Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

کربلا پر اشعار

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

مولانا محمد علی جوہر

میرے سینے سے ذرا کان لگا کر دیکھو

سانس چلتی ہے کہ زنجیر زنی ہوتی ہے

عباس تابش

پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا

ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے

منور رانا

جب بھی ضمیر و ظرف کا سودا ہو دوستو

قائم رہو حسین کے انکار کی طرح

احمد فراز

سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا

جو تیرا حکم جو تیری رضا جو تو چاہے

مجید امجد

ہوائے ظلم سوچتی ہے کس بھنور میں آ گئی

وہ اک دیا بجھا تو سینکڑوں دئیے جلا گیا

احمد فراز

بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں

عجیب رسم چلی ہے دعا نہ مانگے کوئی

افتخار عارف

پا بہ گل سب ہیں رہائی کی کرے تدبیر کون

دست بستہ شہر میں کھولے مری زنجیر کون

پروین شاکر

سانس لیتا ہوں تو روتا ہے کوئی سینے میں

دل دھڑکتا ہے تو ماتم کی صدا آتی ہے

فرحت عباس شاہ

عشرت قتل گہہ اہل تمنا مت پوچھ

عید نظارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

مرزا غالب

تا قیامت ذکر سے روشن رہے گی یہ زمیں

ظلمتوں کی شام میں اک روشنی ہے کربلا

نزہت عباسی

ہوائے کوفۂ نا مہرباں کو حیرت ہے

کہ لوگ خیمۂ صبر و رضا میں زندہ ہیں

عرفان صدیقی

حسین ابن علی کربلا کو جاتے ہیں

مگر یہ لوگ ابھی تک گھروں کے اندر ہیں

شہریار

ساحل تمام اشک ندامت سے اٹ گیا

دریا سے کوئی شخص تو پیاسا پلٹ گیا

شکیب جلالی

دل ہے پیاسا حسین کے مانند

یہ بدن کربلا کا میداں ہے

محمد علوی

کل جہاں ظلم نے کاٹی تھیں سروں کی فصلیں

نم ہوئی ہے تو اسی خاک سے لشکر نکلا

وحید اختر

تنہا ترے ماتم میں نہیں شام سیہ پوش

رہتا ہے سدا چاک گریبان سحر بھی

محمد رفیع سودا

تنہا کھڑا ہوں میں بھی سر کربلائے عصر

اور سوچتا ہوں میرے طرفدار کیا ہوئے

محسن احسان

تم جو کچھ چاہو وہ تاریخ میں تحریر کرو

یہ تو نیزہ ہی سمجھتا ہے کہ سر میں کیا تھا

عرفان صدیقی

زوال عصر ہے کوفے میں اور گداگر ہیں

کھلا نہیں کوئی در باب التجا کے سوا

منیر نیازی

مصحفیؔ کرب و بلا کا سفر آسان نہیں

سینکڑوں بصرہ و بغداد میں مر جاتے ہیں

مصحفی غلام ہمدانی

کھینچ لائی جانب دریا ہمیں بھی تشنگی

اب گلوئے خشک کا خنجر پہ رم ہونے کو ہے

ابھنندن پانڈے

سینہ کوبی سے زمیں ساری ہلا کے اٹھے

کیا علم دھوم سے تیرے شہدا کے اٹھے

مومن خاں مومن

ہم سے طے ہوگا زمانے میں بلندی کا وقار

نوک نیزہ سے بھی ہم نیچے نہیں دیکھیں گے

سفر نقوی

شعور تشنگی اک روز میں پختہ نہیں ہوتا

مرے ہونٹوں نے صدیوں کربلا کی خاک چومی ہے

ضیا فاروقی
بولیے