میر مہدی مجروح کے اشعار
چرا کے مٹھی میں دل کو چھپائے بیٹھے ہیں
بہانا یہ ہے کہ مہندی لگائے بیٹھے ہیں
کچھ عرض تمنا میں شکوہ نہ ستم کا تھا
میں نے تو کہا کیا تھا اور آپ نے کیا جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جان انساں کی لینے والوں میں
ایک ہے موت دوسرا ہے عشق
غیروں کو بھلا سمجھے اور مجھ کو برا جانا
سمجھے بھی تو کیا سمجھے جانا بھی تو کیا جانا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شغل الفت کو جو احباب برا کہتے ہیں
کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کیا کہتے ہیں
اتنا مردود ہوں کہ ڈر ہے مجھے
قبر سے پھینک دے زمیں نہ کہیں
یہ جو چپکے سے آئے بیٹھے ہیں
لاکھ فتنے اٹھائے بیٹھے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اپنی کشتی کا ہے خدا حافظ
پیچھے طوفاں ہے سامنے گرداب
کسی سے عشق اپنا کیا چھپائیں
محبت ٹپکی پڑتی ہے نظر سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں پاس مرے آ کر یوں بیٹھے ہو منہ پھیرے
کیا لب ترے مصری ہیں میں جن کو چبا جاتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ابر کی تیرگی میں ہم کو تو
سوجھتا کچھ نہیں سوائے شراب
-
موضوع : ابر شاعری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ میرے گھر کے سامنے سے جائیں اس طرح
اے ہم نشیں رقیب کا گھر تو ادھر نہیں
سہل ہو گرچہ عدو کو مگر اس کا ملنا
اتنا میں خوب سمجھتا ہوں کہ آساں تو نہیں
یہ کیا کہ ہمیں مرتے رہیں لطف تو جب ہے
تاثیر محبت جو ادھر ہو تو ادھر بھی
تمہیں گر خوش زباں ہونا ہے صاحب
تو لو منہ میں ذرا میری زباں کو
آ ہی کودا تھا دیر میں واعظ
ہم نے ٹالا خدا خدا کر کے
ہزاروں گھر ہوئے ہیں اس سے ویراں
رہے آباد سرکار محبت
نہ اس کے لب کو فقط لعل کہہ کے ختم کرو
ابھی تو اس میں بہت سی ہے گفتگو باقی
ہر ایک جانتا ہے کہ مجھ پر نظر پڑی
کیا شوخیاں ہیں اس نگہ سحر کار میں
جان دینے کے سوا اور بھی تدبیر کروں
ورنہ یہ بات تو ہم اس سے سدا کہتے ہیں
اب رقیب بوالہوس ہیں عشق باز
دل لگانے سے بھی نفرت ہو گئی
شوق سے شوق ہے کچھ منزل کا
راہبر سے بھی بڑھے جاتے ہیں
طوفان جہل نے مرا جوہر مٹا دیا
میں اک کتاب خوب ہوں پر آب دیدہ ہوں
نہ تو صیاد کا کھٹکا نہ خزاں کا دھڑکا
ہم کو وہ چین قفس میں ہے کہ بستاں میں نہیں
زاہد پیالہ تھام جھجھکتا ہے کس لیے
اس مفت کی شراب کے پینے سے ڈر نہیں
نئے فتنے جو اٹھتے ہیں جہاں میں
صلاحیں سب یہ لیتے ہیں تمہیں سے
مرے کس کام کا ہے بخت خفتہ
اسے رشوت میں دوں گا پاسباں کو
اس کے در پر تو کسی کی بھی رسائی نہ ہوئی
لے کے صیاد قفس کو جو ادھر سے گزرا
ترشح ہاں کرے جس کی نہیں پر
مری سو جاں تصدق اس نہیں پر
کچھ ہو مجروح گھس چلو گھر میں
آج در اس کا ہے کھلا چوپٹ
سنا حال دل مجروحؔ شب کو
کوئی حسرت سی حسرت تھی بیاں میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیوں میری بود و باش کی پرسش ہے ہر گھڑی
تم تو کہو کہ رہتے ہو دو دو پہر کہاں
طالب دوست الگ رہتے ہیں سب سے ان کو
پاس اصنام نہیں خواہش اسلام نہیں