عاجزی پر اشعار
عاجزی زندگی گزارنے کی
ایک صفت ہے جس میں آدمی اپنی ذات میں خود پسندی کا شکار نہیں ہوتا۔ شاعری میں عاجزی اپنی بیشتر شکلوں میں عاشق کی عاجزی ہے جس کا اظہار معشوق کے سامنے ہوتا ہے ۔ معشوق کے سامنے عاشق اپنی ذات کو مکمل طور پر فنا کردیتا اور یہی عاشق کے کردار کی بڑائی ہے ۔
برائے اہل جہاں لاکھ کج کلاہ تھے ہم
گئے حریم سخن میں تو عاجزی سے گئے
بندشوں کو توڑنے کی کوششیں کرتی ہوئی
سر پٹکتی لہر تیری عاجزی اچھی لگی
کوئی خود سے مجھے کمتر سمجھ لے
یہ مطلب بھی نہیں ہے عاجزی کا
یہ نقش خوش نما دراصل نقش عاجزی ہے
کہ اصل حسن تو اندیشۂ بہزاد میں ہے
اشک اگر سب نے لکھے میں نے ستارے لکھے
عاجزی سب نے لکھی میں نے عبادت لکھا
پیڑ ہو یا کہ آدمی غائرؔ
سر بلند اپنی عاجزی سے ہوا
اس عاجزی سے کیا اس نے میرے سر کا سوال
خود اپنے ہاتھ سے تلوار توڑ دی میں نے
اب دیکھنا ہے مجھ کو ترے آستاں کا ظرف
سر کو جھکا رہا ہوں بڑی عاجزی کے ساتھ
عاجزی کہنے لگی گر ہو بلندی کی طلب
دل جھکا دائرۂ نعرۂ تکبیر میں آ
غرور بھی جو کروں میں تو عاجزی ہو جائے
خودی میں لطف وہ آئے کہ بے خودی ہو جائے
مرتبہ آج بھی زمانے میں
پیار سے عاجزی سے ملتا ہے
عجز کے ساتھ چلے آئے ہیں ہم یزدانیؔ
کوئی اور ان کو منا لینے کا ڈھب یاد نہیں
عاجزی آج ہے ممکن ہے نہ ہو کل مجھ میں
اس طرح عیب نکالو نہ مسلسل مجھ میں
چلاؤں گا تیشہ میں اب عاجزی کا
انا اس کی مسمار ہو کر رہے گی
خدایا عاجزی سے میں نے مانگا کیا ملا کیا
اثر میری دعاؤں کا یہ الٹا کیوں ہوا ہے
عاجزی بخشی گئی تمکنت فقر کے ساتھ
دینے والے نے ہمیں کون سی دولت نہیں دی
زندہ رکھیں بزرگوں کی ہم نے روایتیں
دشمن سے بھی ملے تو ملے عاجزی سے ہم
منت و عاجزی و زاری و آہ
تیرے آگے ہزار کر دیکھا
کبھی تھی وہ غصہ کی چتون قیامت
کبھی عاجزی سے منانا کسی کا
اس طرح منسلک ہوا اردو زبان سے
ملتا ہوں اب سبھی سے بڑی عاجزی کے ساتھ
کشادہ دست کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
مجھ کو سادات کی نسبت کے سبب میرے خدا
عاجزی دینا تکبر کی ادا مت دینا
رگڑی ہیں ایڑیاں تو ہوئی ہے یہ مستجاب
کس عاجزی سے کی ہے دعا کچھ نہ پوچھئے
او آنکھ بدل کے جانے والے
کچھ دھیان کسی کی عاجزی کا
وہ منائے گا جس سے روٹھے ہو
ہم کو منت سے عاجزی سے غرض