ایک میں ہوں کہ اس آشوب نوا میں چپ ہوں
ورنہ دنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
-
موضوع : دنیا
کیا رات کے آشوب میں وہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں
سب امیدیں مرے آشوب تمنا تک تھیں
بستیاں ہو گئیں غرقاب تو دریا اترا
بنی ہیں شہر آشوب تمنا
خمار آلودہ آنکھیں رات بھر کی