اثر اکبرآبادی کے اشعار
الفت کا ہے مزہ کہ اثرؔ غم بھی ساتھ ہوں
تاریکیاں بھی ساتھ رہیں روشنی کے ساتھ
کتنا مشکل ہے خود بخود رونا
بے خودی سے رہا کرے کوئی
ہے عجب سی کشمکش دل میں اثرؔ
کس کو بھولیں کس کو رکھیں یاد ہم
زندگی تجھ سے یہ گلا ہے مجھے
کوئی اپنا نہیں ملا ہے مجھے
فکر جہان درد محبت فراق یار
کیا کہئے کتنے غم ہیں مری زندگی کے ساتھ
سایہ بھی ساتھ چھوڑ گیا اب تو اے اثرؔ
پھر کس لیے میں آج کو کل سے جدا کروں
الفت کے بدلے ان سے ملا درد لا علاج
اتنا بڑھے ہے درد میں جتنی دوا کروں
اداس ہو نہ تو اے دل کسی کے رونے سے
خوشی کے ساتھ غموں کو بکھرتے دیکھا ہے
راستہ روک لیا میرا کسی بچے نے
اس میں کوئی تو اثرؔ میری بھلائی ہوگی
جنوں کی خیر ہو تجھ کو اثرؔ ملا سب کچھ
یہ کیفیت بھی ضروری تھی آگہی کے لیے
جو لوگ ڈرتے ہیں راتوں کو اپنے سائے سے
انہیں کو دن کے اجالوں میں ڈرتے دیکھا ہے
ہم ہوئے دشت نورد پھر بھی نہ دیکھا تجھ کو
زندگی اتنا بتا دے تو کہاں ہوتی ہے