Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Meer Mehdi Majrooh's Photo'

میر مہدی مجروح

1833 - 1903 | دلی, انڈیا

میر مہدی مجروح کے اشعار

3.1K
Favorite

باعتبار

چرا کے مٹھی میں دل کو چھپائے بیٹھے ہیں

بہانا یہ ہے کہ مہندی لگائے بیٹھے ہیں

کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا

میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا

کیا ہماری نماز کیا روزہ

بخش دینے کے سو بہانے ہیں

جان انساں کی لینے والوں میں

ایک ہے موت دوسرا ہے عشق

غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا

سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا

شغل الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں

کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا کہتے ہیں

اتنا مردود ہوں کہ ڈر ہے مجھے

قبر سے پھینک دے زمیں نہ کہیں

یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں

لاکھ فتنے اٹھائے بیٹھے ہیں

اپنی کشتی کا ہے خدا حافظ

پیچھے طوفاں ہے سامنے گرداب

کسی سے عشق اپنا کیا چھپائیں

محبت ٹپکی پڑتی ہے نظر سے

کیوں پاس مرے آ کر یوں بیٹھے ہو منہ پھیرے

کیا لب ترے مصری ہیں میں جن کو چبا جاتا

رال ٹپکے گی شیخ صاحب کی

نہ دکھاؤ شراب کی صورت

ابر کی تیرگی میں ہم کو تو

سوجھتا کچھ نہیں سوائے شراب

وہ میرے گھر کے سامنے سے جائیں اس طرح

اے ہم نشیں رقیب کا گھر تو ادھر نہیں

سہل ہو گرچہ عدو کو مگر اس کا ملنا

اتنا میں خوب سمجھتا ہوں کہ آساں تو نہیں

یہ کیا کہ ہمیں مرتے رہیں لطف تو جب ہے

تاثیر محبت جو ادھر ہو تو ادھر بھی

تمہیں گر خوش زباں ہونا ہے صاحب

تو لو منہ میں ذرا میری زباں کو

آ ہی کودا تھا دیر میں واعظ

ہم نے ٹالا خدا خدا کر کے

ہزاروں گھر ہوئے ہیں اس سے ویراں

رہے آباد سرکار محبت

نہ اس کے لب کو فقط لعل کہہ کے ختم کرو

ابھی تو اس میں بہت سی ہے گفتگو باقی

آمد آمد خزاں کی ہے شاید

گل شگفتہ ہوا چمن میں ہے

ہر ایک جانتا ہے کہ مجھ پر نظر پڑی

کیا شوخیاں ہیں اس نگہ سحر کار میں

جان دینے کے سوا اور بھی تدبیر کروں

ورنہ یہ بات تو ہم اس سے سدا کہتے ہیں

اب رقیب بوالہوس ہیں عشق باز

دل لگانے سے بھی نفرت ہو گئی

شوق سے شوق ہے کچھ منزل کا

راہبر سے بھی بڑھے جاتے ہیں

طوفان جہل نے مرا جوہر مٹا دیا

میں اک کتاب خوب ہوں پر آب دیدہ ہوں

نہ تو صیاد کا کھٹکا نہ خزاں کا دھڑکا

ہم کو وہ چین قفس میں ہے کہ بستاں میں نہیں

زاہد پیالہ تھام جھجھکتا ہے کس لیے

اس مفت کی شراب کے پینے سے ڈر نہیں

نئے فتنے جو اٹھتے ہیں جہاں میں

صلاحیں سب یہ لیتے ہیں تمہیں سے

مرے کس کام کا ہے بخت خفتہ

اسے رشوت میں دوں گا پاسباں کو

کج ادائی یہ سب ہمیں تک تھی

اب زمانے کو انقلاب کہاں

اس کے در پر تو کسی کی بھی رسائی نہ ہوئی

لے کے صیاد قفس کو جو ادھر سے گزرا

ترشح ہاں کرے جس کی نہیں پر

مری سو جاں تصدق اس نہیں پر

کچھ ہو مجروح گھس چلو گھر میں

آج در اس کا ہے کھلا چوپٹ

سنا حال دل مجروحؔ شب کو

کوئی حسرت سی حسرت تھی بیاں میں

کیوں میری بود و باش کی پرسش ہے ہر گھڑی

تم تو کہو کہ رہتے ہو دو دو پہر کہاں

طالب دوست الگ رہتے ہیں سب سے ان کو

پاس اصنام نہیں خواہش اسلام نہیں

Recitation

بولیے