کلب حسین نادر کے اشعار
لوگ کہتے ہیں کہ فن شاعری منحوس ہے
شعر کہتے کہتے میں ڈپٹی کلکٹر ہو گیا
پورا کریں گے ہولی میں کیا وعدۂ وصال
جن کو ابھی بسنت کی اے دل خبر نہیں
نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں
تری تعریف ہو اے صاحب اوصاف کیا ممکن
زبانوں سے دہانوں سے تکلم سے بیانوں سے
چلتی تو ہے پر شوخئ رفتار کہاں ہے
تلوار میں پازیب کی جھنکار کہاں ہے
ہو گئے رام جو تم غیر سے اے جان جہاں
جل رہی ہے دل پر نور کی لنکا دیکھو
ہیں دین کے پابند نہ دنیا کے مقید
کیا عشق نے اس بھول بھلیاں سے نکالا
دریائے شراب اس نے بہایا ہے ہمیشہ
ساقی سے جو کشتی کے طلب گار ہوئے ہیں
پھر نہ باقی رہے غبار کبھی
ہولی کھیلو جو خاکساروں میں
ناؤ کاغذ کی تن خاکیٔ انساں سمجھو
غرق ہو جائیں گی چھینٹا جو پڑا پانی کا
اک بات پر قرار انہیں رات بھر نہیں
دو دو پہر جو ہاں ہے تو دو دو پہر نہیں
سبز کپڑوں میں سیہ زلف کی زیبائی ہے
دھان کے کھیت میں کیا کالی گھٹا چھائی ہے
وہ اور مرض ہیں کہ شفا ہوتی ہے جن سے
اچھے کہیں ان آنکھوں کے بیمار ہوئے ہیں
اگر ان کو پوجا تو کیا کفر ہوگا
کہ بت بھی خدا کے بنائے ہوئے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ان کو عشاق ہی کے دل کی نہیں ہے تخصیص
کوئی شیشہ ہو پری بن کے اتر جاتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اس قدر محو نہ ہوں آپ خود آرائی میں
داغ لگ جائے نہ آئینۂ یکتائی میں
تو جو تلوار سے نہلائے لہو میں مجھ کو
غسل صحت ہوا بھی عشق کی بیماری سے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
چالیس جام پی کے دیا ایک جام مے
ساقی نے خوب راہ نکالی زکوٰۃ کی