کیفی حیدرآبادی کے اشعار
صبح کو کھل جائے گا دونوں میں کیا یارانہ ہے
شمع پروانہ کی ہے یا شمع کا پروانہ ہے
وہ اب کیا خاک آئے ہائے قسمت میں ترسنا تھا
تجھے اے ابر رحمت آج ہی اتنا برسنا تھا
ہم آپ کو دیکھتے تھے پہلے
اب آپ کی راہ دیکھتے ہیں
محبت میں کیا کیا نہ کچھ جور ہوگا
ابھی کیا ہوا ہے ابھی اور ہوگا
وہی نظر میں ہے لیکن نظر نہیں آتا
سمجھ رہا ہوں سمجھ میں مگر نہیں آتا
اپنا خط آپ دیا ان کو مگر یہ کہہ کر
خط تو پہچانئے یہ خط مجھے گمنام ملا
رقیب دونوں جہاں میں ذلیل کیوں ہوتا
کسی کے بیچ میں کمبخت اگر نہیں آتا
اور بھی تو ہیں زمانے میں تمہارے عاشق
ایک میں ہی تمہیں کیا قابل الزام ملا
خم سبو ساغر صراحی جام پیمانہ مرا
میرے ساقی جب مرا تو ہے تو مے خانہ مرا
دل لینے کے انداز بھی کچھ سیکھ گیا ہوں
صحبت میں حسینوں کی بہت روز رہا ہوں
ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے
دنیا میں کیا کسی سے محبت مجھی کو ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مزا ہے ترے بسملوں کو تڑپ میں
تڑپ میں نہیں بسملوں میں مزا ہے