aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ڈاڑھی"
نارائن بابا نے اپنی ڈاڑھی کی کھچڑی پکاتے ہوئے کہا، ’’اس لیے کہ سیتا ان کی اپنی پتنی تھی۔ سندر لال ! تم اس بات کی مہانتا کو نہیں جانتے۔‘‘’’ہاں بابا‘‘ سندر لال بابو نے کہا، ’’اس سنسار میں بہت سی باتیں ہیں جو میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ پر میں سچا رام راج اسے سمجھتا ہوں جس میں انسان اپنے آپ پر بھی ظلم نہیں کرسکتا۔ اپنے آپ سے بے انصافی کرنا اتنا ہی بڑا پاپ ہے، جتنا کسی دوسرے سے بے انصافی کرنا۔ آج بھی بھگوان رام نے سیتا کو گھر سے نکال دیا ہے۔اس لیے کہ وہ راون کے پاس رہ آئی ہے۔اس میں کیا قصور تھا سیتا کا؟ کیا وہ بھی ہماری بہت سی ماؤں بہنوں کی طرح ایک چھل اور کپٹ کی شکار نہ تھی؟ اس میں سیتا کے ستیہ اور اَستیہ کی بات ہے یا راکشش راون کے وحشی پن کی، جس کے دس سر انسان کے تھے لیکن ایک اور سب سے بڑا سر گدھے کا؟‘‘
بہتیرا جی چاہا کہ اس دفعہ ان سے پوچھ ہی لوں کہ، ”قبلہ کونین اگر آپ کو بر وقت اطلاع کرا دیتا تو آپ میرے ملیریا کا کیا بگاڑ لیتے؟“ان کی زبان اس قینچی کی طرح ہے جو چلتی زیادہ ہے اور کاٹتی کم۔ ڈانٹنے کا انداز ایسا ہے جیسے کوئی کودن لڑکا زور زور سے پہاڑے یاد کر رہا ہو۔ مجھے ان کی ڈانٹ پر ذرا غصہ نہیں آتا۔ کیونکہ اب اس کا مضمون ازبر ہو گیا ہے۔ یوں بھی اس کینڈے کے بزرگوں کی نصیحت میں سے ڈانٹ اور ڈاڑھی کو علیحدہ کر دیا جائے یا بصورت نقص امن ڈانٹ میں ڈنک نکال دیا جائے تو بقیہ بات (اگر کوئی چیز باقی رہتی ہے) نہایت لغو معلوم ہوگی۔
’’سید علی الجزائری اپنے زمانہ کے نامی گرامی شعلہ نفس خطیب تھے۔ پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ انہوں نے خطاب کرنا یکسر ترک کر دیا اور زبان کو تالا دے لیا۔ تب لوگوں میں بے چینی ہوئی۔ بے چینی بڑھی تو لوگ ان کی خدمت میں عرض پرداز ہوئے کہ خدارا خطاب فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ اچھا ہمارا منبر قبرستان میں رکھا جائے۔ اس نرالی ہدایت پر لوگ متعجب ہوئے۔ خیر۔۔۔ منبر قبرستان میں رکھ دیا گیا۔ وہ قبرستان میں گئے اور منبر پر چڑھ کر ایک بلیغ خطبہ دیا۔ اس کا عجب اثر ہوا کہ قبروں سے صدا بلند ہوئی۔ تب سید علی الجزائری نے آبادی کی طرف رخ کر کے گلو گیر آواز میں کہا۔ اے شہر تجھ پر خدا کی رحمت ہو۔ تیرے جیتے لوگ بہرے ہوگئے اور تیرے مردوں کو سماعت مل گئی۔ یہ فرما کر وہ اس قدر روئے کہ ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوگئی اور اس کے بعد انہوں نے بستی سے کنارہ کیا اور قبرستان میں رہنے لگے، جہاں وہ مردوں کو خطبہ دیا کرتے تھے۔‘‘ یہ قصہ سن کر میں نے استفسار کیا، ’’یا شیخ زندوں کی سماعت کب ختم ہوتی ہے اور مردوں کو کب کان ملتے ہیں؟‘‘ اس پر آپ نے ٹھنڈا سانس بھرا اور فرمایا۔
گوڈر کے گھر میں اس روزِسعید کی مہینوں سے تیاری تھی خدشہ تھا تو یہی کہ کہیں بیٹی نہ ہوجائے۔ نہیں تو پھر وہ ہی بندھا ہوا روپیہ اور وہی ایک ساڑھی مل کر رہ جائے گی۔ اس مسئلہ پر میاں بیوی میں باربار تبادلہ خیالات ہوچکا تھا۔ شرطیں لگ چکی تھیں۔ گوڈر کی بہو کہتی تھی کہ اگر اب کے بیٹانہ ہوا تو منہ نہ دکھاؤں۔ ہاں ہاں۔ منہ نہ دکھاؤں اور گوڈر کہتا تھا کہ دیکھو بیٹی ہوگی اور بیچ کھیت بیٹی ہوگی۔ بیٹا پیدا ہوا تو مونچھیں منڈوالوں گا۔ شاید گوڈر سمجھتا تھا کہ اس طرح بھنگن میں مخالفانہ جوش پیدا کرکے وہ بیٹے کی آمد کے لیے راستہ تیارکررہا ہے۔ بھنگن بولی۔ اب منڈوالے مونچھیں ڈاڑھی جا۔ کہتی تھی بیٹا ہوگا پر سنتے ہی نہیں اپنی رٹ لگائے۔ کھد تیری مونچھیں مونڈوں گی۔ کھونٹی تو رکھوں نہیں۔
ہم اس، نبوہ پر آفات پر غور سے نظر کر رہے تھے اور اس عالم ہیولائی کی ایک ایک بات کو تاک تاک کر دیکھ رہی تھے۔ جو سلطان افلاک کی بارگاہ سے حکم پہنچا کہ اب سب کو اختیار ہے جس طرح چاہیں اپنے اپنے رنج و تکلیف تبدیل کر لیں، اور اپنے اپنے بوجھ لے کر گھروں کو چلے جائیں۔ یہ سنتے ہی میاں وہم پھر مستعد ہوئے اور پھر بڑی ترت پھرت کے ساتھ اس انبار عظیم کے بو جھ باندھ باندھ کر تقسیم کرنے لگے۔ ہر شخص اپنا اپنا بوجھ سنبھالنے لگا اور اس طرح کی ریل پیل اور دھکم دھکا ہوئی کہ بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ اس وقت چند باتیں جو میں نے دیکھیں وہ بیان کرتا ہوں۔ ایک پیر مرد کہ نہایت معزز محترم معلوم ہوتا تھا درد قولنج سے جان بلب تھا اور لاولدی کے سبب سے اپنے مال و املاک کے لئے ایک وارث چاہتا تھا اس نے درد مذکور کو پھینک کر ایک خوبصورت نوجوان لڑکے کو لیا مگر لڑکے نا بکار کو نافرمانی اور سرشوری کے سبب سے دق ہو کر اس کے باپ نے چھوڑ دیا تھا۔ چنانچہ اس نالائق نوجوان نے آتے ہی جھٹ بڈھے کی ڈاڑھی پکڑ لی اور سر توڑنے کو تیار ہوا۔ اتفاقاً برابر ہی لڑکے کا حقیقی باپ نظر آیا کہ اب وہ درد قولنج کے مارے لوٹنے لگا تھا۔ چنانچہ بڈھے نے اس سے کہا کہ برائے خدا میرا درد قولنج مجھے پھیر دیجئے اور اپنا لڑکا لیجئے کہ میرا پہلا عذاب اس سے ہزار درجہ بہتر ہے۔ مگر مشکل یہ ہوئی کہ مبادلہ اب پھر نہ سکتا تھا۔
لیکن ان حجاموں نے ان خامیوں کا زیادہ خیال نہ کیا۔ سچ یہ ہے، یہ بات ان کے وہم و خیال میں بھی نہ آسکتی تھی کہ ایک دن انہیں یہ سب سامان بنابنایا مفت مل جائے گا۔ اپنے وطن میں وہ اب تک بڑی گمنامی کی زندگی بسر کرتے رہے تھے۔ ان میں سے ایک جو عمر میں سب سے بڑا تھا اور استاد کہلاتا تھا، اس نے کچھ مستقل گاہک باندھ رکھے تھے جن کے گھر وہ ہر روز یا ایک دن چھوڑ کر ڈاڑھی مونڈنے جایا کرتا تھا۔ اس سے عمر میں دوسرے درجے پر جو حجام تھا اس نےریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم اور لاریوں کے اڈے سنبھال رکھے تھے۔ دن بھر کسبت گلے میں ڈالے ڈاڑھی بڑھوں کی ٹوہ میں رہا کرتا تھا۔ اور دوسرے دو حجام جو نوعمر تھے، ڈیڑھ ڈیڑھ روپے یومیہ پر کبھی کسی دکان میں تو کبھی کسی دکان میں کام کیا کرتے تھے۔ اب اچانک قسمت نے ان لوگوں کو زندگی میں پہلی مرتبہ آزادی اور خودمختاری کا یہ موقع جو بخشا تو وہ بہت خوش ہوئے اور دکان کو اور زیادہ ترقی دینے اور اپنی حالت کو سنوارنے پر کمر بستہ ہوگئے۔سب سے پہلے ان لوگوں نے بازار سےایک کوچی اور چونا لاکر خود ہی دکان میں سفیدی کی اور اس کے فرش کو خوب دھویا پونچھا۔ اس کے بعد نیلام گھر سے پرانےانگریزی کپڑوں کے دو تین گٹھر سستے داموں خریدے، ان میں سے قمیصوں اور پتلونوں کو چھانٹ کر الگ کیا۔ پھٹے کپڑوں کو سیا۔ جہاں جہاں پیوند لگانے کی ضرورت تھی وہاں پیوند لگائے۔ جن حصوں کو چھوٹا کرنا تھا ان کو چھوٹا کیا اور یوں ہر ایک نے اپنے لیے دو دو تین تین جوڑے تیار کرلیے۔ اس کے علاوہ ہر ایک کو ایک ایک چادر کی بھی ضرورت تھی۔ جسے بال کاٹنے کے وقت گاہک کے جسم پر گردن سے نیچے نیچے لپیٹنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ ذرا مشکل کام تھا مگر ان لوگوں نے سایوں۔ جمپروں۔ کوٹوں اور پتلونوں کو پھاڑ کر جیسے تیسے دوچادریں بناہی لیں۔ کپڑوں کے اسی ڈھیر میں انہیں ریشم کا ایک سیاہ پردہ بھی ملا جس میں سنہرے رنگ میں تتلیاں بنی ہوئی تھیں۔ کپڑا تھا تو بوسیدہ مگر ابھی تک اس میں چمک دمک باقی تھی۔ اسے احتیاط سے دھو کر دکان کے دروازے پر لٹکادیا۔
کلہ جبڑا بڑا زبر دست پایا تھا۔ چونکہ دہانہ بھی بڑا تھا اور پیٹ کے محیط نے سانس کے لیے گنجائش بڑھا دی تھی، اس لئے نہایت اونچی آواز میں بغیر سانس کھینچے بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ آواز میں گرج تھی مگر لوچ کے ساتھ، کوئی دور سے جو سنے تو یہ سمجھے کہ مولوی صاحب کسی کو ڈانٹ رہے ہیں۔ لیکن پاس بیٹھنے والا ہنسی کے مارے لوٹ رہا ہو۔ جوش میں آکر جب آواز بلند کرتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ ترم بج رہا ہے، اسی لیے بڑے بڑے جلسوں پر چھا جاتے تھے اور پاس اور دور بیٹھنے والے دونوں کو ایک ایک حرف صاف صاف سنائی دیتا تھا۔ناک کسی قدر چھوٹی تھی اور نتھنے بھاری، ایسی ناک کو گنواروں کی اصطلاح میں ’’گاجر‘‘ اور دلی والوں کی بول چال میں ’’پھلکی‘‘ کہا جاتا ہے۔ گو متانت چھو کر نہیں گئی تھی لیکن جسم کے بوجھ نے رفتار میں خود بہ خود متانت پیدا کر دی تھی۔ ڈاڑھی بہت چھدری تھی۔ ایک ایک بال بہ آسانی گنا جا سکتا تھا۔ کلے تو کبھی قینچی کے منت کش نہ ہوئے۔ البتہ ٹھوڑی پر کا حصہ کبھی کبھی ہموار کرا لیا جاتا تھا۔ ڈاڑھی کی وضع، قدرت نے خود فرنچ فیشن بنا دی تھی۔ بالوں میں ٹھوڑی اس طرح دکھائی دیتی تھی جیسے ایکس ریز (X- Rays) ڈالنے سے کسی بکس کے اندر کی چیز۔ ٹھوڑی چوڑی اور ان کے ارادے کے پکے ہونے کا اظہار کرتی تھی۔ گردن چھوٹی مگر موٹی تھی۔ لیجئے یہ ہیں، مولوی نذیر احمد خاں صاحب۔
اب قوم تھی اور اس کے سر پر جادو ئے فرنگ۔ ہر طرف سحر سامری کا دور دورہ، ہر سمت سے دجالی تہذیب کا حملہ۔ معیار کمال یہ ٹھہرا کہ انگریزی بولنا آ جائے۔ لب و لہجہ ’’صاحب‘‘ کا سا ہو جائے۔ ڈگریاں اور امتحانات سرکاری نصیب میں آ جائیں۔ اپنی زبان بگاڑ کر بولی جائے۔ اپنی زبان اپنے علوم، اپنے ہاں کے کھانے پینے، اپنے طرز کے پہننے اور رہنے، اپنی ساری معاشرت، اپنے خاندان، اپنی برادری، یہاں تک کہ اپنے ماں باپ سے بھی شرم آنے لگے۔ اپنے ہاں کی ایک ایک چیز میں ذلت و حقارت نظر آنے لگے۔ معزز صرف’’صاحب‘‘ اور ’’میم صاحب‘‘ ٹھہر جائیں۔اپنے ہاں کی شرم و حیا، حجاب و نقاب اس لئے قابل نفرت کہ میم صاحب کے کھلے بندوں سب کچھ دیکھتی دکھاتی پھرتی ہیں۔ جن و ملائک کا شمار اس لئے اوہام میں کہ مل اور اسپنسر ان کے قائل نہیں۔ عرش کا وجود اس لئے باطل کہ جغرافیہ کی کتابوں میں اس کا ذکر نہیں۔ وحی، نبوت، توحید کے بنیادی مسائل اس لئے فرسودہ و متروک کہ پادری صاحب اپنی گڑھی ہوئی مشرکانہ مسیحیت میں ان پر دلائل عقلی نہ قائم کر سکے۔ ڈاڑھی منڈانا اس لئے واجب کہ صاحب منڈاتے ہیں۔ سود جیسی حرام کمائی اس لئے جائز کہ صاحب کے دیس میں شہر شہر بینک کھلے ہوئے ہیں۔ ’’سرا‘‘ ذلیل، ’’ہوٹل‘‘ معزز، مختار کارندہ، حقیر ’’ایجنٹ‘‘ قابل عزت۔ ’’حکیم‘‘غریب کسمپرسی میں پڑے ہوئے ’’ڈاکٹر‘‘ ہاتھوں ہاتھ لئے جا رہے ہیں۔
سچ یہ ہے انسان کو یورپ نے ہلکا کردیا ابتدا ڈاڑھی سے کی اور انتہا میں مونچھ لی
یادش بخیر! ایک صاحب تھے دیوندر ستیار تھی۔ تھے کیا، اب بھی ہیں اور اردو اور ہندی کے بہت بڑے ادیب ہیں۔ لوک گیتوں پر انگریزی میں بھی ایک کتاب چھپوا چکے ہیں۔ اسی زمانے میں وہ دلی آئے تو انہیں بھی افسانہ نگاری کا شوق چرایا۔ خاصے جہاں دیدہ آدمی تھے مگر باتیں بڑی بھولی بھولی کرتے تھے۔ بھاری بھرکم۔ قد آور آدمی، چہرے پر بہت زبردست داڑھی۔ دراصل انہوں نے اپنی وضع قطع ٹیگور سے ملانے کی کوشش کی تھی۔ ٹیگور کے ساتھ انہوں نے ایک تصویر بھی کھنچوائی تھی جس کے نیچے لکھا ہوا تھا ‘‘گرو اور چیلا’’۔ ایک طرف سفید بگلا استاد اور دوسری طرف کالا بھجنگ شاگرد۔ہاں تو ستیارتھی صاحب نے افسانے لکھنے اور سنانے شروع کیے۔ ابتدا میں تو سب نے لحاظ مروّت میں چند افسانے سنے پھر کنّی کاٹنے لگے، پھر انہیں دور ہی سے دیکھ کر بھاگنے لگے۔ مگر منٹو بھاگنے والے آدمی نہیں تھے۔ منٹو نے ایک آدھ افسانہ تو سنا۔ اس کے بعد ستیارتھی صاحب کو گالیوں پر دھر لیا۔ منٹو نے برملا کہنا شروع کر دیا ‘‘تو بہت بڑا فراڈ ہے۔ تیری ڈاڑھی ڈاڑھی نہیں ہے، پروپیگنڈہ ہے۔ تو افسانے ہم سے ٹھیک کراتا ہے اور جاکر اپنے نام سے چھپوا لیتا ہے۔’’ اور اس کے بعد مغلظات سنانا شروع کر دیں۔ مگر صاحب، مجال ہے کہ ستیارتھی کی تیوری پر بل بھی آیا ہو! اسی طرح مسکراتے اور بھولی بھالی باتیں کرتے رہے۔ میں کہتا تھا کہ اس شخص میں ولیوں کی سی صفات ہیں۔
انشورنس والے عموماً ہر اس جگہ جانے کےآرزومند رہا کرتے ہیں جہاں دوچار صورتیں مل بیٹھتی ہوں کہ شاید وہاں کوئی شکار ہاتھ آئے۔ اور بھٹناگر بھی فرخ بھابی کے ایک دوست کے ذریعے اس کے ہاں یہی مقصد لے کر پہنچا تھا، مگر یہاں اسے اپنے ڈھب کی کوئی آسامی تو نظر نہ آئی البتہ یہاں کاماحول اسے ایسا راس آگیا کہ یہ جگہ شام گزارنے کے لیے مستقل طور پر اس کاٹھکانہ بن گئی۔ڈاکٹر ہمدانی کی عمر پچاس کے لگ بھگ تھی، مگر دیکھنے میں وہ چالیس سےزیادہ کانہیں معلوم ہوتا تھا۔ گٹھا ہوا جسم، سرخ و سفید چہرہ، ڈارھی مونچھ صاف۔ سرکے بال تقریباً غائب۔ ایک آنکھ پر سنہری زنجیر والا چشمہ لگایا کرتا۔ ململ کا کرتا۔ بوسکی کا تہمد۔ پاؤں میں سلیپر۔ ہاتھ میں ایک موٹی سی چھڑی چاندی کی موٹھ والی۔ سردیوں میں اس لباس میں فقط اس قدر اضافہ ہوتا کہ پشمینے کی ایک خود رنگ چادر کو ایک خاص ڈھب سے تہہ کر، چھاتی پر لپیٹ، بغل سے نکال شانے پر اس طرح ڈال لیتا کہ اس میں ایک بارعب سیاسی لیڈر کی سی ادا پیدا ہو جاتی۔
اصغر عباس ان کا اکلوتا لڑکا تھا اور اب پاکستانی فوج میں میجر تھا۔ نہ وہ ان کو خط لکھ سکتا تھا اور اگر مرجائیں تو مرتے وقت وہ اس کو دیکھ بھی نہ سکتے تھے۔ وہ تو کشوری کے لیے مصر تھا کہ وہ اس کے پاس راول پنڈی چلی آئے۔ لیکن ڈپٹی صاحب ہی نہ راضی ہوئے کہ انت سمے بٹیا کو بھی نظروں سے اوجھل کردیں۔ وہی کشوری تھی۔ جس کی ایسے بسم اللہ کے گنبد میں پرورش ہوئی تھی اور اب وقت نے ایسا پلٹا کھایا تھا کہ وہ جون پور کے گھرکی چار دیواری سے باہر مدتوں سے لکھنؤ کے کیلاش ہوسٹل میں رہ رہی تھی۔ ایم۔ اے۔ میں پڑھتی تھی اوراس فکر میں تھی کہ بس ایم۔ اے کرتے ہی پاکستان پہنچ جائے گی۔ اور ملازمت کرے گی اور ارے صاحب آزاد قوم کی لڑکیوں کے لیے ہزاروں باعزت راہیں کھلی ہیں۔ کالج میں پڑھائیے، نیشنل گارڈ میں بھرتی ہوجائے۔ اخباروں میں مضمون لکھئے، ریڈیو پر بولیئے، کوئی ایک چیز ہے، جی ہاں۔ وہ دن گن رہی تھی کہ کب دو سال ختم ہوں اور کب وہ پاکستان اڑنچھو ہو، لیکن پھر بابا کی محبت آڑے آجاتی۔ دکھیا اتنے بوڑھے ہوگئے ہیں۔ آنکھوں سے سجھائی بھی نہیں دیتا۔ کہتے ہیں بیٹا کچھ دن اور باپ کا ساتھ دے دو۔ جب میں مرجاؤں تو جہاں چاہنا جانا، چاہے پاکستان چاہے انگلینڈ اور امریکہ۔ میں اب تمہیں کسی بات سے روکتا تھوڑا ہی ہوں۔ بیٹا تم بھی چلی گئیں تو میں کیا کروں گا۔ محرم میں میرے لیے، سوز خوانی کون کرے گا۔ میرے لیے لو کی کا حلوہ کون بنائے گا۔ پوت پہلے ہی مجھے چھوڑ کر چل دیا۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آتیں اور وہ اپنی سفید ڈاڑھی کوجلدی جلدی پونچھتے ہوئے یا علی کہہ کر دیوار کی طرف کروٹ کر لیتے۔
ادھر وکیل صاحب یہ دیکھ کر کہ یہ دکان محض ان کے گھر کے آسرے ہی پر لگائی گئی ہے، اس کی سرپرستی کرنا اپنا فرض سمجھنے لگے تھے۔ چنانچہ ماما اور نوکروں کو تاکید تھی کہ سب اسی سے سودا خریدیں اور اگر کچھ شکایت ہو یا چیزیں مہنگی معلوم ہوں تو ان کو اطلاع دیں۔ مگر سبحان کسی قسم کی شکایت کا موقع ہی نہ آنے دیتا۔ وہ نوکروں سے ہنسی مذاق کی باتیں کرکے اور ایک آدھ پان یا بیڑی مفت کھلا پلا کے ہمیشہ انہیں خوش رکھنے کی کوشش کیا کرتا۔ یوں بھی وہ ہنس مکھ اور طبیعت کا نیک تھا۔ لگائی بجھائی کی عادت نہ تھی۔ اس لیے سب سے خوب بنتی تھی۔ ٹھیلہ لگانے کے ساتھ ہی اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔ لبیں کتروانے لگا تھا۔ خشخشی ڈاڑھی۔ تنکوں کی بنی ہوئی مخروطی وضع کی ایک ہلکی پھلکی ٹوپی ہر وقت سر پر رہا کرتی۔ چارخانہ تہمد، گاڑھے کا کرتا، اس پر خاکی زین کا کوٹ۔ اپنی اس وضع سے وہ خاصا دین دار معلوم ہوتا تھا۔ حالانکہ صوم و صلوٰۃ سے اسے کوئی واسطہ نہ تھا۔ان پانچ برس میں جو اس نے وکیل صاحب کے مکان کے سائے میں گزارے تھے، وہ ان کے خاندان کے بہت سے حالات سے آگاہ ہو گیا تھا۔ اسے ایک ایک فرد کے عادات و اطوار کا علم تھا۔ یہاں تک کہ پردے میں رہنے والی عورتوں کا ناک نقشہ، ان کی سیرت اور سبھاؤ بھی اس سے چھپا ہوا نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بیگم صاحب کے سارے بچے ایک ہی چھاتی کا دودھ پی کر پلے ہیں۔ کیونکہ دوسری چھاتی میں دودھ نہیں اترتا۔ وہ جانتا تھا کہ منجھلی صاحبزادی سب بہن بھائیوں سے زیادہ غصیلی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ وکیل صاحب کے والد ماجد میر صاحب بڑقصاب تھے مگر بیٹے کے کہنے پر انہوں نے وہ پیشہ چھوڑ دیا تھا۔ غرض کئی اور ایسی باتیں جن کا وکیل صاحب کے بہت سے ملنے جلنے والوں کو سان گمان بھی نہ ہو سکتا تھا۔
نہیں معلوم کس گھڑی ہماری پیدائش ہوئی جو مسلمان گھر میں جنم لیا۔ آگ لگے ایسے مذہب کو۔ مذہب، مذہب روح کی تسلی، مردوں کی تسلی ہے! عورت بیچاری کو کیا! پانچ انگشت لانبی داڑھی لگاکے بڑے مسلمان بنتے ہیں۔ ٹٹی کی آڑ میں شکار کرتے ہیں۔ ہمارے تو جیسے جان تلک نہیں۔ آزادی کے لیے تو دیوارِ قہقہہ ہیں۔ ابا جان نے کس مصیبت سے اسکول میں داخل کیا تھا۔ مشکل سے آٹھویں تک پہنچی تھی کہ خدا بخشے دنیا سے سدھار گئے۔ سب نے فوراً ہی تو اسکول سے نام کٹا دیا اور اس موٹے مسٹنڈے، ڈاڑھی والے کے ساتھ نتھی کردیا۔ مواشیطان ہے۔ عورت کی آزادی تو آزادی۔۔۔ عورت کا جواب تک دینا گوارا نہیں کرتا۔ کیا سمندر سوکھ گئے، جو بادل نہیں آتے؟ سوگئے۔ سمندر بھی سوکھ گئے سمندر، سات سمندر پار سے آئے، ہماری بھی لٹیا ڈوب گئی۔ غڑپ، غڑپ غڑپ، غوطے لگا رہے ہیں! اپنے ہی خون میں نہارہے ہیں۔ دھوپ تو اتنی تیز ہے، بھاپ بھی نہیں بنتی۔ کاہے کی بھاپ بنے، خون تو خشک ہوگیا۔ جل کے راکھ ہوگیا۔ لیکن کیا سچ مچ بادل بھاپ کے بنتے ہیں؟ ہم تو سنا کرتے تھے کہ بادل اسپنج کی طرح ہوتے ہیں۔ ہوا میں تیرا کرتے ہیں۔ جب گرمی بہت سخت پڑی، پیاس کے مارے سمندر کے کنارے اتر پڑتے ہیں۔ خوب پانی پیتے ہیں اور پھر ہوا میں اڑجاتے ہیں اور توپوں کے خوف سے موتنے لگتے ہیں۔ تلل تلل موتنے لگتے ہیں۔ جو کچھ بھی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں، جھوٹ بکتے ہیں۔ بادل واقعی بھاپ کے نہیں ہوتے۔ جغرافیہ غلط، خوف برطانیہ درست، درست۔ یہ ہی بات ہے۔
سن تو ٹھیک یاد نہیں، ہاں پندرہ سولہ سال ادھر کی بات ہے میں حسبِ معمول لاہور گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ‘‘نیرنگِ خیال’’ گر رہا تھا اور ‘‘ادبی دنیا’’ ابھر رہا تھا۔ کرشنؔ چندر، اور راجندرؔ سنگھ بیدی خوب خوب لکھ رہے تھے۔ صلاحؔ الدین احمد اور میراجیؔ کی ادارت میں ‘‘ادبی دنیا’’ اِس نفاست سے نکل رہا تھا کہ دیکھنے دکھانے کی چیز ہوتا تھا۔ میراجیؔ کی شاعری سے مجھے کچھ دلچسپی تو نہیں تھی مگر ایک عجوبہ چیز سمجھ کر میں اِسے پڑھ ضرور لیتا تھا۔ اسے سمجھنے کی اہلیت نہ تو اس وقت تھی اور نہ اب ہے۔ اس کے مختصر سے مختصر اور طویل سے طویل مصرعے خواہ مخواہ جاذبِ نظر ہوتے تھے۔ چھوٹے سے چھوٹا مصرعہ ایک لفظ کا اور بڑے سے بڑا مصرعہ اتنا کہ ‘‘ادبی دنیا’’ کے جہازی سائز کی ا یک پوری سطر سے نکل کر دوسری سطر کا بھی آدھا پونا حصہ دبا لیتا تھا۔ خیر تو مطلب وطلب تو خاک سمجھ میں آتا نہ تھا۔ البتہ میراجیؔ کی نظم میں وہی کشش ہوتی تھی جو ایک معمے میں ہوتی ہے مگر ان کی نثر میں بلا کی دل کشی ہوتی تھی۔ مشرق کے شاعروں اور مغرب کے شاعروں پر انہوں نے سلسلے وار کئی مضامین لکھے تھے اور سب کے سب ایک سے بڑھ چڑھ کر۔ اس کے علاوہ ادبی جائزے میں جس دقّت نظر سے میراجیؔ کام لیتے بہت کم سخن فہم اس حد کو پہنچتے۔ ہاں تو میں لاہور گیا تو مال روڈ پر ‘‘ادبی دنیا’’ کے دفتر بھی گیا۔ کمرے میں داخل ہوا تو صلاح الدین احمد نظر نہیں آئے۔ سامنے ایک عجیب وضع کاانسان بیٹھا تھا۔ زلفیں چھوٹی ہوئی، کھلی پیشانی، بڑی بڑی آنکھیں، استواں ناک، موزوں دہانہ، کترواں مونچھیں، منڈی ہوئی ڈاڑھی، تھوڑی سے عزم ٹپکتا تھا۔ نظریں بنفشی شعاعوں کی طرح آرپار ہوجانے والی۔ خاصی اچھی صورت شکل تھی۔مگر نہ جانے کیا بات تھی کہ موانست کی بجائے رمیدگی کا احساس ہوا۔ گرمیوں میں گرم کوٹ! خیال آیا کہ شاید گرم چائے کی طرح گرم کوٹ بھی گرمیوں میں ٹھنڈک پہنچاتا ہو گا، دل نے کہا ہو نہ ہو میراجیؔ ہو۔ یہ تو اس شخص کی شاعری سے ظاہر تھا کہ غیرمعمولی انسان ہوگا۔ پوچھا ‘‘صلاحؔ الدین احمد صاحب کہاں ہیں؟’’ بولے ‘‘کہیں گئے ہوئے ہیں۔’’ پوچھا ‘‘آپ میراجی ہیں؟’’ بولے ‘‘جی ہاں۔’’ میں نے اپنا نام بتایا۔ تپاک سے ملے۔ کچھ دیر ان سے رسمی سی باتیں ہوئیں۔ ان کے بولنے کاانداز ایسا تھا جیسے خفا ہو رہےہوں، نپے تلے فقرے ایک خاص لہجے میں بولتے اور چپکے ہو جاتے۔ زیادہ بات کرنے کے وہ قائل نہ تھے اور نہ انہیں تکلف کی گفتگو آتی تھی۔ پہلا اثر یہ ہوا کہ یہ شخص اکھل کھرا ہے، دماغ چوئٹا ہے۔ مختصر سی بات چیت کے بعد اجازت چاہی۔ باہر نکلے تو میرے ساتھی نے کہا ‘‘ارے میاں یہ تو ڈاکو معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ضرور کوئی خون کیا ہے، دیکھا نہیں تم نے؟ اس کی آنکھیں کیسی تھیں؟’’ میں نے کہا ‘‘یہ تو اللہ ہی کو معلوم ہے کہ وہ کیا ہے۔ مگر آدمی اپنی وضع کا ایک ہے۔’’تھوڑے ہی عرصہ بعد ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ اب کے دلی میں۔ ریڈیو پر وہ تقریر کرنے آئے تھے۔ مجھ سے ملنے میرے گھر آئے۔ جب گئے تو بہت کچھ پہلا اثر زائل کر گئے۔ آدمی تو برا نہیں ہے۔ دماغ چوئٹا بھی نہیں ہے ورنہ ملنے کیوں آتا؟ پھر ایک دفعہ آئے اور بولے کہ ‘‘ریڈیو میں مُلازمت کے لیے بلایا ہے۔’’ مجھے کچھ تعجب سا ہوا کہ یہ شخص ریڈیو میں کیا کرےگا؟ بہرحال معلوم ہوا کہ گیت لکھیں گے اور نثرکی چیزیں بھی۔ تنخواہ ڈیڑھ سو ملےگی۔ میں نے کہا ‘‘تنخواہ کم ہے۔ ادبی دُنیا میں آپ کو کیا ملتا تھا؟’’ بولے ‘‘تیس روپے’’۔ میں نے حیرت سے کہا ‘‘بس!’’ کہنے لگے ‘‘مولانا سے دوستانہ تعلقات تھے۔’’ میں نے کہا ‘‘تو ٹھیک ہے۔ حساب دوستاں دردل۔’’ معلوم ہوا کہ بیوی بچے تو ہیں نہیں کیونکہ شادی ہی نہیں کی۔ اپنے خرچے بھر کو ڈیڑھ سو روپے بہت تھے۔ چنانچہ میراجیؔ ریڈیو میں نوکر ہو گئے اور ان سے اکثر ملاقات ہونے لگی اور ان کی نظمیں اور مضامین ساقیؔ میں چھپنے لگے۔ ریڈیو میں اس وقت اچھے اچھے ادیب اور شاعر جمع ہو گئے تھے۔ ن۔م۔راشدؔ، کرشنؔ چندر، منٹو، چراغ حسن حسرتؔ، اوپندر ناتھ اشکؔ، انصار ناصریؔ، میراجیؔ، اخترالایمان وغیرہ سب خوب لکھ رہے تھے۔ اور دلّی ریڈیو کا طوطی بول رہا تھا۔ راشدؔ صاحب کے مشورے سےمیراجیؔ نے دو ایک سوٹ بھی سلوائے تھے مگر انھیں کپڑے پہننے کا کبھی سلیقہ نہ آیا۔ عجیب اَولو اَولو معلوم ہوتے تھے۔ مارے باندھے سے کہیں کپڑے پہنے جاتے ہیں؟ کچھ مدت بعد میراجیؔ پھر اپنی پرانی دھج پر آ گئے۔ نہایت موٹے اور بھدے پٹو کا اچکن نما کوٹ اور اسی کا پتلون، جاڑا، گرمی، سب میں یہی گرم لباس چلتا تھا۔
میں مدت سے حیدرآباد میں ہوں۔ مولوی وحید الدین بھی برسوں سے یہاں تھے، لیکن کبھی ملنا نہیں ہوا۔ انہیں ملنے سے فرصت نہ تھی۔ مجھے ملنے کی فرصت نہ تھی۔ آخر ملے تو کب ملے کہ مولوی صاحب مرنے کو تیار بیٹھے تھے۔ گذشتہ سال کالج کے جلسے میں مولوی عبد الحق صاحب نے مجھے اورنگ آباد کھینچ بلایا۔ روانہ ہونے کے لیے جو حیدرآباد کے اسٹیشن پر پہنچا، تو کیا دیکھتا ہوں کہ اسٹیشن کا اسٹیشن اورنگ آباد جانے والوں سے بھرا پڑا ہے۔ طالب علم بھی ہیں، ماسٹر بھی ہیں۔ کچھ ضرورت سے جا رہے ہیں، کچھ بے ضرورت چلے جا رہے ہیں۔ کچھ واقعی مہمان ہیں، کچھ بن بلائے مہمان ہیں۔ غرض یہ کہ آدھی ریل ابھی اورنگ آباد کے مسافروں نے گھیر رکھی ہے۔ ریل کی روانگی میں دیر تھی۔ سب کے سب پلیٹ فارم پر کھڑے غپیں مار رہے تھے۔ میں بھی ایک صاحب سے کھڑ اباتیں کر رہا تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بڑے میاں بھیڑ چیرتے پھاڑتے، بڑے بڑے ڈگ بھرتے، میری طرف چلے آ رہے ہیں۔متوسط قد، بھاری گٹھیلا بدن، بڑی سی توند، کالی سیاہ فام رنگت، اس پر سفید چھوٹی سی گول ڈاڑھی، چھوٹی کرنجی آنکھیں، شرعی سفیدپائجامہ، کتھئی رنگ کے کشمیرے کی شیروانی، سر پر عنابی ترکی ٹوپی، پاؤں میں جرابیں اور انگریزی جوتا۔ آئے اور آتے مجھے گلے لگا لیا۔ حیران تھا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجر اہے۔ کیا امیر حبیب اللہ خاں اور مولوی نذیر احمد مرحوم کی ملاقات کا دوسرا سین ہونے والا ہے۔ جب ان کی اور میری ہڈیاں پسلیاں گلے ملتے ملتے تھک کر چور ہو گئیں اس وقت انہوں نے فرمایا، ’’میاں فرحت! مجھے تم سے ملنے کا بڑا شوق تھا۔ جب سے تمہارا نذیر احمد والا مضمون دیکھا ہے کئی دفعہ ارادہ کیا کہ گھر پر آ کر ملوں، مگر موقع نہ ملا۔ قسمت میں ملنا تو آج لکھا تھا۔ بھئی! مجھے نذیر احمد کی قسمت پر رشک آتا ہے کہ تجھ جیسا شاگرد اس کو ملا، مرنے کے بعد بھی ان کا نام زندہ کر دیا۔ افسوس ہے ہم کو کوئی ایسا شاگرد نہیں ملتا جو مرنے کے بعد اسی رنگ میں ہمارا حال بھی لکھتا۔‘‘
’’ہاں ہاں بھائی جان۔۔۔ کھانا کھاکے۔۔۔ اور پھر اپنا پائپ۔۔۔‘‘ بچوں نے شور مچایا۔ اور پھر تصویر کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی۔ ’’ارے مجھے دے۔۔۔ میں اس کی مونچھیں بناؤں گا‘‘، ایک بچہ اپنی چھوٹی بہن کے ہاتھوں سے تصویر چھیننے لگا۔ ’’نہیں، پہلے میں۔ میں ڈاڑھی بھی بناؤں گی اس کی۔ جیسی چچا میاں کی ہے‘‘ بچی نے زور لگایا۔ ’’میں اس مسز سگرڈ عثمان کے ہونٹوں میں پائپ لگا دوں گا۔‘‘ دوسرا بچہ چلایا۔ ’’واہ، لڑکیاں پائپ کہاں پیتی ہیں‘‘ پہلے بچے نے اعتراض کیا۔ ’’ممتاز بھائی جان تو پیتے ہیں‘‘ اس نے اپنی منطق استعمال کی۔ ’’ممتاز بھائی جان کوئی لڑکی تھوڑا ہی ہیں۔‘‘ سب نے پھر قہقہے لگانے شروع کردئیے۔ بوبی ممتاز انتہائی بد اخلاقی کا ثبوت دیتا کمرے سے نکل کر جلدی سے باہر آیا۔ اور اپنی اوپل تک پہنچ کر سب کو شب بخیر کہنے کے بعد تیزی سے سڑک پر آگیا۔ راستہ بالکل سنسان پڑا تھا۔ اور فروری کا آسمان تاریک تھا۔ اس کے میز بانوں کا گھر دور ہوتا گیا۔ بچوں کے شور کی آواز پیچھے رہ گئی۔ بالکل خالی الذہن ہوکر اس نے کار بے حد تیز رفتاری سے سیدھی سڑک پر چھوڑدی۔ گھر چلا جائے۔ اس نے سوچا۔ پھر اسے خیال آیا کہ اس نے ابھی کھانا نہیں کھایا۔ اس نے کار کا رخ کلب کی طرف کردیا۔
پھر ایک سہانی صبح کو دیکھا کہ مرزا دائیں بائیں دھوئیں کی کلیاں کرتے چلے آرہے ہیں۔ میں نے کہا، ’’ہائیں مرزا! یہ کیا بدپرہیزی ہے؟‘‘ جواب دیا، ’’جن دنوں سگرٹ پیتا تھا کسی اللہ کے بندے نے الٹ کر نہ پوچھا کہ میاں کیوں پیتے ہو؟ لیکن جس دن سے چھوڑی، جسے دیکھو یہی پوچھتا ہے کہ خیر تو ہے کیوں چھوڑی؟ بالآخر زچ ہوکر میں نے پھر شروع کردی! بھلا یہ بھی کوئی منطق ہے کے قتل عمد کے محرکات سمجھنے کے لیے آپ مجرموں سے ذرا نہیں پوچھتے کہ تم لوگ قتل کیوں کرتے ہو؟ اور ہر راہ گیر کو روک روک کر پوچھتے ہیں کہ سچ بتاؤ تم قتل کیوں نہیں کرتے؟‘‘ میں نے سمجھایا، ’’مرزا! اب پیمانے بدل گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاڑھی کو ہی لو۔‘‘ الجھ پڑے، ’’ڈاڑھی کا قتل سے کیا تعلق؟‘‘’’بندہ خدا! پوری بات تو سنی ہوتی۔ میں کہہ رہا تھا کہ اگلے زمانے میں کوئی شخص ڈاڑھی نہیں رکھتا تھا تو لوگ پوچھتے تھے کہ کیوں نہیں رکھتے؟ لیکن اب کوئی ڈاڑھی رکھتا ہے تو سب پوچھتے ہیں کہ کیوں رکھتے ہو؟‘‘
کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ دن میں دو بار اپنی ڈاڑھی منڈوانا چھوڑ دیں۔۔۔ میں سمجھتی ہوں کہ نارمل آدمی کی ڈاڑھی کے بال نارمل حالت میں اتنی جلدی کبھی نہیں اگتے۔ پولیس اسٹیشن جاتے ہوئے اور وہاں سے شام کو آتے ہوئے آپ کا پہلا کام یہ ہوتا ہے کہ سیلون میں داخل ہو جائیں۔۔۔میرا خیال ہے کہ آپ کو MANIA ہوگیا ہے۔ اگر آپ کا دماغی توازن درست ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ دن میں دوبار صبح و شام اپنی ڈاڑھی پر استرا پھرائیں۔ کیا سیلون کا نائی آپ کی اس عجیب و غریب عادت پر زیرِ لب کبھی نہیں مسکرایا؟اور پھر یہ آپ اپنے سر کے بال کس طور سے کٹواتے ہیں۔۔۔؟ واللہ بہت برے معلوم ہوتے ہیں۔ گردن سے لے کر کھوپڑی کے بالائی حصے تک آپ بالوں کا بالکل صفایا کرادیتے ہیں اور کانوں کے اوپر تک باریک مشین پھروا کر آخر آپ کیا فیشن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ حضرت آپ کی گردن بہت بھدی ہے اور آپ کے سر کے نچلے حصے پر پھوڑوں کے نشان ہیں جو صرف بال ہی چھپا سکتے ہیں اور کیا آپ نے کبھی غور فرمایا ہے کہ بار بار بال مونڈنے سے آپ کی گردن موٹی ہو جائے گی۔
میں خود عالم ہوں، میرے باپ دادا عالم تھے۔ بھلا میں تو اس قسم کی فضولیات کی طرف توجہ بھی نہ کرتا مگر کیا کروں ضرور ت سب خیالات پر حاوی ہو گئی اور مجھے قیام مشاعرہ پر مجبور کیا لیکن بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک تو اس شہر میں غریب اور خاص کر پردیسی غریب کو منہ نہیں لگاتے۔ دوسرے یہ کہ میری جان پہچان تھی تو مولویوں سے، وہ بھلا اس معاملے میں میرا کیا ساتھ دے سکتے تھے۔ سوچتے سوچتے نواب زین العابدین خاں عارف پر نظر پڑی۔ ان سے دو چار دفعہ ملنا ہوا تھا۔ بڑے خوش اخلاق آدمی ہیں۔ لال کنویں کے پاس ایک حویلی ہے، اس کو مدرسہ بھی کہتے ہیں، وہاں رہتے ہیں۔ کوئی تیس سال کی عمر ہے۔ گوری رنگت، اونچا قد اور نہایت جامہ زیب آدمی ہیں، البتہ ڈاڑھی بھر کر نہیں نکلی ہے۔ ٹھوڑی پر کچھ گنتی کے بال ہیں۔ غالب کے بھانجے بھی ہیں اور شاگرد بھی۔ کچھ عرصے تک شاہ نصیر سے بھی اصلاح لی ہے۔ بہر حال ان کی محبت، ان کی شرافت اور سب سے زیادہ ان کے رسوخ نے مجھے ان کی خدمت میں حاضر ہونے اور اس بارے میں ان کی امداد حاصل کرنے پر مجبور کیا۔ایک روز صبح ہی صبح گھر سے نکل کر ان کے مکان پر پہنچا۔ معلوم ہوا کہ وہ حکیم احسن اللہ خاں صاحب وزیر اعظم کے مکان پر تشریف لے گئے ہیں۔ حکیم صاحب کا مکان سرکی والوں ہی میں تھا۔ واپسی میں دروازے پر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ نواب زین العابدین خاں اندر ہیں۔ چوبدار کے ذریعے سے اطلاع کرائی۔ انہوں نے اندر بلا لیا۔ بڑا عالی شان مکان ہے۔ صحن میں نہر ہے، سامنے بڑا چبوترہ ہے اور چبوترے پر بڑے بڑے دالان در دالان۔ مکان خوب آراستہ پیراستہ ہے۔ ہر چیز سے امارت ٹپکتی ہے۔ سامنے گاؤ تکئے سے لگے نواب صاحب بیٹھے تھے۔ میں نے ان کو پہچانا بھی نہیں، سوکھ کر کانٹا ہو گئے تھے اور چہرے پر جھریاں پڑ گئی تھیں۔ میں نے سلام کر کے کیفت پوچھی، کہنے لگے، مولوی صاحب! کیا کہوں، کچھ دل بیٹھا جاتا ہے۔ بہ ظاہر کچھ مرض بھی نہیں معلوم ہوتا۔ علاج کر رہا ہوں مگر بے نتیجہ۔ بھئی، اب ہمارے چل چلاؤ کا زمانہ ہے۔ کچھ دنوں دنیا کی ہوا کھا رہے ہیں مگر یہ تو کہئے آج آپ کدھر نکل آئے؟ میں نے واقعات کا اظہار کر کے ضرورت بیان کی۔ تھوڑی دیر تک سوچتے رہے پھر ایک آہ بھر کر کہا،
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books