aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "मुशाहिद"
مشاہد جمال پری کی تھی آنکھیںمکان وصال اک طلسمی مکاں تھا
پھر بھی یہ ماننا پڑتا ہے کہ بلبلے کا استعارہ (آدمی بلبلا پانی کا، دریا بہ معنی دریائے حیات، بلبلے کی کم ثباتی اور بے معنویت کا تصور) اپنے مابعد المعنی معانی کی وجہ سے بھلا معلوم ہوتا ہے۔ غالب نے ’’جلوہ‘‘ کا لفظ رکھا ہے، بجائے ’’عین دید‘‘ کے جو یک معنی ہے۔ جلوہ موضوعی منظر کو کہتے ہیں جو غیر حقیقی ہوتا ہے۔ جلوہ کسی شے کے معروضی ظہور کو بھی کہتے ہیں۔ ’’رنگ باختن‘‘ بمعنی ضائع کرنا، آگہی بمعنی عقل وہوش۔ آگہی مجھ سے کہہ رہی ہے کہ یہ دنیا تو دھوکا ہے۔ اس کا تماشا کیا دیکھتا ہے۔ کھلی آنکھ کو وہم ہے کہ وہ دیکھ رہی ہے، حالانکہ دراصل وہ کچھ دیکھتی نہیں۔ اصل تماشا تو بند آنکھیں دیکھتی ہیں۔ یہ کہہ کر آگہی میرے تماشے کو ضائع کر رہی ہے (مجھے دیکھنے نہیں دیتی۔) حالاں کہ مجھے معلوم ہے کہ جب میں آنکھ کھولوں گا (واقعی دیکھنا شروع کروں گا) تو جلوہ (موضوعی منظر) رخصت ہو جائےگا، اور میں وہ شے دیکھ لوں گا جو اس جلوے کی اصل ہے۔ اس طرح شعر کچھ نو افلاطونی سا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن ’’تماشا باختن‘‘ بمعنی تماشے کا کھیل کھیلنا، یعنی سوانگ رچانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس طرح مطلب بہ ظاہر الٹا نکلتا ہے۔ جلوہ بہ معنی معروضی منظر ہو جاتا ہے۔ آگہی (بہ معنی عقل یا Reason) میرے سامنے تماشے کا سوانگ رچا رہی ہے۔ اصل تماشا تو آنکھ بند کر کے ہی نظر آ سکتا ہے۔ آنکھ کھلی نہیں کہ منظر غائب ہوا۔ لیکن ’’چشم وا گردیدہ‘‘ کے معنی وہ آنکھ بھی لیے جا سکتے ہیں جو پہلے بند تھی لیکن اب کھل گئی ہے۔ اگر ایسا ہے تو مفہوم یہ بھی نکل سکتا ہے جو آنکھ بند تھی اسے بند ہی رہنا چاہیے، لیکن جو پہلے سے کھلی ہوئی تھی، وہ کچھ اور منظر دیکھ رہی تھی۔ اس منظر کا یہاں ذکر نہیں، اسے متصور ہی کیا جا سکتا ہے۔ وہ آنکھ جو بند تھی (چشم از خواب نکشادہ) اس کا بند رہنا بہتر تھا، کیوں کہ اس طرح وہ خواب عدم کے تماشے میں محو تھی۔ جو آنکھ پہلے سے کھلی ہوئی ہے (ممکن ہے وہ خدا کی آنکھ ہو جو ازل سے واہے، ممکن ہے وہ عارف کامل کی آنکھ ہو، جو خواب عدم میں بھی وجود کا تماشا دیکھتی تھی، اب وجود میں آئی ہے تو آگہی سے بے نیاز ومبرا ہے۔) اس کو کچھ مشکل نہیں۔
روز مشاہد رہتے تھے ہم شام تلکپھر سورج کا ماتھا چوما کرتے تھے
جس طرح ایک دکاندار کا بیٹا اپنی نئی دکان کھولنے کا شوق رکھتا ہے اور اس شوق کا اظہار مختلف طریقوں سے کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح ویشیاؤں کی جوان لڑکیاں اپنا پیشہ شروع کرنے کا بڑا چاؤ رکھتی ہیں، چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایسی لڑکیاں نت نئے طریقوں سے اپنے جسم اور حسن کی نمائش کرتی ہیں۔ جب وہ اپنی تجارت کا آغاز کرتی ہیں تو باقاعدہ رسوم ادا کی جاتی ہیں۔ ایک خاص اہتمام کے ماتحت یہ سب کچھ کیا جاتا ہے جیسا کہ دوسرے تجارتی کاموں کی بنیاد رکھتے وقت خاص رسوم کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ ان حالات کے تحت جیسا کہ ظاہر ہے، متذکرہ صدر قسم کی ویشیاؤں کے دل میں عشق پیدا ہونا مشکل ہے، یہاں عشق سے ہماری مراد وہی عشق ہے، جو ہمارے یہاں عرصہ دراز سے رائج ہے۔ ہیر رانجھا اور سسّی پنوں والا عشق۔ایسی ویشیائیں عشق کرتی ہیں، مگر ان کا عشق بالکل جدا قسم کا ہوتا ہے۔ یہ لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھے والا عشق نہیں کر سکتیں۔ ا س لئے کہ یہ ان کی تجارت پر بہت برا اثر ڈالتا ہے، اگر کوئی ویشیا اپنے اوقات تجارت میں سے چند لمحات ایسے مرد کو دے جس سے اسے روپے پیسے کا لالچ نہ ہو تو ہم اسے عشق و محبت کہیں گے۔ اصولاً ویشیا کو صرف مرد کی دولت سے محبت ہوتی ہے، اگر وہ کسی مرد سے اس کی دولت کی خاطر نہیں بلکہ صرف اس کی خاطر ملے تو یہ اصول ٹوٹ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی ظاہر ہو جائے گا کہ اس ویشیا کی جیب نہیں بلکہ اس کا دل کار فرما ہے۔ جب دل کار فرما ہو تو عشق و محبت کے جذبے کا پیدا ہونا لازمی ہے۔
مشاہد کو لگا آسان ہے طوفان میں اڑنازمیں سے عرش تک دوبھر پرندے سے ذرا پوچھو
ہوں شاہد تنزیہہ کے رخسار کا پردہیا خود ہی مشاہد ہوں کہ پردے میں چھپا ہوں
تو ٹھہرے ہوئے پانی میںروانی کی مشاہد
مری تاریک راتوں کے مشاہدجھروکے کھڑکیاں ہیں اور میں ہوں
"ارے بھائی یہ اتنا بڑا ستون گاڑنے کی بھلا کیا ضرورت پیش آئی؟ ایک عذاب ڈال دیا ہے "۔ یہ نیا مسئلہ ایسے پیش آیا کہ جب بجلی کے محکمےوالوں نے حساب لگایا تو ان کواپنی ماہانہ آمدنی میں اچھا خاصا خسارہ نظر آیا۔ ان کو اس بات کا پکا یقین تھا کہ ہماراسارا محلہ بجلی چوری میں ملوث ہے ۔ بجلی کے میٹر گھروں کے اندرتھے سو ان کا ارادہ یہ بنا کہ تمام لوگوں کے میٹر اسی کھمبے پر نصب کیئے جائیں۔ دیکھتے دیکھتے وہاں اچھا خاصہ شہد کا چھتہ سا بن گیا جس پر بجلی کے میٹربڑی بڑی شہد کی مکھیوں کی مانند ورد کرتی بھنبھنا نے لگیں۔ اس کھمبے سے البتہ لوگوں کی آمدورفت میں سخت مشکل پیش آنے لگی۔ ہمارا محلہ آرام باغ میں ایم اے جناح روڈ کے آس پاس ہے اور ایک ضمنی بات بتاتا چلوں یہ نام کا آرام باغ ہے، آرام وغیرہ یہاں ناپید ہے۔ مت پوچھئے صاحب یہاں تجاوزات کی بھر مار ہےآئے دن حکومت کی دھمکیاں اور اس سےلوگوں میں تناو کی کفیت رہتی ہے، جینا محال ہوگیا ہے۔ بجلی چوری جو میں نے دیکھی ہے اس سےمجھے اپنے بچپن کی ایک بات یاد ہے ۔ اس زمانے میں بجلی کے میٹرکالے رنگ کے ہوا کرتے تھے اور ان میں ایک پہیہ مسلسل چکر کھاتا رہتا تھا جس میں ایک سرخ کمان نما نشان ہوتا تھا۔ بلقیس خالہ کو اس سے بڑی چڑ تھی اور وہ کہتی ہوتی تھیں "ارے دیکھیو یہ پہیہ جو موئی چکی کی طرح چل ریا ہے اسے تو دیکھو ذرا۔ ساری بتیاں گل کردی ہیں میں نے لیکن یہ ہے چکر پہ چکر کھائے جا ریاہے اور میرے سینے پر مونگ دل ریاہے، کچھ کیجو اس کا" خالو سب سے پہلے تو بجلی والوں کے دفترگئے اور ان کا ایک آدمی بھی آیا جس نے اپنی دبیز عینکوں کے پیچھے سے اس چکر کھاتے پہیئے کا بغور مشاہدہ کیا، پھر اپنا سر کجھایا اور دوبارہ کچھ سوچ کر ایک پتلےپلاس نما اوزار سے اس سیل کا تار کتر دیا جو اس بات کی ضمانت تھی کہ میٹر کو کسی نے نہیں چھیڑا تھا۔ میٹر کھول کر اس نے ایک محدب عدسے سے پہئیے کو دوبارہ دیکھا اور پھر ایک باریک پیچ کس سے کچھ ڈبریاں ہلانے کی کوشش کیں لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئیں۔ آخر میں ناامیدی سے سر ہلاتے اپنے رجسٹر میں کچھ لکھا اور نفی میں سر ہلایا۔ "لگتا یہ ہے کہ اس کے پیچ گھس گئے ہیں ۔ میں اس کو آہستہ یعنی اس کے اصل رفتار پر نہیں لا سکتا"۔ "تو اب اس کا کیا علاج ہو؟" "ہنہ، میں نیا میٹر لگوا سکتا ہوں" "اور یہ موا نیا میٹر کتنے کا آئے گا؟" کمرے میں پردے کے پیچھے سے بلقیس خالہ نے بڑبڑاتی آواز میں کراہت سے کہا " نہیں محترمہ میٹر ہم لگا کے دیں گے، اپنی جیب سے، یعنی یہ محکمے کی ذمہ داری ہے ۔ آپ کو اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں بھرنا ہوگا۔ یہ دیکھیں میں نے نوٹ کر لیا ہے کہ اس کے پیچ گھس گئے ہیں یا شاید گراری کے دندانےٹوٹ گئے ہیں، بس چند ہی دنوں کی بات ہے" تین دن بعد نیا میٹر لگ گیااور واقعی بڑی گراری کی رفتار اب بہت آہستہ تھی یا یوں کہیئے مناسب تھی۔خالہ نے سر ہلاتے اور مٹھیاں بھینچتے ہوئے نئے میٹر کا بغور مشاہدہ کیا " ہنہ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پچھلے دو تین سالوں سے ہم نے دگنا یا تگنا بل بھرا ہے" "رہنے دوبلقیس بیگم اب اس کا کیا کریں، عاقبت میں کام آئے گا" "عاقبت واقبت کو چھوڑیں آپ۔ کسی طریقے سے اس کو مذید اآہستہ کریے، آپ نے سنا نہیں وہ مو ا بلی وا لاکہہ ریاتھا کہ اس کے اندر گراری یا موا پیچ سا ہوتا ہے۔ اب وہ تو تھا نگوڑاپرانا میٹر ، جس کی پیچ گھس چکی تھی لیکن یہ تو نیا ہے۔ کوئی طریقہ ایسا کریئےکہ بس یہ موا آہستہ ہوجائے۔ مجھے تو تب ہی چین کی نیند آئے" "آپ نے شاید یہ نہیں دیکھا کہ یہ کام ایک باریک پیچ کس سے ہوتا ہے اور وہ تو خیر کہیں سے دستیاب ہو ہی جائے گالیکن اس دھات کی بنی تار کا کیا کروں؟ یہ سیل توڑوں گا تو اگلے مہینے جب وہ سالا میٹر ریڈنگ والاآئے گا تو اس کو تو صاف پتہ چل جائے گا اور دھر لئے جائے گے۔۔ ہم دونوں۔۔۔ جیل بھی ہو سکتی ہے" خالہ نے قریب جا کر نئے چمکتےمیٹر کا مشاہدہ کیا جو رنگ میں کالا تھا اور تقابل کےکسی درجے میں ایک صندوق کی طرح تھا۔ اس کے دونوں پٹوں کو جوڑنے کے لئے دو ہونٹ نما ابھار تھے جس کے درمیان چاندی کی طرح چمکتی ایک تار تھی جس کو تاو دیا گیا تھا اور پھر اس پر سیسے کی سیل لگا دی گئی تھی۔ "مجھے کچھ نہیں پتہ، مجھے تو اپنے پیسے واپس چاہئیں" ناظم خالو نے لانڈھی میں ایک دوست سے پوچھا تو اس نے کہا " ارے یہ بھی کوئی بات ہے پریشانی کی؟ " پھر اس نے میٹر کے داہنی طرف والی درز سے ایکسرے فلم کی ایک پتری ۔۔تیر نما۔۔کاٹ کر ایسے گھسا دی کی کہ وہ پھسل کر پہیئے کو چھونے لگی اور پہیہ رک ک کر چلنے لگا۔ " جب میٹر والا آئے تو آپ پتری نکال دیجئے گا۔ ادھر وہ وہ ریڈنگ لے اور گھر سے نکلے ادھر آپ یہ پتری دوبارہ گھسا دیجئے گا" یہ سب ٹھیک تھا اور ایک طرح سے معاملہ حل ہوگیا۔ اس میں البتہ ایک قباحت تھی اور وہ یہ کہ اس بات کا خیال رکھنا پڑتا تھا کہ دن میں کچھ گھنٹے میٹر بغیر پتری کے رہے ورنہ اگر میٹر پیہم مدھم چلتا رہےتو خدا نخواستہ ان کو شک بھی ہو سکتا تھا۔ ۔ بے ایمان ہونا الگ بات ہے اور کسی کا ہے ایمان ثابت ہونا باالکل ہی الگ بات ہے۔ جب یہ مسئلہ حل ہوا تو اب حساب کی باری آئی اور یہ کہنا خاصا مشکل تھا کہ محکمے نے ان سے کتنے پیسے آہستہ میٹر کی مد میں اینٹھے تھے۔ اسے کوئی بجلی چوری کہے یا برامدگی مال لیکن کچھ حساب جوڑ کر خالو نے یہ تخمینہ ضرور لگایا کہ اگر ساڑھے ایک سو اکتیس دن میٹر اسی آہستہ روش پر چلے تو ان کے تین سالوں کا حساب محکمے سے واپس وصول ہوجائے۔ ہوتے ہوتے ساڑھے ایک سو اکتیسواں دن آگیا "اب بس۔ ہمارا حساب ان کے ساتھ برابر ہوگیا میرا خیال ہے اس چھپن چھپائی کو اب ختم ہونا چاہیئے" لیکن یہ چھپن چھپائی ختم نہ ہو سکی۔ وہ اس لئے کہ جو پیسے اس حیلے سے بچت قرار پائے وہ دوسرے کاموں میں استعمال ہونا شروع ہوگئے تھےاوراگر اب اس میزان کے توازن کو چھیڑتےتو اپنا پیٹ کاٹنے والی بات ہوتی۔ پھر اس بات پر فیصلہ ہوا کہ آمدن اور خرچ کے اس نسبت کو اسی صورت برقرا ر رکھا جائےاور پتری کو فی الحال نہ چھیڑاجائے اور اگر کچھ پیسے بچ جاتے ہیں تو وہ صدقے میں دئے جائیں۔ زبانی کلامی دوسری بات لیکن گھر میں عاقبت ثانوی حثیت کی حامل تھی۔ اس قسم کی بجلی چوری البتہ نئے ڈیجیٹل میٹروں میں ممکن ہی نہ تھی لیکن پھر بھی بجلی کے محکمے والوں کا اصرار تھا کہ تمام میٹر باہر آئیں گے ۔اس میں ایک فائدہ تھا اور وہ یہ کہ گھروں میں خواتین کا پردہ قائم رہے گا کیونکہ کوئی پرایا مرد گھروں کے اندر جا کر ریڈنگ نہیں لے گا، لیکن بس صرف یہی فائدہ تھا ۔ اس بھدے اور بے ہنگم ستون نما کھمبے سے لوگوں کو کوفت ہوئی اور امین بھائی جن کی بغیر بتی کی موٹر سائکل پچھلی رات اس سے ٹکرائی تھی خاصے ناراض تھے۔ اگلی شام اس کے بیٹے نے اپنے کمپیٹور سے کچھ اشتہار چھاپے اور پورے محلے میں بانٹ دئےت۔ اس رات جواد بھائی کے گھر ایک میٹنگ بلائی گئی۔ "ہمیں یہ کھمبا یہاں سے ہرصورت ہٹانا ہوگا" یہ سنا تو زبیری صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور بنا ایک لفظ کہے اپنے بیٹے کو آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کیا اور وہ دونوں گھر سےنکل گئے۔ ان کی دیکھا دیکھی تین اور آدمی بھی وہاں سے کھسک گئے۔ نوید بھائی تنی بھنویں اور مکے بنا بنا کر بولے "یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ میرا لونڈا ابھی سہراب گوٹھ سے اپنے دوستوں کو بلاتا ہے اور کل تک اس کھمبےکو اکھاڑ دیتا ہے، اس میں کوئی مشکل نہیں ۔۔ ایک گھنٹے کا کام ہے بس" "نہیں نہیں نوید بھائی اس طرح تو کافی مسئلہ ہوجائے گا ۔ یاد نہیں غفار بھائی نے اپنے گھر کے سامنے اسپیڈ بریکر بنائی تھی جس پر بلدیئے والے خاصےبرہم ہوئے اور انہوں نے اس کو غیر قانونی تجاوزات کا نام دے کر نہ صرف ہٹوایا بلکہ ان کو اچھا خاصا جرمانہ بھی بھرنا پڑا ۔ یاد کریں پولیس بھی درمیان میں آئی تھی۔۔ یہ طریقہ ٹھیک نہیں۔۔آپ ان سے لڑ نہیں سکتے۔۔ آخر کو یہ کوئی راہ چلتے ٹھگ نہیں ، حکومت کی پشت پناہی حاصل ہے ان کو " توفیق بھائی نے انتہائی بھاری آواز میں حد درجہ آہستگی سے انہیں سمجھایا۔اس سے کچھ غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی ۔ "ہاں نوید آپ بھائی ٹھیک ہی کہتے ہیں اکھاڑنا مشکل کام تو نہیں لیکن یہ بھی دیکھیں توفیق بھائی کی بات بھی غلط نہیں۔ پولیس کا مسئلہ ضرور پیداہوگا کیونکہ نظر یہ آتا ہے کہ شاید سرکاری کھمبا اس طرح اکھاڑنا غیر قانونی کام ہے۔ میری صلاح ہے کوئی متبادل طریقہ نکالیں۔۔بیچ کا۔۔ جو قابل قبول ہو" اپنے خلاف رائے یوں ابھرتی دیکھی تو نوید بھائی اٹھ کر کھڑے ہوگئے ، لرزنے لگے اور ان کا چہرہ غصے سےتمتمانے لگا "پھر یہ کھمبا ضرور ہٹا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی آپ لوگوں میں عمل کی اتنی کمی کیوں ہے کہ محض اس امکان کے متعلق سوچتے ہوئے کہ پولیس کود پڑے گی، آپ پر مرگی کے دورے شروع ہوجاتے ہیں ہیں۔ ارے دیکھ لیں گے سالی پولیس کو ،بلدیہ کو اور بجلی کے محکمے کو، ایسی کی تیسی۔ ۔ ایک بات یہ بھی بتائیں اگر قانون کی اتنی ہی پاسداری کرنی ہے تو ہم میں سے جو بجلی چوری کرتا ہے وہ بجلی چوری بند کیوں نہیں کرتا؟" نعمان بھائی بیچ میں آگئے اور کہا "نوید بھائی آپ خوامخوہ حساس ہورہے ہیں یہ معاملہ بجلی کے محکمےکا نہیں حکومتی عمل داری کا ہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ زور زبر دستی سےہم پورے کراچی کو یرغمال بنا لیں گے ؟ مفت کی بجلی کے مزے لوٹیں گے؟ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا بہرحال ایک غیر قانونی اور غلط طرز عمل ہے" "آپ کے گھر ایک موٹی ایرکنڈیشن کی تار سیدھی کھمبے سے گئی ہے تو میری بات تو ہوگی ہی غیر قانونی۔ خیر میرا تاثر یہ ہےکہ آپ میں سےکسی میں بھی دم خم نہیں۔۔ میں چلا ۔ ۔جب آپ کوئی حل نکال لیں تو مجھے اطلاع دے دیجئے گا لیکن یاد رکھیں لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے" جعفری صاحب جو ہم میں سب سے ادھیڑ عمر والے تھے اور سخت ماضی پرست قسم کے آدمی تھے ہونٹ کاٹنے لگے "یہ معاملے وہاں نہیں تھے بھائی ۔ وہاں تو شائستہ اور سلجھے ہوئے لوگ تھے۔۔ علیک سلیک والے۔۔ عید عزاداری ساتھ مل کر منانے والے۔۔ یہاں آکر یہ مسائل جھیلنے پڑ رہے ہیں۔۔ دس دس عیدیں ہو رہیں ہیں ۔۔آوے کا آوہ بگڑا ہوا ہے۔۔کوئی سنتا ہی نہیں" "قبلہ جعفری صاحب آپ بھی بس پرانی باتوں کو لے بیٹھے ۔ہمارے سامنے ایک کھمبے کا مسئلہ ہے ۔۔ آج کا مسئلہ۔۔ دو ہزار ایک کا۔۔ ایک آپ ہیں کہ ابھی تک سن سنتالیس کو رو رہے ہیں" بحث جاری رہی اور آخر میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ ہم میں سے تین لوگ بجلی کے محکمے میں جائیں گے اور ان سے درخواست کریں کہ کھمبے کو راستے سے ہٹائیں۔ بجلی کے محکمے والا آدمی انتہائی معمر تھا۔ اس نے اپنے بوسیدہ واسکٹ کی جیب میں ایک چھوٹا اور چوکور سا ریڈیو رکھا ہوا تھا جس سے ہلکی سرمئی رنگ کی دو تاریں پیچ کھاتے نکل کر اس کے داہنے کان میں گھس رہی تھیں ۔اس مشینری سے استعفادے کے باوجود وہ سماعت سے تقریبا عاری تھا۔ جب ہم نے کافی کوشش کرکے دیکھ لیا کہ جب تک ہم چیخ کر آسمان سر پر نہ اٹھا لیں وہ نہیں سنتاتو عباس بھائی نے اندازہ لگایا۔ "میرا خیال ہے اس آلے کی بیٹریاں ڈھل گئیں ہیں" پھر اس نے ، اس سے پہلے کہ وہ معمر آدمی، جن کا نام یا تخلص امید تھا ، کچھ سمجھتا، اس کی جب سے ریڈیو نکال کر مداری کے سے انداز میں پھرتی سے اس کی بیٹریاں جھٹک کر نکال لیں اور دو ثانیوں میں اسے دانتوں سے چبا کر اور پھر دونوں ہتھلیوں میں رگڑ رگڑ کر گرم کیں اور اس ہی چابک دستی سے جب دوبارہ اس چوکور ریڈیو میں ڈالیں تو اس آدمی کو سنائی دینے لگا۔عباس بھائی نے فاتحانہ انداز میں میری طرف دیکھا. "بیٹریوں کے اندر برقی مصالحہ ہوتا ہے اور وہ چبانے سے تازہ ہوجاتا ہے اور نردی بیٹریاں فعال ہوجاتی ہیں" مجھے نہیں علم کہ ان کے کرتب کے پیچھے کونسی سائنسی وجہ تھی لیکن جب ہم نے اپنا مسئلہ دوبارہ امید صاحب کے سامنے رکھا تو اس نے ایک لمبی سانس بھری۔ "یہاں مسئلہ پیچیدہ ہے اور اس کے اندر دو گہرائیاں ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ اس بات میں شک نہیں کہ یہاں بجلی کی چوری ہوتی ہے اور یہ بات اعلی سطح کے اجلاس میں طے ہوچکی ہے کہ تمام آرام باغ کے میٹر اب باہر آئیں گے ۔ دوسری بات کھمبے کا متبادل طریقہ ڈھونڈناہے اور اصل مشکل یہاں ہے۔۔ آپ سادہ الفاظ میں ایسا سمجھیں کہ کھمبے پر سرکار کا خرچہ آیا ہے اور اب اس کو اکھاڑنے پر بھی خرچہ آئے گا" پھر اس نے میری جیب میں قلم کی طرف دیکھا جس پر" یو- بی -ایل "لکھا ہوا تھا "آپ کیا کام کرتے ہیں؟" "میں بینک میں ملازم ہوں، لیکن اس کا اس بات سے کیا تعلق؟" "دیکھیں صاحب اولا تو یہ بات ناممکن ہے کہ محکمہ کھمبا اکھاڑ کے لے جائے گا کیونکہ اس میں وقت لگے گا، درخواستیں دینی پڑیں گی۔ چلیں اگر ہم تمام محکمانہ کاروائی کو ، جو عموما دس مہینے چلتی ہے کسی مفروضے کے تحت دو دن شمار کرلیں اور بالفرض محکہ یہ درخواست مان بھی جائے پھر بھی میٹر وں کے لئے متبادل جگہ تو چاہیئے" یہ کہتے ہوئے اس نے فائلوں کے ایک انبار کی طرف اشارہ کیا "یہ درخواستیں دیکھ رہیں ہیں آپ؟ ایک ایک درخواست کو چھانٹ کر دیکھنے میں مہینے لگتے ہیں" پھر اس نے ایک نقشے کی طرف اشارہ کیا "اس گلی میں نکڑ والی دکان کے اوپر ہم سارے میٹر لگا سکتے ہیں، یوں کھمبا بیچ سے ہٹ جائے گا ، سانپ بھی مر جائے گا۔۔" "اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی" عباس بھائی نے لقمہ دیا دو دن کے مفروضے والی بات ہمیں بعد میں سمجھ آئی۔اصل میں مجھے بینک کا مینجر سمجھ کر امید صاحب مجھ سے کچھ قرضے اور باقی سب سے کچھ رشوت کی امید لگا بیٹھے۔ ہم نے ان کو صاف انکار تو نہیں کیا لیکن گھر چلے آئے تاکہ اس مسئلے پر از سر نو مشورہ کر سکیں۔ جب ہم نے کھمبے کے متبادل مقام کا ذکر کیا تو نکڑ والی دکان ، جو سعید بھائی کے لونڈے کی تھی اور جس میں اس کے ویڈیو گیم کا بزنس تھا، انہوں نے وہاں بجلی کے میٹر لگانے سے صاف انکار کر دیا "میاں ہم غازی آباد کے سادات ہیں۔۔رشوت نہ تو میرے اجداد نے لی ہے اور نہ ہم دیں گے، مجھے اس مسئلے سے باہر ہی سمجھیں" "آپ اس کو رشوت ہی کیوں کہتے ہیں ؟یہ تو چائے پانی ہے" وہ نہ مانے اور اپنی بات پر اڑے رہے۔ ان کے ٹوٹنے کے بعد گروپ میں پندرہ لوگ رہ گئے ۔ دو بندوں نے ان کا اصولی موقف سراہا ضرورلیکن اس مسئلے کے حل میں ہمارے ساتھ شامل رہے۔ ہم سب سر جوڑ کے بیٹھے رہے کہ نقوی صاحب نے پان سے لتھڑے ہوئے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ "ارے اس کی باتوں میں نہ آئیو اس کے لونڈے نے اتنی موٹی تار کھمبے سے سیدھی اپنے دکان میں اڑسی ہوئی ہے، کھمبا ہٹے گا تو اس کی روزی روٹی کا مسئلہ بنے گا۔ بڑے پارسا ہیں جیسے ہم جانتے نہیں۔۔ غازی آباد کے سادات ہیں۔۔ہنہ ہر کوئی اٹھ کر سادات بنا پھرتا ہے" ہم نے نئے زاویئے سےپورے مسئلے کو دیکھا ۔ امید صاحب نے جو حل بتایا تھا اب وہ ممکن نہ رہا اور اگرچہ ایک تجویز یہ بھی سامنے آئی کہ کچھ روپے جوڑ کر سعید بھائی کو دے دئے جائیں تو شاید۔۔۔" میں گھر آیا تو بیوی نے آڑے ہاتھوں لیا "ضرورت کیا ہے ان مسئلوں میں الجھنے کی، میری ایک بات کہیں لکھ رکھیں یہ لوگ یہ کھمبا نہیں ہٹانے لگے۔ میری سنیں اس سیاست سے دو رہیں تو بہتر ہے " "کیسے نہیں ہٹانے لگے؟ ہم کوئی غیر قانونی بات تھوڑی کر رہے ہیں، ہمارا حق ہے یہ" اگلی شام کو مراد بھائی بھی میٹنگ میں آئے جو مقامی ناظم کے چچیرے بھائی تھے۔ انہوں نے اس بے ربط گروپ میں ایک نئی روح پھونک دی۔ "جدو جہد ہمیشہ ایک گروپ ہی سے ممکن ہے۔۔اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا اور اس گروپ کا نام ہوگا۔۔ "۔ وہ رک سے گئے جیسے نام سوچ رہے ہوں کئی لوگوں نے نام تجویز کئے جیسے؛ کھمبا ہٹاو گروپ، تنظیم رہ کشائی، اینٹی کھمبا وغیرہ و وغیرہ۔ ان میں سے کوئی بھی نام ایسا ابھر کر نہ آیا جس کے اندر ایک نرالی جہت ہو لیکن آخر کار رضوی صاحب کے تجویز کردہ نام پر سب میں جیسے بجلی کوندی "تنظیم آرام"۔ اب جب تنظیم وجود میں آگئی اور نام پر بھی اتفاق ہوگیا تو اس کے لئے ایک نعرے کا انتخاب بھی ضروری پایا ۔" کھمبا ہٹاو راستہ کھولو "، "آرام باغ کو آرام دو" جیسے نعرے زیر بحث آئے اور آخر میں "کھمبے کو ہٹانا ہوگا، آرام کو بچانا ہوگا" پر سب لوگ متفق ہوگئے۔ اس شام جب میٹنگ ختم ہوئی تو سب کے دلوں میں اطمینان تھا کہ اب ہماری جدو جہد رنگ لائے گی اور یہ کھمبا جو اس گلی کے سینے میں ایک خنجر کی طرح پیوست تھا اب وہاں سے ہر حالت میں ہٹے گا اور میٹر گھروں کے اندر آئیں گے" اگلی صبح مراد بھائی دوسرے محلوں سے بھی کچھ لوگ لے آئے جس کے دیکھا دیکھی ہمارے محلے کے کچھ لوگ جو گروپ چھوڑ کے جا چکے تھے ،دوبارہ ہمارے ساتھ شامل ہوگئے۔ ہوتے ہوتے اگلی شام سو سے اوپر لوگ اس گروپ میں آگئے۔ سب ہشاش بشاش ، چہرے جوش سے تمتما رہے تھے۔ "پہلے مرحلے میں ہمیں اس کھمبے پر کچھ لکھ کر چسپاں کرنا ہوگا" "اس کا کیا فائدہ ہوگا مراد بھائی؟" "فائدہ ہے۔ دشمن کو للکارنا مطلوب ہے، ببانگ دہل" مرادبھائی نے اپنی بات شروع کی تو سب نے خاموشی اختیار کی۔ "اس سے مسئلے کو اجاگر کرنا ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہمیں بجلی کے محکمے میں خود جانا پڑے گا، ایک جلوس کی شکل میں لیکن پر امن، انتہائی پر امن" "جلوس بھلا کیسے پر امن رہ سکتا ہے مراد بھائی دیڑھ سو سے اوپر بندہ ہے ، لا محالہ کچھ نا خوشگوار واقعہ پیش آ سکتا ہے اور اس کی ذمہ داری پتہ نہیں کس پر ہوگی۔ میرا خیال ہے اس پورے ہنگامے میں پڑنے کی بجائے، کھمبے کو اس کی جگہ پر رہنے دیتے ہیں"۔ لوگوں میں چہ میگویاں شروع ہوئیں، کچھ نے تائید اور کچھ نے مخالفت کی۔ معاملے کو یوں ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر مراد بھائی نے سب کو خاموش رہنے کا حکم دیا "خاموش !آپ لوگوں کو یہ باتیں اب یاد آرہی ہیں، اب عمل کا وقت ہے کہ سندھ کی حکومت کو بتایا جائے کہ عوام پر ظلم اور نا انصافی نا قبول ہے۔ یہ ٹھٹہ یا سکھر نہیں آرام باغ ہے"۔ مولوی تاثیر مدنی صاحب بھی ان کی حمایت میں بولے "یہ کھمبا ہٹانا ہمارے اوپر واجب کے درجے میں آتا ہے، یہ دینی حمیت کا تقاضہ ہے" اگلے دن ہم نے ایک جلوس کی شکل میں آرام باغ سے چلنا شروع کیا اور بجلی کے دفتر جا پہنچے۔ شروع میں ان کو سمجھ نہیں آئی اور وہ شاید کوئی جنازہ یا بارات سمجھ بیٹھے لیکن جب ہم ان کےدفتر کے بالکل سامنے کھڑے ہوگئے تو ان کا انچارج باہر آیا اور صرف اتنا کہا کہ میرا نام بشیر احمد ہے اور پھر ہم سے کچھ پوچھنا چاہا کہ نعرہ بازی شروع ہوگئی۔ وہ گھبرا کر اندر گیا اور پولیس کو فون کیا کہ ملاکنڈکے لوگ سرکاری املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ قریبی تھانوں سے دو ایک حوالدار اور پندرہ سولہ کانسٹیبل شور مچاتی گاڑیوں میں آگئے اور ہمارے اور دفتر کے بیچ رکاوٹیں کھڑی کیں۔ تھوڑی دیر بعد کندھے پر چمکتے ستاروں والا کوئی مجاز افسر آیا اور میگا فون سے کہا "آپ لوگوں کا یہ اجتماع غیر قانونی ہے اور یہ دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ لوگوں کا لیڈر ملاکنڈ میں گرفتار ہوچکا ہے۔ آپ لوگ یہاں سے ہٹ جائیں ابھی" مراد بھائی کو ابھی تک اس پوری صورتحال کا جائزہ لے رہے تھے، اونچی اواز میں بولے "ہم مقامی لوگ ہیں ۔۔ہم کوئی دنگا فساد نہیں چاہتے، ہماری کچھ مانگیں ہیں جو ہم واپڈا کے مجاز افسر کے ساتھ مذاکرا ت میں سامنے رکھناچاہتے ہیں ۔ ہم یہاں مسئلہ حل کرنے آئے ہیں، لڑنے مارنے نہیں آئے ہیں" میں ، مراد بھائی، عباس بھائی اور ویڈیو گیم والے سعید بھائی کا لونڈا مذاکرات کے لئے اندر گئے۔ لمبی بحث ہوئی اور وہاں کھمبے کی اصل وجہ سامنے آئی جو وہ نہیں تھی جو ہم سمجھ رہے تھے۔ معاملہ خوش اسلوبی کے ساتھ طے پایا۔ کھمبا وہیں کا وہیں رہا۔ باہر آکر مراد بھائی نے ایک لمبی تقریر کی اور وسیع تر قومی مفاد کی خاطر کی خاطر جلوس سے منتشر ہونے کی استدعا کی۔ اس کے بعد ہم وہاں سے روانہ ہوگئے۔ بعد میں لاٹھی چارج ہوا ، آنسو گیس کے شیل چلےیا کچھ اور لیکن اتنا ضرور پتہ چلا کہ کچھ لوگ ہسپتال پہنچے اور کچھ تھانے۔ ہم البتہ گھر آگئے۔ اگلے ہفتے مجھے، مراد بھائی ، عباس بھائی اور ویڈیو گیم کی دکان والے کو چھوٹے مقناطیس لگے ڈبے بسم اللہ الیکٹرونک مارکیٹ سے دستیاب ہوئے جو مراد بھائی نےرات کی تاریکی میں کھمبے سے لگے اپنے، میرے، عباس بھائی اور سعید بھائی کے میٹروں کی عقب میں مہارت سے چپکا دئے ۔ "اب سب ٹھیک چل رہا ہے" اگلے ہفتے آرام باغ کے دو اور محلوں میں کھمبے گاڑ دیئے گئے اور اسی شام جمیل بھائی کے گھر میٹنگ بلائی گئی۔
ہوا ہے شہہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتاوگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے
سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازمہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے
بس اک مصاحب دربار کے اشارے پرگداگران سخن کے ہجوم سامنے ہیں
ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسومملتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیںورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
کچھ بھی کہتے ہیں کہیں شہہ کے مصاحب جالبؔرنگ رکھنا یہی اپنا اسی صورت لکھنا
ہم شیخ نہ لیڈر نہ مصاحب نہ صحافیجو خود نہیں کرتے وہ ہدایت نہ کریں گے
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگوبنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
ذکر عرب کے سوز میں، فکر عجم کے ساز میںنے عربی مشاہدات، نے عجمی تخیلات
اصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہےحیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں
میں اردو نثر اور اردو رسالوں اور اخباروں کی کثرت اور آب و تاب کو دیکھ کر بھی خوش ہوں۔ رقعات غالب گویا اس بات کی پیشین گوئی تھے۔ یہ سب صحیح لیکن دلی کی پچھلی صحبتیں یاد آگئیں اور دل کو تڑپا گئیں۔ اب نہ ذوق ہیں نہ مومن، نہ شیفتہ نہ داغ، نہ حالی نہ مجروح، نہ انور۔ خیر شعر و شاعری ہی تو ساری زندگی نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ملک پھر جاگ رہا ہے۔ اس کی تمام قومیں مل کر ایک نئی زندگی پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔ اپنا شعر مجھے یاد آیا، ہم موحد ہیں ہمارا کیش ہے ترک رسوم
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books