محفوظ الرحمان عادل کے اشعار
وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو
حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں
سامنے ماں کے جو ہوتا ہوں تو اللہ اللہ
مجھ کو محسوس یہ ہوتا ہے کہ بچہ ہوں ابھی
مت بیٹھ آشیاں میں پروں کو سمیٹ کر
کر حوصلہ کشادہ فضا میں اڑان کا
میرا ظاہر دیکھنے والے مرا باطن بھی دیکھ
گھر کے باہر ہے اجالا گھر کے اندر کچھ نہیں
آپ نور افشاں ہیں رات کے اندھیرے میں
یا ستارے رقصاں ہیں رات کے اندھیرے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہاری مست آنکھوں کا تصور
مری توبہ سے ٹکرانے لگا ہے
زندگی کو حوصلہ دینے کے خاطر
خواہشوں کو ریزہ ریزہ چن رہا ہوں
دیکھ لینا ایک دن بے روزگاری کا عذاب
چھین کر چہروں کی ساری دل کشی لے جائے گا
وہ لالہ بدن جھیل میں اترا نہیں ورنہ
شعلے متواتر اسی پانی سے نکلتے
جو تیری زلف کے سائے میں چند دن گزرے
وہ غم کی دھوپ میں یاد آئے سائباں کی طرح
کیوں زمانہ ہی بدلتا ہے تجھے
تو زمانے کو بدلتا کیوں نہیں
ہمیشہ دھوپ کی چادر پہ تکیہ کون کرتا ہے
کھلی چھت ہے تو پھر برسات کا بھی سامنا ہوگا
اب سر عام جدا ہوتے ہیں سر شانوں سے
اب یہ منظر ہے تعجب کا نہ حیرانی کا
تری عقل گم تجھے کر نہ دے رہ زندگی میں سنبھل کے چل
تو گماں کی حد نہ تلاش کر کہ کہیں بھی حد گماں نہیں
مجھ کو شوق جستجوئے کائنات
خاک سے عادلؔ خلا تک لے گیا
ان سفینوں کی تباہی میں ہے عبرت کا سبق
جو کنارے تک پہنچ کر نذر طوفاں ہو گئے
ایک دن وہ ذروں کو آفتاب کر لیں گے
دھوپ کے جو خواہاں ہیں رات کے اندھیرے میں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
جنتیں تو پیشواؤں نے ہی مل کر بانٹ لیں
ہم کو الجھایا گیا ہے دوزخوں کے درمیاں
اب تک اسی معمے میں الجھا ہوا ہوں میں
لائی ہے زندگی مجھے کیوں اس جہان تک
اسی نے بخشا ہے مجھ کو شعور جینے کا
جو مشکلوں کی گھڑی بار بار آئی ہے
شاخ سے گر کر ہوا کے ساتھ ساتھ
کس طرف یہ زرد پتا جائے گا
خود مرے آنسو چمک رکھتے ہیں گوہر کی طرح
میری چشم آرزو میں ماہ و اختر کچھ نہیں
آفتاب گرم سے دست و گریباں ہو گئے
دھوپ کی شدت سے سائے جب پریشاں ہو گئے
بے لباسی مری توقیر کا باعث ٹھہری
بول بالا ہے بہت شہر میں عریانی کا
ہوا کے رحم و کرم پر ہوں بے ٹھکانہ ہوں
شجر سے ٹوٹا ہوا ایک زرد پتا ہوں
شبنمی قطرے گل لالہ پہ تھے رقص کناں
برف کے ٹکڑے بھی دیکھے گئے انگاروں میں
وہ مری آوارہ گردی وہ مرا دیوانہ پن
وہ مری تعظیم میں دیوار و در کا جاگنا
اب اسے اپنی شباہت بھی گزرتی ہے گراں
گھر کے اندر کوئی شیشہ نہیں رہنے دیتا
بھولی بسری داستاں مجھ کو نہ سمجھو
میں نئی پہچان کا اک واسطہ ہوں
قیدی بنا کے رکھا ہے اس نے تمام عمر
مجھ کو حصار جاں سے نکلنے نہیں دیا
بات تو جب ہے فصل جنوں میں دیوانے تو دیوانے
اہل خرد بھی رقص کریں زنجیروں کی جھنکاروں پر
یہ بھی ہے مارا ہوا ساقی کی چشم ناز کا
اس لئے عادلؔ کو شیشے کی پری اچھی لگی
تمہارے بخشے ہوئے آنسوؤں کے قطروں سے
شب فراق میں تارے سجا رہا ہوں میں
پرت پرت ترا چہرہ سجا رہا ہوں میں
یہ اتفاق کہ ہیں گھر میں آئنے ٹوٹے
وہ جگا کر ہم کو سب خوش منظری لے جائے گا
خواب کیا ہے خواب کی تعبیر بھی لے جائے گا
میرے تلووں کے لہو سے ہوگی روشن ہر جہت
رہروان راہ منزل ہوں گے ششدر دیکھنا