Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saadat Hasan Manto's Photo'

سعادت حسن منٹو

1912 - 1955 | لاہور, پاکستان

ناموراردو فکشن رائیٹر- شاہکار افسانوں کے خالق، جن میں 'ٹھنڈا گوشت' ، 'کھول دو' ، ٹوبہ ٹیک سنگھ'، 'بو' وغیرہ قابل ذکر ہیں

ناموراردو فکشن رائیٹر- شاہکار افسانوں کے خالق، جن میں 'ٹھنڈا گوشت' ، 'کھول دو' ، ٹوبہ ٹیک سنگھ'، 'بو' وغیرہ قابل ذکر ہیں

سعادت حسن منٹو کے اقوال

38.1K
Favorite

باعتبار

روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمہ اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔ لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔ پڑھنے کے لئے بھی یہی موٹا اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمہارے دماغ میں پیدا ہوگا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے، اچھی طرح ہضم ہو سکے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے جس کے لئے تم لکھنے والے کو ذمہ دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی تمہاری بدہضمی کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے!

کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ جب تک لکھنے والے کا مقصد ادب نگاری ہے۔ ادب بحیثیت ادب کے کبھی فحش نہیں ہوتا۔

میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لئے ہیں۔ نورمل انسانوں کے لئے۔ جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔

زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں۔ طریق استعمال ہی ایک ایسی چیزہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے۔

شراب، افیم، چرس، بھنگ اور تمباکو کا عالمگیر استعمال اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں فرحت یا دل بستگی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ بلکہ ان کا استعمال صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کے مطالبات سے خود کو چھپا لیا جائے۔

دل ایسی شیئ نہیں جو بانٹی جا سکے۔

دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔

آخر کب تک ادیب ایک ناکارہ آدمی سمجھا جائے گا۔ کب تک شاعر کو ایک گپیں ہانکنے والا متصور کیا جائے گا، کب تک ہمارے لٹریچر پر چند خود غرض اور ہوس پرست لوگوں کی حکمرانی رہے گی۔ کب تک؟

استبداد کی آندھیاں ٹمٹاتے چراغوں کو گل کر سکتی ہیں مگر انقلاب کے شعلوں پر ان کا کوئی بس نہیں چلتا۔

موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ ڈور صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے، عورت خواہ وہ عصمت فروش ہو یا باعصمت، ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرے۔

ہر حسین چیز انسان کے دل میں اپنی وقعت پیدا کر دیتی ہے۔ خواہ انسان غیر تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔

جس طرح باعصمت عورتیں ویشیاؤں کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ان کی طرف اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔

ہندوستان میں جس چیز کو آرٹ کہا جاتا ہے، ابھی تک میں اس کے متعلق فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ وہ کیا ہے؟

میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔

میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتا۔

ہمارے افسانوی ادب میں جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے اسی فیصدی ایسی ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں اور اصل عورتوں میں وہی فرق ہے، جو ٹکسالی روپے اور جعلی روپے میں ہوتا ہے۔

پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا آج کل ٹوپیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست بھی اب ٹوپیوں میں چلی آئی ہے۔ زندہ باد ٹوپیاں!

ایک با عصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔

ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔

میرے نزدیک وہ باپ اپنی اولاد کو جنسی بیداری کا موقع دیتے ہیں جو دن کو بند کمروں میں کئی کئی گھنٹے اپنی بیوی سے سر دبوانے کا بہانہ لگا کر ہم بستری کرتے ہیں۔

ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟ زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔

اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے، مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔

زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔

روحانیت یقیناً کوئی چیز ہے، آج کے سائنس کے زمانے میں جس میں ایٹم بم تیار کیا جا سکتا ہے اور جراثیم پھیلائے جا سکتے ہیں، یہ چیز بعض اصحاب کے نزدیک مہمل ہو سکتی ہے لیکن وہ لوگ جو نماز اور روزے، آرتی اور کیرتن سے روحانی طہارت حاصل کرتے ہیں ہم انہیں پاگل نہیں کہہ سکتے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بدکرداروں، قاتلوں اور سفاکوں کی نجات کا راستہ صرف روحانی تعلیم ہے، ملائی طریق پر نہیں، ترقی پسند اصولوں پر۔

جس طرح جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لئے کسرت کی ضرورت ہے، ٹھیک اسی طرح ذہن کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ذہنی ورزش کی ضرورت ہے۔

کسی بھی عورت سے عشق کیا جائے تو تگڑا ایک ہی قسم کا بنتا ہے ’حسن، عشق اور موت‘ یا ’عاشق، معشوق اور وصل‘

محنت کش مزدوروں کی صحیح نفسیات کچھ ان کا اپنا پسینہ ہی بطریق احسن بیان کر سکتا ہے۔ اس کو دولت کے طور پر استعمال کر کے اس کے پسینے کی روشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کر گرانڈیل لفظوں میں منشور لکھنے والے، ہو سکتا ہے بڑے مخلص آدمی ہوں، مگر معاف کیجئے میں اب بھی انہیں بہروپئے سمجھتا ہوں۔

پبلک ایسی فلمیں چاہتی ہے جن کا تعلق براہ راست ان کے دل سے ہو۔ جسمانی حسیات سے متعلق چیزیں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں مگر جن چیزوں کا تعلق روح سے ہوتا ہے، دیر تک قائم رہتی ہیں۔

میں سوچتا ہوں اگر بندر سے انسان بن کر ہم اتنی قیامتیں ڈھا سکتے ہیں، اس قدر فتنے برپا کر سکتے ہیں تو واپس بندر بن کر ہم خدا معلوم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ادیبوں کے اعصاب پر عورت سوار ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہبوط آدم سے لے کر اب تک ہر مرد کے اعصاب پر عورت سوار رہی ہے، اور کیوں نہ رہے۔ مرد کے اعصاب پر کیا ہاتھی گھوڑوں کو سوار ہونا چاہیئے۔ جب کبوتر، کبوتریوں کو دیکھ کر گٹکتے ہیں تو مرد، عورتوں کو دیکھ کر ایک غزل یا افسانہ کیوں نہ لکھیں۔ عورتیں کبوتریوں سے کہیں زیادہ دلچسپ خوبصورت اور فکرانگیز ہیں۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں۔

مجھے نام نہاد کمیونسٹوں سے بڑی چڑ ہے۔ وہ لوگ مجھے بہت کھلتے ہیں جو نرم نرم صوفوں پر بیٹھ کر درانتی اور ہتھوڑے کی ضربوں کی باتیں کرتے ہیں۔

حسین چیز ایک دائمی مسرت ہے۔ آرٹ جہاں بھی ملے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیئے۔

سوسائٹی کے اصولوں کے مطابق مرد مرد رہتا ہے خواہ اس کی کتاب زندگی کے ہر ورق پر گناہوں کی سیاہی لپی ہو۔ مگر وہ عورت جو صرف ایک مرتبہ جوانی کے بے پناہ جذبے کے زیر اثر یا کسی لالچ میں آ کر یا کسی مرد کی زبردستی کا شکار ہو کر ایک لمحے کے لئے اپنے راستے سے ہٹ جائے، عورت نہیں رہتی۔ اسے حقارت و نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ سوسائٹی اس پر وہ تمام دروازے بند کر دیتی ہے جو ایک سیاہ پیشہ مرد کے لئے کھلے رہتے ہیں۔

افسانہ نگاری میرا پیشہ ہے، میں اس کے تمام آداب سے واقف ہوں۔

آپ شہر میں خوبصورت اور نفیس گاڑیاں دیکھتے ہیں۔۔۔ یہ خوبصورت اور نفیس گاڑیاں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے کام نہیں آ سکتیں۔ گندگی اور غلاظت اٹھا کر باہر پھینکنے کے لئے اور گاڑیاں موجود ہیں جنہیں آپ کم دیکھتے ہیں اور اگر دیکھتے ہیں تو فوراً اپنی ناک پر رومال رکھ لیتے ہیں۔۔۔ ان گاڑیوں کا وجود ضروری ہے اور ان عورتوں کا وجود بھی ضروری ہے جو آپ کی غلاظت اٹھاتی ہیں۔ اگر یہ عورتیں نہ ہوتیں تو ہمارے سب گلی کوچے مردوں کی غلیظ حرکات سے بھرے ہوتے۔

ویشیا کا وجود خود ایک جنازہ ہے جو سماج خود اپنے کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے۔ وہ اسے جب تک کہیں دفن نہیں کرے گا، اس کے متعلق باتیں ہوتی رہیں گی۔

کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنےخدا سے۔

جو دروازے معاشی کشمکش نے ایک دفعہ کھول دیے ہوں، بہت مشکل سے بند کئے جاسکتے ہیں۔

اگر ویشیا کا ذکر فحش ہے تو اس کا وجود بھی فحش ہے۔ اگر اس کا ذکر ممنوع ہے تو اس کا پیشہ بھی ممنوع ہونا چاہئے۔ اس کا ذکر خود بخود مٹ جائے گا۔

میرا خیال ہے کہ کوئی بھی چیز فحش نہیں، لیکن گھر کی کرسی اور ہانڈی بھی فحش ہو سکتی ہے اگر ان کو فحش طریقے پر پیش کیا جائے۔۔۔ چیزیں فحش بنائی جاتی ہیں، کسی خاص غرض کے ماتحت۔ عورت اور مرد کا رشتہ فحش نہیں، اس کا ذکر بھی فحش نہیں، لیکن جب اس رشتے کو چوراسی آسنوں یا جوڑ دار خفیہ تصویروں میں تبدیل کر دیا جائے تو میں اس فعل کو صرف فحش ہی نہیں بلکہ نہایت گھناؤنا، مکروہ اور غیر صحت مند کہوں گا۔

میں افسانہ اس لئے لکھتا ہوں کہ مجھے افسانہ نگاری کی شراب کی طرح لت پڑ گئی ہے۔ میں افسانہ نہ لکھوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کپڑے نہیں پہنے، یا میں نے غسل نہیں کیا، یا میں نے شراب نہیں پی۔

مذہب خود ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، اگر اس میں لپیٹ کر کسی اور مسئلے کو دیکھا جائے تو ہمیں بہت ہی مغز دردی کرنی پڑے گی۔

میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔

ویشیاؤں کے عشق میں ایک خاص بات قابل ذکر ہے۔ ان کا عشق ان کے روز مرہ کے معمول پر بہت کم اثر ڈالتا ہے۔

وہ لوگ جو مجھے یا میرے مزاج کے آدمیوں کو حقارت کی نظروں سے دیکھتے ہیں ان کے متعلق مجھے افسوس سے کہنا پڑے گا کہ وہ شعریت سے یکسر خالی ہیں۔ ڈرامے کو سمجھنے اور اس سے حظ اٹھانے کی صلاحیت ان میں ذرا بھر نہیں۔

ہندوستان میں ابھی تک آرٹسٹ کے صحیح معانی پیش نہیں کئے گئے۔ آرٹ کو خدا معلوم کیا چیز سمجھا جاتا ہے۔ یہاں آرٹ ایک رنگ سے بھرا ہوا برتن ہے جس میں ہر شخص اپنے کپڑے بھگو لیتا ہے، لیکن آرٹ یہ نہیں ہے اور نہ وہ تمام لوگ آرٹسٹ ہیں جو اپنے ماتھوں پر لیبل لگائے پھرتے ہیں۔ ہندوستان میں جس چیز کو آرٹ کہا جاتا ہے، ابھی تک میں اس کے متعلق فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ وہ کیا ہے؟

ویشیا اپنی تاریک تجارت کے باوجود روشن روح کی مالک ہو سکتی ہے۔

آرٹ خواہ وہ تصویر کی صورت میں ہو یا مجسمے کی شکل میں۔ سوسائٹی کے لئے قطعی طور پر ایک پیشکش ہے۔

ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہے۔ یا خود بنتی ہے۔

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے