Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
noImage

مرزا آسمان جاہ انجم

لکھنؤ, انڈیا

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے بیٹے اور ولی عہد

اودھ کے آخری نواب واجد علی شاہ کے بیٹے اور ولی عہد

مرزا آسمان جاہ انجم کے اشعار

1.2K
Favorite

باعتبار

محبت اس لیے ظاہر نہیں کی

کہ تم کو اعتبار آئے نہ آئے

نہیں ہے دیر یہاں اپنی جان جانے میں

تمہارے آنے کا بس انتظار باقی ہے

کچھ نہیں معلوم ہوتا دل کی الجھن کا سبب

کس کو دیکھا تھا الٰہی بال سلجھاتے ہوئے

باعث ترک ملاقات بتاو تو سہی

چاہنے والا کوئی ہم سا دکھاؤ تو سہی

میں نے مانا کہ دل نہیں ناکام

پھر مرے کام کیوں نہیں آتا

نہ تسلی نہ تشفی نہ دلاسا نہ وفا

عمر کو کاٹیں ترے چاہنے والے کیوں کر

ہم لب گور ہو گئے ظالم

تو لب بام کیوں نہیں آتا

شب ہجر جب خواب دیکھا یہ دیکھا

کہ تجھ کو گلے سے لگائے ہوئے ہیں

انہیں حال دل کس طرح لکھ کے بھیجیں

نہ ہم ان سے واقف نہ وہ ہم سے واقف

نہ پوچھا اس مسیحا سے کسی نے

ترے بیمار کی بھی کچھ دوا ہے

ہاتھ ٹوٹیں جو چھوا بھی ہو ہاتھ

دکھ گئی ان کی کلائی کیوں کر

جب میں کہتا ہوں کہ نادم ہو کچھ اپنے ظلم پر

سر جھکا کر کہتے ہیں شرم و حیا سے کیا کہیں

خزاں رخصت ہوئی پھر آمد فصل بہاری ہے

گریباں خود بخود ہونے لگا ہے دھجیاں میرا

ہم اپنی روح کو قاصد بنا کے بھیجیں گے

ترا گزر جو وہاں نامہ بر نہیں نہ سہی

ان کے آنے میں کیوں خلل ڈالا

ستیاناس ہو ترا بدلی

ابھی آئے ابھی کہنے لگے لو جاتے ہیں

آگ لینے کو جو آئے تھے تو آنا کیا تھا

یہ ہے آوارہ طبیعت اور وہ نازک مزاج

میں دل وارفتہ نذر یار کر سکتا نہیں

خود بہ خود یک بہ یک چلے آئے

میں تو آنکھیں تلک بچھا نہ سکا

یہ بھی نہ پوچھا تم نے انجمؔ جیتا ہے یا مرتا ہے

واہ جی وا عاشق سے کوئی ایسی غفلت کرتا ہے

خدا کا گھر بھی ہے دل میں بتوں کی چاہ بھی ہے

صنم کدہ بھی ہے دل اپنا خانقاہ بھی ہے

جا لگے گی کشتئ دل ساحل امید پر

دیدۂ تر سے اگر دریا رواں ہو جائے گا

تیری مرضی گر اسی میں ہے کہ ہو دیدار عام

ہم نے آنکھوں پر قدم سارے زمانے کے لیے

کچھ کہانی نہیں مرا قصہ

تم سنو اور کہا کرے کوئی

مثال چرخ رہا آسماں سر گرداں

پر آج تک نہ کھلا یہ کہ جستجو کیا ہے

دکھاتا ہے مرا دل بے الف رے

ہوا ہوں رنج سے میں ز الف رے

ہم بھی اب اپنی محبت سے اٹھاتے ہیں ہاتھ

چاہنے والا اگر ہم کو دکھا اور کوئی

یہ بتلاؤ ہم کو بھی پہچانتے ہو

ہمیں کیا جو ہو سارے عالم سے واقف

شب فرقت ہے ٹھہرتے نہیں شعلے دل میں

تارہ ٹوٹا کہ مری آنکھ سے آنسو ٹوٹا

تھک گئے ہم تو فسوں سازیاں کرتے کرتے

اس پہ چلتا نہیں مطلق کوئی گنڈا تعویذ

تری تیغ کی آب جاتی رہی ہے

مرے زخم پانی چرائے ہوئے ہیں

نقش ہوتی جاتی ہیں لاکھوں بتوں کی صورتیں

کیا یہ دل بھی خطۂ ہندوستاں ہو جائے گا

بتا تو دل کے بچانے کی کوئی راہ بھی ہے

تری نگاہ کی ناوک فگن پناہ بھی ہے

صدا چمن سے جو آتی ہے روز چٹ چٹ کی

بلائیں غنچے تری صبح و شام لیتے ہیں

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے