Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Saadat Hasan Manto's Photo'

سعادت حسن منٹو

1912 - 1955 | لاہور, پاکستان

ناموراردو فکشن رائیٹر- شاہکار افسانوں کے خالق، جن میں 'ٹھنڈا گوشت' ، 'کھول دو' ، ٹوبہ ٹیک سنگھ'، 'بو' وغیرہ قابل ذکر ہیں

ناموراردو فکشن رائیٹر- شاہکار افسانوں کے خالق، جن میں 'ٹھنڈا گوشت' ، 'کھول دو' ، ٹوبہ ٹیک سنگھ'، 'بو' وغیرہ قابل ذکر ہیں

سعادت حسن منٹو کے اقوال

42.6K
Favorite

باعتبار

آدمی یا تو آدمی ہے ورنہ آدمی نہیں ہے، گدھا ہے۔ مکان ہے، میز ہے، یا اور کوئی چیز ہے۔

گناہ یا ثواب انسان کی ذات سے متعلق ہے، اس سے فن کو کوئی واسطہ نہیں۔

بھوک کسی قسم کی بھی ہو، بہت خطرناک ہے۔

اگر ہم صابن اور لیونڈر کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان موریو ں اور بدروؤں کا ذکر کیو ں نہیں کر سکتے جو ہمارے بدن کا میل پیتی ہیں۔ اگر ہم مندروں اور مسجدوں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان قحبہ خانوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں سے لوٹ کر کئی انسان مندروں اور مسجدوں کا رخ کرتے ہیں۔۔۔ اگر ہم افیون، چرس، بھنگ اور شراب کے ٹھیکو ں کا ذکر کر سکتے ہیں تو ان کوٹھوں کا ذکر کیوں نہیں کر سکتے جہاں ہر قسم کا نشہ استعمال کیا جاتا ہے؟

سیاست اور مذہب کی لاش ہمارے نامور لیڈر اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھرتے ہیں اور سیدھے سادے لوگوں کو جو ہر بات مان لینے کے عادی ہوتے ہیں یہ کہتے پھر تے ہیں کہ وہ اس لاش کو از سر نو زندگی بخش رہے ہیں۔

زبان اور ادب کی خدمت ہو سکتی ہے صرف ادیبوں اور زبان دانوں کی حوصلہ افزائی سے اور حوصلہ افزائی صرف ان کی محنت کا معاوضہ ادا کرنے ہی سے ہو سکتی ہے۔

ویشیا صرف اسی مرد پر اپنے دل کے تمام دروازے کھولے گی، جس سے اسے محبت ہو۔ ہر آنے جانے والے مرد کے لئے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔

کوئی ذی عقل اور صاحب ہوش و فہم انسان خون بہانا پسند نہیں کرتا سوائے ان کے جو اپنے اذہان کی آغوش میں بھیانک جرائم و شدائد کی پرورش کرتے ہیں۔

ویشیا کو صرف باہر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے رنگ روپ، اس کی بھڑکیلی پوشاک، آرائش و زیبائش دیکھ کر یہی نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ وہ خوش حال ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔

جسمانی حسیات سے متعلق چیزیں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں مگر جن چیزوں کا تعلق روح سے ہوتا ہے، دیر تک قائم رہتی ہیں۔

جسم داغا جا سکتا ہے مگر روح نہیں داغی جا سکتی۔

یہ لوگ جنہیں عرف عام میں لیڈر کہا جاتا ہے، سیاست اور مذہب کو لنگڑا، لولا اور زخمی آدمی تصور کرتے ہیں۔

سیاسیات سے مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ لیڈروں اور دوا فروشوں کو میں ایک ہی زمرے میں شمار کرتا ہوں۔ لیڈری اور دوا فروشی، یہ دونوں پیشے ہیں۔ دوا فروش اور لیڈر دونوں دوسروں کے نسخے استعمال کرتے ہیں۔

عصمت فروش عورت ایک زمانے سے دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھی جاتی رہی ہے۔ مگر کیا ہم نے غور کیا ہے کہ ہم میں سے اکثر ایسی ذلیل و خوار ہستیوں کے در پر ٹھوکریں کھاتے ہیں! کیا ہمارے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوتا کہ ہم بھی ذلیل ہیں۔

انسان اپنے اندر کوئی برائی لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ خوبیاں اور برائیاں اس کے دل و دماغ میں باہر سے داخل ہوتی ہیں۔ بعض ان کی پرورش کرتے ہیں، بعض نہیں کرتے۔

فلموں کو کامیاب بنانے اور ستارے پیدا کرنے کے لئے ہمیں ستارہ شناس نگاہوں کی ضرورت ہے۔

ہمیں اپنے قلم سے روزی کمانا ہے اور ہم اس ذریعے سے روزی کما کر رہیں گے۔ یہ ہر گز نہیں ہو سکتا کہ ہم اور ہمارے بال بچے فاقے مریں اور جن اخباروں اور رسالوں میں ہمارے مضامین چھپتے ہیں، ان کے مالک خوشحال رہیں۔

مرد کا تصور ہمیشہ عورتوں کو عصمت کے تنے ہوئے رسے پر کھڑا کر دیتا ہے۔

یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کیریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لئے نکلتے ہیں۔۔۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے!

زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔

روٹی کھانے کے متعلق ایک موٹا سا اصول ہے کہ ہر لقمہ اچھی طرح چبا کر کھاؤ۔ لعاب دہن میں اسے خوب حل ہونے دو تاکہ معدے پر زیادہ بوجھ نہ پڑے اور اس کی غذائیت برقرار رہے۔ پڑھنے کے لئے بھی یہی موٹا اصول ہے کہ ہر لفظ کو، ہر سطر کو، ہر خیال کو اچھی طرح ذہن میں چباؤ۔ اس لعاب کو جو پڑھنے سے تمہارے دماغ میں پیدا ہوگا، اچھی طرح حل کرو تاکہ جو کچھ تم نے پڑھا ہے، اچھی طرح ہضم ہو سکے۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کے نتائج برے ہوں گے جس کے لئے تم لکھنے والے کو ذمہ دار نہ ٹھہرا سکو گے۔ وہ روٹی جو اچھی طرح چبا کر نہیں کھائی گئی تمہاری بدہضمی کی ذمہ دار کیسے ہو سکتی ہے!

کوئی افسانہ یا ادب پارہ فحش نہیں ہو سکتا۔ جب تک لکھنے والے کا مقصد ادب نگاری ہے۔ ادب بحیثیت ادب کے کبھی فحش نہیں ہوتا۔

میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لئے ہیں۔ نورمل انسانوں کے لئے۔ جو عورت کے سینے کو عورت کا سینہ ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ آگے نہیں بڑھتے۔

زبان میں بہت کم لفظ فحش ہوتے ہیں۔ طریق استعمال ہی ایک ایسی چیزہے جو پاکیزہ سے پاکیزہ الفاظ کو بھی فحش بنا دیتا ہے۔

شراب، افیم، چرس، بھنگ اور تمباکو کا عالمگیر استعمال اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ چیزیں فرحت یا دل بستگی کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ بلکہ ان کا استعمال صرف اس لئے کیا جاتا ہے کہ ضمیر کے مطالبات سے خود کو چھپا لیا جائے۔

دل ایسی شیئ نہیں جو بانٹی جا سکے۔

دنیا میں جتنی لعنتیں ہیں، بھوک ان کی ماں ہے۔

آخر کب تک ادیب ایک ناکارہ آدمی سمجھا جائے گا۔ کب تک شاعر کو ایک گپیں ہانکنے والا متصور کیا جائے گا، کب تک ہمارے لٹریچر پر چند خود غرض اور ہوس پرست لوگوں کی حکمرانی رہے گی۔ کب تک؟

استبداد کی آندھیاں ٹمٹاتے چراغوں کو گل کر سکتی ہیں مگر انقلاب کے شعلوں پر ان کا کوئی بس نہیں چلتا۔

موجودہ نظام کے تحت جس کی باگ ڈور صرف مردوں کے ہاتھ میں ہے، عورت خواہ وہ عصمت فروش ہو یا باعصمت، ہمیشہ دبی رہی ہے۔ مرد کو اختیار ہوگا کہ وہ اس کے متعلق جو چاہے رائے قائم کرے۔

ہر حسین چیز انسان کے دل میں اپنی وقعت پیدا کر دیتی ہے۔ خواہ انسان غیر تربیت یافتہ ہی کیوں نہ ہو۔

جس طرح باعصمت عورتیں ویشیاؤں کی طرف حیرت اور تعجب سے دیکھتی ہیں، ٹھیک اسی طرح وہ بھی ان کی طرف اسی نظر سے دیکھتی ہیں۔

ہندوستان میں جس چیز کو آرٹ کہا جاتا ہے، ابھی تک میں اس کے متعلق فیصلہ ہی نہیں کر سکا کہ وہ کیا ہے؟

میں تہذیب و تمدن اور سوسائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔۔۔ میں اسے کپڑے پہنانے کی کوشش بھی نہیں کرتا، اس لئے کہ یہ میرا کام نہیں درزیوں کا ہے۔ لوگ مجھے سیاہ قلم کہتے ہیں، میں تختہ سیاہ پر کالی چاک سے نہیں لکھتا، سفید چاک استعمال کرتا ہوں کہ تختہ سیاہ کی سیاہی اور بھی زیادہ نمایاں ہو جائے۔ یہ میرا خاص انداز، میرا خاص طرز ہے جسے فحش نگاری، ترقی پسندی اور خدا معلوم کیا کچھ کہا جاتا ہے۔ لعنت ہو سعادت حسن منٹو پر، کم بخت کو گالی بھی سلیقے سے نہیں دی جاتی۔

میں بغاوت چاہتا ہوں۔ ہر اس فرد کے خلاف بغاوت چاہتا ہوں جو ہم سے محنت کراتا ہے مگر اس کے دام ادا نہیں کرتا۔

ہمارے افسانوی ادب میں جن عورتوں کا ذکر کیا گیا ہے، ان میں سے اسی فیصدی ایسی ہیں جو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ ان میں اور اصل عورتوں میں وہی فرق ہے، جو ٹکسالی روپے اور جعلی روپے میں ہوتا ہے۔

پہلے مذہب سینوں میں ہوتا تھا آج کل ٹوپیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست بھی اب ٹوپیوں میں چلی آئی ہے۔ زندہ باد ٹوپیاں!

ایک با عصمت عورت کے سینے میں محبت سے عاری دل ہو سکتا ہے اور اس کے برعکس چکلے کی ایک ادنیٰ ترین ویشیا محبت سے بھرپور دل کی مالک ہو سکتی ہے۔

ہر عورت ویشیا نہیں ہوتی لیکن ہر ویشیا عورت ہوتی ہے۔ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے۔

میرے نزدیک وہ باپ اپنی اولاد کو جنسی بیداری کا موقع دیتے ہیں جو دن کو بند کمروں میں کئی کئی گھنٹے اپنی بیوی سے سر دبوانے کا بہانہ لگا کر ہم بستری کرتے ہیں۔

ہندی کے حق میں ہندو کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلمان اردو کے تحفظ کے لئے کیوں بے قرار ہیں؟ زبان بنائی نہیں جاتی، خود بنتی ہے اور نہ انسانی کوششیں کسی زبان کو فنا کر سکتی ہیں۔

اگر میں کسی عورت کے سینے کا ذکر کرنا چاہوں گا تو اسے عورت کا سینہ ہی کہوں گا۔ عورت کی چھاتیوں کو آپ مونگ پھلی، میز یا استرا نہیں کہہ سکتے۔۔۔ یوں تو بعض حضرات کے نزدیک عورت کا وجود ہی فحش ہے، مگر اس کا کیا علاج ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیے وطن کی خدمت شکم سیر لوگ کبھی نہیں کر سکیں گے۔ وزنی معدے کے ساتھ جو شخص وطن کی خدمت کے لئے آگے بڑھے، اسے لات مار کر باہر نکال دیجئے۔

زمانے کے جس دور سے ہم اس وقت گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناواقف ہیں تو میرے افسانے پڑھیئے۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ زمانہ ناقابل برداشت ہے۔۔۔ مجھ میں جو برائیاں ہیں، وہ اس عہد کی برائیاں ہیں۔۔۔ میری تحریر میں کوئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، در اصل موجودہ نظام کا نقص ہے۔

روحانیت یقیناً کوئی چیز ہے، آج کے سائنس کے زمانے میں جس میں ایٹم بم تیار کیا جا سکتا ہے اور جراثیم پھیلائے جا سکتے ہیں، یہ چیز بعض اصحاب کے نزدیک مہمل ہو سکتی ہے لیکن وہ لوگ جو نماز اور روزے، آرتی اور کیرتن سے روحانی طہارت حاصل کرتے ہیں ہم انہیں پاگل نہیں کہہ سکتے۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ بدکرداروں، قاتلوں اور سفاکوں کی نجات کا راستہ صرف روحانی تعلیم ہے، ملائی طریق پر نہیں، ترقی پسند اصولوں پر۔

جس طرح جسمانی صحت برقرار رکھنے کے لئے کسرت کی ضرورت ہے، ٹھیک اسی طرح ذہن کی صحت برقرار رکھنے کے لئے ذہنی ورزش کی ضرورت ہے۔

کسی بھی عورت سے عشق کیا جائے تو تگڑا ایک ہی قسم کا بنتا ہے ’حسن، عشق اور موت‘ یا ’عاشق، معشوق اور وصل‘

محنت کش مزدوروں کی صحیح نفسیات کچھ ان کا اپنا پسینہ ہی بطریق احسن بیان کر سکتا ہے۔ اس کو دولت کے طور پر استعمال کر کے اس کے پسینے کی روشنائی میں قلم ڈبو ڈبو کر گرانڈیل لفظوں میں منشور لکھنے والے، ہو سکتا ہے بڑے مخلص آدمی ہوں، مگر معاف کیجئے میں اب بھی انہیں بہروپئے سمجھتا ہوں۔

پبلک ایسی فلمیں چاہتی ہے جن کا تعلق براہ راست ان کے دل سے ہو۔ جسمانی حسیات سے متعلق چیزیں زیادہ دیرپا نہیں ہوتیں مگر جن چیزوں کا تعلق روح سے ہوتا ہے، دیر تک قائم رہتی ہیں۔

میں سوچتا ہوں اگر بندر سے انسان بن کر ہم اتنی قیامتیں ڈھا سکتے ہیں، اس قدر فتنے برپا کر سکتے ہیں تو واپس بندر بن کر ہم خدا معلوم کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

Recitation

بولیے