Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بشیر مہتاب کے اشعار

4.8K
Favorite

باعتبار

جسے منزل سمجھ کر رک گئے ہم

وہیں سے اپنا آغاز سفر تھا

حسیں یادیں وہ بچپن کی کہیں دل سے نہ کھو جائیں

میں اپنے آشیانے میں کھلونے اب بھی رکھتا ہوں

محبت بانٹنا سیکھو محبت ہے عطا رب کی

محبت بانٹنے والے طویل العمر ہوتے ہیں

یہ باتوں میں نرمی یہ تہذیب و آداب

سبھی کچھ ملا ہم کو اردو زباں سے

مجھ کو اخبار سی لگتی ہیں تمہاری باتیں

ہر نئے روز نیا فتنہ بیاں کرتی ہیں

شاید ہمارے ہجر میں لفظوں کا ہاتھ تھا

اک لفظ غیر نے تو پرایا ہی کر دیا

ان سے وابستہ ہے مرا بچپن

میں کھلونوں کی قدر کرتا ہوں

اک بے وفا کے پیار میں حد سے گزر گئے

کافر کے پیار نے ہمیں کافر بنا دیا

اس طرح منسلک ہوا اردو زبان سے

ملتا ہوں اب سبھی سے بڑی عاجزی کے ساتھ

دیوالی کی خوشی تھی پٹاخوں کا شور تھا

میں کر رہا تھا اس کی خموشی سے گفتگو

یوں محبت کو عمر بھر پڑھنا

زندگی امتحان ہو جیسے

آنکھ بھر کے میں نے اک بار اسے دیکھا تھا

شہر والے مری آنکھوں میں اسے دیکھتے ہیں

میں نے لگایا اپنے گناہوں کا جب حساب

مجھ کو پھر اپنے آپ سے نفرت سی ہو گئی

اس دور آخری کی جہالت تو دیکھیے

جس کی زباں دراز حکومت اسی کی ہے

تم مرے پاس جب نہیں ہوتے

دھڑکنیں احتجاج کرتی ہیں

زندگی فن نہیں مداری کا

پانیوں سے دئے نہیں جلتے

مہتابؔ حقیقت سے آگاہ کرو ان کو

جو لوگ نہیں سمجھے اردو کا مقام اب تک

دیتا رہا وہ گالیاں اور میں رہا خموش

پھر یوں ہوا کہ وہ مرے قدموں میں گر گیا

خاک ڈالی ہے میں نے جذبوں پر

کوئی زخم اب ہرا نہیں ہوتا

آٹھواں رنگ کیا دیا اس نے

اب کے خود رنگ ہو گیا ہوں میں

میں حصار ظلمت شب میں ہوں جو بھٹک رہا ہوں گلی گلی

مجھے تیرگی سے گلا نہیں مجھے روشنی کی تلاش ہے

اپنی کمر سے آپ ہی باندھے سفر تمام

پھر یوں ہوا کہ میں کبھی اپنا نہیں بنا

مجھے معلوم ہے تم گر چکے ہو

اب اپنی ہار کو منظور کر لو

شہر والے نظر آتے ہیں مہذب مجھ کو

یہاں ہر شخص ہے اک درد کا دیوان لئے

مہتابؔ عمر بھر بھی نہ ہوگا رفو کبھی

وہ پل جو نفرتوں نے ادھیڑا تھا ایک دن

Recitation

بولیے