انور جمال انور کے اشعار
سچ یہ ہے ہم ہی محبت کا سبق پڑھ نہ سکے
ورنہ ان پڑھ تو نہ تھے ہم کو پڑھانے والے
شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر پھرتے ہیں مایوسی میں
کاش کوئی انورؔ سے پوچھے ایسے بے گھر کتنے ہیں
تمہارے دل میں کوئی اور بھی ہے میرے سوا
گمان تو ہے ذرا سا مگر یقین نہیں
حسن ایسا کہ زمانے میں نہیں جس کی مثال
اور جمال ایسا کہ ڈھونڈا کرے ہر خواب و خیال
ہم فطرتاً انساں ہیں فرشتے تو نہیں ہیں
دعویٰ یہ کریں کیسے کہ لغزش نہیں کرتے
دامن پہ تو ہر ایک کے چھیٹیں ہیں خون کی
اب کس سے پوچھئے کہ گنہ گار کون ہے
کیسا مقام آیا محبت کی راہ میں
دل رو رہا ہے میرا مگر آنکھ تر نہیں
بہت آسان ہے مشترکہ دلوں میں تفریق
بات تو جب ہے کہ بچھڑوں کو ملایا جائے
روز اٹھ جاتی ہے گھر میں کوئی دیوار نئی
اس طرح تنگ ہوا جاتا ہے آنگن اپنا
ہم سے وفا شعار کو بھی تیرے رو بہ رو
کھانی پڑی وفا کی قسم تیرے شہر میں