Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Gulnar Aafreen's Photo'

گلنار آفرین

1942 | کراچی, پاکستان

گلنار آفرین کے اشعار

418
Favorite

باعتبار

سودا ہے ضمیروں کا ہر گام تجارت ہے

چپ ہوں تو قیامت ہے بولوں تو بغاوت ہے

کن شہیدوں کے لہو کے یہ فروزاں ہیں چراغ

روشنی سی جو ہے زنداں کے ہر اک روزن میں

ایک پرچھائیں تصور کی مرے ساتھ رہے

میں تجھے بھولوں مگر یاد مجھے تو آئے

سفر کا رنگ حسیں قربتوں کا حامل ہو

بہار بن کے کوئی اب تو ہم سفر آئے

گلنارؔ مصلحت کی زباں میں نہ بات کر

وہ زہر پی کے دیکھ جو سچائیوں میں ہے

دل کا ہر زخم تری یاد کا اک پھول بنے

میرے پیراہن جاں سے تری خوشبو آئے

ہم سر راہ وفا اس کو صدا کیا دیتے

جانے والے نے پلٹ کر ہمیں دیکھا بھی نہ تھا

بغیر سمت کے چلنا بھی کام آ ہی گیا

فصیل شہر کے باہر بھی ایک دنیا تھی

ایک آنسو یاد کا ٹپکا تو دریا بن گیا

زندگی بھر مجھ میں ایک طوفان سا پلتا رہا

ہمیں بھی اب در و دیوار گھر کے یاد آئے

جو گھر میں تھے تو ہمیں آرزوئے صحرا تھی

کیسے رشتے کیسے ناطے جھوٹے سارے بندھن ہیں

چاہت جانے قید ہے کب سے نفرت کے تہہ خانوں میں

یہ طلسم موسم گل نہیں کہ یہ معجزہ ہے بہار کا

وہ کلی جو شاخ سے گر گئی وہ صبا کی گود میں پل گئی

کیا بات ہے کیوں شہر میں اب جی نہیں لگتا

حالانکہ یہاں اپنے پرائے بھی وہی ہیں

وہ چراغ زیست بن کر راہ میں جلتا رہا

ہاتھ میں وہ ہاتھ لے کر عمر بھر چلتا رہا

طنز کا زہر بھرا ہوتا ہے اب باتوں میں

لطف کیا آئے گا لوگوں سے ملاقاتوں میں

یہ اور بات ہے تمہیں پا کر گنوا دیا

لیکن تمہارا غم غم دوراں بنا دیا

جینے کا مزہ گردش ایام نہ آیا

کیا بات ہے ہم پر کوئی الزام نہ آیا

کہیے آئینۂ صد فصل بہاراں تجھ کو

کتنے پھولوں کی مہک ہے ترے پیراہن میں

شاید ابھی کمی سی مسیحائیوں میں ہے

جو درد ہے وہ روح کی گہرائیوں میں ہے

اشکوں کے گہر بھی تو نہیں پاس مرے اب

میں سوچ رہی ہوں غم دوراں تجھے کیا دوں

Recitation

بولیے