Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

محفوظ الرحمان عادل

محفوظ الرحمان عادل کے اشعار

3.7K
Favorite

باعتبار

وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو

حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں

سامنے ماں کے جو ہوتا ہوں تو اللہ اللہ

مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بچہ ہوں ابھی

مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر

کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا

دیکھ لینا ایک دن بے روزگاری کا عذاب

چھین کر چہروں کی ساری دل کشی لے جائے گا

میرا ظاہر دیکھنے والے مرا باطن بھی دیکھ

گھر کے باہر ہے اجالا گھر کے اندر کچھ نہیں

آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں

یا ستارے رقصاں ہیں رات کے اندھیرے میں

زندگی کو حوصلہ دینے کے خاطر

خواہشوں کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں

تمہاری مست آنکھوں کا تصور

مری توبہ سے ٹکرانے لگا ہے

وہ لالہ بدن جھیل میں اترا نہیں ورنہ

شعلے متواتر اسی پانی سے نکلتے

ہوا کے رحم و کرم پر ہوں بے ٹھکانہ ہوں

شجر سے ٹوٹا ہوا ایک زرد پتا ہوں

جو تیری زلف کے سائے میں چند دن گزرے

وہ غم کی دھوپ میں یاد آئے سائباں کی طرح

کیوں زمانہ ہی بدلتا ہے تجھے

تو زمانے کو بدلتا کیوں نہیں

تری عقل گم تجھے کر نہ دے رہ زندگی میں سنبھل کے چل

تو گماں کی حد نہ تلاش کر کہ کہیں بھی حد گماں نہیں

ہمیشہ دھوپ کی چادر پہ تکیہ کون کرتا ہے

کھلی چھت ہے تو پھر برسات کا بھی سامنا ہوگا

وہ مری آوارہ گردی وہ مرا دیوانہ پن

وہ مری تعظیم میں دیوار و در کا جاگنا

شبنمی قطرے گل لالہ پہ تھے رقص کناں

برف کے ٹکڑے بھی دیکھے گئے انگاروں میں

ان سفینوں کی تباہی میں ہے عبرت کا سبق

جو کنارے تک پہنچ کر نذر طوفاں ہو گئے

مجھ کو شوق جستجوئے کائنات

خاک سے عادلؔ خلا تک لے گیا

اب سر عام جدا ہوتے ہیں سر شانوں سے

اب یہ منظر ہے تعجب کا نہ حیرانی کا

اب تک اسی معمے میں الجھا ہوا ہوں میں

لائی ہے زندگی مجھے کیوں اس جہان تک

ایک دن وہ ذروں کو آفتاب کر لیں گے

دھوپ کے جو خواہاں ہیں رات کے اندھیرے میں

اسی نے بخشا ہے مجھ کو شعور جینے کا

جو مشکلوں کی گھڑی بار بار آئی ہے

جنتیں تو پیشواؤں نے ہی مل کر بانٹ لیں

ہم کو الجھایا گیا ہے دوزخوں کے درمیاں

بے لباسی مری توقیر کا باعث ٹھہری

بول بالا ہے بہت شہر میں عریانی کا

شاخ سے گر کر ہوا کے ساتھ ساتھ

کس طرف یہ زرد پتا جائے گا

بھولی بسری داستاں مجھ کو نہ سمجھو

میں نئی پہچان کا اک واسطہ ہوں

آفتاب گرم سے دست و گریباں ہو گئے

دھوپ کی شدت سے سائے جب پریشاں ہو گئے

خود مرے آنسو چمک رکھتے ہیں گوہر کی طرح

میری چشم آرزو میں ماہ و اختر کچھ نہیں

اب اسے اپنی شباہت بھی گزرتی ہے گراں

گھر کے اندر کوئی شیشہ نہیں رہنے دیتا

یہ بھی ہے مارا ہوا ساقی کی چشم ناز کا

اس لئے عادلؔ کو شیشے کی پری اچھی لگی

پرت پرت ترا چہرہ سجا رہا ہوں میں

یہ اتفاق کہ ہیں گھر میں آئنے ٹوٹے

میرے تلووں کے لہو سے ہوگی روشن ہر جہت

رہروان راہ منزل ہوں گے ششدر دیکھنا

قیدی بنا کے رکھا ہے اس نے تمام عمر

مجھ کو حصار جاں سے نکلنے نہیں دیا

تمہارے بخشے ہوئے آنسوؤں کے قطروں سے

شب فراق میں تارے سجا رہا ہوں میں

بات تو جب ہے فصل جنوں میں دیوانے تو دیوانے

اہل خرد بھی رقص کریں زنجیروں کی جھنکاروں پر

وہ جگا کر ہم کو سب خوش منظری لے جائے گا

خواب کیا ہے خواب کی تعبیر بھی لے جائے گا

Recitation

بولیے