امان علی خان کے اشعار
خوش نصیبی ہے تمہاری سر پہ ہے جو ماں کا ہاتھ
ہم یتیموں کو پتہ ہے یہ دعا کیا چیز ہے
غموں کو بیچ رہا ہوں میں اس لئے شاید
کہا تھا باپ نے پیسہ بہت ضروری ہے
مجھے پتہ ہے اسی نے چلائی ہے گولی
نہیں ہے دشت میں صیاد دوسرا کوئی
اب آستین کے سانپوں سے دور رہنا ہے
اسے کہو نہ کرے فون بار بار مجھے
اک دن دل ناداں کو سمجھ آئے گا سب کچھ
عیار نہیں ہے مگر اندھا بھی نہیں ہے
میں نے دفنائے والدین اپنے
مجھ سے پوچھو کہ حوصلہ کیا ہے
دھوئیں نے بھینچ دی چیخیں تبھی پتہ یہ چلا
کہ گھر میں ایک دریچہ بہت ضروری ہے
شب غم کی یوں بھی میں کرتا ہوں عزت
یہ شب عمر میں مجھ سے کافی بڑی ہے
اس نے رکھا تھا ہاتھ ساحل پر
تب سے دریا میں بھی شرارے ہیں
سب یار سوچتے تھے رہے گا وہی سماں
اک میں ہی بس بچا ہوں کوئی سو پچاس میں
کچھ دیر تو ڈرے تری جادوگری سے ہم
پھر دیکھنے لگے تجھے سنجیدگی سے ہم
ساتھ جب چھوڑ گئے میرا تم اے کوزہ گر
خود کو مجبوری میں پھر خود ہی تراشا میں نے