Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Waheed Akhtar's Photo'

وحید اختر

1935 - 1996 | علی گڑہ, انڈیا

ممتاز ترین جدید شاعروں اور نقادوں میں نمایاں

ممتاز ترین جدید شاعروں اور نقادوں میں نمایاں

وحید اختر کے اشعار

3K
Favorite

باعتبار

عمر بھر ملتے رہے پھر بھی نہ ملنے پائے

اس طرح مل کہ ملاقات مکمل ہو جائے

تو غزل بن کے اتر بات مکمل ہو جائے

منتظر دل کی مناجات مکمل ہو جائے

ابر آنکھوں سے اٹھے ہیں ترا دامن مل جائے

حکم ہو تیرا تو برسات مکمل ہو جائے

حرف انکار ہے کیوں نار جہنم کا حلیف

صرف اقرار پہ کیوں باب ارم کھلتا ہے

ہر ایک لمحہ کیا قرض زندگی کا ادا

کچھ اپنا حق بھی تھا ہم پر وہی ادا نہ ہوا

بچھڑے ہوئے خواب آ کے پکڑ لیتے ہیں دامن

ہر راستہ پرچھائیوں نے روک لیا ہے

ہزاروں سال سفر کر کے پھر وہیں پہنچے

بہت زمانہ ہوا تھا ہمیں زمیں سے چلے

بے برسے گزر جاتے ہیں امڈے ہوئے بادل

جیسے انہیں میرا ہی پتا یاد نہیں ہے

اک دشت بے اماں کا سفر ہے چلے چلو

رکنے میں جان و دل کا ضرر ہے چلے چلو

مسجد ہو مدرسہ ہو کہ مجلس کہ مے کدہ

محفوظ شر سے کچھ ہے تو گھر ہے چلے چلو

دشت کی اڑتی ہوئی ریت پہ لکھ دیتے ہیں لوگ

یہ زمیں میری یہ دیوار یہ در میرا ہے

نیند بن کر مری آنکھوں سے مرے خوں میں اتر

رت جگا ختم ہو اور رات مکمل ہو جائے

بام و در و دیوار کو ہی گھر نہیں کہتے

تم گھر میں نہیں ہو تو مکاں ہے بھی نہیں بھی

یاد آئی نہ کبھی بے سر و سامانی میں

دیکھ کر گھر کو غریب الوطنی یاد آئی

کرنوں سے تراشا ہوا اک نور کا پیکر

شرمایا ہوا خواب کی چوکھٹ پہ کھڑا ہے

ٹھہری ہے تو اک چہرے پہ ٹھہری رہی برسوں

بھٹکی ہے تو پھر آنکھ بھٹکتی ہی رہی ہے

زیر پا اب نہ زمیں ہے نہ فلک ہے سر پر

سیل تخلیق بھی گرداب کا منظر نکلا

بت بنانے پوجنے پھر توڑنے کے واسطے

خود پرستی کو نیا ہر روز پتھر چاہئے

مری اڑان اگر مجھ کو نیچے آنے دے

تو آسمان کی گہرائی میں اتر جاؤں

کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں

نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا

جو سننا چاہو تو بول اٹھیں گے اندھیرے بھی

نہ سننا چاہو تو دل کی صدا سنائی نہ دے

لیتے ہیں ترا نام ہی یوں جاگتے سوتے

جیسے کہ ہمیں اپنا خدا یاد نہیں ہے

مانگنے والوں کو کیا عزت و رسوائی سے

دینے والوں کی امیری کا بھرم کھلتا ہے

اندھیرا اتنا نہیں ہے کہ کچھ دکھائی نہ دے

سکوت ایسا نہیں ہے جو کچھ سنائی نہ دے

خشک آنکھوں سے اٹھی موج تو دنیا ڈوبی

ہم جسے سمجھے تھے صحرا وہ سمندر نکلا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے