میر تسکینؔ دہلوی کے اشعار
شب وصال میں سننا پڑا فسانۂ غیر
سمجھتے کاش وہ اپنا نہ رازدار مجھے
ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے
کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی
جس وقت نظر پڑتی ہے اس شوخ پہ تسکیںؔ
کیا کہیے کہ جی میں مرے کیا کیا نہیں ہوتا
تسکینؔ کروں کیا دل مضطر کا علاج اب
کم بخت کو مر کر بھی تو آرام نہ آیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
قاصد آیا ہے وہاں سے تو ذرا تھم تو سہی
بات تو کرنے دے اس سے دل بے تاب مجھے
کرتا ہوں تیری زلف سے دل کا مبادلہ
ہر چند جانتا ہوں یہ سودا برا نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پوچھے جو تجھ سے کوئی کہ تسکیںؔ سے کیوں ملا
کہہ دیجو حال دیکھ کے رحم آ گیا مجھے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنی نہ کیجے جانے کی جلدی شب وصال
دیکھے ہیں میں نے کام بگڑتے شتاب میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کہے دیتی ہیں یہ نیچی نگاہیں
کہ بالائے زمیں کیا کیا نہ ہوگا
ضبط کرتا ہوں ولے اس پر بھی ہے یہ جوش اشک
گر پڑا جو آنکھ سے قطرہ وہ دریا ہو گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تسکیںؔ نے نام لے کے ترا وقت مرگ آہ
کیا جانے کیا کہا تھا کسی نے سنا نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ