Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Gulnar Aafreen's Photo'

گلنار آفرین

1942 | کراچی, پاکستان

گلنار آفرین کے اشعار

403
Favorite

باعتبار

کیسے رشتے کیسے ناطے جھوٹے سارے بندھن ہیں

چاہت جانے قید ہے کب سے نفرت کے تہہ خانوں میں

کہیے آئینۂ صد فصل بہاراں تجھ کو

کتنے پھولوں کی مہک ہے ترے پیراہن میں

یہ طلسم موسم گل نہیں کہ یہ معجزہ ہے بہار کا

وہ کلی جو شاخ سے گر گئی وہ صبا کی گود میں پل گئی

وہ چراغ زیست بن کر راہ میں جلتا رہا

ہاتھ میں وہ ہاتھ لے کر عمر بھر چلتا رہا

ایک آنسو یاد کا ٹپکا تو دریا بن گیا

زندگی بھر مجھ میں ایک طوفان سا پلتا رہا

بغیر سمت کے چلنا بھی کام آ ہی گیا

فصیل شہر کے باہر بھی ایک دنیا تھی

کیا بات ہے کیوں شہر میں اب جی نہیں لگتا

حالانکہ یہاں اپنے پرائے بھی وہی ہیں

ہم سر راہ وفا اس کو صدا کیا دیتے

جانے والے نے پلٹ کر ہمیں دیکھا بھی نہ تھا

گلنارؔ مصلحت کی زباں میں نہ بات کر

وہ زہر پی کے دیکھ جو سچائیوں میں ہے

ہمیں بھی اب در و دیوار گھر کے یاد آئے

جو گھر میں تھے تو ہمیں آرزوئے صحرا تھی

طنز کا زہر بھرا ہوتا ہے اب باتوں میں

لطف کیا آئے گا لوگوں سے ملاقاتوں میں

اشکوں کے گہر بھی تو نہیں پاس مرے اب

میں سوچ رہی ہوں غم دوراں تجھے کیا دوں

دل کا ہر زخم تری یاد کا اک پھول بنے

میرے پیراہن جاں سے تری خوشبو آئے

سودا ہے ضمیروں کا ہر گام تجارت ہے

چپ ہوں تو قیامت ہے بولوں تو بغاوت ہے

جینے کا مزہ گردش ایام نہ آیا

کیا بات ہے ہم پر کوئی الزام نہ آیا

کن شہیدوں کے لہو کے یہ فروزاں ہیں چراغ

روشنی سی جو ہے زنداں کے ہر اک روزن میں

یہ اور بات ہے تمہیں پا کر گنوا دیا

لیکن تمہارا غم غم دوراں بنا دیا

سفر کا رنگ حسیں قربتوں کا حامل ہو

بہار بن کے کوئی اب تو ہم سفر آئے

ایک پرچھائیں تصور کی مرے ساتھ رہے

میں تجھے بھولوں مگر یاد مجھے تو آئے

شاید ابھی کمی سی مسیحائیوں میں ہے

جو درد ہے وہ روح کی گہرائیوں میں ہے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے