مسکراہٹ پر اشعار
مسکراہٹ کو ہم انسانی
چہرے کی ایک عام سی حرکت سمجھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن ہمارے منتخب کردہ ان اشعار میں دیکھئے کہ چہرے کا یہ ذرا سا بناؤ کس قدر معنی خیزی لئے ہوئے ہے ۔ عشق وعاشقی کے بیانیے میں اس کی کتنی جہتیں ہیں اور کتنے رنگ ہیں ۔ معشوق مسکراتا ہے تو عاشق اس سے کن کن معنی تک پہنچتا ہے ۔ شاعری کا یہ انتخاب ایک حیرت کدے سے کم نہیں اس میں داخل ہویئے اور لطف لیجئے ۔
اے غم زندگی نہ ہو ناراض
مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی
-
موضوع : غم
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
-
موضوعات : غماور 1 مزید
مسکراہٹ ہے حسن کا زیور
مسکرانا نہ بھول جایا کرو
دھوپ نکلی ہے بارشوں کے بعد
وہ ابھی رو کے مسکرائے ہیں
ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے
مسکراہٹ بھی آہ ہوتی ہے
اور بھی کتنے طریقے ہیں بیان غم کے
مسکراتی ہوئی آنکھوں کو تو پر نم نہ کرو
بجھ گئی شمع کی لو تیرے دوپٹے سے تو کیا
اپنی مسکان سے محفل کو منور کر دے
مسکرا کر دیکھ لیتے ہو مجھے
اس طرح کیا حق ادا ہو جائے گا
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
اب اور اس کے سوا چاہتے ہو کیا ملاؔ
یہ کم ہے اس نے تمہیں مسکرا کے دیکھ لیا
میرے ہونٹوں پہ مسکراہٹ ہے
گرچہ سینے میں داغ رکھتا ہوں
نہیں عتاب زمانہ خطاب کے قابل
ترا جواب یہی ہے کہ مسکرائے جا
مسکرانا کبھی نہ راس آیا
ہر ہنسی ایک واردات بنی
محفل میں لوگ چونک پڑے میرے نام پر
تم مسکرا دئے مری قیمت یہی تو ہے
جیسے پو پھٹ رہی ہو جنگل میں
یوں کوئی مسکرائے جاتا ہے
وہاں سلام کو آتی ہے ننگے پاؤں بہار
کھلے تھے پھول جہاں تیرے مسکرانے سے
اتنا رویا ہوں غم دوست ذرا سا ہنس کر
مسکراتے ہوئے لمحات سے جی ڈرتا ہے
جینے مرنے کا ایک ہی سامان
اس کی مسکان ہو گئی ہوگی
وہ مسکرا کے کوئی بات کر رہا تھا شمارؔ
اور اس کے لفظ بھی تھے چاندنی میں بکھرے ہوئے
گزر رہا ہے ادھر سے تو مسکراتا جا
چراغ مجلس روحانیاں جلاتا جا
نذیرؔ لوگ تو چہرے بدلتے رہتے ہیں
تو اتنا سادہ نہ بن مسکراہٹیں پہچان
مسکرانے کی کیا ضرورت ہے
آپ یوں بھی اداس لگتے ہیں
-
موضوع : مایوسی
ہمارے گھر سے جانا مسکرا کر پھر یہ فرمانا
تمہیں میری قسم دیکھو مری رفتار کیسی ہے
دلوں کو تیرے تبسم کی یاد یوں آئی
کہ جگمگا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ
-
موضوعات : چراغاور 1 مزید
زندگی بس مسکرا کے رہ گئی
کیوں ہمیں ناحق رجھا کے رہ گئی
-
موضوع : زندگی