مسکراہٹ پر اشعار

مسکراہٹ کو ہم انسانی

چہرے کی ایک عام سی حرکت سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ہمارے منتخب کردہ ان اشعار میں دیکھئے کہ چہرے کا یہ ذرا سا بناؤ کس قدر معنی خیزی لئے ہوئے ہے ۔ عشق وعاشقی کے بیانیے میں اس کی کتنی جہتیں ہیں اور کتنے رنگ ہیں ۔ معشوق مسکراتا ہے تو عاشق اس سے کن کن معنی تک پہنچتا ہے ۔ شاعری کا یہ انتخاب ایک حیرت کدے سے کم نہیں اس میں داخل ہویئے اور لطف لیجئے ۔

ہماری مسکراہٹ پر نہ جانا

دیا تو قبر پر بھی جل رہا ہے

آنس معین

اے غم زندگی نہ ہو ناراض

مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی

عبد الحمید عدم

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو

کیفی اعظمی

مسکراہٹ ہے حسن کا زیور

مسکرانا نہ بھول جایا کرو

عبد الحمید عدم

تم ہنسو تو دن نکلے چپ رہو تو راتیں ہیں

کس کا غم کہاں کا غم سب فضول باتیں ہیں

نامعلوم

دھوپ نکلی ہے بارشوں کے بعد

وہ ابھی رو کے مسکرائے ہیں

انجم لدھیانوی

دل میں طوفان ہو گیا برپا

تم نے جب مسکرا کے دیکھ لیا

نامعلوم

ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے

مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے

جگر مراد آبادی

اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے

مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو

عبدالعزیز فطرت

بجھ گئی شمع کی لو تیرے دوپٹے سے تو کیا

اپنی مسکان سے محفل کو منور کر دے

صدا انبالوی

مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے

اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا

انور شعور

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی

یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

اصغر گونڈوی

اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ

یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا

آنند نرائن ملا

میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے

گرچہ سینے میں داغ رکھتا ہوں

شبیر ناقد

مرے حبیب مری مسکراہٹوں پہ نہ جا

خدا گواہ مجھے آج بھی ترا غم ہے

احمد راہی

نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل

ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا

حفیظ جالندھری

مسکرانا کبھی نہ راس آیا

ہر ہنسی ایک واردات بنی

کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر

محفل میں لوگ چونک پڑے میرے نام پر

تم مسکرا دئے مری قیمت یہی تو ہے

سید ہاشم رضا

شامل نہیں ہیں جس میں تیری مسکراہٹیں

وہ زندگی کسی بھی جہنم سے کم نہیں

نامعلوم

جیسے پو پھٹ رہی ہو جنگل میں

یوں کوئی مسکرائے جاتا ہے

احمد مشتاق

وہاں سلام کو آتی ہے ننگے پاؤں بہار

کھلے تھے پھول جہاں تیرے مسکرانے سے

احمد مشتاق

مسکرانے کا یہی انداز تھا

جب کلی چٹکی تو وہ یاد آ گیا

نامعلوم

اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر

مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے

حسن نعیم

جینے مرنے کا ایک ہی سامان

اس کی مسکان ہو گئی ہوگی

حبیب کیفی

وہ مسکرا کے کوئی بات کر رہا تھا شمارؔ

اور اس کے لفظ بھی تھے چاندنی میں بکھرے ہوئے

اختر شمار

گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا

چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا

جوش ملیح آبادی

نذیرؔ لوگ تو چہرے بدلتے رہتے ہیں

تو اتنا سادہ نہ بن مسکراہٹیں پہچان

نذیر تبسم

مسکرانے کی کیا ضرورت ہے

آپ یوں بھی اداس لگتے ہیں

عقیل نعمانی

ہمارے گھر سے جانا مسکرا کر پھر یہ فرمانا

تمہیں میری قسم دیکھو مری رفتار کیسی ہے

حسن بریلوی

دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی

کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

فراق گورکھپوری

زندگی بس مسکرا کے رہ گئی

کیوں ہمیں ناحق رجھا کے رہ گئی

نامی نادری

Jashn-e-Rekhta | 2-3-4 December 2022 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate, New Delhi

GET YOUR FREE PASS
بولیے