حنیف نجمی کے اشعار
وہ اک جگہ نہ کہیں رہ سکا اور اس کے ساتھ
کرایہ دار تھے ہم بھی مکاں بدلتے رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اگر جہاں میں کوئی آئنا نہیں تیرا
تو پھر تجھی کو ترے رو بہ رو کروں گا میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
وہ خفا ہیں تو رہیں ہم کو منانا بھی نہیں
ان کو آنا بھی نہیں ہم کو بلانا بھی نہیں
ہر شے کو زمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہے
کب آتا ہے دھرتی پہ گگن دیکھتے رہنا
کھل اٹھا میرے دل کا چمن بھی پس وصال
خطے ترے بدن کے بھی شاداب ہو گئے
ہے دھوپ بھی اس کے لیے تھوڑی سی ضروری
یہ نخل گھنی چھاؤں میں مرجھانے لگا ہے
کافور ہوئی جب سے مرے دل کی سیاہی
ہر چہرہ مجھے صاف نظر آنے لگا ہے
گلشن میں یہ بہار رکی ہی رہے گی کیا
یہ چاندنی بدن کی کھلی ہی رہے گی کیا
سفر ہو ختم تو شاید یہ فاصلہ مٹ جائے
ابھی تو میں ہوں زمیں پر وہ آسمان پہ ہے
کمی کچھ اپنے ہی ذوق طلب میں ہے ورنہ
دعا کا حرف کبھی بے اثر نہیں جاتا
جب پہلی بار گاؤں سے وہ شہر کو گیا
حیرت سے اونچے اونچے بھون دیکھتا رہا
عشق میں جل جل کے کندن بن گیا ہوں سربسر
اب بھی کیا میرا خدا دوزخ میں ڈالے گا مجھے
ملی نہ ہم کو شہادت تو کیا یہ کیا کم ہے
کہ ساری عمر رہ کربلا پہ چلتے رہے
بزم میں آتے ہی اس کے بجھ گئیں آنکھیں تمام
سب کے سب دیدار کی حسرت لیے بیٹھے رہے