اقبال کیفی کے اشعار
گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا
کسی کا ظرف کتنا تنگ نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
امن کیفیؔ ہو نہیں سکتا کبھی
جب تلک ظلم و ستم موجود ہے
-
موضوع : امن
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دیکھا ہے محبت کو عبادت کی نظر سے
نفرت کے عوامل ہمیں معیوب رہے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خزاں کا دور بھی آتا ہے ایک دن کیفیؔ
سدا بہار کہاں تک درخت رہتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
محبتوں کو بھی اس نے خطا قرار دیا
مگر یہ جرم ہمیں بار بار کرنا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
پھولوں کا تبسم بھی وہ پہلا سا نہیں ہے
گلشن میں بھی چلتی ہے ہوا اور طرح کی
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہی نہیں کہ نگاہوں کو اشک بار کیا
ترے فراق میں دامن بھی تار تار کیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اٹے ہوئے ہیں فقیروں کے پیرہن کیفیؔ
جہاں نے بھیک میں مٹی بکھیر کر دی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میں ایسے حسن ظن کو خدا مانتا نہیں
آہوں کے احتجاج سے جو ماورا رہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
غزل کے رنگ میں ملبوس ہو کر
رباب درد سے آہنگ نکلا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
افسوس معبدوں میں خدا بیچتے ہیں لوگ
اب معنیٔ سزا و جزا کچھ نہیں رہا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ