aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "आगरा"
یہ تب کا ذکر ہے جب میں چھوٹی سی تھی اور دن بھر بھائیوں اور ان کے دوستوں کے ساتھ مار کٹائی میں گزار دیا کرتی تھی۔ کبھی کبھی مجھے خیال آتا کہ میں کم بخت اتنی لڑاکا کیوں ہوں۔ اس عمر میں جب کہ میری اور بہنیں عاشق جمع کر رہی تھیں میں اپنے پرائے ہر لڑکے اور لڑکی سے جو تم پیزار میں مشغول تھی۔یہی وجہ تھی کہ اماں جب آگرہ جانے لگیں، تو ہفتے بھر کے لیے مجھے اپنی منہ بولی بہن کے پاس چھوڑ گئیں۔ ان کے یہاں اماں خوب جانتی تھی کہ چوہے کا بچہ بھی نہیں اور میں کسی سے لڑ بھڑ نہ سکوں گی۔ سزا تو خوب تھی! ہاں تو اماں مجھے بیگم جان کے پاس چھوڑ گئیں۔ وہی بیگم جان جن کا لحاف اب تک میرے ذہن میں گرم لوہے کے داغ کی طرح محفوظ ہے۔ یہ بیگم جان تھیں جن کے غریب ماں باپ نے نواب صاحب کو اسی لیے داماد بنالیا کہ وہ پکی عمر کے تھے۔ مگر تھے نہایت نیک۔ کوئی رنڈی، بازاری عورت ان کے یہاں نظر نہیں آئی۔ خود حاجی تھے اور بہتوں کو حج کرا چکے تھے۔ مگر انہیں ایک عجیب و غریب شوق تھا۔ لوگوں کو کبوتر پالنے کا شوق ہوتا ہے، بٹیرے لڑاتے ہیں، مرغ بازی کرتے ہیں۔ اس قسم کے واہیات کھیلوں سے نواب صاحب کو نفر ت تھی۔ ان کے یہاں تو بس طالب علم رہتے تھے۔ نوجوان گورے گورے پتلی کمروں کے لڑکے جن کا خرچ وہ خود برداشت کرتے تھے۔
یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اور میرے کمرے میں ٹہلنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیونکہ اس چھوٹی سی جگہ میں جہاں کرسیاں، میز اور چارپائی سب کچھ پڑا تھا۔ ٹہلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میز کے پاس اسے رکنا پڑا۔ تصویر کو اب کی دفعہ گہری نظروں سے دیکھا اور کہا، ’’اس میں اور اس میں کتنی مشابہت ہے۔۔۔ مگر اس کے چہرے پر ایسی شوخی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی تھیں۔ مگر ان آنکھوں کی طرح ان میں شرارت نہیں تھی۔ وہ فکر مند آنکھیں تھی۔ ایسی آنکھیں جو دیکھتی بھی ہیں اور سمجھتی بھی ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک سرد آہ بھری اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ موت بالکل ناقابلِ فہم چیز ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ یہ جوانی میں آئے۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے علاوہ ایک طاقت اور بھی ہے جو بڑی حاسد ہے۔ جو کسی کو خوش دیکھنا نہیں چاہتی۔۔۔ مگر چھوڑیے اس قصّے کو۔‘‘میں نے اس سے کہا، ’’نہیں نہیں، آپ سناتے جائیے۔۔۔ لیکن اگر آپ ایسا مناسب سمجھیں۔۔۔ سچ پوچھیے تو میں یہ سمجھ رہا تھاکہ آپ نے کبھی محبت کی ہی نہ ہو گی۔‘‘
چتوڑ ہو یا آگرہایسے نہیں قلعے کہیں
اب تو ذرا سا گاؤں بھی بیٹی نہ دے اسےلگتا تھا ورنہ چین کا داماد آگرہ
عیدن بائی آگرے والی، چھوٹی عید کو پیدا ہوئی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس کی ماں زہرہ جان نے اس کا نام اسی مناسبت سے عیدن رکھا۔ زہرہ جان اپنے وقت کی بہت مشہور گانے والی تھی، بڑی دور دور سے رئیس اس کا مجرا سننے کے لیے آتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ میرٹھ کے ایک تاجر عبداﷲ سے، جو لاکھوں میں کھیلتا تھا، اسے محبت ہو گئی، اس نے چنانچہ اسی جذبے کے ماتحت اپنا پیشہ چھوڑ دیا۔ عبداﷲ بہت متاثر ہوا اور اس کی ماہوار تنخواہ مقرر کر دی کوئی تین سو کے قریب۔ ہفتے میں تین مرتبہ اس کے پاس آتا، رات ٹھہرتا، صبح سویرے وہاں سے روانہ ہو جاتا۔
غالب، بلوہ۔۔۔؟ ابھی تک۔ حسین علی خاں، (چیخ کر) آپ سن نہیں رہے ہیں۔ ہماری گلی میں سے لوگ بھاگتے ہوئے جارہے ہیں۔
میں انتہائے عمر ناپائیدار کو پہنچ کر آفتاب لب بام اور ہجوم امراض جسمانی اور آلام روحانی سے زندہ درگور تھا۔ کچھ یاد خدا بھی چاہیے تھی۔ نظم و نثر کی قلمروکا انتظام ایزد دانا و توانا کی عنایت و اعانت سے خوب ہوچکا، اگر اس نے چاہا تو قیامت تک میرا نام و نشان باقی اور قائم رہے گا۔ غالب بقول حضرت حافظ زفیض عشق
نامور ادیب اور شاعر مرحوم سید اکبر حسین اکبرؔ الہ آبادی اپنی روشن خیالی کے باوجود مشرقی تہذیب کے دلدادہ تھے اور وضع کے پابند۔داڑھی منڈوانے کا روا ج ہندوستان میں عام تھا۔ لیکن لارڈ کرزن جب ہندوستان آئے تو ان کی دیکھا دیکھی مونچھ بھی صفایا ہونے لگی۔ پہلے پہل خان بہادر سید آل نبی وکیل آگرہ اور مسٹر مظہر الحق بیرسٹر نے لارڈ کرزن کی تقلید کی۔ پھر تو انگریزی دانوں میں عام رواج ہوگیا۔ چنانچہ آپ نے اس کی ہجو میں حسب ذیل قطعہ ارشاد فرمایا،
آگرہ شہر میں محبت کاایک مینار جگمگاتا ہے
صبح کا وقت تھا۔ ٹھاکر درشن سنگھ کے گھر میں ایک ہنگامہ برپا تھا۔ آج رات کو چندر گرہن ہونے والا تھا۔ ٹھاکر صاحب اپنی بوڑھی ٹھکرائن کے ساتھ گنگا جی جاتے تھے۔ اس لیے سارا گھر ان کی پرشور تیاری میں مصروف تھا۔ ایک بہو ان کا پھٹا ہوا کرتا ٹانک رہی تھی۔ دوسری بہو ان کی پگڑی لیے سوچتی تھی کہ کیوں کر اس کی مرمت کروں۔ دونوں لڑکیاں ناشتہ تیار کرنے میں محو تھیں، جوزیادہ دلچسپ کام تھا۔ اور بچوں نے اپنی عادت کے موافق ایک کہرام مچ رکھا تھا۔ کیوں کہ ہر ایک آنے جانے کے موقع پر ان کا جوش گریۂ امنگ پر ہوتا تھا۔ جانے کے وقت ساتھ جانے کے لیے روتے۔ آنے کے وقت اس لیے روتے کہ شیرینی کی تقسیم خاطر خواہ نہیں ہوئی۔ بوڑھی ٹھکرائن بچوں کو پھسلاتی تھیں۔ اور بیچ بیچ میں اپنی بہوؤں کو سمجھاتی تھیں، دیکھو خبردارجب تک آگرہ نہ ہوجائے گھر سے باہر نہ نکلنا۔ ہنسیا، چھری، کلہاڑی ہاتھ سے مت چھونا، سمجھائے دیتی ہوں۔ ماننا چاہے نہ ماننا۔ تمھیں میر ی بات کی کون پرواہ ہے۔ منہ میں پانی کی بوند نہ پڑے۔نارائن کے گھر بپت پڑی ہے جو سادھو بھکاری دروازہ پر آجائے۔ اسے پھیرنا مت۔ بہوؤں نے سنااور نہیں سنا۔ وہ منارہی تھیں کہ کسی طرح یہاں سے ٹلیں۔ پھاگن کا مہینہ ہے۔گانے کو ترس گئے آج خوب گانا بجانا ہوگا۔ٹھاکر صاحب تھے تو بوڑھے۔ لیکن ضعف کا اثر دل تک نہیں پہنچا تھا۔ انھیں اس بات کا گھمنڈ تھا کہ کوئی گہن بغیر گنگا اشنان کے نہیں چھوٹا۔ ان کی علمی قابلیت حیرت انگیزتھی۔ صرف پتروں کو دیکھ کر مہینوں پہلے سورج گرہن اور دوسری تقریبوں کے دن بتادیتے تھے۔ اس لیے گاؤں والوں کی نگاہ میں ان کی عزت اگر پنڈتوں سے زیادہ نہ تھی تو کم بھی نہ تھی۔جوانی میں کچھ دنوں فوجی ملازمت بھی کی تھی۔ اس کی گرمی اب تک باقی تھی۔ مجال نہ تھی کہ کوئی ان کی طرف تیکھی آنکھ سے دیکھ سکے۔ ایک مذکوری چپراسی کو ایسی علمی تنبیہ کی تھی جس کی نظیر قرب وجوار کے دس پانچ گاؤں میں بھی نہیں مل سکتی۔ ہمت اور حوصلہ کے کاموں میں اب بھی پیش قدمی کرجاتے تھے کسی کام کو مشکل بنادینا۔ ان کی ہمت کو تحریک دیتا تھا۔ جہاں سب کی زبانیں بند ہوجائیں وہاں وہ شیروں کی طرح گرجتے تھے۔ جب کھبی گاؤں میں داروغہ جی تشریف لاتے تو ٹھاکر صاحب ہی کا دل گردہ تھا کہ ان سے آنکھیں ملا کر دوبدوبات کرسکیں۔عالمانہ مباحثہ کے میدان میں بھی ان کے کارنامے کچھ کم نہ تھے۔ جھگڑالو پنڈت ہمیشہ ان سے منہ چھپایا کرتے تھے۔ غرض ٹھاکر صاحب کی جبلی رعونت اور اعتماد و نفس انھیں ہر بات میں دولہابننے پرمجبور کردیتی تھی۔ ہاں کمزوری اتنی تھی کہ اپنی آلہا بھی آپ ہی گا لیتے۔ اور مزے لے لے کر۔ کیوں کہ تصنیف کو مصنف ہی خوب بیان کرتا ہے۔
جانتے ہو۔۔۔؟ اگر ان تین راتوں میں اوستانہ پڑھی جائے تو سروش (۵) رواںکی مدد نہیں کرتا۔۔۔ رواں کے لیے پہلی تین راتیں بہت بھاری ہیں جو اسے نو ہزار راتیں معلوم ہوتی ہیں۔۔۔ انبوہ در انبوہ دیو آکر اسے ڈراتے ہیں۔ لیکن ان ہی تین راتوں میں سروش پُل۶؎ پر اس کی رہبری کرتا ہے۔۔۔ نیک رواں کو امیتا سپند پل چنوات پر سے گزار لے جاتے ہیں۔ مقدس ارواح اور فردوس کی حوریں پُل کے سرے پر زر مایہ روغنا (۷) سے اس کا خیر مقدم کرتی ہیں۔ وہ تا قیامت مسرور رہتی ہے۔ چوتھے روز طلوع آفتاب سے قبل آفرنگاںؔ کی تلاوت کی گئی تاکہ رواںؔ برزخ میں سے نکل جائے۔ دستور آدھی رات کو آکر گھر کی دہلیز پر کھڑے ہو کے پس ماندگان کو اطلاع دیتے ہیں۔۔۔ اب متوفی کی رواں فلاں مقام پر ہے۔۔۔ اب فلاں جگہ پہنچ چکی ہے۔۔۔ پاپا اور ماما کے لیے بھی انہوں نے یہی کیا داراب—! مجھےیقین ہے پایا اور ماما کی روحیں اب فردوس میں موجود ہوں گیرومال سے پلکیں خشک کرتی ہے) داراب: (چند لمحوں بعد، گہری آواز میں) مجھے بھی یقین ہے ماوموزیل۔
اس کے جی میں کیا یہ آئی یہ اسے کیا ہو گیاخود چھپا عالم سے اور خود عالم آرا ہو گیا
تو غرض یہ کہ راوی دریا کویوں کوزے میں بند کرتا ہے کہ کنول کماری کے میاں کا تقرر اس جگہ پر ہوا (انگریز حاکموں کی اصطلاح میں صوبے کا ضلع اسٹیشن کہلاتا تھا) اور نئے حاکم ضلع کے اعزاز میں کنور نرنجن داس رئیس اعظم جون پور نے (کہ یہ سارا کا سارا ایک نام تھا) اپنے باغ میں بڑی دھوم کی دعوت کی۔ چبوترے پر زر تار شامیانہ تانا گیا۔ رات گئے تک جلسہ رہا۔ بیبیوں کے لیے اندر علاحدہ دعوت تھی۔ مصرانیوں نے کیا کیا کھانے نہ بنائے۔ مسلمان مہمانوں کے لیے باؤلے ڈپٹیوں کے وہاں سے باورچی بلوائے گئے تھے ( باؤلے ڈپٹیوں کا ایک خاندان تھا۔ جس میں عرصہ ہوا ایک ڈپٹی صاحب کا دماغ چل گیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ پورا خاندان باؤلے ڈپٹیوں کا گھرانا کہلاتا تھا) کہار آواز لگاتے۔ اجی باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں سے سواریاں آئی ہیں اتروالو۔ مہریوں سے کہا جاتا، ارے باؤلے ڈپٹیوں کے ہاں نیوتہ دیتی آنا ری رام رکھی۔ جھاڑو ڈپیٹی۔
’’لیکن وہ مجھے صرف پانچ روپے ماہوار دیتا ہے۔۔۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے میرے شباب کی تمام رنگینیوں پر اپنی ہوس پرستیوں کی سیاہی الٹ دی ہے۔ میں آگرہ میں پڑا ہوں، میری بیوی دہلی میں ہے۔ میرے اس یہودی باپ نے میرے اور اس کے درمیان ایک خلیج حائل کردی ہے۔ میں اس سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ وہ خوبصورت اور پڑھی لکھی ہے، مگر وہ مجبور ہے۔۔۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی مجھے پاگل سمجھتی ہو۔ اب میں اس کا فیصلہ کردینا چاہتا ہوں، میں نے اپنی تین پتلونیں اور تین کوٹ بیچ دیے ہیں۔ اب میں دہلی جارہا ہوں۔ دیکھا جائے گا جو ہوگا۔‘‘’’آپ اپنی بیوی کے پاس جارہے ہیں؟‘‘ میں نے اس سے دریافت کیا۔
فراق گورکھپوری آگرہ یونیورسٹی میں انٹر سائنس کے طالب عالم تھے۔ تمام مضامین میں تو وہ اچھے نمبر حاصل کرتے لیکن فزکس میں اکثرفیل ہوجاتے۔ ایک روز کالج کے پرنسپل نے انہیں بلاکر پوچھا، ’’بھئی کیا بات ہے، باقی مضامین میں تو تمہارا نتیجہ بہت اچھا رہتا ہے لیکن فزکس میں کیوں فیل ہوجاتے ہو؟‘‘فراق نے برجستہ جواب دیتے ہوئے کہا، ’’جناب اس لیے کہ میں فزیکلی کمزور ہوں۔‘‘
رکھتا ہے گو قدیم سے بنیاد آگرہاکبر کے نام سے ہوا آباد آگرہ
لکھی تھی غزل یہ آگرہ میںپہلی تاریخ جنوری کی
شاہ جہاں بادشاہ نے آگرہ کی مچ مچاتی گرمی سے بچنے کے لئے دلی کو حکومت کا صدر مقام بنانے کے لئے پسند کیا اور جمنا کے کنارے قلعہ معلیٰ کی نیو پڑی۔ یہاں ہو کا عالم تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے جمنا کے کنارے کنارے ہلالی شکل میں شہر آباد ہونا شروع ہو گیا۔ ہزاروں مزدور قلعہ کی تعمیر میں لگ گئے۔ ان کے بال بچے، کنبے، قبیلے والے سب مل ملا کر لاکھ ڈیڑھ لاکھ آدمی تو ہوں گے۔ ان کی ضروریات پوری کرنے کے لئے سودا سلف بیچنے والے بھی آ گئے۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں اور کچے مکانوں کی آبادی میں خاصی چہل پہل رہنے لگی۔ لال قلعہ کے پہلو میں دریا گنج کے رخ متوسلین شاہی اور امیر امرا کے محلات، ڈیوڑھیاں اور حویلیاں بننی شروع ہو گئی۔ ادھر قلعہ کے سامنے پہاڑی پر جامع مسجد ابھرنی شروع ہوئی۔ شہر کے بازاروں کے نقشے بنے، جہاں اب پریڈ کا میدان ہے، یہاں اردو بازار، خانم کا بازار اور خاص بازار تھا۔ چاندنی چوک یہی تھا اور قلعہ کے چوک پر ختم ہوتا تھا۔ جابجا نہروں اور باغوں سے شہر کو سجایا گیا تھا۔ جب قلعہ کی تعمیر مکمل ہوئی اور بادشاہ نے اس میں نزول اجلال فرمایا تو شاہ جہاں آباد سج سجا کر دلہن بنا۔ پہلا دربار ہوا تو بادشاہ نے خزانے کا منہ کھول دیا۔ مغل شہنشاہوں کی بے انتہا دولت پانی کی طرح بہنے لگی اور رعایا فارغ البال اور مالا مال ہو گئی۔ بادشاہ کے حکم کے مطابق بازاروں میں دنیا زمانے کی چیزیں موجود۔ اس کے علاوہ فرمان ہوا کہ روز مرہ سودا گلی گلی اور کوچے کوچے پھیری والے آواز لگا کر بیچیں، چنانچہ دلی میں یہی دستور چلا آتا تھا کہ گھر بیٹھے ایک پیسے سے لے کر ہزار روپے کی چیز پھیری والوں سے بازار کے بھاؤ خرید لو۔
صدر آرا تو جہاں ہو صدر ہےآگرہ کیا اور الہ آباد کیا
اللہ بخشے مرزا عظیم بیگ چغتائی بھی عجب خوبیوں کے آدمی تھے۔ سدا کے مرجیوڑے۔ پیدا ہوئے تو اتنے نحیف و کمزور کہ روئی کے پہلو پر رکھے گئے۔ بڑے ہوئے تو روگی مرجین۔ اللہ کا دیا گھر میں سب کچھ موجود تھا۔ ددھیال بھی جاندار تھی اور ننھیال بھی ساونٹی۔ ان کے والد قسیم بیگ چغتائی یوپی میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ آبائی وطن آگرہ تھا۔ یہیں ان کی جدی جائداد بھی تھی۔ مرزا عظیم بیگ چغتائی کے نانا مُنشی امراؤ علی تھے۔ جو اب سے نصف صدی پہلے کے مشہور ناول نگار تھے۔ ان کی تصانیف ’’رزمِ بزم‘‘اور ’’البرٹ مل‘‘ ایک زمانے میں بہت مقبول تھیں۔ مرزا صاحب کے والد بڑے ٹھاٹ کے آدمی تھے۔ سرسید کی آنکھیں دیکھے ہوئے علی گڑھ کے ابتدائی گریجویٹس میں سے تھے۔ اپنے زمانے کے اچھے کھلاڑیوں میں شمار ہوتے تھے۔ ورزش کا بھی شوق تھا۔ سواری کے لیے منہ زور سے منہ زور گھوڑے تلاش کرکے رکھتے تھے۔ بڑے طاقت ور آدمی تھے۔ ایک بلی نے گھر والوں کو بہت عاجز کر رکھا تھا۔ ایک دن وہ ان کے ہاتھ آگئی۔ ہاتھ اس کی کمر پر پڑا۔ چاہتے تھے کہ اسے گھر سے باہر اچھال دیں مگر وہ کم بخت کلائی میں لپٹ گئی۔ انہیں بھی تاؤ آگیا۔ اسنے اپنے پنجوں اور دانتوں سے ان کی کلائی ادھیڑ دی مگر انہوں نے بھی اپنے پنجے کی گرفت اتنی سخت کی کہ اس کی ہڈی پسلی ایک ہوگئی اور اسے اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کا دم نہ نکل گیا۔ ویسے وہ بڑے خوش مزاج آدمی تھے اور چھوٹے بڑے سب سے اچھی طرح پیش آتے تھے۔چغتائی صاحب چونکہ پیدا ہی کمزور ہوئے تھے اس لیے اور بچوں کے مقابلے میں ان کی طرف والدین کی توجہ زیادہ رہتی تھی۔ لاڈ پیار میں پلے۔ کچھ گھر پر پڑھا، کچھ اٹاوہ کے اسکول میں۔ اس کے بعد علی گڑھ سے بی اے اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔ کالج ہی کے زمانے میں نواب مزمل اللہ خاں کے ہاں ملازمت بھی کرلی تھی۔ کیونکہ شادی ہوگئی تھی اور اخراجات پورے نہ ہوتے تھے۔ اسی زمانے میں مضمون نگاری بھی شروع کردی تھی، بلکہ بچوں کی کہانی ’’قصرِ صحرا‘‘ کا پہلا حصہ میٹرک پاس کرنے سے پہلے ہی لکھ چکے تھے۔ اس کے باقی دو حصے بعد میں لکھے۔ محنتی اور ذہین بہت تھے۔ جسمانی کمزوری کی تلافی دماغی قوت سے ہوگئی تھی۔ کالج کے زمانے میں اسلامی تاریخ کے سلسلے میں مذہب کا بھی مطالعہ کرڈالا۔ اور حدیث و فقہ سب چاٹ گئے۔ علی گڑھ والوں کی طرح یہ بھی آزاد خیالی اور مغربیت کے دلدادہ تھے۔ قدامت پسندوں اور اور مذہبی خیال والوں سے ان کے مباحثے رہنے لگے۔ انہیں اس میں بھی مزہ آتا تھا کہ دوسروں کو چھیڑیں، ستائیں، جلائیں۔ حدیثیں ازبر تھیں۔ مُستند کتابوں کے حوالے یاد تھے۔ بڑے دھڑلّے سے قائل کردیتے تھے۔ اس کے بعد یہ نوبت آگئی کہ شرط لگاکر بحث کرتے تھے۔ مثلاً اگر تم جیت گئے تو ہم ڈاڑھی رکھ لیں گے اور اگر ہم جیت گئے تو تمہاری ڈاڑھی مونڈ لیں گے۔ بہت سے تو شرط کی نوعیت ہی سے گھبراکر بھاگ جاتے اور اگر کوئی ہمت کرکے جم گیاتو سمجھو کہ اس کی شامت آگئی۔ سب لڑکوں کو نیوتا دے دیا جاتا۔ شام کو ایک جم غفیر کی موجودگی میں بحث شروع ہوتی۔ کتابیں کھولی جاتیں، دلیل کی تصدیق یا تردیدکی جاتی۔ آخر میں نہ جانے کیا ہوتا کہ چغتائی ہی ہمیشہ جیت جاتے۔ پھر کسی منچلے کے ہاں سے شیو کا سامان منگایا جاتا اور نہایت احتیاط سے ڈاڑھی مونڈ کر محفوظ کرلی جاتی۔ اس طرح انہوں نے کئی ڈاڑھیاں جیتی تھیں۔ ایسا بھی ہوتا تھا کہ جیتی ہوئی ڈاڑھی بیچ دی جاتی تھی۔ وہ اس طرح کہ ہارے ہوئے مولانا سے اس کی مناسب قیمت لے لی جاتی اور ان کی ڈاڑھی بخش دی جاتی۔ اس ’’قصاص‘‘ سے یار لوگ مٹھائی منگاتے اور سب کو شیرینی تقسیم کی جاتی۔ ایسے ہی ایک مباحثے میں چغتائی صاحب ایک دفعہ ہار گئے۔ انہیں ڈاڑھی رکھنی پڑی۔ اس وقت کی ایک تصویر بھی تھی جسے میں نے ’’کامران‘‘ کے سرورق پر چھاپا تھا۔ خدا جانے پھر کیا کفارہ ادا کرکے اس سے نجات پائی۔
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books