھان کے بچڑوں کی بے رحمی سے روندائی، سانجھ سویرے نکلنے والی بہو بیٹیوں پر چھینٹا کشی۔ ایک طرف دہشت گردی، ایک طرف غم و غصہ۔ کوی چاچا کے دماغ میں بے اطمینانی کی گھنٹی بج رہی تھی۔ انہوں نے انتظامیہ کو اطلاع کی تھی لیکن انتظامیہ، اس کی اپنی مجبوریاں ہوتی ہیں۔ ’’کیا کیاجائے؟ فورس کی کمی ہے اور ویسے ہتھیار بھی نہیں۔‘‘ کچھ نہیں کیاگیا اس وقت، بعد میں قافلہ پہنچا۔ اخبار میں بیان اور چناؤ کے لیے مدعا ہاتھ آیا۔ نیتاؤں نے بھاشنوں کی برسات کی، منتریوں نے اعلانات کیے۔ بناسی ٹولہ جل تھل ہوگیا۔ کچھ تیر نے لگے، کچھ غوطہ لگانے لگے۔ ’’نیتا کے۔۔۔ اب سب آوترن۔۔۔ کال تک کو نوپوچھے والا نارہے۔۔۔ (نیتا کے۔۔۔ اب سب آرہا ہے۔۔۔ کل تک کوئی پوچھنے والا نہیں تھا) نفرت اور غصہ۔ اخبار والوں نے فوٹو کھینچے۔ ’’روئیے نا۔۔۔ نہیں نہیں، ایسے نہیں۔۔۔ ذرا سینہ پیٹ پیٹ کر۔ ہاں پلیز ویپ، کلیک۔‘‘ راتوں رات بناسی ٹولہ دنیا جہان میں مشہور ہوگیا۔ غریبوں کے ایک مسیحا نے نعرہ دیا، ’’خون کے بدلے خون۔‘‘ کسی نے نہیں کہا، اب اور نہیں۔ سب آئے اور گئے۔ کرمچ کے کپڑوں اور بھاری بوٹوں والے گاؤں گاؤں سونگھتے پھرے۔ گھر گھر چھانا پھٹکا، برہنہ کیا اونچی ذات کی عورتوں کو، بے رحمی سے پیٹا۔ ’’بول تیرا بھتار کہاں ہے؟‘‘ کئی کئی گاؤں کی مسہر ٹولیاں حاملہ ہوگئیں۔ ایک آندھی آئی اور گئی۔ نتیجہ؟ بے قصور پکڑے گئے قصوروار چہرہ بدل کر گھومتے رہے۔ کچھ کو آرہ شہر نگل گیا، کچھ سون ندی کی تلہٹی میں سما گئے۔ بھابھی کو میکے پہنچا کر بڑے بھیا نے تو پہلے ہی گھر چھوڑدیا تھا۔ کندھے پر لوہا اٹھائے کبھی اس گاؤں، کبھی اس گاؤں۔ پورے گرام پنچایت کا بھار تھا ان پر۔ جس گھر میں رات ہوتی، گھر والا باہر سوتا اور وہ اندر۔۔۔ ’’بھیا۔۔۔ بھیا۔ آپ کی بھی ایک بہن ہے بھیا۔‘‘ نہیں جانتی، یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ سنتی تھی، طبقاتی سنگھرش ہے۔ وچار دھارا کی لڑائی ہے۔ تبدیلی نظام کی تحریک ہے۔ سیاست کاکھیل ہے۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے اور برتری حاصل کرنے کی جنگ ہے۔ باپ رے باپ۔ اسے کیا معلوم، اتنی بڑی بڑی باتیں۔ اگر ان بڑی باتوں کا مطلب یہ لاشیں ہیں تو اسے نہیں جاننا ان باتوں کو۔ وہ تو بس اتنا جانتی ہے، خواندگی مہم میں گھر گھر حرف کی جیوتی جلانے والی مدھو، جس کااس کے پتا کے ساتھ قتل کردیاگیا تھا اور جسے ذات کی بنیاد پر ’’دستہ حمایتی‘‘قرار دے کر پولیس نے اپنے فریضے سے منھ موڑ لیا تھا، اس مدھو کا کسی دستہ یا سینا سے کوئی تعلق نہ تھا۔ ڈومن بہو، جس کی قتل عام کے دوران فرج میں گولی ماردی گئی تھی، وچار دھارا لفظ کے معنی نہیں جانتی ہوگی، بھیکھنا کے دو ماہ کا شیر خوار بچہ جس نے ماں کی چھاتی سے ابھی منہ بھی نہیں ہٹایا تھا اور جسے بھالے کی نوک پر ٹانگ دیا گیا تھا، طبقاتی جدوجہد یا کسی تبدیلی نظام کے آندولن میں شامل نہیں رہا ہوگا۔ پھر کیوں، کیوں۔۔۔؟ جیسے ہوا میں تیزاب گھل گیا تھا۔ سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی۔ بڑے بابو، کہاں چلے گئے آپ؟ بڑے بابو یاد آرہے ہیں۔ ’’کسی ایک انسان کا قتل، اس میں چھپے بے شمار مکانات کا قتل۔‘‘ لیکن یہاں تو چھوٹا بھائی اکیس کے بدلے اکیاون طے کرنے میں مصروف تھا۔ گاؤں گاؤں دستہ کی نشستیں ہو رہی تھیں، اور آج کی رات۔۔۔ جانے کہاں سے آئے تھے یہ لوگ۔ یہاں کے نہیں تھے۔ پورے گاؤں کی گھیرابندی کی گئی تھی۔ پوری رات کاٹی گئی تھی بڑے بھیا کی فصل، پوری رات جگنوؤں کی طرح بھک بھک بتیاں جلی تھیں اور پوری رات رو کے رہی تھی وہ اپنی سانس۔ دھوپ تیز ہوگئی ہے۔ لہرانے لگا تھا مجری کا جسم۔ کھیتوں سے نظریں ہٹاکر دور سڑک کی جانب دیکھنے لگی۔ آٹھ بجے بس آکر رکی ہے۔ گاؤں کا کوئی اترا ہے۔ اٹیچی نیچے رکھ کر بالو ں میں کنگھی کرتا ہے۔ بیل باٹم اور چھاپے کا کرتا۔ آنکھوں پر کالا چشمہ۔ اٹیچی سر پر اٹھاکر گاؤں کی طرف چلنے لگتا ہے۔ قریب آتا ہے تودیکھتی ہے مجری اور پہچان جاتی ہے۔ پرتھا؟ ارے یہ تو ایک دم شہری بابو بن گیا۔ ’’جانتے ہو پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی ہیں؟‘‘ مچل اٹھی من ہی من۔ ’’میں چلی۔‘‘اس کے اندر سے وہ نکلی اور سیڑھیاں پھلانگتی چوکھٹ سے باہر۔ وہ بناس میں اور بناس اس میں۔ پرتھا گاؤں کی طرف آنے کے بجائے بناسی ٹولہ کی طرف مڑگیا۔ ’’ارے ارے ادھر کیوں نہیں آرہا؟‘‘ شانت پڑگئی مجری۔ ہاں ادھر کیوں آئے گا؟ اِدھر سے اُدھر یا اُدھر سے اِدھر کہاں کوئی آتا جاتا ہے۔ گاؤں کی گلیاں سنسان رہتی ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں تالے لٹک رہے ہیں۔ اب کوئی پیپل میں سوت لپیٹنے بھی نہیں جاتا۔ بچپن میں پوچھتی رہ گئی اماں سے، ’’اماں بتاؤنا، کیوں لپیٹتی ہیں پیپل میں سوت؟‘‘ اماں نے بتایا ہی نہیں۔ ہمیشہ ایک ہی جواب، ’’تو کیا کرے گی جان کر۔‘‘ آج تک یہ سوال بنا جواب کے ہی رہ گیا جیسے اپنے آپ میں بنا جواب کے رہ گیا تھا یہ سوال کہ لڑکی ہونا کیا ہوتا ہے؟ ’’اماں میں بناس پر جاؤں؟‘‘ ’’نہیں تو لڑکی ذات ہے۔ جیسے۔۔۔ جیسے دھرتی۔۔۔ دھرتی صرف سنتی ہے۔ دھرتی صرف دیکھتی ہے۔ دھرتی چپ رہتی ہے۔ ہمیشہ سے ایسا ہے۔ دھرتی صرف سہتی ہے۔‘‘ بناجواب کے ہی تو تھا اماں کا یہ جواب۔ گویا نیند میں چلنے لگی وہ۔ سیڑھیوں سے نیچے آئی۔ جیسے اماں کہہ رہی تھیں، دھرتی کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں۔ اس نے پاؤں چوکھٹ سے باہر نکلا۔ پیچ کی دیوار کا حصہ طے کرکے دوسری طرف چھوٹکا بھائی کے گھر پہنچی۔ اماں نے دیکھا تو پیلی پڑگئیں۔ لرزنے لگی سوکھے پتے کی طرح چھوٹکی بھابھی۔ جلدی سے کواڑ اڑھکایا۔ ’’اماں، پیپل میں سوت کیوں لپیٹتی تھیں؟‘‘اماں نے منہ میں آنچل ٹھونس لیا۔ ’’بھابی، اب پیپل میں سوت لپیٹنے کیوں نہیں جاتیں؟ کیا آپ کو اپنے پتی کی لمبی عمر نہیں چاہیے؟‘‘ اس نے کواڑ کے دونوں پٹ کھول دیے۔ گھر گھومن چاچی، کملا کی عمر بیت رہی ہے۔ اس کا بیاہ کب ہوگا؟ تمہارے بچے اسکول نہیں جاپارہے ہیں مونا کو بھوجی۔ ان کا مستقبل کیسے بنے گا؟ تمہارے کھیت بوئے نہیں جارہے ہے۔ اناج کا ایک دانا نہیں۔ دھرم کرم کیسے چلے گا بھاگ منی کاکی؟ اس گھر سے اس گھر۔ تھک کر چور ہوگئی تھی مجری۔ پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلچھلا آئی تھیں اور آنکھیں موندی جارہی تھیں۔ غروب ہو رہے سورج کی رفتہ رفتہ زائل ہوتی سرخی شام کی آنکھوں میں کاجل لگا رہی تھی۔ مجری کو فکر ہوئی۔ ابھی اسے بناسی ٹولہ جانا تھا۔ اوپر سے ٹٹہری کی ٹیہہ ٹیہہ۔ نہ جانے کیوں، کب سے بولے جارہی ہے؟ اماں ہوتیں تو خوب خوب گالیاں دیتیں، ‘‘ رانڈی، ناجانے اب کس کو نگلے گی؟‘‘ اس نے زور لگاکر بند ہوتی آنکھوں کو کھولا۔ اس نے محسوس کیا، اسے کافی طاقت لگانی پڑی ہے۔ اب انہیں کھول رکھنے کے لیے اسے پہلے سے زیادہ محنت کرنا پڑ رہی تھی۔ اس نے ایک نظر سنسان گلیوں اور بند ہوچکے دروازوں کو دیکھا۔ آدم زاد کا سایہ تک نہیں۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ انہیں گلیوں میں کھڑی ہے جہاں اس کا پورا بچپن گزرا ہے اور جہاں بسنت نے پہلی بار دوشیزگی کی کنڈی کھٹکھٹائی تھی۔ توے کی کالک کی مانند اندھیرا گھپ ہوتا جارہا تھا اور ہوا سائیں سائیں کرنے لگی تھی۔ اس کی رفتار میں قدرے تیزی آگئی۔ دکھن ٹولہ کی خلیج میں آئی تو اندر تک سہر گئی۔ لگا ریڑھ کی ہڈیوں کے راستے اچانک کچھ اوپر تک چڑھ گیا ہو جیسے ڈر۔ کشمکش کی حالت میں کھڑی رہی کچھ دیر۔ بناسی ٹولہ دکھائی دے رہا تھا۔ اوبڑ کھابڑ ٹیلوں کی مانند۔ اندھیرے میں اور اندھیرا۔ عجیب سا۔ اندر سے کسی نے روکا، ’’مت جا اُدھر۔‘‘ ضد سے بھر گئی۔۔۔ ’’جاؤں گی۔‘‘اور بناس کی طرف بڑھنے لگی۔ یہ دیکھ کر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی، ذرا دیر قبل پہاڑ سے بھاری ہو رہے اس کے پاؤں میں غیرمعمولی تیزی آگئی تھی۔ چانچر تک پہنچی تو خود بہ خود اس کے پاؤں رک گئے۔ بناس کل کل بہہ رہی تھی۔ اندر کی گانٹھ پھر سے کھل گئی۔ ہری ہوگئی ایک دم سے وہ۔ خواہش ہوئی، سماجائے پانی میں۔ بھگودے پرتھا کو۔ کلوٹّا۔۔۔ کئی کئی دنوں پر نہاتا۔ پھر کچھ سوچ گہری سانس خارج کر، سامنے دیکھنے لگی۔ ہیہر کاجنگل۔ جنگل میں۔۔۔ سانس رک سی گئی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ کوئی نہیں، کئی لوگ۔ کاٹھ بنی کھڑی رہی۔ ٹکٹکی لگائے ٹوہتی رہی۔ کچھ دیر گزر گئی تو من نے کہا، وہم ہے۔ من کو ٹٹولنے لگی۔ سچ مچ لگا، وہاں کوئی نہیں، مٹی کا تودہ ہے یا پھر اندھیرے کا گولا۔ من کو ذرا اطمینان ہوا۔ ہمت یکجا کرکے آگے بڑھی۔ چند قدم۔ پھر رک گئی۔ اس بار وہم نہیں ہوسکتا۔ اس نے من کو لعنت ملامت کیا۔ پیچھے سے بالکل صاف آواز آئی ہے۔ کچھ لوگوں کی پھسپھساہٹ۔ جسم بے حرکت۔ گردن گھما کراس نے پیچھے دیکھا۔ اوبڑ کھابڑ رار کے علاوہ یہاں سے وہاں تک سناٹا دکھائی پڑ رہا تھا۔ بڑے بابو۔۔۔ بڑے بابو۔۔۔ اماں۔۔۔ اس کی خواہش ہوئی، چیخ چیخ کر رونے لگے۔ تکلیف اتنی شدید کہ رونے کے باوجود آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔ سبکنے لگی۔ بڑے بابو کہاں ہیں آپ؟ اسے لگا، کسی نے اس کا ہاتھ پکڑا ہو۔ جیسے کسی نے کہا ہو، ’’آؤچلو، میں ہوں تمہارے ساتھ۔‘‘ اس نے حیرت سے دیکھا۔ اسے محسوس ہوا، اچانک ایک نئی طرح کی قوت اس کے اندر داخل ہوگئی ہو۔ وہ آگے بڑھی۔ اس نے سنبھل کر چانچر پر پاؤں رکھا۔ چرر۔۔۔ ر۔۔۔ کی آواز دور تک گونجی اور ساتھ ہی ایک دھماکہ ہوا۔ پیپل کے درخت پر بیٹھے پرندے پھڑپھڑاکر اڑے اور آسمان میں کھوگئے۔ صبح بناس کے بیچ چانچر کے بانس پر مجری اور پرتھا کا جسم جھول رہاتھا۔ سورج نکل آیا تھا۔ عجیب بات یہ تھی کہ اب تک، سورج چڑھنے تک، اس واقعے کی ذمہ داری نہ ’’سینا‘‘ نے قبول کی تھی اور نہ ہی ’’دستہ‘‘ نے۔ بھیڑ جمع تھی۔ اس پار اور اس پار۔ خاموشی تھی، جھکی ہوئی آنکھیں تھیں اور ایک سوال تھا۔۔۔
چہل سالہ وکیل صاحب کے چست فقرے نرسوں کو بہت بھاتے تھے۔ وارڈ میں دو وکیل صاحبان تھے۔ ایک واڑھی رکھتے اور نقلیں کرتے تھے، دوسرے پیشانی پر چندن کا ٹیکہ لگاتے اور نرسوں سے فحش مذاق کرتے تھے۔ جو نیئر وکیل صاحب کی پیشانی پر عبیر کی سرخ بیندی نرسوں کے لئے سرمایہ تفریح تھی۔ ان دونوں بزرگوں کی ٹکینک ایک سی تھی۔ یہ پہلے بےوقوف بن کر اور جملے سہ کر اپنا حق جما لیتے تھے اور پھر معصومانہ انداز میں مذاق کا جواب دیتے تھے۔ ان دونوں کا نشانہ بےخطا تھا۔ مگر ایک کی فطرت میں ایمائی طنز زیادہ تھا اور دوسرے میں واقعیت نمایاں۔نقی کے بائیں پہلو میں ایک نوجوان مِصر جی تھے۔ گورا رنگ جس پر سرخی کی چھوٹ تھی۔ مصر جی بہت جذباتی اور رقیق القلب تھے۔ جسمانی طور پر جو بھی رہے ہوں مگر ذہنی طور پر بالکل کنوارے تھے ، اچھوت کنیا کی طرح اور مصر جی کو ایک پھیپھڑے میں ’’اے پی‘‘ دی جاتی تھی۔ مصر جی کہنہ مریض تھے۔ ’’اے پی‘‘ کا کورس ختم ہو چکا تھا۔ ان کے مریض پھیپھڑے کو فرینک نرو کی جراحت کے ذریعہ معطل کر دیا گیا تھا۔ میں اور مصر جی میڈیکل کالج کے طالب العلم رہ چکے تھے۔ تختے کی طرح چت لیٹے یسوع مسیح سے لو لگائے رہتے تھے۔ کوئی جنبش نہیں، کسی قسم کے آثار حیات نہیں۔ وہ جب ضرورتاً چلنے پھر نے پر مجبور ہو جاتے تھے تو یوں چلتے تھے کہ’’زیر قدمت ہزار جان است۔‘‘ اصولاً وہ اپنے سل زدہ پھیپھڑوں کو کم سے کم حرکت اور زیادہ سے زیادہ آرام دینا چاہتے تھے۔ ان کے نزدیک گفتگو بھی زیانِ حیات تھی۔ ہر وقت، ہر روز، ہر سال یونہی زندگی گذارتے تھے جیسے سسرال میں نئی دلہن۔ صحت گاہ میں انھیں ڈھائی سال ہو چکے تھے۔
خاموشی، خاموشی ایسی خاموشی جو کسی شور کو دعوت دے رہی تھی۔ ایسی خاموشی جو خاموش رہ کر بھی صدیوں سے لکھے جانے والی داستان رقم کر رہی تھی۔ ایسی خاموشی جو چیخ چیخ کر سوال کر رہی تھی کہ یہ خاموشی کیوں ہے۔ ایسی خاموشی جو منتیں کر رہی تھی کسی مسیحا کو پکار رہی تھی جو آئے اور اس خاموشی کو توڑے۔ اس خاموشی کو ماچس کی تیلی نے توڑا۔ ماچش کی تیلی اپنی ڈبی سے مَس ہوئی۔ ایک شعلہ جلا جس نے ایک چنگاری کو جنم دیا۔ ہلکی سی چنگاری نے جس روشنی کو جنم دیا تو معلوم ہوا ایک گوشت کا لوتھڑا وہ خود میں سمیٹے، بےخبر تھا، ہر چیز سے بےخبر اپنے وجود سے بےخبر اس کے وجود سے بےخبر، یوں معلوم ہو رہا تھا بس دو جسم ہیں۔ جان ہے نہ روح۔۔۔ بس گوشت پوست کا ڈھیلا۔ وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لے رہا تھا۔ اس نے ہاتھوں کو ایک بار پھر سے حرکت اور ہونٹوں کو زحمت دی۔ وہ اس کا آخری کش بھی تھا اور آخری وار بھی۔ وہ یکدم اٹھ کھڑا ہوا۔ وہ گوشت کا ٹکڑا جو اس کے سینے سے چمٹا ہوا تھا نیچے گر گیا۔ گر گیا اور بکھر گیا۔ اس نے سگریٹ نیچے پھینکا اور پیروں سے اسے مسل دیا۔ سب کچھ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ کمرے میں بھی اب ویسی حرارت اور گرمی نہ تھی۔ وہ آگے بڑھا، ایک نظر نیچے بکھرے ہوئے گوشت کے لوتھڑے پر ڈالی۔ وہ شائد اپنی مدت پوری کر چکا تھا۔۔۔ گل سڑ چکا تھا۔ دوسری نظر سگریٹ پر ڈالی وہ بھی بجھا ہوا تھا۔ دونوں کی سلگن ماند پر گئی تھی، دونوں ہی ٹھنڈے ہو چکے تھے۔ غرضیکہ دونوں ہی اختتام کے آخری مراحل کو عبور کر چکے تھے۔ نہ جانے کیوں ’بیڑی‘ اور ’ناری‘ ایک سی خصوصیات کی حامل ہیں۔ جب تک سلگتی رہیں گی، لبوں کے قریب رہیں گے جیسے ہی سلگن ختم ہوئی اپنے اختتام کو پہنچ جائیں گی۔ وہ بھی ٹھنڈی پڑ چکی تھی، سلگن بھی ماند پڑ چکی تھی۔ وہ اب اس کے کسی کام کی نہ تھی۔ اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی کھول دی۔ چاند اس کو دیکھتے ہی جھٹ سے بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا۔ بادل سہم کر کبھی چاند کی اوٹ میں چھپتے تو کبھی چاند بادلوں کی اوٹ میں چھپنے کی کوشش کر تا رہا۔ تارے بجھے چہرے کے ساتھ اپنی چمک ماند کر گئے۔ فلک نے غصے کی چادر اوڑھ لی اور ہر طرف سرخی پھیلا دی۔ اس نے اپنا شاہی لباس اٹھایا، کاندھے پرڈالا اور سینہ تانے واپس ہو لیا۔ وہ ٹوٹے اور جھلسے ہوئے وجود کے ساتھ اٹھی طاق میں پڑے دیئے کو جلایا، دیوی ماں کے مند رکی چوکھٹ پر بکھری زلفوں اور اجڑے حلیے کے ساتھ، دیئے کے گرد ہتھیلیاں جمائے پھر سے کھڑی ہو گئی۔
جس انسان کو اپنا دل نہ چاہے اس کا تو پیار بھی پنجالی کی طرح گلے کا بوجھ بن جاتا ہے۔ لاکھ جی کو منائو وہ محبت کا جواب محبت سے دے ہی نہیں سکتا۔ نصرت بھی اپنے چاہنے والوں کے سینے کا بوجھ، گلے کا پھندا اور ضمیر کی کڑکی رہی۔ اس کے چاہنے والے سیاحوں کی طرح آتے اور پھر وقت بیتنے پر اپنے اپنے دیس لوٹ جاتے۔ پرانی پیالیوں جیسی سوغاتیں ٹوٹی پھوٹی یادیں بھی عموماً ان کے پاس نہ ہوتیں۔ نصرت نے کل آٹھ عشق کیے۔ لیکن زیادہ تو ان میں ایسے تھے جو اوور کوٹ کے اندر لگے ہوئے قیمتی استر کی طرح چھپے چھپائے، ڈھکے ڈھکائے ہی رہ گئے۔ نہ گھر میں دھماکا ہوا نہ دل میں۔ وجہ غالباً اتنی تھی کہ گھر کے جن ا سٹپنی نما لڑکوں پر نصرت نے توجہ کی ٹارچ ڈالی وہ یکسر نصرت کی محبت سے خالی تھے۔ ہر شعلہ زبردستی اسی نے انگیخت کیا لیکن چونکہ سلگنا سلگانا ان عاشق صفتوں کا اپنا اندرونی فعل نہ تھا، اس لئے وہ ہمیشہ جاندار رہے اور کوئی حرف محبت ان کی ذات سے جنم نہ لے سکا۔ نصرت دراصل آکسیجن گیس تھی۔ جتنی دیر وہ بھڑکاتی رہتی آگ لپکتی رہتی، جونہی وہ آزمانے یا ستانے کو خود علیحدہ ہو جاتی، عشق کا شعلہ چھوٹی چھوٹی تحقیقاتی کمیٹیوں کی طرح اپنی موت آپ مر جاتا۔ اتنے سارے عشق کرنے کے بعد جب وہ مکمل طور پر پچھاڑے ہوئے پہلوان کی طرح منہ سے بدنامی کی دھول پونچھتی ہوئی اٹھی تو اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے جی کا جنجال تھی اور جس کو انسان کا اپنا دل نہ چاہے وہ چاہے ہیرے موتیوں سے بنا ہو، اس کا پیار بھی پنجالی کی طرح گلے کا بوجھ بن جاتا ہے۔ گھر کے چچیرے، ممیرے، خالہ زاد، پھوپھی زاد سب بھائی قسم کے رشتے اس کے لیے بیکار تھے۔ عشق کی منزلوں سے وہ یوں فارغ ہوئی جیسے معمر عورت حیض کی لعنت سے فراغ پا جائے۔ نیم چھتی میں جہاں اَن گنت پرانے کھوکھے، ٹوٹے ہوئے بیڈ لمپ، ان کھولے مٹّی سے اَٹے صندوق، پیتل کے سبک رو بگلے، تیلیوں سے بنی ہوئی تصویریں، میڈیکل اور لاکی پرانی کتابیں، تین ٹانگوں والی کرسیاں، بغیر تانت والے ریکٹ، ادھڑی ہوئی نواڑ، ٹیڑھے کیرم بورڈ، سائیکلوں کی پرانی چینیں اور کاروں کے پنکچر ٹائر ٹھسم ٹھسا بھرے ہوئے تھے۔ وہیں ایک پرانا تخت پوش نانی اماں کے عہد کی نشانی بھی پڑا تھا۔ یہ شکستہ پھٹوں والا تخت پوش نصرت کی راجدھانی تھی۔ اس پرنیم دراز ہو کر وہ بڑی آزادی سے ہر قسم کی بات سوچ سکتی تھی۔ مذہب، جنس، خاندانی تعلقات، دوستی رشتہ داری، عید، شب رات کے معاملات، مغربی ممالک سے لوٹنے والے رشتہ دار، جنگ امن، ہندوستان، اسرائیل غرضیکہ سوچ کوکرئی سمت ایسی نہ تھی جو اس کے جہاں نما میں نہ سمائی ہو۔ یہاں لیٹ بیٹھ کر اس نے اپنے گھر والوں کے برہنہ، نیم برہنہ ایکس رے تیار کر رکھے تھے۔ یہاں اس کے پاس اپنے رشتہ داروں کے ایسے زائچے تھے جو پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سے مشابہہ نظر آتے تھے۔ اسی پر کیا موقوف تھا، سوچ نے تو خود اس کی اپنی ذات کو نہیں چھوڑا تھا۔ جب وہ اپنے آپ پر ترس کھاتے کھاتے ادھ موئی ہو جاتی تو پھر اس کے اندر والا اپنے ہی خلاف تلوار لے کر اٹھ کھڑا تا۔ وہ اپنے ہی وجود کے پیچھے یوں بھاگتی پھرتی جس طرح کمر ے میں اچانک گُھس آنے والے تتیاں کو مارنے کے لیے بچے سیلپر، ریکٹ مکّھی مار ہاتھوں میں لیے دوڑتے پھرتے ہیں۔ اس کا اندر والا بھی تتیا کی طرح کبھی کسی شیشے سے ٹکراتا، کبھی کسی دیوار سے کبھی جالیوں میں پھنستا، کبھی بجلی کے پنکھے میں۔ نہ آزاد ہو سکتا نہ نصرت سے بچ ہی سکتا۔ ایسے ہی لمحوں میں جب تتیے سے جنگ ہو رہی تھی، نصرت پر اچانک ایک دن یہ عقدہ کھلا کہ اس کی ساری عمر اس اشتہار کی طرح بسر ہوگی جو کسی عمدہ کتاب کے آخری صفحے پر ہوتا ہے۔ کتاب کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے لیکن کتاب کے اصلی متن سے جس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ بھی اس گھر میں، کسی اور گھر میں، ان لوگوں میں کسی اور قسم کے لوگوں میں، اس شہر میں کسی اور شہر میں ہوگی، لیکن اس کا تعلق کسی گھر، کسی انسان، کسی شہر، کسی ملک، کسی مذہب کسی نظریے کے ساتھ اصلی متن کا سانہ ہوگا۔ اس کے سارے عشق ایسی آئس کریم کی مانند تھے جو پوری طرح جم نہ سکے اور تھالیوں پلیٹوں میں اتارتے اتارتے ایک بار پھر کسٹرڈ کی شکل اختیار کرلے۔ ان ساری محبتوں سے صرف اتنا پتہ چلا تھا کہ مرد سے محبت کرنے کا صرف ایک ہی گر ہے یہ ویسا ہی گر ہے، جو خالہ بلی نے شیر کو نہ سکھایا تھا۔ یعنی کہ جب مرد موڈ میں ہو اختلاط چاہے تنہائی کا آرزو مند ہو، اس وقت وہ مکمل سپردگی کے ساتھ گھڑا بھر شہد اس کے سر پر انڈیل دے۔ اس کے بعد گونگی، بہری، انجان لا تعلق بنی رہے۔ کسی بند چھتری کی طرح کسی الماری کے کونے میں چپ چاپ کھڑی رہے اور برسات آنے کی راہ دیکھے۔ اگر کبھی اس گُر کو عورت بھلانے بیٹھ گئی تو اُس کا بھی وہی حشر ہوگا جونصرت کا ہوا۔ یا پھر جو مجید اور نصرت کے عشق کا ہوا۔ ویسے سارے عشق کچھ تھوڑے بہت ہیر پھیر کے آخر اسی انجام کو پہنچے۔ وجہ معمولی تھی۔ عام طور پر وجہ بہت ہی معمولی ہوا کرتی ہے۔ جس روز مجید کو انٹرویو کی کال آئی، نصرت ایک شادی سے لوٹی تھی۔ شادی والے گھر میں عموماً لڑکیوں پر ایک کیمیاوی اثر ہو جاتا ہے۔ وہ حقیقت سے ایک خواب بن جاتی ہیں۔ شادی والے گھر میں جو ایک ہلڑ بازی، بے فکرا پن ہوتا ہے، ڈھولک پرشالا، بنے، ماہیاکے نام دوہراتے رہنے سے جو ایک گرمی اور جوش لہو میں پیدا ہو جاتا ہے، وہ نصرت کے انگ انگ پر چھایا تھا۔ وہ ذہنی طور پر آج خود دلہن بنی ہوئی تھی۔ اس پر ظلم یہ ہوا کہ آج اس کی سہیلیوں نے اس کے ہیر اسٹایل اور ساڑی کی بھی بہت تعریف کر دی تھی۔ شادی والے گھر سے جلد لوٹ آنے کی وجہ بھی یہی تعریف تھی۔ نہ اس کی سہیلیاں اسے یوں ساتویں آسمان پر چڑھاتیں، نہ اس کا جی چاہتا کہ اس کا یہ سارا جمال مجید بھی دیکھ لے۔ مجید کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے جچ جانے کے لئے اس نے سارے گھر والوں کو شادی والے گھر میں چھوڑا اور خود لوٹ آئی۔ اس روز مجید گھر میں اکیلا تھا۔ اس کی جیب میں انٹرویو کی کال تھی اور وہ بلیڈ کے ساتھ پائوں کے پرانے گھٹے صاف کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ انٹرویو کے وقت اسے کیا پہن کر جانا چاہیے۔ اگر باقی لڑکے ولایتی کپڑے کے سوٹ پہن کر گئے تو وہ اُن کے مقابلے میں ویسا سوٹ کیسے فراہم کرے گا اگر سادہ شلوار قمیض پہن کر جائے اور چیئرمین عوامی خیالات کا نہ نکلے تو پھر کیسی مشکلات کا سامنا ہوگا۔ بالفرض انٹرویو لینے والے لباس کے معاملے میں فراخ دل ثابت ہوئے تو پھر بھی وہاں نشست و برخاست، آداب اور سلیقے کے وقت کیا کیا احتیاط لینی ہوگی؟ سوالات کی نوعیت کیا ہوگی اور ان سوالات کا جامع گائیڈ کہاں سے مل سکتا ہے؟ میرے ساتھ آنے والے جملہ امیدواروں کا آئی کیو کیا ہوگا؟اور ان کی فیملی بیک گرائونڈ کس حد تک تصدیق شدہ مانی جائے گی؟ چلیے اگر ان مرحلوں سے بھی نکل گیا تو آگے سفارش کی یہ لمبی، گہری اور ان جانی کھائی ہے۔ آخرسی ایس ایس کا امتحان ہے۔ شہر کے بڑے بڑے اکابرین لمبی لمبی گاڑیوں میں اپنے اپنے سپوتوں کے لیے بھاگیں گے۔ یہ اللہ کی مہربانی تھی کہ ماموں نے اپنے گھر ٹھہرا کر امتحان دلوایا۔ اب وہ سفارش تھوڑا ڈھونڈتے پھریں گے۔ وہ تو کہیں گے بھیا MERIT پر نکلنا چاہیے آگے۔ مجھے کون پوچھے گا چھڑے نمبرو پر؟ مجھے کون بلائے گا صرف نمبروں کے حوالے سے۔ صرف نمبر لے کر میں چاٹوں؟ دراصل اس وقت نصرت اور مجید کی ذہنی فضا میں ہم کلامی نہ تھی۔ نصرت سمپورن راگ کی طرح سات سروں میں کھیل رہی تھی اور مجید کا وہی جی فلیٹ بج رہا تھا۔ انٹرویو۔ انٹرویو۔ انٹرویو! نصرت نے آنگن کا دروازہ کھولا اور ایک فلمی ایکٹرس کی طرح اتراتی ہوئی آگے آئی۔ مجید نے مڑکر پیچھے نہ دیکھا اور گھٹے کو بلیڈ سے کھد یڑتا رہا۔ نصرت نے اپنے لمبے اور ٹھنڈے ہاتھوں سے پچھلی طرف آکر مجید کی آنکھیں بند کر لیں۔ اس بے احتیاطی میں تھوڑا سا بلیڈ مجید کو لگ گیا اور ایک سرخ بوند لہو کی چیچی انگلی پر ابھرآئی۔ ’’کون ہے؟‘‘ مجید نے جھڑک کر کہا۔ نصرت چپ رہی۔ اس کا خیال تھا کہ مجید اچھی طرح سے اس کے ہاتھ پہچانتا ہے۔ ’’کون ہے بھئی ایسا بدتمیز؟‘‘ بدقسمتی سے اسے بھی نصرت ادائے دلربا نہ سمجھتی رہتی۔ اب مجید نے بلیڈ پرے پھینکا اور پھر کر ختگی سے اُس کے ہاتھ پرے کرتے ہوئے کہا، ’’توبہ! یہ کیا بچکانہ حرکت ہے؟ پہلے ہی میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔‘‘ نصرت نے آنکھیں جھکا لیں۔ اسے عجیب قسم کی مذامت محسوس ہوئی۔ کچھ دیر مجید غور سے اپنے بائیں پائوں کی آخری انگلی پر آئی ہوئی لہو کی بوند دیکھتا رہا۔ پھر اس نے جیب سے رومال نکال کر پائوں صاف کیا اور اس کے بعد اٹھ کر غسل خانے میں چلا گیا۔ غسل خانے کا دروازہ کھلا تھا لیکن نصرت اندر جاتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کر رہی تھی۔ کافی دیرفلکہ چلتا رہا۔ پھر مجید کھانستا رہا۔ دوائیوں کی الماری میں سے کچھ نکالنے دھرنے کی آوازیں آتی رہیں۔ کافی دیر کے بعد مجید باہر نکلا تو اس کی چھنگلیا پر چھوٹی سی پگڑی بندھی تھی اور مجید سے ہلکی ہلکی ڈیٹول کی بو آرہی تھی۔ ’’زیادہ چوٹ تو نہیں آگئی؟‘‘ نصرت نے چوربن کر پوچھا۔ ’’نہیں۔ ٹھیک ہے۔‘‘ مجید نے احسان کا ٹوکرا اس کے سر پر لاد دیا۔ اس کی آواز میں کوئی ایسی چھپی ہوئی شکایت تھی گویا بہت زیادہ چوٹ لگ گئی ہو۔ پہلی ہی چال غلط پڑی۔ نصرت پر ایک قسم کی انفعالی کیفیت طاری ہوگئی۔ بھلا یہ کہاں کی شرافت تھی کہ دیکھے بغیر اس نے مجید کی آنکھیں بند کر لیں اور جو کہیں بلیڈ انگلی کے پار ہو جاتا تو؟ گھٹتی لڑائی میں اس نے ایک اور فن حرب میں غلطی کی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اتنی خوبصورت لگ رہی ہے کہ مجید اس کے حسن کے سامنے ماضی، مستقبل، حال سب کے ہتھیار ڈال دے گاسہی احساس کے تحت نصرت نے اپنے پلّو کو مجید کے منہ پر لہرادیا۔ مجید اس وقت حاضر نہیں تھا۔ وہ چیئرمین کے سامنے بیٹھا، اس وقت اس سوال کا جواب سوچ رہا تھا کہ ویٹنام میں امریکی فوجوں کی کلی جمعیت کتنی تھی؟ اس نے ہاتھ سے پلّو پرے کرکے اوں ہوں کہا تو نصرت سوچ میں پڑگئی۔ نصرت ابھی تک بیاہ والے گھر میں پھر رہی تھی۔ ’’ساری لڑکیاں کہہ رہی تھیں کہ یہ ہیراسٹائیل مجھے بہت سجا ہے۔ میرا چہرہ گول لگتا ہے اس جوڑے میں۔ ہیں؟‘‘ مجید کی طبیعت حاضر نہیں تھی۔ گیس کی بیماری میں مبتلا مریض کی طرح اُس کا چہرہ خالی خالی تھا۔ ’’ہوں! ہاں۔ وہ تو ہے۔‘‘ نصرت پر تھوڑی سی اوس پڑگئی۔ پر اس نے ڈھٹائی سے پوچھا، ’’کیسی لگ رہی ہوں میں؟ سب مجھے بہت ADMIREکر رہے تھے۔‘‘ مجید نے اپنی طرف سے بات میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی اور بولا، ’’ہمارے ہاں سکینہ میراثن کی بیٹی کبھی کبھی شادی بیاہ کے موقعہ پر ساڑی پہن کر آیا کرتی ہے۔‘‘ باقی بات نصرت نے نہ سنی۔ کتنی دیر وہ چپ چاپ جستی ٹرنک پر بیٹھی سوچتی رہی کہ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟ واپس ان لڑکیوں کی طرف لوٹ جانا چاہیے جو مجھے زیبا ایکٹرس سے ملا رہی تھیں یا یہیں رہنا چاہیے سکینہ میراثن کی بیٹی بن کر۔ کچھ عرصہ بعد مجید نے صلح کی جھنڈی لہرائی۔ ’’کیا کچھ ہوا وہاں شادی پر؟‘‘ ’’دلہن بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ڈیڑھ سوکا تو جوڑا بنوایا اس نے۔ فلم اسٹار چاندنی دلہن بنانے آئی تھی اسے۔۔۔‘‘ ایک بار پھر نصرت شادی والے گھر میں پہنچ گئی۔ پتہ نہیں شادی والے گھر کی یہ تعریف سنکر مجید کو کیوں لگا گویا وہ انٹرویو میں فیل ہو جائے گا۔ ’’تم لڑکیوں کو دولہن بننے کا اتنا خبط کیوں ہوتا ہے؟‘‘ ’’بس ہوتا ہے۔ ہر مذہب، ہر ملک، ہر نسل کی لڑکی کو ہوتا ہے۔‘‘ اترا کر نصرت نے کہا۔ ’’غالباً اور کوئی شوق نہیں ہوتا تمھیں۔ دراصل عورت ہوتی ہی ناقص العقل ہے۔ دلہن بننے سے زیادہ وہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتی۔‘‘ مجید نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ نصرت کو یک دم اپنا سر چھوٹا ہوتا محسوس ہوا۔ ’’عورت کی کھوپڑی دراصل حجلہ عروسی ہے۔ اس میں ہمیشہ ڈھولک بجتی ہے۔ سہرے بکھرے ہوتے ہیں۔ پھر کمبخت چاہتی ہے کہ اسے مردوں کے برابر حقوق دیے جائیں۔ عورت پروفیسر ہو، چاہے وکیل، چاہے ملک کی ادیبہ ہو یا لیڈر اُس کے دماغ میں ہمیشہ عشق و عاشقی ہی ٹھنی رہتی ہے۔‘‘ نصرت نے چاہا کہ پوچھے کہ آخر اس میں برائی کیا ہے؟ لیکن مجید کا چہرہ ماسٹر جی کے بید کی طرح تنا ہوا تھا۔ پھر وہ شادی کے گھر سے آئی تھی۔ بحث مباحثہ کے لیے اس وقت اس کی طبیعت حاضر نہ تھی۔ مجید کو اس وقت یہ دبلی پتلی لڑکی بے حد مضحکہ خیز لگ رہی تھی۔ اور وہ کسی قسم کی دان دکشنا کے موڈ میں بھی نہ تھا۔ چپ چاپ اٹھ کر وہ باورچی خانے میں چلا گیا اور پانی کی کیتلی بھر کر گیس کے چولہے کو جلا کر اس پر دھردی۔ کچھ دیر نصرت وہیں چپ چاپ کھڑی رہی۔ سوچتی رہی کہ چلو پھر کیا ہوا۔ خوب صورت تو وہ کبھی تھی نہیں نہ کبھی آئینے نے اس بات کی گواہی دی تھی، نہ ہی اس کے جان پہچان والوں نے۔ اگر مجید نے دو تعریفی جملے نہیں کہے تھے تو کون سی بری بات تھی، رہ رہ کر اسے اپنی ایک سہیلی کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ نادرہ کی ناک چپٹی، آنکھیں چندھی اور آدھی انچ کے ماتھے پر حبشیوں جیسے گھنگھریالے بال تھے۔ رنگ صرف سیاہ ہوتا تو بھی بات تھی، پر اس کے سیاہ چکنے چہرے پر ننھے ننھے ان گنت داغ دھبے اور گڑھے بھی تھے اور اس کا چاہنے والا جیسے محبت نامے اسے لکھتا تھا۔ وہ پڑھ پڑھ کر نصرت دنگ رہ جاتی تھی۔ موتیوں جیسی ہموار لکھائی میں ہر خط نادرہ کے حسن کا قصیدہ ہوتا۔ ایک دن اس نے نادرہ سے پوچھا تھا کہ جادو کا طریقہ کیا ہے تو وہ بولی تھی، ’’جادو وادو کچھ نہیں بھئی! عظیم کہتا ہے کوئی عورت نہ خوب صورت ہوتی ہے، نہ بدصورت۔ بس چاہنے والے کی نظر میں سب کچھ ہے۔‘‘ نصرت کا جی بھی چاہتا تھا کہ چاہنے والوں کی نظر میں کچھ ہوتا۔ لیکن آج تک تو ایسا معجزہ ہو نہ سکا تھا۔ کافی دیر وہ چپ چاپ کھڑی رہی۔ پھر ڈھیٹ بن کر باورچی جانے میں چلی گئی۔ اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ میز پر چائے کے برتن لگائے کہ پیچھے سے دونوں بازو ڈال کر مجید کو گھیر کر، نا کردہ گناہوں کی معافی مانگ لے۔ اس وقت نصرت سے ایک بڑی پھسلنی غلطی ہوگئی۔ اس نے مجید کے کندھے پر اپنا سر رکھ دیا اور آہستہ سے بولی، ’’میں جانتی ہوں مجید! مرد ہمیشہ خوب صورت عورتوں سے اظہار محبت کرتے ہیں۔ لاڈ پیار، تعریف سب خوب صورت عورتوں کے لیے ہوتا ہے مجھ جیسی لڑکیوں کو ہمیشہ خود اظہار محبت کرنا پڑتا ہے۔ ہمیں خود مرد کے پیروں میں بچھ بچھ جانا پڑتا ہے۔‘‘ مجید چولہے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے ایسی خاموشی اختیار کر رکھی تھی گویا نصرت کی ہر بات ٹھیک ہے۔ کچھ لمحوں کے بعد اس نے کہا،‘‘ یہ چولہا بلیوفلیم کیوں نہیں دے رہا؟ نصرت نے حیرانی سے چولہے کی طرف دیکھا، پھر آخری بار غلط چال چلی، ’’میں جانتی ہوں تم مجھ سے کبھی کھل کر اظہار محبت نہیں کروگے۔ تم مجھے اتنا چوگا کھلاتے رہو گے کہ میں زندہ رہوں لیکن پھولنے پھلنے کے لئے یہ پھوارکافی نہیں۔ اسے مسلسل بارش چاہیے۔ ریگستان کی بارش نہیں چائے کے باغوں جیسی بارش۔ دھان کے کھیتوں جیسی بارش! مجید مجھے تم سے عشق ہے۔ خدا کی قسم امّاں چاہے مجھے قتل کر دیں، میری بوٹی بوٹی تمہاری ہے۔‘‘ یہ سب شادی والے گھر کا کیا دھرا تھا۔ ورنہ آج تک نہ نصرت نے محبت کی بھیک مانگی تھی نہ انپے عاشقوں کو دل کا سراغ دیا تھا۔ مجید کو یوں لگا جیسے نصرت کو انٹرویو کے بلاوے کا پتہ چل گیا ہے اور وہ اپنے مستقبل کے تحفظ کی پہلی قسط ادا کر رہی ہے۔ وہ عورتوں کی چھٹی حس پر لعنت بھیجتا ہوا اٹھا اور صافی تلاش کرنے لگا۔ ’’تمہارا بہت بہت شکریہ۔‘‘ بڑی دیر بعد مجید بولا۔ نصرت کو چپ سی لگ گئی۔ وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ چاہے دو دن کی محبت ہو لیکن فریقین ایک دوسرے کو ٹوٹ کر تو چاہیں۔ زندگی میں کبھی تو پیالہ منہ تک بھر جائے۔ ورنہ پھیکی شکنجبین پیتے پیتے تو اسے پورے آٹھ برس گزر چکے تھے۔ اس نے آہستہ آہستہ میز پر برتن لگائے۔ اس سے پہلے جب کبھی مجید چولہے پر کیتلی رکھتا، وہ دو پیالیاں میز پر سجایا کرتی تھی۔ آج اس نے ایک پیالی پرچ رکھی اور چمچ لگانا بھول گئی کیونکہ وہ اور بہت کچھ سوچ رہی تھی۔ ’’نصرت تم چائے نہیں پیوگی؟‘‘ پوری پیالی چائے کی ختم کرنے کے بعد مجید نے سوال کیا۔ ’’نہیں میں شادی والے گھر سے پی آئی ہوں۔‘‘ نصرت نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو روکے۔ ’’اچھا۔‘‘ خاموشی گہری گھاٹی کی طرح دونوں کے درمیان آبیٹھی۔ بڑی دیر تک مجید سگریٹ پیتا رہا۔ وہ چپ چاپ اسے دیکھتی رہی۔ دراصل زیادہ دیر تک ٹھنے رہنا نصرت کے بس کی بات نہ تھی۔ آہستہ آہستہ اسے مجید پر ترس آنے لگا۔ ہائے بِن ماں کا بچہ کتنی مصیبتوں سے پلا ہے، کبھی ہمارے گھر کبھی تمہارے گھر۔ جانے کتنی کتنی محرومیاں ہوں گی اس کے دل میں، اللہ جانے کیسی کیسی تلخ یادیں ہوں گی اس کے ماضی میں۔ نصرت کو جون آف آرک بننے کا بہت شوق تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ وہ سیاہی چوس ہے جو دوسرے لوگوں کے سارے غم اپنے وجود میں سمونے کی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ ہمت کر کے اٹھی اور اپنے ڈایا فرام پر مجید کا سر رکھ کر بولی، ’’کیا بات ہے مجید۔؟ آج تمہیں ہوا کیا ہے؟۔‘‘ ’’کچھ نہیں۔‘‘ بجھی بجھی آواز آئی۔ نصرت مجید کا سر اپنے سینے پر رکھنا چاہتی تھی لیکن اپنے سینے کے متعلق اسے بڑا احساس کمتری تھا۔ اس احساسِ کمتری کو مٹانے کے لیے اس نے دو چار نقلی انگیا منگا رکھی تھیں اور جو بھی باڑہ یا لنڈی کو تل جاتا، اس کی بس ایک ہی فرمائش ہوتی کہ اچھی فش بونئز والی فوم لگی محرم میرے لیے لیتے آنا۔ اس وقت پسلیوں پر مجید کا سر رکھنے سے نہ تو مجید کو آرام ملا، نہ ہی نصرت کی تسلّی ہوئی۔ مجید نے کچھ دیر کے لیے اس لڑکی کے جسم کا فائدہ اٹھانے کی سوچی۔ پھر اسے ہمیشہ کی طرح خیال آیا کہ ماموں کے اتنے احسانات ہیں مجھ پر کیا میں انھیں اسی طرح چُکانے کے اہل ہوں؟ آہستہ سے مجید نے نصرت کے بازو پر بوسہ دیا۔ ٹھنڈا اور بے کیف بوسہ۔ مجید نے اس وقت نصرت کو اپنی انٹرویو کال کے متعلق سب کچھ بتانا چاہا لیکن پھر یہ سوچ کر چپ ہو گیا کہ یہ پھولدار ساڑی پہننے والی لڑکی ہے۔ یہ کیا سمجھے گی کہ انٹرویو کا خوف کیا چیز ہے؟ نصرت نے اسے شادی والے گھر کی باتیں بتانا چاہیں لیکن پھر یہ سوچ کر کہ مجید کوتو اپنی شادی کا شوق نہیں، وہ کسی اور کی شادی کو کیا سمجھے گا، چپ ہو رہی۔ دونوں جتنی دیر بیٹھے رہے، خود کلامی میں مصروف رہے۔ دل کے دروازے کھول کر ایک دوسرے کو بلانے کی ضرورت ہی پیش نہ آئی۔ دوسری صبح جب مجید گھر سے روانہ ہوا تو سارے اسے برآمدے تک چھوڑنے آئے لیکن نصرت غسل خانے کی چٹخنی لگائے نہاتی رہی گاتی رہی، ہوائی جہاز کی ٹکٹ جیب میں ٹٹولتے ہوئے آخری وقت مجید غسل خانے کے دروازے تک آیا۔ اس وقت اس کا جی چاہ رہا تھا کہ دروازہ کھل جائے اور بوندوں میں بھیگی نصرت کی ایک جھلک وہ دیکھ لے۔ آہستہ سے اس نے دروازے پر دستک دی۔ ’’کون ہے؟‘‘ لمبی سی آواز آئی۔ ’’میں ہوں۔ مجید۔ میں جارہا ہوں۔ ابھی دروازہ کھولو۔‘‘ اُس کی آواز جسمانی لذت کے احساس سے بوجھل ہو گئی۔ نلکہ بند ہوا۔ ’’کون ہے؟‘‘ ’’مجید بھئی۔ ہوائی جہاز جانے والا ہے۔ جلدی دروازہ کھولو۔‘‘ نصرت نے امریکی فلم اسٹاروں کی طرح اپنے گرد تولیہ لپیٹا۔ چٹخنی تک ہاتھ لے گئی اور پھر رک کر بولی، ’’تمھیں دیر ہو رہی ہے؟‘‘ ’’ہاں۔ خدا کے لیے دروازہ کھولو۔ ایک لمحہ بھر کے لئے۔‘‘ جسم جسم جسم۔ یہاں سب کچھ جسم تھا۔ جسم کی ایک جھلک۔ ایک رگڑ۔ ایک لمس۔ ’’خدا حافظ مجید، میں نہا رہی ہوں۔‘‘ ’’ذرا۔ ذرا سادروازہ کھولو پلیز۔ میں تمھیں آخری بار دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’میری آنکھوں میں صابن لگ رہا ہے۔ خدا حافظ۔‘‘ کچھ دیر مجید دروازے سے ہونٹ لگائے کھڑا رہا۔ اندر نلکہ جاری ہوگیا۔ ’’خدا حافظ۔‘‘ مجید نے بالآخر کہا۔ ’’خدا حافظ۔‘‘ شاور کی بوندوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اس کے آنسو بھی شامل ہوتے رہے۔ وہ نہاتی رہی روتی رہی، اور سوچتی رہی۔ شاید محبت کا لمحہ آپہنچا تھا۔ لیکن اس کی کوتاہی نے یہ ٹرین بھی مس کر دی۔ اسی عشق جیسے اور کئی عشق تھے۔ یہ سارے عشق مرغی کے اُن انڈوں کی طرح اس کے اندر سے نکلا کرتے ہیں۔ ان کو مکمل ہونے کا اللہ کی طرف سے حکم ہی نہ ہوا۔ سب ہی اسقاط ہوئے۔ کوئی چھ ہفتے بعد، کوئی پانچ ماہ سات دن ٹھہر کر! ہر عشق کے دوران اسے اماں نے خوب مارا تھا۔ اماں اس کی عاشقانہ طبیعت سے بہت نالاں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ جب تک وہ کوئی صحیح برتلاش نہیں کر لیتیں، ان کی ہر بیٹی کو چھچھوندر کی طرح اندھی بن کر دیواروں کے ساتھ ساتھ چل کر زندگی بسر کرنی چاہیے۔ مجید کے معاملے میں تو اماں اور بھی آگ بگولہ ہو گئی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ مجید کے گھر والے چور بھی ہیں اور چتر بھی۔ تین سال سے مجید ان کے گھر پڑا تھا اور اس دیکھ ریکھ کے بدلے جو جو باتیں ان کی نند نے کی تھیں الامان! جتنی بار اماں نے نصرت کی پٹائی کی، اتنی ہی بار کسی نہ کسی طرح نصرت مجید کے پاس ضرور پہنچی اور پتہ نہیں مجید کے ہاتھ میں کیا جادو تھا، جہاں وہ ہاتھ رکھ دیتا، زخم جاتا رہتا درد ختم ہو جاتا۔ اس میں کسی کا قصور نہیں تھا کہ مجید یوں لا تعلقی سے چلا گیا۔ سارا قصور نُصرت کا اپنا تھا۔ وہ خود آکسیجن گیس تھی۔ ہر شعلہ اس کی وجہ سے بھڑکتا تھا۔ ہر جگہ اس کی وجہ سے آگ لگتی تھی۔ یا یوں سمجھئے شعلے کے روپ میں وہ خود جلتی تھی۔ ادھر آکسیجن علیحدہ ہوتی، ادھر شعلہ خود بخود ختم ہو جاتا! عشق کے مرحلوں سے حیض کی طرح فارغ ہو کر اب وہ جنسی، ذہنی اور جسمانی طور پر عجب سکون کے دن بسر کر رہی تھی۔ اپنے ہی پیچھے سلیپر لے کر بھاگنے میں عجب لطف ملتا تھا۔ پرائسچت کا لطف، خودترسی کا لطف، تیاگ کا لطف۔ اپنے آپ کو ملامتیہ فرقے سے ذہنی طور پر منسلک کرنے میں ایک بڑی اعلیٰ فرار کی راہ نکل آئی تھی۔ اب اس کے وجود پر اپنی انا کا بوجھ ذرا کم تھا۔ اب وہ گھر کا جو کر بن گئی تھی۔ بڑے سائز کے مردانہ سلیپر پہنتی، سر پر اخبار کی ٹوپی، جسم پر کسی بھائی بھتیجے کا کرتا۔ کھڑی غرارے کر رہی ہے، ٹرائی سائیکل چلا رہی ہے، ثابت پیاز مُٹھی مار کر توڑنے کے بعد چبارہی ہے۔ جہاں کہیں نوجوان لڑکے بیٹھے ہوں وہاں ہائیڈروجن پر آکسیڈپلیٹ میں ڈال کر بیٹھ جاتی اور پہروں بال برائون کرنے میں گزار دیتی۔ بالوں میں سرسوں کا تیل لگا کر دو دو دن نہ نہانا اس کی عادت بن چکی تھی۔ لمبی بگلاسی تو تھی، ایسے حلیے میں جو لوگ اسے بار بار دیکھنے لگے تو اس کی بدصورتی اور بدسلیقگی کی داستان دور دور تک جا پہنچی۔ اب وہ ہنستی تو پہروں ہنستی رہتی۔ رونے کو جی چاہتا تو نیم چھتی میں سسیکوں کاریڈیواسٹیشن کھل جاتا۔ اماں کی باقی لڑکیوں نے ادھربی اے کیا، ادھر گھر میں جوڑ توڑ، پھنس مرغا، ہیرا پھیری، پھندے غرضیکہ سیاست داں چانکیہ جیسی گرم بازاری شروع ہو جاتی۔ کوئی ایک توجہ مرکوز ہوتی لڑکیوں پر۔ دیکھنے والیاں آرہی ہیں، بازاروں میں سارا سارا دن گذر رہا ہے۔ کہاں روپیہ دو روپیہ کے لیے کئی کئی دن چخ چخ ہوتی تھی اور ابا کی چیک بک پر ہی گویا دسترس ہو جاتی۔ پسند نا پسند کے چرچے، آرام بے آرامی کا خیال، بیوٹی کلنک چکر۔ گھر کی لڑکیاں تو اس دور میں بالکل مہارانیاں معلوم ہوتیں۔ اللہ نے اگر راستہ بند کیا تو نصرت کا۔ خدا جانے یہ اس کا حلیہ تھا کہ اس کی بدقسمتی تھی یا یوں بھی اس کی ایک ہوا بندھ چکی تھی کہ جتنے رشتے اس کے لیے آئے، کسی کو چول ڈھیلی، کسی کیس اسپرنگ ناقص، کسی کے نٹ بولٹ پرانے۔ کوئی لوہے کا دروازہ اس کی خالی چوکھٹ پرفٹ نہ ہو سکا اور وہ نیم چھتی کے کاٹھ کباڑ کی طرح بن کر رہ گئی۔ ویسے بھی نصرت نے اپنے جملہ تجربات سے بہت ساری عبرت خیز باتیں سیکھ لی تھیں اور اسی لیے اب وہ ہمیشہ آسمان اور دل سے ڈرتی رہتی تھی۔ پہلے ہی عشق کے بعد جب جعفر نے سارے گھر والوں کے سامنے اماں کی ریشمی رضائی پر نصرت کے محبت نامے لا کر پھینکے تو وہ دنگ رہ گئی۔ ایک ایک خط پر سرتاج کی سرخی تھی اور ہر ایک خط ہمیشہ تمہاری نصرت پر ختم ہوتا تھا۔ خط باری باری سب کے ہاتھوں میں گئے حتّی کہ پانچ سال کے منے نے لفافوں پر سے پاکستان اینی درسری اور آرسی ڈی والی ٹکٹیں اتارلیں۔ اس عشق سے نصرت نے یہ سبق سیکھا کہ مر جائو پر کسی کو خط نہ لکھو ورنہ بوقت ضرورت انھیں کام میں لایا جائے گا۔ نعیم نے پہلے تو اَن گنت تحفے چوری چھپے نصرت کو دیے جن میں میڈورینا رسٹ واچ بھی شامل تھی۔ پھر جب نا چاقی ہوئی تو یہ سارے تحفے واپس طلب کرلیے۔ ساتھ ہی دھمکی دے دی کہ اگر اُس کے سارے تحفے مقررہ تاریخ تک نہ لوٹے تو وہ یو این اومیں رپورٹ درج کر دے گا۔ نصرت کو گھر کی یو این او سے بہت ڈر لگتا تھا۔ اس نے سارے تحفے بمع معانی نامے کے واپس کر دیے۔ اس عشق کے بعد تحفے تحائف لینا دنیا اس کے کوڈ میں حرام ہو گیا۔ اختر نے بظاہر اپنا تن من دھن اس کے سپرد کر رکھا تھا اور وہ بات بات پر مصر ہو جاتا کہ عاشقوں میں دوئی کیسی؟ اس لیے آدھی آدھی رات تک نصرت اس کی چارپائی میں اسی کا لحاف اوڑھے دوئی مٹاتی رہتی لیکن جب اختر نے ان تعلقات کا ذکر اپنے دوستوں میں فخریہ کرنا شروع کیا اور بات چلتے چلتے نصرت تک پہنچی تو اس نے یہ عبرت حاصل کی کہ دوئی کو بہر کیف شادی تک قائم رہنا چاہیے۔ اسی طرح چھوٹے چھوٹے کئی سبق تھے جنہوں نے اسے بڑاسہج سہانا کر دیا تھا۔ اب اس کے پاس تعریزاتِ عشق کی کافی جامع کتاب بن چکی تھی۔ وہ اتنے سبق سیکھ چکی تھی کہ اب سبق ہی سبق باقی تھے اور عشق کا کہیں نام و نشان تک باقی نہ تھا۔ شادی سے پہلے عشق کرنے کا اب اسے خیال بھی نہ آتا تھا۔ اُس نے اپنے عبرت نامے کی مدد سے شادی کے بعد بھی اپنا ایک خاص پروگرام مرتب کر رکھا تھا۔ وہ سوچتی رہتی کہ شادی کے بعد عورت کو ایک ایورریڈی قسم کے سیل کی طرح ہونا چاہیے۔ جب اسے ٹارچ میں ڈالو، بٹن دبائو روشنی ہو جائے۔ ٹرانسسٹر میں لگائو کھٹ سے بولنے لگے، بچوں کے کھلونوں میں فٹ کر دو تو کار چلنے لگے ٹرین بھاگنے لگے ریچھ تالی بجا بجا کر ہلکا ن ہو جائے میم ناچ ناچ کر بائولی ہوجائے۔ سیل نکال کر رکھ دو تو ساری چیزیں بے جان ہو جائیں۔ وہ مرد کی بیٹری سے چارج ہونے والا سیل ہونا چاہیے تاکہ جب وہ چاہے چارج کرے نہ چاہے تو پھینک دے۔ بچے اس کا جستی خول اتار کر سارے گھر میں کاربن کی سیاہی اڑاتے پھریں۔۔۔ اور پھر کسی کو پتہ نہ چلے کہ اسی سیل میں نچانے، روشن کرنے اور بولنے کی قوت کبھی تھی؟ ابھی تو نیم چھتی میں اخبار کی ٹوپی پہن کر جانے وہ اپنے آپ سے کیسے کیسے بدلے لیتی کہ اچانک اللہ نے اُس پر چھپر پھاڑ دیا۔ راتو ں رات وہ پردہ سیمیں پر جگمگانے والی صف اوّل کی اداکارہ بن گئی۔ نُصرت کی اماں سارے گھر میں ویٹو کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اماں نے اپنے سسرال میں عجیب قسم کی زندگی بسر کی تھی۔ کچھ عرصہ اسے نئے برتن کی طرح کبھی یہاں کبھی وہاں رکھا گیا۔ شوہر نے چند سال جسمانی لذت کے لیے استعمال کیا اور پھر غافل ہوگیا۔ اماں نے ابا کو واپس لانے کے لئے ہزار جتن کیے لیکن اس کا کوئی بوم رنگ اس تک واپس نہ آیا۔ ایسے میں جب اس کے پاس دینے کو لاکھوں من محبت تھی اور اس جنس کے اصلی خریدار کو دوسری عورتوں سے فرصت نہ تھی۔ اماں نے اس محبت سے دوست دشمن پر کمندیں ڈالنا شروع کردیں۔ اب سارے گھر میں اس کی شفقتوں اس کی قربانیوں کے چرچے تھے۔ سارے خاندان میں شاید ہی کوئی ایسا رشتہ دار باقی ہو جس پر عصمت بیگم کی پوری توجہ نہ پڑی ہو۔ پلٹن بھر لڑکے اس گھر سے تعلیم حاصل کر کے رخصت ہوئے۔ کئی ٹیڑھی بینگی لڑکیوں کے ایسے ناطے کرا دیے کہ خود لڑکیوں کو باقی ساری عمر اپنی حوش نصیبی پر رشک آتا رہا۔ کئی پھوپھیاں، خالائیں عدت، زچگی بیماریوں کا عرصہ خوشی خوشی گزار کر گئیں۔ کئی اکھڑے ہوئے رشتہ داروں نے یہاں بیٹھ کر گھر تعمیر کیے بزنسیں سدھ کیں۔ بیرونی ممالک آنے جانے کے راستے کھولے۔ عصمت بیگم ساری عمر شوہر کے دل کی ایک کھڑکی نہ کھول سکی۔ لیکن اپنے دل کو اس نے ایک کُھلی غلام گردش بنا دیا، جس میں بسرام کرنے کا کوئی کرایہ نہ لگتا تھا۔ کوئی پاسپورٹ ویزا درکار نہ تھا۔ ایسی عورت جب اچانک بیمار پڑی تو سارے مغلیہ خاندان میں غدر مچ گیا۔ اتنے بڑے خاندان کی سر براہ خاتون جس روز بیمار ہوئی۔ اتفاق کی بات ہے جس روز اماں کو دورہ پڑا، اس روز گھر پر صرف نصرت اور ابا موجود تھے۔ باقی بہن بھائی بہاولپور چھٹیاں گزارنے گئے ہوئے تھے۔ طفیلی، مہمان، رشتہ دار حتی کہ پلٹن بھر نوکروں میں سے بھی گھر پر کوئی نہ تھا۔ نصرت برسوں پہلے جعفر کے واقعے کے بعد ہی سے اماں سے بچھڑ چکی تھی، اس وقت وہ اپنی نیم چھتی میں تخت پوش پر لیٹی ناول پڑھ رہی تھی۔ ہر ناول کو پڑھتے وقت نصرت دو حصوں میں بٹ جاتی تھی۔ ایک نصرت ہمیشہ ہیروئن کے عشق کا مذاق اڑاتی اسے احمق سمجھتی۔ دوسری نصرت کی آنکھوں میں ہیروئن کی خوش قسمتی کا پڑھ پڑھ کر پل پل آنسو آتے۔ اُسے یقین ہی نہ آتا کہ ایسی خوش نصیب لڑکی بھی کوئی ہو سکتی ہے جس کو اتنی شدت سے چاہا گیا۔ کیونکہ ہر کتاب کا عشق عموماً سچا، اکلوتا اور جان لیوا ہوا کرتا تھا۔ اس کے منہ سے رال ٹپک ہی رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ ’’کون ہے۔۔۔؟’ اس نے خشگی کے ساتھ پوچھا۔ ’’میں ہوں۔۔۔ ابا جی۔۔۔‘‘ نصرت نے سر سے کاغذی ٹوپی اتاری۔ سلیپر پہنے اور باہر نکل آئی۔ اس اجنبی معمر شخص کی موجودگی میں نصرت عموماً گھبرا جاتی۔ اس گول مول شخص کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی اور اس کا پیٹ پورے حمل کی طرح بوسکی کی قمیص میں باہر کو بڑھا ہوا تھا۔ نصرت کے لیے یہ مرد کسی اور مذہب، نسل کسی اور ملک کا باشندہ تھا۔ اگر وہ اپنی اور ابا جی کی ملاقاتوں کا کل میزان لگاتی تو چھ گھنٹوں سے کبھی زیادہ نہ نکلتا۔ ’’جی۔۔۔‘ اُس نے سر پر خوف سے دوپٹہ لے لیا۔ ہر اجنبی سے ملنے کا اس نے سیدھا سا یہی فارمولا تیار کر رکھا تھا۔ ’’تمہاری اماں کو نہ جانے کیا ہو گیا ہے؟ پیڑھی پر بیٹھی بیٹھی لڑھک گئیں وہ تو میں سامنے نہ ہوتا، تور گیس کے چولہے میں گر جاتیں۔‘‘ وہ ہرنی کی طرح کلانچیں بھرتی نیچے پہنچی۔ اماں پلنگ پر چت لیٹی تھیں۔ ان کے چہرے کا دایاں حصہ کچھ ٹیڑھا سا نظر آرہا تھا۔ ’’امّاں۔۔۔! امّاں جی،‘‘ عصمت بیگم نے آنکھیں کھولیں، تھوڑی سی پہچان ان کی دائیں آنکھوں میں آئی اوگم ہو گئی۔ ’’اماں۔۔۔ اماں۔۔۔ نصرت نے ان کو دایاں بازو پکڑ کر جھنجھوڑا۔ لیکن بازو گویا بے جان لکڑی کی مانند اُس کی گرفت میں گونگاہی بنا رہا۔ اس نے پلٹ کر اپنے اجنبی باپ کی طرف دیکھا جس کا ازار بند بوسکی کی قمیص کے نیچے لٹک رہا تھا۔ اتنی ساری عورتوں سے عشق کرنے کے باوجود یہ مرد بالکل اکیلا اور بیحد خوفزدہ تھا۔ ’’کیا کریں ابّا جی۔۔۔۔ اب ہم کیا کریں؟۔۔۔‘‘ اُس نے ڈر کے مارے ابا جی کا ہاتھ پکڑ لیا۔ اجنبی، معمّر، خوفزدہ بھولے بھالے باپ نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا، ’’ڈرو نہیں میں ابھی ایمبولنس لے کر آتا ہوں۔ تم اماں کے پاس رہو۔‘‘ جب تک باہر ایمبولنس نہیں آئی، وہ اماں کا بازو دباتی رہی، ہاتھ پائوں رگڑ رگڑ کر گرم کرتی رہی۔ لیکن اس وقفے میں ایک بار بھی اسے اماں کے وجود پر پیار نہ آیا۔ اسے اماں کی بیچارگی پر ترس آرہا تھا اور بس۔ اماں بچے کے جذباتی رشتے سے وہ کبھی کی آزاد ہو چکی تھی۔ گھر سے ہسپتال پہنچتے پہنچتے اماں کا دایاں حصہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکا تھا۔ نصرت اور اس کا اجنبی باپ دو دن بڑے ہراساں رہے لیکن پھر سارے حالات نصرت کے قابو میں آگئے جس طرح لکڑی بانک میں پھنس کر پھسل نہیں سکتی، یہ موقع اسے خدا نے چھپر پھاڑ کر دیا تھا۔ یہ محض اتفاق کی بات ہے کہ جب عصمت بیگم مفلوج ہو ئیں، نصرت کے علاوہ گھر پر اور کوئی عورت موجود نہ تھی۔ اس طرح پورے چار دن بلا شرکت غیر پرائیویٹ وارڈ میں نصرت اپنے ماں باپ پر مکمل طور پر قابض رہی۔ جو بھی نرس آتی، اسے مریض کی حالت نصرت کی زبانی پتہ چلتی۔ ابا جی بیچارے اعظم کلاتھ مارکیٹ میں بہت بڑی دوکان کے مالک تھے لیکن انگریزی بولتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ نصرت کا بی اے گوزنگ آلود ہو چکا تھا۔ لیکن چوبیس گھنٹوں میں اس نے اپنے لہجے کو برا سوکر کے خوب نکھار لیا تھا۔ اب جس وقت ابا جی ڈاکٹروں کے سامنے شرمائو سے بیٹھے رہتے، نصرت انگریزی بولتی مشورے کرتی ہر ڈاکٹر کے ساتھ دور تک برآمدوں میں چلی جاتی۔ ہر ہر بات میں جلد ہی نصرت نصرت ہونے لگی۔ دوسری رات کا ذکر ہے۔ اماں بیہوشی کے عالم میں ساری دنیا کی شہرت بھلائے لاش سی پلنگ پر پڑی تھیں۔ ان کے بائیں بازو میں گلوکوز لگا تھا۔ ابّا جی گلے میں صافہ ڈالے بڑے حواس باختہ گھٹنوں پر دونوں ہاتھ رکھے بیٹھے تھے۔ یک دم غنودگی کی حالت میں جھولتے ہوئے نصرت کو یوں لگا جیسے قریب ہی کوئی سسکیاں بھر رہا ہے۔ وہ ہڑبڑا کر اٹھی، چند ثانیے اسے یہ بھی پتہ نہ چلا کہ وہ نیم چھتی میں ہے کہ ہسپتال میں اماں کے پلنگ پر بیٹھی ہے۔ رفتہ رفتہ جب وہ اپنے ماحول کو سمجھنے کے قابل ہوئی تو اس نے دیکھا کہ سامنے والی کرسی پر ابا جی بیٹھے رو رہے ہیں اور ان کے آنسوگھٹنوں پر دھرے ہاتھوں پر بے تحاشا گر رہے ہیں۔ وہ اپنے ابا جی سے بے تکلف نہ تھی۔ لیکن اس وقت اسے اپنا باپ ایک ایسی معمر عورت نظر آرہا تھا جس کا اکلوتا بیٹا کام پر جا رہا ہو۔ وہ ٹپوسی مار کر اونچے پلنگ سے اتری اور ابا جی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی، ’’ابا جی خدا کے لئے آپ فکر نہ کریں جی۔ اماں ٹھیک ہو جائیں گی۔ ابا جی ہوش کریں پلیز۔ ڈاکٹر صاحب کہہ تو رہے تھے۔ اباجی۔۔۔ ابا جی۔۔۔!‘‘ ابا جی کی جھڑی جاری تھی۔ وہ ابوالہول کی طرح جامد بیٹھے تھے۔ صرف آنکھوں سے جھرنے بہ رہے تھے۔ ’’میں ڈاکٹر فاروق سے ملی تھی، ۔۔۔ انہوں نے خود مجھ سے کہا تھا۔ ابا جی مجھے سب نرسیں کہہ رہی تھیں۔ آپ فکر نہ کریں میری بات پر اعتماد کریں ابا جی۔۔۔‘‘ اُسے خود تعجب ہوا کہ دو ہی دن میں وہ کتنی اہم ہوگئی ہے! ’’حوصلہ کریں ابا جی۔۔۔‘‘ بڑی دیر بعد ابا جی بولے، ’’اس کے سوا میرا دنیا میں اور ہے کون؟ یہ نہ رہی تو پرِوارنہ رہے گاخاندان نہ رہے گا، میری تو ساری جد چلتی ہے اس کے دم سے۔‘‘ ’’آپ کو میری بات ماننا ہوگی ابا جی۔۔۔ اگر آپ کو اماں سے رتی بھر پیار ہے تو آپ کو چپ کرنا ہوگا۔ دیکھیے وہ کیسی پریشان ہو رہی ہیں آپ کے آنسو دیکھ کر۔۔۔‘‘ ابا آہستہ آہستہ بریک لگاتے لگاتے صبح کی اذان سے پہلے چپ ہو گئے۔ نصرت نے یہ پہلا شکار کیا! اب وہ جس وقت چاہتی، جس طرح چاہتی ابا جی کو سمجھا نے بجھانے اور مشورے دینے لگ پڑتی۔ ساری عمر ابّا جی بھی کسی عورت کے نیچے نہیں لگے تھے۔ اب انھیں بھی جی حضوری میں عجب لطف ملنے لگا۔ دوائیوں کی خریداری سے پہلے وہ اچھی طرح نصرت سے سارے نسخے سمجھ کر جاتے۔ کبوتروں کی یخنی اور بیٹروں کی آش بنانے کے طریقے غور سے سمجھتے۔ اماں کو کروٹ دلانے سے پہلے وہ ایک آدھ مرتبہ مشورہ طلب نظروں سے نصرت کو ضرور دیکھتے۔ نصرت کو کھل جا سم سم کا منتر ہاتھ آگیا۔ ’’ابھی اماں سوئی ہوئی ہیں۔۔۔‘‘ ’’ابھی بیڈپین لگایا ہے۔۔۔‘‘ ’’ابھی اماں نے قے کی ہے۔۔۔‘‘ جب وہ چاہتی دروازہ کھول کر اباجی کو اماں سے ملا دیتی۔ جب اُس کا جی چاہتا ایک اشارے میں ابا جی کو کرسی سے اٹھا دیتی۔ جس وقت بقایا خاندان وارڈ پر لوٹا، نصرت سارے حالات پر اس طرح قابض ہو چکی تھی جس طرح پرائیویٹ وارڈ کا یہ کمرہ ہائی جیک کیا ہوا طیارہ ہو۔ پہلا حملہ آور تائی جی تھیں۔ یہ بڑی دبلی پتلی سینک سلائی عارف دنیا خاتون تھیں۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر ہر گھر میں جہیز بری کی کنجیاں ان کے ہاتھ میں ہوتیں۔ رشتے ناطے ان کی رضا سے ہوتے۔ ہر مرگ میں لوگ زیادہ تر ان ہی کے گلے لگ کر رویا کرتے۔ ان کی گھرواری، سلیقے، اور ہانڈی روٹی کا شہرہ سارے خاندان میں تھا۔ آتے ہی انہوں نے بڑی معرفت کے ساتھ کہا ’’اچھا نصرت اب تم گھر جائو۔ جو ان لڑکی کا اسپتال میں کیا کام۔ اب تمہاری اماں جانے اور میں جانوں۔۔۔‘‘ نصرت کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ سسٹروں سے باتیں کرنا، نرسوں پر حکم چلانا، ڈاکٹروں سے معتبری لڑانا، آیا جمعدارنی کو بچا کھچا کھانا دے کر مہربانیاں کرنا۔۔۔ اتنا سارا کچھ اس کے ہاتھوں سے سرکنے لگا۔ ’’نہیں جی آپ تکلیف نہ کریں تائی جی۔ اماں کو بھلا میں اکیلی چھوڑ سکتی ہوں۔‘‘ ’’ہوش کرو بیٹی۔ جوان لڑکی کو چھوڑ کر میں جاتی ہوں گھر۔ یہ بھلا ٹھیک لگتا ہے کوئی۔‘‘ ’’ٹھیک کیوں نہیں لگتا تائی جی۔ آخر تین دن سے میں جوان لڑکی اکیلی ہی تھی اماں جی کے پاس۔‘‘ تائی جی بھی ہار ماننے والی عورت نہ تھی۔ پر اسی وقت ڈاکٹر فاروق آگئے اور نصرت انھیں کھٹا کھٹ انگریزی میں گذشتہ رات کی ساری کیفیت بتانے لگی۔ کتنا پیشاب کرای۔۔۔ کتنے سی سی؟ کتنا گلوکوز لگا۔۔۔ کتنے سی سی؟ بلڈرپورٹ۔۔۔ یکسیم کتنا اور مینیم کتنا؟ ایکس رے۔ گلے کی رپورٹ کلچر۔ آج اور کل کی کیفیت۔ ایک ایک تفصیل نصرت کو اچھی طرح یاد تھی۔ گویا ان ہی تفصیلات پر اُس کی زندگی کا دارومدار تھا۔ تائی دانہ اسپند کی طرح چند لمحے خوب بھڑکی، تڑکی اور پھر ٹھنڈی پڑگئی کیونکہ اس بار نصرت کی طرف ابا جی تھے۔ ’’یہ اپنی ماں کی بیماری کو سمجھتی ہے۔ اب تم نئے سرے سے تکلیف کروگی بھابھی!‘‘ تائی کے لیے یہ زندگی کا پہلا موقعہ تھا کہ کوئی اور انسان اُن سے زیادہ کوئی معاملہ سمجھ رہا تھا۔ پرپانی ڈبائو تھا۔ دو ایک دن تو پرائیویٹ وارڈ کے باہر چٹائی بچھا کر سیکنڈ پوزیشن پر نصرت کے احکامات مانتی رہیں۔ پھر اچانک ان کی ڈاڑھ میں درد ہو گیا اور وہ اپنی بہن کے پاس چوبرجی چلی گئیں۔ افسوس یہ خاندان کا پہلا تاریخی واقعہ تھا جب تائی کا طنبور بے سر بجا۔ دوسرا وار اماں کے میکے والوں نے کیا! اماں کو اپنا میکہ چھوڑے پورے تیس سال ہو چکے تھے۔ پر اب تک یہ مرہٹہ صفت لوگ یہی منوانے میں وقت صرف کرتے تھے کہ تیس سال پہلے انہوں نے اماں کو پالا پوسا اور جوان کیا تھا۔ اماں کی بڑی بہن اپنی بیٹی اور نواسی سمیت نرسنگ کے لیے آئیں۔ ان کے ساتھ مختلف سائز کی تھر موسیں۔ ٹفن کیرئر، بستر بند، ڈھاکے کی بنی ہوئی ٹفن باسکٹ، نماز پڑھنے کی چٹائی، اوپر اوڑھنے کے کمبل اور دو چار تکیے تھے۔ یہ سارا سامان انہوں نے پرائیویٹ روم کے سامنے قرینے سلیقے اور خودنمائی کے ساتھ برآمدے میں سجا لیا۔ لیکن نصرت بھی چوکس ہو گئی تھی اور سازوسامان سے پھردبکنے والی نہ تھی۔ اب اُس نے سسٹر کو کہہ کہ اماں کے کمرے کے سامنے ’’داخلہ ممنوع ہے‘‘ کا بورڈ لگوالیا۔ اب نصرت کو آسانی ہو گئی۔ وہ باری باری مہمان کو اندر لے جاتی۔ پانچ منٹ کے بعد گھڑی دیکھتی اور مہمان کو آنکھ کے اشارے سے باہر نکل جانے کا حکم دیتی۔ نصرت کے رویے سے تو سارے گھر میں گویا بھونچال آگیا۔ یہی موقعہ ہوتا ہے جب عام طور پر رشتے کی دوری نزدیکی واضح شکل میں سب کے سامنے آجاتی ہے۔ اب نصرت نے سب کو کیلے کی چھلکے کی طرح تار پھینکا تھا۔ اس کے اس رویے سے ایک اور مشکل یہ بھی پیدا ہو گئی تھی کہ وارڈ کے ملحق برآمدے میں جہاں اماں کی بڑی بہن نے لمبی سی دری بچھا رکھی تھی، رفتہ رفتہ سیاست کا میدان کھل گیا تھا۔ رشتہ دار عورتیں مریضہ کی خدمت کرنے سے معذور ہوئیں تو انھیں کئی کئی گھنٹے جوڑ توڑ کو ملنے لگے۔ اپنی اپنی محبت کا گراف سب بنا رہی تھیں اور اسی لیے بیشتر وقت ان کا ہسپتال میں ہی گز ررہا تھا، گو نصرت انھیں اندر جانے ہی نہ دیتی تھی۔ اب برآمدہ دو کیمپوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک گرودہ وہ تھا جو اماں کی بہن یعنی میکے والوں کے ساتھ مل کر مصر تھا کہ یہاں علاج بڑی سست روی سے ہو رہا ہے اس لیے جلد ہی مریضہ کو گھر منتقل کرانا چاہیے اور کسی ہومیوپیتھک ڈاکٹر یا جہامذیدہ مسیحا نفس حکیم کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ دوسری پارٹی تائی کے اثر تلے تھی اور اسی بات پر اڑی ہوئی تھی کہ یہیں ہسپتال میں مریضہ کو رکھیے، چاہے کچھ سال ہی کیوں نہ گزر جائیں۔ دونوں کیمپ اس ٹاپک کے علاوہ جنسی مذاق، لڑکیوں کے رشتے، شوہروں کی بے وفائیاں اور کنجوسیاں، سسرالی رشتہ داروں کی ناگوار حرکتیں، قیمتوں کی گرانی، باڑے اور رلنڈی کوتل کے کپڑے، قمیصوں کی لمبائی اور پاینچوں کی چوڑائی، لڑکوں کی پڑھائی، نوکروں کی کام چوری، پنجابی فلموں میں عریاں ناچ، کھانے پکانے کی ترکیب اور دوسری عورتوں کی زیادتیاں اور ان کی اپنی کم زبانیاں یہ سب زیر بحث آتا تھا۔ ان دو گروہوں کے علاوہ نوجوان لڑکیاں، امتحانوں سے فارغ نو بالغ لڑکے اور چھوٹے بچے بھی بڑے شوق سے ہسپتال آیا کرتے تھے۔ لڑکوں کو گھر کی لڑکیاں جانچنے، آنکنے اور پھر اپنے ڈھپ پر لانے کا فکر رہتا تھا۔ لڑکیاں گھروں کے والدوں اور یکسانیت سے بچنے کے لئے چلی آتی تھیں۔ بچوں کو پھل فروٹ اور کھیلنے کا شوق ہسپتال لاتا۔ غرضیکہ پرائیویٹ وارڈ کے ملحق برآمدے میں ایک ایسا اردو بازار کھلا ہوا تھا کہ بہت کم لوگوں کو علم ہو سکا کہ اس لشکری کیمپ کا فائدہ صرف نصرت کو ہو رہا ہے۔ خود نصرت کے بہن بھائی تار ملتے ہی بہار لپور سے لوٹے تو چونکہ ان کی محبت قدرتی تھی، اس میں غلبہ پانے یا غلبہ اتارنے کا اندیشہ نہ تھا۔ اس لیے وہ سب یہ دیکھ کر خوش ہوئے کہ آلکس کی ماری، جلّی جھڈو نصرت بھی کسی کام آئی۔ وہ ہسپتال کا سارا کام نصرت کے ذمے لگا کر خود شام کو گھڑی کی گھڑی ملاقاتیوں کے وقت میں آتے۔ تھوڑی دیر بیٹھے روتے رہتے۔ پھر گھر جاکر ٹیلی ویژن دیکھتے۔ سونے سے کچھ دیر پہلے پھر اماں کی باتیں کر کے روتے اور پھر جوانوں اور بچوں کی میٹھی نیند سو جاتے۔ بغلی برآمدے میں جو پالیٹکس چل رہی تھی اس کی روح رواں اماں جی تھیں اور اماں جی پر نصرت قفل بنی بیٹھی تھی۔ اب جو بھی مدعا علیہ آتا اسے پہلے نصرت کے دوار پر ماتھا ٹیکنا پڑتا۔ ’’کیا حال ہے خالہ جی کا۔۔۔؟‘‘ ممیرے چچیرے پھوپھی زادا سٹپنی نما لڑکے پوچھتے۔ نصرت جالی کا دروازہ تھوڑا سا کھول کر بڑی میٹھی آواز میں کہتی، ’’اب تو رات سے بہتر ہے۔۔۔‘‘ ’’کچھ کھایا پیا؟‘‘ پھوپھیاں، تائیاں، خالائیں پوچھتیں۔ ’’تین چمچ شوربہ پیا تھا مجھ سے بس۔۔۔‘‘ ’’کوئی بات کی تم سے۔۔۔؟‘‘ جوان لڑکیاں سوال کرتیں۔ ’’ہائے ابھی کہاں۔۔۔؟‘‘ وہ دُکھ سے جواب دیتی۔ ’’ہم آجائیں اندر جی۔۔۔؟‘‘ بچے سوال کرتے۔ ’’شاباش۔۔۔ باغ میں جاکر کھیلو شاباش۔‘‘ اتنے سارے سوال اس سے کب کسی نے پوچھے تھے؟ اتنے سارے سوالوں کا جواب آج تک کبھی اسے درست آیا بھی کب تھا! سارا نسبی خاندان اس کی طرف اس طرح دیکھتا تھا جیسے وہ صبح چڑھنے والا سورج ہو جس کی آرتی اتارنا پوجا کرنا ضروری ہو۔ بی اے کا امتحان دیے پانچواں سال تھا لیکن ابھی تک کبھی کبھی جب نیم چھتی میں کھو چلے تخت پوش پر بیٹھی بیٹھی وہ اونگھ جاتی تو اسے خواب آتاجیسے وہ امتحان گاہ میں داخل ہو رہی ہے۔ پرچہ شروع ہوئے پونا گھنٹہ ہو چکا ہے۔ ساری ہم جماعت سر جھکائے کھٹا کھٹ لکھ رہی ہیں۔ حساب کا پرچہ ہے اور وہ تاریخ یاد کر کے آئی ہے۔ سارا پرچہ گڈمڈ ہے۔ کوئی سوال اسے نہیں آتا۔ سوال اتنے زیادہ ہیں کہ تین گھنٹوں میں ان کا جواب ممکن ہی نہیں۔ اس کے پاس پین نہیں۔ اگر ہے تو اُس میں سیاہی نہیں ہے۔ لڑکیاں پلٹ پلٹ کر اُس کی طرف دیکھ رہی ہیں، ممتحن اعلیٰ انگلی اٹھا اٹھا کر تنبیہ کر رہا ہے، ناظرِ امتحانات سپاہیوں کی طرح آجا رہے ہیں۔ گھڑی کی سویاں بھاگ رہی ہیں وہ چاروں طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اس کی چاروں کنّیاں بالکل خالی ہیں۔ پر وہ کھڑی ہے۔۔۔ کھڑی ہے۔۔۔ کھڑی ہے۔ انصاف طلب نظروں سے نہیں، رحم طلب نظروں سے دیکھتی جاتی ہے۔ اور کچھ نہیں سوچتی! ان دنوں جیسے ہسپتال آتے ہی اس خواب کی تعبیر یک دم الٹ نکل آئی۔ اب وہ سارے جواب جانتی تھی۔ اب لوگ اس کی طرف دیکھتے تھے، اس کی توجہ چاہتے تھے۔ اتنی نگاہوں کا مرکز بنی تو بد صورتی یوکلپٹس کی چھال بن کر جھڑنے لگی۔ عورت کا سارا حسن ہی دراصل ان تو صیفی نگاہوں سے بنتا ہے جو اس پر وقتاً فوقتاً ہلکی پھوار کی طرح پڑتی رہتی ہیں۔ اب نصرت کانوں میں چاندی کے گول گول بالے لٹکائے لمبی زلفیں چھوڑے برآمدوں میں ڈاکٹروں سے باتیں کرتی نکل جاتی تو کئی لڑکوں کا دل کرتا کہ کبھی نصرت سے اس طرح ان سے بھی مخاطب ہو۔ ’’کیا حال تھا رات خالہ بوا کا۔۔۔‘‘ لڑکا پوچھتا۔ ’’ٹھیک تھیں۔ رات نیند نہیں آرہی تھی۔ میں نے ویلیم کھلائی تو سوگئیں بیچاری۔‘‘ تو صیفی نگاہ اس پر پڑتی۔ یک دم اُس کا دل بلبلے کی طرح اوپر اٹھتا۔ ہائے میں ویلیم کھلانے والوں میں سے تھی! مجھے ویلیم کھلانے کے لئے کسی گھر والے سے اجازت لینے کی ضرورت نہ تھی! ان ہی دنوں مجید سے اُس کی ملاقات ہوئی، جو ان دنوں فارن سروس میں تھا اور جس کی بیوی اُس کے ساتھ تمغے کی طرح سجتی تھی۔ نصرت انھیں کمرے کے باہر ملی۔ مجید نے سگار جلا کر لمبے سائیڈبرن درست کرتے ہوئے اپنی بیوی کا نصرت سے تعارف کرایا۔ ’’یہ میرے بہت ہی پیارے ماموں کی بیٹی نصرت ہے۔۔۔ میں تمھیں اس کے متعلق بتا چُکا ہوں نورین۔۔۔‘‘ ’’سلام علیکم۔۔۔‘ لمبی لمبی پلکیں جھپکا کر مسز فارن سروس بولی۔ کیا بتا چکا ہے میرے متعلق یہ کراڑ آدمی! ’’ہم دونوں بڑے Friendsہوتے تھے۔ ہے نا نصرت۔۔۔ ہر بات ایک دوسرے سے کرتے تھے۔‘‘ ’’مجید نے بڑی بے تکلفی سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تاکہ اُس کی تلّے وانی کو یقین آجائے کہ اس رشتے تلے کبھی کوئی تکلف نہ تھا! ’’جی ہاں۔۔۔ بڑے۔ بڑے Friends۔‘‘ بالے جھلا کر نصرت بولی۔ ’’دن میں کئی کئی مرتبہ ہم چائے بنایا کرتے تھے کیوں نصرت۔۔۔‘ ’’ہاں کیوں نہیں۔۔۔؟ واقعی! ۔۔۔‘‘ نصرت کے بالے ہل رہے تھے۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ مجید کے چہرے پر اشتیاق تھاجیسے کباڑی کی دوکان پر اپنی ہی بچی ہوئی کوئی کتاب مل جائے۔ ’’ماسی جی کا کیا حال ہے؟‘‘ ’’بہتر ہیں پہلے سے۔۔۔‘‘ میں نے نورین سے کہا کہ فرانس جانے سے پہلے میں مامی جی سے ضرور ملوں گا۔ خدا قسم نورین You Should Meet Her۔۔۔ گریٹ گریٹ گریٹ۔۔۔‘‘ نورین نُصرت کو اشتیاق اور حسرت سے دیکھ رہی تھی۔ جس طرح ہر وہ بیوی دیکھتی ہے جو اپنے شوہر کے ماضی، حال اور مستقبل میں دھاگے کی طرح پروئے جانے کی آرزو رکھتی ہو۔ ’’مامی جی کو مل لیں ہم۔۔۔‘‘ نصرت نے لمحہ بھر کو سوچا پھر بولی‘‘ ہائے آئی ایم سوری۔ وہ تو ابھی سوئی ہیں۔ بھابھی آپ مائینڈ نہ کرنا پلیز۔۔۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے، جگا نہیں سکتے۔‘‘ نصرت نے دل ہی دل میں اونچا سا قہقہہ لگایا۔۔۔ اللہ! اب ہم بھی اس قابل ہوئے کہ مجید کچھ چاہے اور ہم نہ کریں! مجید پر اس انکار کا عجب الٹا اثر ہوا۔ گویا اس مرتبہ آکسیجن کے بغیر آگ بھڑکی۔ ’’چلو ہمارے ساتھ ذرا۔۔۔ انٹر کو نٹی نینٹل میں چائے پئیں گے۔۔۔‘‘ ’’کون۔۔۔؟‘‘ نصرت نے پوچھا۔ ’’ہم۔۔۔ تم اور میں۔۔۔ اور نورین۔‘‘ نُصرت مسکرائی۔ ’’اور امّاں جی۔۔۔؟‘‘ ان کے پاس کسی کو چھوڑ دو بھئی۔ یہ کباڑ خانہ کتنا بھرا ہوا ہے۔۔۔‘‘ نصرت پر یہ نہر سویز کو فتح کرنے کا لمحہ تھا۔ ’’ہائے اماں تو میرے بغیر ایک منٹ نہ رہ سکیں گی۔‘‘ ’’اچھا پھر۔۔۔‘‘ مجید کے لہجے میں تھکان تھی۔ ’’اچھا پھر۔۔۔‘‘ مسز فارون سروس بولی۔ ’’خدا حافظ۔۔۔‘‘ ’’خدا حافظ۔۔۔‘‘ پھر الیاس آیا! کامران آیا! جعفر آیا! نصرت نے چھوٹے بڑے کُل آٹھ عشق کیے تھے۔ جن میں سے پانچ گریس لگے، پیکٹ بند، سلوفین کے کاغذ میں قرینے سے لپٹے اس نے دل کے موتھ پروف خانوں میں بند کر رکھے تھے۔ باقی تین عشق ایسے تھے جن کی تفصیلات سارے خاندان کو رَتّی رَتّی معلوم تھیں۔ یہ تین ڈھیری بند، سیل شدہ عشق اُس کے اندر اس طرح پڑے تھے جیسے کوئی جہاز سمندر برد ہو جائے اور پھر کپتان کے کیبن میں سے تین جواہرات سے بھرے صندوقچے سمندری خود روپودوں میں لڑھکتے پھریں کبھی یہاں کبھی وہاں! شعلے کا بھی ایک اصول ہوتا ہے، سوکھی چیز میں جلد حلول کر جاتا ہے۔ آکسیجن ملے تو بہت لہک لہک کر جلتا ہے۔ اس کے چاہنے والے رطوبت بھرے، پھپھوندی لگے، سیلے سیلے عاشق تھے۔ سیلی بیٹریوں کی طرح جلے۔ گیلے پائپ کی طرح سلگے اور پھر پاتھی کی طرح سارے راکھ میں بدل گئے۔ کوئی بجھا ہوا کوائلہ باقی نہ رہا۔ سارے عاشقوں میں کامران ابھی تک کنوارا تھا۔ لیکن دونوں کے درمیان وہ مقناطیسی قوت ختم ہو چکی تھی۔ جس کے ہوتے ہوئے کھٹ سے وہ دونوں شمالی اور جنوبی قطب بن کر ایک دوسرے کے سامنے آجایا کرتے تھے۔ اب تو بس دونوں لوہا تھے۔ وزنی۔۔۔ سیاہی ماٹل ٹھنڈا لوہا۔ ’’کیا حال ہے خالہ جان کا۔۔۔؟‘‘ ’’ٹھیک ہیں۔۔۔‘‘ ’’آپ کیسی ہیں۔۔۔؟‘‘ ’’ٹھیک ہوں۔۔۔‘‘ کامران فلرٹ کرنے کے موڈ میں تھا۔ وہ ہمیشہ فلرٹ کرنے کے موڈ میں رہتا تھا۔ نصرت کو وہ دن یاد آگئے جب کامران پہلے پہل اس کی زندگی میں اسی خاصیت کے باعث داخل ہوا تھا۔ نصرت کا دل بھی ایک ہارسنگھار کا درخت تھا۔ جس کی ڈالیوں پر سے بارہ ماہ یادوں کے ننھے ننھے پھول گرتے رہتے تھے۔ کامران شاعر تھا لیکن نصرت کے عشق کو اُس نے گڈا بنا دیا۔ اس نے نصرت پر کبھی کوئی نظم یا گیت نہیں لکھا۔ لکھا ہی لکھا تو ایک چو مصرعی خاکہ! پہلی شام جب کامران گھر آیا تو اس روز نُصرت بھی چنوں کا شوربہ بڑے ڈونگے میں اٹھائے لا رہی تھی۔ ’’بطخ دیکھی ہے تم نے۔۔۔؟‘‘ کامران نے پاس بیٹھی طاہرہ سے پوچھا۔ ’’جی۔۔۔‘‘ ’’کیسی ہوتی ہے بھلا؟۔۔۔‘‘ ’’سفید۔۔۔‘‘ ’’غلط۔۔۔ خشکی پر تیرتی ہے اور پانی میں چلتی ہے۔ جو کبھی بیٹھی ہو تو لگتا ہے دونوں بغلوں تلے کچھ چھپایا ہوا ہے۔۔۔‘‘ پھر کامران نے نُصرت کی طرف دیکھ کر پوچھا۔۔۔ ’’کیوں بی بطخ پسند ہے آپ کو۔۔۔‘‘ نصرت کھلکھلا کر ہنس دی! ان دنوں اس پر کھانے پکانے کا بھوت سوار تھا۔ وہ کبھی چینی شوربے پکاتی کبھی فرانسیسی سوفلے تیار کرتی۔ کبھی ایرانی کباب کو بیدہ کوٹتی۔ لیکن اس کے ہر کام میں آخری آنچ کی کسر رہ جاتی تھی۔ سارے گھر والے اس کی اس کمزوری سے واقف تھے۔ لیکن اعلانیہ صرف کامران اس کا بٹ بنایا۔ جو نہی وہ میز پر پہنچتا۔ ڈش اٹھا کر کہتا، ’’حاضرین یہ دو لمے ہے۔ غور سے دیکھیے۔ دولمے! ایران میں اسے ولمے برگ کہتے ہیں۔ لیکن اس وقت آپ سب اسے بلا تکلف گوبر کہہ سکتے ہیں۔ واللہ اعلم الصواب۔‘‘ کبھی کبھی وہ کھاتے کھاتے رک جاتا اور پکّا سامنہ بنا کر پوچھتا، ’’حضرت یہ کیا ہے؟‘‘ پھر وہ بڑی توجہ سے ساری ترکیب، ترکیب استعمال سب کچھ سنتا اور کہتا، ’’بی بی سیدھا آلو قیمہ کیوں نہ پکا لیا تم نے۔۔۔؟‘‘ شروع شروع میں یہ باتیں ہنسی مذاق میں ہوتی رہتیں۔ خود نصرت کو علم نہ ہوسکا کہ اس کے اندر ایک پن کشن تیار ہو رہا ہے۔ اس روز بھی معمولی دھوپ چڑھی تھی اور ایک عام سادن تھا۔ لیکن نصرت نے کئی عام دن خاص فیصلے کر کے بڑے علیحدہ کر لئے تھے۔ درزی اس کے لیے نیا بل بوٹم سی کر لایا تھا اور وہ اسے ٹرائی کرنے کے لئے پہن کر جا رہی تھی کہ کامران دانتوں سے اخروٹ توڑتا ہوا اسے نظر آگیا۔ ’’واہ کیا پاجامہ ہے! کس کی گڈی کا اتارا ہے بھئی۔۔۔؟‘‘ ’’یہ پاجامہ نہیں ہے۔۔۔‘‘ ’’ستار کا غلاف ہے پھر؟۔۔۔‘‘ ’’آپ سے کسی نے پوچھا ہے کہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ ’’ذرا انفرمیشن بڑھ جائے گی میری۔ بتا دو پلیز یہ جو تم نے پہن رکھا ہے کیا نام ہے اس کا۔۔۔‘‘ کامران نے ہونٹ لٹکا کر پوچھا۔ ’’بل بوٹم۔۔۔‘‘ ’’ہائے بوٹم لیس بل۔‘‘ ’’ہر بات میں رائے کون مانگتا ہے آپ سے خواہ مخواہ! ۔۔۔‘‘ نصرت روہانسی ہو کر بولی۔ ’’میں پاکستان کا معزز شہری ہوں۔ مجھے یہاں کے ہر معاملے میں رائے دینے کا کلی اختیار ہے۔‘‘ ’’تو رکھیے اختیار اپنی جیب میں ڈو میسائل سرٹیفیکٹ کے ساتھ۔۔۔‘‘ نصرت جھگڑ کر اندر چلی گئی اور بل بوٹم درزی کو لوٹا دیا۔ اسی پاجامے کے ساتھ ساتھ اس نے کامران کی ساری توجہ بھی واپس کر دی۔ یہی کامران دوسری لڑکیوں پر کیا خوبصورت نظمیں لکھتا تھا۔ ان کا لباس ان کی صورت، چال ڈھال سب کی تعریف کرتا تھا۔ کبھی کسی کو فرحادیبا سے ملا رہا ہے کبھی کسی کو ایواگارڈنر انگرڈبرگمن کی کاپی بتلا رہا ہے۔ کوئی اس کے نزدیک زیبا تھی کوئی مینا کماری۔ اس سارے عشق میں اُسے بطخ سے بہتر کوئی خطاب نہ مل سکا۔ نصرت چپ چاپ دور ہوتی گئی اور جب آکسیجن کافی دور ہو گئی تو شعلہ آپ سے آپ بجھ گیا۔ اب کامران ہسپتال کے دروازے کے ساتھ لگا کھڑا تھا۔ اور فلرٹ کرنے کے موڈ میں تھا۔ ’’کیسی ہیں۔۔۔‘‘ ’’ٹھیک ہیں۔۔۔‘‘ ’’کون بھلا؟‘‘ ’’آپ کی پھوپھی۔۔۔‘‘ ’’نہیں بھائی ہم پھوپھی زاد کو پوچھتے ہیں۔۔۔‘‘ نصرت نے منہ پھیر لیا۔ پتہ نہیں کیوں آج اس کی آنکھوں میں اتنی بات پر آنسو آگئے اس نے جالی کا دروازہ کھول دیا اور آہستہ سے بولی، ’’آپ خود جاکر مل لیں۔۔۔‘‘ کچھ لمحے کامران حیرانی سے اس خوب صورت سی لڑکی کو دیکھتا رہا اور پھر اندر پھوپھی کے پاس چلا گیا۔ اس سے پہلے بھی کئی بار گھر چلنے کا مشورہ ٹھہرا تھا۔ بلکہ زیادہ ووٹیں اسی بات کے حق میں تھیں کہ یہاں فالج کے مریض کو رکھنے سے کہیں بہتر ہے کہ گھر پر چل کر علاج بدل لیا جائے۔ کون جانے اللہ شفا ہی دے دے۔ کامران سے ملنے کے بعد پتہ نہیں کیوں نصرت نے ایک بار بھی مدافعت نہ کی۔ کامران کو دیکھنے کے بعد اسے اماں کی خدمت کا چائو نہ رہا تھا۔ گھر آتے ہی وہ گھر والوں سے پھرکٹ گئی۔ جیسے پان لگانے والے قینچی سے سخت ڈنڈی کاٹ پھینکتے ہیں، اسی طرح اُس نے اپنا وجود گھر والوں سے کاٹ رکھا تھا۔ اس بار اس کا جی نیم چھتی میں بھی نہ لگا۔ ہر وقت جی اکساتا کہ نیچے چل۔ شاید ابا کوئی مشورہ چاہیں۔ شاید اماں کی کیس ہسٹری ہی بتانا پڑے۔ شاید اس کی خدمت گزاری، فرماں برداری کے چرچے ہو رہے ہوں۔ ادھر اماں اب چھڑی لے کر آہستہ آہستہ چلنے لگی تھیں۔ گھر میں سیوا کرنے والوں کا ایک ہلڑ مچا تھا۔ وہ اکیلی ایک ٹوٹے آئینے کے سامنے کھڑی رہتی۔ سارے زمانے میں ٹپہ کھانے کے بعد اس کی انا اب اسی کے گرد ٹھپ ٹھپ کر رہی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کے دل میں ایک نئے عشق نے جنم لیا۔۔۔ اپنی ذات کا عشق۔ وہ پہروں بیٹھی اپنے ہی ہاتھ دیکھتی، اپنے جسم کے ایک ایک حصہ پر مساس کرتی۔ اس عشق کے باوجود دل کے کہیں اندر کوئی کہتا رہتا کوئی چیز اپنی ضرور ہونی چاہیے، ایک رسی ہی سہی جس سے انسان پھندالے کر مر جائے، ایک تیشہ ہی سہی جو اپنے آپ کو مار کر مر جائے ایک چٹکی زہر ہی سہی! پھر ایک بارش کا ریلا آیا۔ ایک شام نیم چھتی کے دروازے پر دستک ہوئی۔ ابا جی سامنے کھڑے تھے اور ان کے گریبان کے دونوں بٹن کھلے تھے۔ ’’نصرت۔۔۔‘‘ ’’جی اباجی۔۔۔‘‘ ’’تمہاری اماں کو پھر فالج کا دورہ پڑگیا ہے۔‘‘ جب وہ نیچے پہنچی تو اس کی اماں کا چہرہ چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ گھر والے زور زور سے بین کر رہے تھے۔ دروازے کے ساتھ ابا جی گم سم اس کے گریبان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کی آنکھوں میں ایک آشنا سی چمک تھی! غم آشنا چمک! اس کے قریب آنے کی ڈری ڈری سی چمک۔ نصرت نے ایک چیخ ماری اور اپنا گریبان پھاڑ ڈالا۔ اور ابا جی سے لپٹ گئی۔ اُسے یوں لگا گویا کوئی صبح کا بھولا گھر آگیا ہو۔ آج تک سب کہتے ہیں جیسا غم نصرت نے اپنی ماں کا کیا، پھر کسی گھر کی لڑکی کو نصیب نہ ہوا۔ لیکن نصرت جانتی ہے کہ ایک اس غم میں کئی اور غم بھی شامل تھے۔ نئے اور پرانے سب غم جو ایک ہی شاہراہ سے پگڈنڈیوں کی طرح ملتے تھے۔۔۔ اس سے پہلے وہ سمجھتی تھی کہ وہ عشق کی منزل سے فارغ ہو چکی ہے۔۔۔ لیکن اس کے بعد اسے پتہ چلا کہ اس منزل سے جیتے جی کوئی فارغ نہیں ہوتا۔ نہ اس منزل کی کوئی سمت ہوتی ہے نہ مقام۔۔۔ بس یہ بگولے کی طرح جہاں چاہے بیٹھ جاتی ہے۔ جہاں سے چاہے اٹھ کھڑی ہوتی ہے!
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books