احمد شہریار کے اشعار
سالگرہ پر کتنی نیک تمنائیں موصول ہوئیں
لیکن ان میں ایک مبارک باد ابھی تک باقی ہے
فقیر شہر بھی رہا ہوں شہریارؔ بھی مگر
جو اطمینان فقر میں ہے تاج و تخت میں نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
راتوں کو جاگتے ہیں اسی واسطے کہ خواب
دیکھے گا بند آنکھیں تو پھر لوٹ جائے گا
نہ دستکیں نہ صدا کون در پہ آیا ہے
فقیر شہر ہے یا شہریار دیکھئے گا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خواب زیاں ہیں عمر کا خواب ہیں حاصل حیات
اس کا بھی تھا یقیں مجھے وہ بھی مرے گماں میں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہمارے شہر کی روایتوں میں ایک یہ بھی تھا
دعا سے قبل پوچھنا اثر میں کتنی دیر ہے
قطرہ ٹھیک ہے دریا ہونے میں نقصان بہت ہے
دیکھ تو کیسے ڈوب رہا ہے میرا لشکر مجھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ابھی ہمیں گزارنی ہے ایک عمر مختصر
مگر ہماری عمر مختصر میں کتنی دیر ہے
سمائی کس طرح میری آنکھوں کی پتلیوں میں
وہ ایک حیرت جو آئینے سے بہت بڑی تھی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھ سے بھی کب ہوئی تدبیر مری وحشت کی
تو بھی مٹھی میں کہاں بھینچ سکا پانی کو
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
علم کا دم بھرنا چھوڑو بھی اور عمل کو بھول بھی جاؤ
آئینہ خانے میں ہو صاحب فکر کرو حیرانی کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تو موجود ہے میں معدوم ہوں اس کا مطلب یہ ہے
تجھ میں جو ناپید ہے پیارے وہ ہے میسر مجھ میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جل اٹھیں یادوں کی قندیلیں صدائیں ڈوب جائیں
درحقیقت خامشی صحرا بھی ہے دریا بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لمس صدائے ساز نے زخم نہال کر دیے
یہ تو وہی ہنر ہے جو دست طبیب جاں میں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
حد گماں سے ایک شخص دور کہیں چلا گیا
میں بھی وہیں چلا گیا میں بھی گزشتگاں میں تھا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ