ننگے زخم
مہینے کی پہلی تاریخ کا تصور کسی کے لیے خوش آیند ہوتا ہو تو ہو؛ میرے لیے تو سارے سوئے ہوئے فتنوں کو جگانے کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ غلہ والا، دودھ والا، مالک مکان، ملازم، دھوبی، بھنگی، نائی بچوں کی فیس۔ پہلی تاریخ چپکے سے اس طرح نہیں چلی آتی جس طرح ولی دکنی کی محبوبہ دلنواز ان کے گھر آتی تھی،
ولی اس گوہر کان وفا کا واہ کیا کہنا
مرے گھر اس طرح آوے ہے جو سینے میں راز آئے
پہلی تاریخ تو اپنے جلو میں بڑی ہنگامہ آرائیاں، بڑی حشرت سامانیاں لیے بالکل مخدوم محی الدین کی مرضی کے مطابق کچھ اس طرح آتی ہے،
حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو
چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو
لیکن آنے والی پہلی تاریخ تو خاص طور پر میرے لئے مصائب کا ایک پہاڑ لے کر کھڑی تھی۔ اس پہاڑ کی چڑھائی ہلاری اور رتین سنگھ کے کارناموں سے کسی طرح کم نہ تھی، جنہوں نے ایورسٹ کو فتح کرلیا تھا۔
ایورسٹ کے فاتح تو زندگی میں ایک بار ایورسٹ کو زیر کر کے امر ہوگیے۔ یہاں یہ عالم تھا کہ جسم و جاں کی ساری قوتیں اور دل و دماغ کی ساری توانائیاں صرف کر کے اگر میں آنے والے مہینے پر فتح پالیتا تو بھی کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ میری طرح کتنے ہی ایسے فاتح ہوں گے جو ایک ایورسٹ پر چڑھ کر دوسرے ایورسٹ کا بوجھ جپکے سے اپنے سینے پر رکھ لیتے ہیں۔ لیکن تاریخ کے جن صفحات میں ان کے نام محفوظ ہیں، ان صفحات کو عرف عام میں دفتر کے رجسٹر یا قبر کے کھتے کہا جاتا ہے جنھیں کوئی تاریخ کا طالب علم دیکھنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ یہ صفحات اس کے نصاب کی کتابوں سے خارج کردیے گیے ہیں یا پھر شامل ہی نہیں کیے گیے۔
میں اسی پہاڑ کی بلندیوں تک پہنچنے کی انتھک کوشش میں یخ بستہ ماحول کے درمیان کھڑا ہانپ رہا تھا کہ مجھے ایک ہلاری مل گیا، میرے اس ہلاری کا نام تھا جتیندر۔جتیندر میرے آفس کے ساتھیوں میں سب سے کم عمر تھا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی تھی لیکن وہ عمر کی اس منزل پر تھا جہاں عورت اپنے حسن اور رعنائی سے قطع نظر کر کے بھی صرف عورت ہونے کے ناتے خیال و خواب کا ایک جہان بن جاتی ہے۔ ایک کائنات بن جاتی ہے۔۔۔ اور جتیندر اسی کائنات میں لمبی لمبی گہری سانسیں کھینچ کر کسی بھی عورت کی اس تازگی کو اپنے میں حلول کرلینا چاہتا تھا جو اس کی نس نس سے کنوار پن کے پھیلائے ہوئے زہر کو نچوڑ سکے۔
عورت تک پہنچنے میں اس کے راستے کی رکاوٹ وہ پہاڑ نہ تھے جو پہاڑ میری اپنی بیوی اور میرے اپنے بچوں کے درمیان حائل ہوگیےتھے، کسی بھی مہینے کی پہلی تاریخ اس کے لیے کبھی بھی ’سوغات‘ لے کر نہ آتی تھی جو سوغات میرا اپنا مقدر بن گیے تھے۔ اس کی محرومی سچ پوچھئے تو اس کی بیمار بہن تھی جو عمر میں اس سے بڑی تھی۔ لیکن اس کے باوجود جتندر کی بیوہ ماں اپنی اکلوتی بیٹی کی سیج نہ سنوار سکتی تھی جو کچی کلیوں اور ادھ کھلے پھولوں سے کسی بھی پھول والے کے پاس بنوائی جا سکتی تھی۔ لیکن جتیندر کی بہن سیج کے لائق اس لئے نہ تھی کہ اس کا بیمار جسم پھولوں کی ٹھنڈی خوشبو کا متحمل ہی نہ ہوسکتا تھا۔ اس کی سانسوں سے دنیا بھر کی دواؤں کی بو آتی تھی اور اسی سے بچنے کے لیے جتیندر نے اپنے خیالوں کی دنیا کو عورت کے چمن در چمن تصور سے معطر کر رکھا تھا۔ ویسے بقول اس کے وہ معقول گھرانے کا ایسا چشم و چراغ تھا جس کی بالی گھی میں ڈبو کر جلائی گئی تھی۔
اس کی ہمدردیوں نے جب زخموں پر تسلیوں کے پھاہے مرہم میں بھگو بھگو کر رکھے تو میں نے بڑی فراخ دلی اور بلند حوصلگی کے ساتھ اپنا سینہ کھول کر سارے کے سارے جگمگاتے زخم اس کے سامنے پھیلا دیے۔ اس وقت میرے زخموں کی ساری جگمگاہٹ اس کی آنکھوں میں کرن کرن بن کر ٹوٹتی رہی۔ اس کی آنکھوں میں کسی نمی کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ اس کے چہرے پر دور دور تک کسی غم کی پرچھائیں نہ تھی۔اس کی آنکھوں میں کرنیں ناچ رہی تھیں، اس کا چہرہ دمک اٹھا تھا۔
مجھے سخت ذہنی اذیت پہنچی تھی۔ میرے ہرے ہرے ننگے زخموں کو اپنی آنکھوں میں کرنوں کی طرح ناچتی ہوئی سوئیوں سے اس نے چھید کر رکھ دیا تھا۔ اس کے چہرے کی دمک، تمازت اور گرمی پہنچانے کے بجائے میرے زخموں پر برف کی قاشیں رکھ رہی تھی۔ آخر وہ میری زندگی کی ان چھوٹی چھوٹی مجبوریوں، ان ننھے ننھے سانحوں کی داستان سن کر اتنا خوش کیوں ہوگیا تھا۔ لیکن اس نے بہت جلد اپنی خوشی پر قابو پالیا۔ پھر بھی اس کی آنکھیں، اس کا چہرہ کسی ڈھکی چھپی مسرت کی غمازی کر رہا تھا۔
’’تم بالکل فکر نہ کرو۔‘‘ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’فکر نہ کرنے ہی سے تو فکر دور نہیں ہو جاتی۔‘‘ میں نے اس طرح کہا جیسے میں نہیں بول رہا ہوں۔ میرے زخموں کو زبان مل گئی ہے۔
’’بس کل صبح چلے آنا میرے گھر۔ ساہو سے دلادوں گا۔ سود بھی زیادہ نہ ہوگا۔‘‘
’’تم سانڈ کی طرح پڑے سوتے رہوگے۔ تمہیں دنیا کے دکھ درد کا علم ہی کیا ہے۔‘‘ میں نے بات پکی کرنے کے لیے اضافہ کیا۔
’’میں بہت جلد بیدار ہوجاتا ہوں۔‘‘ اس نے پھر اپنی خوشی کو دبانے کی کوشش کی۔
’’بہت خوش نظر آتے ہیں۔‘‘ میں پوچھ ہی بیٹھا۔
’’پھر کیا خوش نہیں ہوں گا۔ تم جیسے دوست کے کا م آسکوں تو یہ میری خوش نصیبی نہیں ہے؟‘‘
’’اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘ واقعی اس کے اس جذبے نے مجھے بے اندازہ تسکین دی۔
’’ہاں ذرا کپڑے بڑھیا پہن کر آنا۔ وہ سوٹ ہے نا تمہارا وہی ڈاٹ لینا۔‘‘
’’بھئی سوٹ ہی پہن لوں گا۔ لیکن اس طرح بنا سنوار کر کہاں لے جاؤگے مجھے۔‘‘
’’اسی ساہو کے بچے کے پاس۔ اس پر رعب جو جمانا ہے۔‘‘
مجھے ہنسی آگئی۔۔۔ وہ خود بھی ہنستا رہا۔
میں نے کہا یار، ’’ایسے کتنے ہی جھوٹے رعب جمانے والے اس کے پاس دن میں چکر لگا جاتے ہوں گے۔‘‘
’’کچھ بھی ہو پیارے۔ خوش پوشی ہمیشہ آنکھوں میں دھول جھونکتی ہے۔لوگ آنکھیں ملتے جاتے ہیں اور دھوکہ کھاجاتے ہیں۔‘‘
’’اچھا بھئی یہی سہی۔‘‘
میں اطمینان سے گھر لوٹا۔ جتیندر نے واقعی دوستی کا حق ادا کیا تھا۔ ورنہ نفسی نفسی کے اس زمانہ میں کون کسی کے دل تک پہنچتا ہے۔ ایورسٹ کی فتح اب میرے لیے کوئی کارنامہ نہیں رہی تھی۔ کل صبح ہونے تک میں ایورسٹ کی چوٹی کو اپنے کف پا کے لمس سے آشنا کردوں گا۔ دنیا بھر کی زبان پر میرا نام ہوگا کہ نہیں اس سے مجھے دلچسپی نہیں۔ میری بیوی اور میرے بچوں کی زبان پر میرا ہی کلمہ ہوگا۔ صبح ہوتے ہوتے میں دھڑکتے دل سے جتیندر کے دروازے پر وقت سے کچھ پہلے ہی کھڑا تھا۔ کواڑ کھٹکھٹائے تو ایک بڑھیا نے دروازہ کھول کر میرا سواگت کیا۔ مجھے بڑے ادب سے لے جاکر ڈرائنگ روم میں سوفے پر بٹھایا اور خود اطلاع دینے چلی گئی۔
میں ڈرائنگ روم میں بیٹھا بیٹھا جتیندر کے تمول کے متعلق سوچتا رہا۔ اس کے جملے رہ رہ کر میرے کانوں میں گونجتے رہے کہ، ’’یار میرے ہزاروں روپے جو مجھے ترکے میں ملے ہیں، بنک میں پڑے ہیں، لیکن میں اپنی ماں سے اجازت لیے بغیر ایک پیسہ بھی نکال نہیں سکتا۔ دنیا ملتی ہے یار۔ ماں کہاں ملتی ہے۔ ماں کی خوشنودی سب سے بڑی نعمت ہے۔‘‘
جتیندر کتنا ہمدرد دوست، کتنا فرماں بردار بیٹا اور کتنا ذمہ دار بھائی تھا۔ اس کی شخصیت کی تہہ داری آہستہ آہستہ مجھے متاثر کرنے لگی۔ میں انہی خیالات میں غلطاں تھاکہ یکایک ایک دیدہ رو اور باوضع بزرگ کمرے میں داخل ہوئے۔ میں تعظیم کو اٹھ کھڑا ہوا۔ جب انہیں میں نے بتایا کہ میں جتیندر کے لئے آیا ہوں تو وہ کچھ اس نگاہ سے مجھے دیکھ کر لوٹ گیے جیسے میں نے کوئی قصور کیا ہے۔
جتیندر آیا تو میں نے پہلا سوال یہی کیا کہ یہ بزرگ کون ہیں۔ جتیندر نے بتایا کہ وہ اس کے دور کے رشتوں کے چچا ہوتے ہیں۔بات آئی گئی ہوگئی اور ہم دونوں ایورسٹ کی فتح کے لیے روانہ ہوگیے۔ ساہو کے گھر کے قریب پہنچے تو جتیند رنے پوچھا، ’’تمہیں صرف سو روپے چاہئے نا۔‘‘
میں نے کہا، ’’ہاں! میں تم سے پہلے ہی کہہ چکا ہوں۔‘‘
جتیندر کچھ خاموش سا میرے ساتھ چلتا رہا۔ میں نے خاموشی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ وہ مجھے ساہوکار سے اپنے افسر کی حیثیت سے ملائے گا اورمیں بھی اپنی عہدہ کو ملحوظ رکھوں۔مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے جتیندر کوبھی ہنسانے کے لئے وہ سارے جملے اس کے آگے دہرائے جو ہم اپنے افسروں کی نقل اتارنے کے لے اپنے ساتھیوں میں دہراتے تھے اور جتیندر اس قدرمحظوظ ہوتا تھا کہ اس کی ہنسی قہقہوں کی حدوں کو چھو لیتی تھی۔لیکن اس وقت وہ بدقت تمام مسکرا سکا۔
ساہو کی سیڑھیاں چڑھتے وقت اس نے مجھ سے کہا، ’’یار تم دو سو کاکا غذ لکھ دو نا۔ سو روپے کی مجھے بھی ضرورت ہے، اپنے حصہ کا سود میں ادا کرلوں گا۔‘‘ دفتر میں پہلی بار میرے زخموں کے عریاں ہوجانے پر جتیندر کی مسرت کا عالم میری آنکھوں کے سامنے مجسم ہوکر رہ گیا تھا۔
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں اور جتیندر جس پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہیں وہ ایورسٹ سے کئی ہزار فٹ بلند ہے اور ہلاری اور رتین سنگھ ہزاروں فٹ نیچے کسی گہری اور عمیق کھائی میں کھڑے چلا رہے ہیں۔ تم اور جتیندر عظیم ہو۔ تم اور جتیندر امر ہو۔ اور اس کھائی کا نام ایورسٹ ہے۔
قرض لے کر میں اور جتیندر لوٹ رہے تھے تو میں اخلاقاً اس کو چھوڑنے کے لیے رکشا پر اس کے ہمراہ اس کے گھر گیا۔ دروازے پر پہنچا تو ان اجنبی بزرگ کی آواز مجھے صاف سنائی دے رہی تھی، جن سے ڈرائنگ روم میں صبح مڈبھیڑ ہوگئی تھی۔ وہ کہہ رہے تھے، ’’اب تو تیرا لونڈا بھی میرے ڈرائنگ روم میں اپنے دوستوں سے ملنے لگا ہے۔‘‘
اور وہی بڑھیا سامنے کھڑی تھی جس نے صبح کو میرے لیے دروازہ کھولا تھا۔میں آپ کو کس طرح بتادوں کہ وہ جتیندر کی ماں تھی جب کہ جتیندر نے مجھے یہ نہیں بتایا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.