Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Aanis Moin's Photo'

آنس معین

1960 - 1986 | ملتان, پاکستان

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

پاکستان کے ممتاز شاعر جنہوں نے محض ستائیس سال کی عمر میں خودکشی کر لی

آنس معین کے اشعار

18.3K
Favorite

باعتبار

ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا

دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے

خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ تھا

پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا ہے

اندر کی دنیا سے ربط بڑھاؤ آنسؔ

باہر کھلنے والی کھڑکی بند پڑی ہے

اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں

کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو

لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا

کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار

اے کاش کہ ہوتی مری گہرائی ذرا اور

تھا انتظار منائیں گے مل کے دیوالی

نہ تم ہی لوٹ کے آئے نہ وقت شام ہوا

ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج

اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے

آخر کو روح توڑ ہی دے گی حصار جسم

کب تک اسیر خوشبو رہے گی گلاب میں

یہ انتظار سحر کا تھا یا تمہارا تھا

دیا جلایا بھی میں نے دیا بجھایا بھی

عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے

مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے

گونجتا ہے بدن میں سناٹا

کوئی خالی مکان ہو جیسے

نہ جانے باہر بھی کتنے آسیب منتظر ہوں

ابھی میں اندر کے آدمی سے ڈرا ہوا ہوں

گہری سوچیں لمبے دن اور چھوٹی راتیں

وقت سے پہلے دھوپ سروں پہ آ پہنچی

یاد ہے آنسؔ پہلے تم خود بکھرے تھے

آئینے نے تم سے بکھرنا سیکھا تھا

میرے اپنے اندر ایک بھنور تھا جس میں

میرا سب کچھ ساتھ ہی میرے ڈوب گیا ہے

درکار تحفظ ہے پہ سانس بھی لینا ہے

دیوار بناؤ تو دیوار میں در رکھنا

گئے زمانے کی چاپ جن کو سمجھ رہے ہو

وہ آنے والے اداس لمحوں کی سسکیاں ہیں

ہزاروں قمقموں سے جگمگاتا ہے یہ گھر لیکن

جو من میں جھانک کے دیکھوں تو اب بھی روشنی کم ہے

اک کرب مسلسل کی سزا دیں تو کسے دیں

مقتل میں ہیں جینے کی دعا دیں تو کسے دیں

بکھر کے پھول فضاؤں میں باس چھوڑ گیا

تمام رنگ یہیں آس پاس چھوڑ گیا

آج ذرا سی دیر کو اپنے اندر جھانک کر دیکھا تھا

آج مرا اور اک وحشی کا ساتھ رہا پل دو پل کا

گیا تھا مانگنے خوشبو میں پھول سے لیکن

پھٹے لباس میں وہ بھی گدا لگا مجھ کو

نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی

بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا

میں اپنی ذات کی تنہائی میں مقید تھا

پھر اس چٹان میں اک پھول نے شگاف کیا

تمہارے نام کے نیچے کھنچی ہوئی ہے لکیر

کتاب زیست ہے سادہ اس اندراج کے بعد

اتارا دل کے ورق پر تو کتنا پچھتایا

وہ انتساب جو پہلے بس اک کتاب پہ تھا

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا

یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

بدن کی اندھی گلی تو جائے امان ٹھہری

میں اپنے اندر کی روشنی سے ڈرا ہوا ہوں

یہ اور بات کہ رنگ بہار کم ہوگا

نئی رتوں میں درختوں کا بار کم ہوگا

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے